شریف احمد شریف خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ دوسری جماعت بھی مکمل نہ کر سکے، لیکن فطری صلاحیتوں اور ذہانت کی بنا پر انہوں نے مکتب کے باہر ہی سب اکتساب کر لیا اور بہت جلد علاقۂ ودربھ کے سرخیل شعرا میں شمار کئے جانے لگے۔
شریف احمد شریف نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے وسیع مطالعے اور عمیق نظر کا پر تو ان کی شاعری سے عیاں ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے س۔ یونس یوں رقم طراز ہیں: ’’غزل کے اشعار کو شریف احمد شریف نے اظہار ذات کا اصل وسیلہ بنایا ہے۔ ان کے اشعار ان کے مخصوص مزاج، شخصیت، کردار اور نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں قافیہ ردیف کی ندرت، خیال کی جدت، سوچ کی گہرائی اور رواں دواں بحروں کا انتخاب پایا جاتا ہے۔ وہ سادہ بیان اور تہہ دار معنویت کو لسانی تلازموں کے ذریعہ اشعار کی بیجا زیبائش پر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
موصوف کاایک شعری مجموعہ ’’کارجہاں بینی‘‘ (1998ء) میں زیر طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں بچوں کے لئے نظموں کا اک مجموعہ ’’نیل گگن میں تارے‘‘ (2010ء) میں دیوناگری میں شائع ہوا۔ نیز بچوں کے لئے کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’مٹھی بھر کہانیاں‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی نے شائع کیا۔