تمام
تعارف
ای-کتاب157
مضمون1
طنز و مزاح17
خاکہ1
شعر3
غزل14
نظم2
قصہ7
ویڈیو 1
گیلری 1
مزاحیہ شاعری1
نعت1
شوکت تھانوی کے طنز و مزاح
کرکٹ میچ
بعض دوستوں نے سیالکوٹ چلنے کو کہا تو ہم فوراً تیار ہوگئے مگر جب یہ معلوم ہوا کہ اس سفر کا مقصد کرکٹ میچ ہے تو یکایک سانپ سونگھ گیا۔ سفر کا تمام ولولہ ایک بیتی ہوئی یاد کی نظر ہوکر رہ گیا۔ اب لاکھ لاکھ سب پوچھتے ہیں کہ چکر آگیا ہے۔ فالج گرا ہے۔ قلب
سسرالی رشتہ دار
مصیبت یہ ہے کہ ریڈیو سیٹ سسرال میں بھی ہے اور وہاں کی ہر دیوار گوش دارد، مگر بزرگوں کا یہ مقولہ اس وقت رہ رہ کر اکسا رہا ہے کہ بیٹا پھانسی کے تختہ پر بھی سچ بولنا، خواہ وہ پھانسی زندگی بھر کی کیوں نہ ہو، موضوع جس قدر نازک ہے اسی قدر اخلاقی جرأت چاہتا
سودیشی ریل
دن بھر کے تھکے ماندے بھی تھے اور رات کو سفر بھی درپیش تھا مگر ’’بندے ماترم‘‘ کے نعروں پر کان کھڑے کرلینا ہماری ہمیشہ کی عادت ہے اور ان نعروں کو بھی ضد ہے کہ ہمارا چاہے جو حال بھی ہو بیمار ہوں، کسی ضروری کام سے باہر جارہے ہوں یا اور کوئی مجبوری ہو مگر
وکیل
ہندوستان میں جیسی اچھی پیداوار وکیلوں کی ہو رہی ہے اگر اتنا ہی غلہ پیدا ہوتا تو کوئی بھی فاقے نہ کرتا۔ مگر مصیبت تو یہ ہے کہ غلہ پیدا ہوتا ہے کم اور وکیلوں کی فصل ہوتی ہے اچھی۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہی سب غلہ کھا جاتے ہیں اور باقی سب کے لیے فاقے چھوڑ
میں ایک شاعر ہوں
صاحب میں ایک شاعر ہوں چھپا ہوا دیوان تو خیر کوئی نہیں ہے۔ مگر کلام خدا کے فضل سے اتنا موجود ہے کہ اگر میں مرتب کرنے بیٹھوں تو ایک چھوڑ چار پانچ دیوان مرتب کر ہی سکتا ہوں۔ اپنی شاعری کے متعلق اب میں خود کیا عرص کروں البتہ مشاعروں میں جانے والے حضرات اگر
شادی حماقت ہے
شادی کے بعد سے اس بات پر غور کرنے کی کچھ عادت سی ہوگئی ہے کہ شادی کرنا کوئی دانشمدانہ فعل ہے یا حماقت! یعنی اگر یہ دانشمندی ہے تو پھر بعض اوقات اپنے بے وقوف ہونے کا بے ساختہ احساس کیوں ہونے لگتا ہے اور اگر یہ حماقت ہے تو اس حماقت میں دنیا کیوں مبتلا
سسرال
گیدڑ کی جب موت آتی ہے وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ شہری کی جب شامت آتی ہے تو وہ دیہات میں شادی کر لیتا ہے۔ یہ شامت ہمارے بھاگ میں بھی تھی۔ خیر یوں تو ہم بھی کون سے کلکتہ، بمبئی کے رہنے والے ہیں۔ مگر پھر بھی شہر میں رہے سہے۔ شہر میں پڑھے، لیجیے ہوگئے شہری
اتوار
وہ مبارک ومسعود دن جس کی قدر شاہ داند یا بداندجوہری ’’یعنی یا تو عیسائی سمجھ سکتے ہیں یا ہمارے ایسے ملازمت پیشہ ان لوگوں کا یہاں ذکر ہی نہیں جو گھر بیٹھے شنبہ دوشنبہ‘‘ سب کو ایک ہی لاٹھی ہانکا کرتے ہیں اور ان کو خبربھی نہیں ہوتی کہ ہفتہ کے بعد کون
شوہر کی جنت
بات یہ ہے کہ ہم نے بیگم کو ہمیشہ اسی بات کا یقین دلایا ہے کہ ہم کو کسی اور جنت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہماری جنت تو صرف آپ کی ذات ہے۔ مگر واقعات اس کے سراسر خلاف ہیں جب کہ ہم کو تو مستقل طور پر یہ فکر ہےکہ اگر جنت میں ہمارا ساتھ ان ہی نیک بخت کا رہا
اے دلربا تیرے لیے
شاعر چلغوزے کھا رہا تھا۔۔۔ سامنے کی چھت پر اس کی محبوبہ گنّا چوس رہی تھی۔۔۔ اور دونوں کے درمیان ایک گہری اور تنگ گلی حائل تھی۔ وہ سنگ دل گلی جس کی گہرائیاں صرف روپے سے پاٹی جاسکتی تھیں۔ شاعر کے افکارِ عالیہ اس خلیج کو پر نہیں کرسکتے تھے اس
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بعض لوگوں کو خواہ مخواہ بھی پتھر لڑھکانے کی عادت ہوتی ہے اور عام گفتگو میں بھی وہ لٹریچر بگھارنے کے شوق میں کتابی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اتنے بڑے بڑے الفاظ بولتے ہیں کہ سننے والا دل ہی دل میں ہجے اور معنی یاد کرتا رہ جاتاہے مثلاً اسی قسم کے
آزادی کا شوق
میں آپ سے عرض کروں کہ مجھ کو آزادی کا پہلے پہل کب شوق ہوا ہے؟ یہ ایک تفصیل طلب واقعہ ہے۔ اور میرا جی چاہتا ہے کہ یہ تفصیل پیش کر ہی دوں۔ خواہ آپ زندگی سےیا کم از کم مجھ سے بیزار ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ مگر ہو جانے دیجیے میرا یہ شوق پورا۔ بات اصل
پہلے عورت اس کے بعد مرد
یہ جو مہذب دنیا کے مردوں نے’’لیڈیز فرسٹ‘‘ والی تہذیب رائج کی ہے اس میں خواتین کی عزت افزائی خواتین کو بے وقوف بنانا ہی مقصود نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی مصلحتیں ہیں۔ مثلاً یہی کہ ہر جگہ عورتوں کو پہلے بھیجا جائے تاکہ اگر کوئی مصیبت راہ میں حائل ہو تو پہلے
مشاعر
شاعر سنا تھا۔ متشاعر بھی سنا تھا۔ ایک سرکار ی قسم کے مشاعرے میں، ’’مشاعر‘‘ بھی سن لیا۔ بانیٔ مشاعرہ شعرائے کرام کا شکر یہ ادا فرما رہے تھے۔ میں مشاعر صاحبان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ مشاعر حضرات نے بڑی تکلیف فرمائی ہے، اس مشاعرے میں چوٹی کے
جنس ہنر بیچتا ہوں
عین اس وقت جب بیروزگاری سے تنگ آکر یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ نمائش میں ایک اسٹال لے کر چاٹ کی دوکان کھولیں اور دہی بڑے بیچ کر کسی طرح پیٹ تو پالیں۔ مرزا صاحب نے آکر ملازمت کا مژدہ سُنایا۔ سوکھے دھانوں پر پانی برسا۔ جی چاہا مرزا کے قدموں پر گرکر مارے شکر