شبلی نعمانی کے مضامین
شاعری کی حقیقت اور ماہیت
(’’شاعری کی حقیقت اور ماہیت‘‘ علامہ شبلی کی کتاب شعرالعجم جلد چہارم کا ابتدائی مضمون ہے۔) شاعری کی حقیقت شاعری چونکہ وجدانی چیز ہے اس لئے اس کی جامع و مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جاسکتی، اس بنا پر مختلف طریقوں سے اس کی حقیقت کا سمجھانا زیادہ
میر انیس اور مرزا دبیر کا موازنہ
(مندرجہ ذیل تحریر علامہ شبلی کی کتاب ’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ سے ماخود ہے) اردو علمِ ادب کی جو تاریخ لکھی جائے گی، اس کا سب سے عجیب تر واقعہ یہ ہوگا کہ مرزا دبیر کو ملک نے میرانیس کا مقابل بنایا اور اس کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ ان دونوں حریفوں میں ترجیح
فن بلاغت
مسلمانوں نے جوعلوم وفنون خودایجاد کئے اورجن میں وہ کسی کے مرہون منت نہیں، ان میں ایک یہ فن بھی ہے۔ عام خیال یہ ہے اورخودہم کوبھی ایک مدت تک یہ گمان تھا کہ یہ فن بھی مسلمانوں نے یونانیوں سے لیا۔ ابن اثیر نے مثل السائر میں ایک جگہ لکھا ہے کہ، ’’یونانیوں
سر سید مرحوم اور اردو لٹریچر
سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظرآتی ہے، لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرے سے آفتاب بن گئیں، ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرے سے نکل
بھاشا، زبان اور مسلمان
ناظرین کو یاد ہوگا کہ ایک سربرآوردہ ہندو ایڈیٹر نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں دعویٰ کیا تھا کہ ’’مسلمانوں نے تعصب مذہبی کی وجہ سے ہندی علم وادب پر کبھی توجہ نہیں کی اور اگر اتفاقیہ کسی نے کچھ کی تو اس کو مسلمانوں نے کافر کہہ کے پکارا۔‘‘ اس کا جواب
زیب النساء
بمبئی کے سفرمیں ایک عزیز دوست نے جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیب النساء کی سوانح عمری کے متعلق تھا، مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایہ معلومات تمام تر بازاری قصے تھے جس
املا اور صحت الفاظ
ایک معزز اور محترم بزرگ نے جو ہندوسان کے مشہور صاحب قلم اور معاملات ملکی میں بڑے اہل الرائے ہیں، ہم کو ایک نہایت طولانی خط لکھا ہے، جس میں سخت افسوس کے ساتھ اس بات کی شکایت کی ہے کہ نااہلوں کی وجہ سے اردو زبان روز بہ روز بگڑتی جاتی ہے ، اور اگر اس