شعیب کیانی کے اشعار
مرتے رہنا مرا ہر روز یوں تھوڑا تھوڑا
قتل ہے جس کو میں ثابت نہیں کر پاؤں گا
میں اکیلا رہ گیا تو میں نے کچھ رشتے بنائے
میں نے کچھ رشتے بنائے میں اکیلا رہ گیا
ہم نمو پاتے رہے ہیں اپنی ہمت سے شعیب
پتھروں میں اگنے والے اور کتنے سبز ہوں
کچھ مسئلہ تو تیرے جہاں میں ضرور ہے
جاں لگ گئی ہماری مگر جی لگا نہیں
ان سے خدا کو چھین کے بدلے میں کچھ تو دو
وہ جن کے پاس کچھ بھی خدا کے سوا نہیں
الٹا مجھ کو ہی اٹھا لیں گے اٹھانے والے
لاپتہ پیاروں کے بارے میں اگر پوچھوں گا