تخلص : 'وجد'
اصلی نام : سکندر علی
پیدائش : 22 Jan 1914 | اورنگ آباد, مہاراشٹر
وفات : 16 Jun 1983
سکندر علی نام، وجدؔ تخلص، 1914ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا پھر سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوکر سرکاری ملازمت میں داخل ہوئے اور ترقی کر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ لہو ترنگ‘، آفتاب تازہ، اوراق مصور، بیاض مریم، ان کے کلام کے مجموعے ہیں۔
وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں جن کا موضوع حسن و عشق اور قلبی واردات ہے لیکن اصلاً وہ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی معاملات اور طبقاتی کشمکس کو انہوں نے بری خوبصورتی کے ساتھ اپنی نظموں میں پیش کیا ہے لیکن ان کی نظمیں صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ شاعر کے اردگرد دور تک پھیلی ہوئی جو زندگی ہے شاعر نے اس سے مواد حاصل کیا ہے۔ بقول وجدؔ ’’ہر آرٹ کی طرف شاعری بھی شاعر سے پوری زندگی کا مطالعہ کرتی ہے جو شاعر اس مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس کی شاعری تشنہ رہ جاتی ہے۔ اپنی شاعری کے بارے میں وجدؔ فرماتے ہیں ’’میں نے اظہار خیال کے لئے کلاسیکی اسلوب منتخب کیا اور فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بھی امکانی کوشش کی ہے۔ شاعری می نئے تجربے کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملی۔ میری شاعری، میری زندگی، انسان کی عظمت اور ترقی ہندوستان کی تاریخ و سیاست اور یہاں کے فنون لطیفہ سے طاقت اور حسن حاصل کرتی رہی ہے۔‘‘ رقاصہ، نیلی ناگن، آثارسحر، خانہ بدوش، معطر لمحے ان کی دلکش نظمیں ہیں۔ دو شعر ملاحظہ ہوں؎
اے موسم خوشگوار آہستہ گزر
اے عکس جمال یار آہستہ گزر
زندوں میں نہ ہوجائے قیامت برپا
اے قافلۂ بہار آہستہ گزر