سر سید احمد خاں کے مضامین
آزادی رائے
ہم اپنے اس آرٹیکل کو ایک بڑے لائق اور قابل زمانہ حال کے فیلسوف کی تحریر سے اخذ کرتے ہیں۔ رائے کی آزادی ایک ایسی چیز ہے کہ ہر ایک انسان اس پر پورا پورا حق رکھتا ہے۔ فرض کرو کہ تمام آدمی بجز ایک شخص کے کسی بات پر متفق الرائے ہیں، مگر صرف وہی ایک شخص
گزرا ہوا زمانہ
برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔ بڈھا نہایت غمگین ہے مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ
اخلاق
مسٹر ایڈیسن کا قول ہے کہ مذہب کے دو حصے ہو سکتے ہیں، ایک اعتقادیات دوسرا عملیات۔ مسٹر ایڈیسن کی غرض اعتقادیات سے صرف وہ مسائل ہیں جو وحی سے معلوم ہوئے ہیں اور جو عقل سے یا کارخانہ قدرت پر غور کرنے سے معلوم نہیں ہو سکتے، مگر ہم کو ان کے اس بیان سے کسی
رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات
اپنے اس آرٹیکل کو بعض بڑے بڑے حکیموں کی تحریروں سے اخذ کر کر لکھتے ہیں۔ کیا عمدہ قول ایک بڑے دانا کا ہے کہ ’’انسان کی زندگی کا منشایہ ہے کہ اس کے تمام قوی اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقض واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل
امید کی خوشی
اے آسمان پر بھورے بادلوں میں بجلی کی طرح چمکنے والی دھنک، اے آسمان کے تارو، تمہاری خوشنما چمک، اے بلند پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرنے والی دھندلی چوٹیو! اے پہاڑ کے عالی شان درختو! اے اونچے اونچے ٹیلوں کے دل کش بیل بوٹو! تم بہ نسبت ہمارے پاس کے درختوں
تعصب
انسان کی خصلتوں میں سے تعصب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی
ترقی علوم
مسلمانوں میں ترقی علوم کی ایک عجیب سلسلہ سے ہوئی ہے۔ سب سے اول بنیاد ترقی علوم کی جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی کہ انہوں نے زید بن ثابت کو متعین کیا کہ قرآن مجید کو اول سے آخر تک یک جا جمع کر کر بطور ایک کتاب کے
کاہلی
یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا، کام کاج، محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں سستی کرنا کاہلی ہے۔ مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قوی کو بے کار چھوڑ دینا سب
رسم و رواج
جو لوگ کہ حسنِ معاشرت اور تہذیبِ اخلاق و شائستگیِ عادات پر بحث کرتے ہیں ان کے لئے کسی ملک یا قوم کے کسی رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر ایک قوم اپنے ملک کے رسم و رواج کو پسند کرتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے کیونکہ جن
نیچر
اچھے لفظ بھی جب بری نیت سے استعمال کیے جاویں تو برے ہو جاتے ہیں۔ آپ بڑے عالم ہیں، کہنے والے کی نیت سے بڑے جاہل کے معنوں میں ہو جاتا ہے مگر ہم کیوں کسی کی نیت کو بد قرار دیں۔ ہم کو تعجب ہے کہ وہ لوگ جو ائمۂ اربعہ کے مذہب پر نہیں چلتے، غیر مقلد یا
ہمارے بعد ہمارا نام رہے گا
یہ ایک نہایت لغو اور بیہودہ خیال ہے جس کا کچھ نتیجہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت لوگ اس لغو خیال میں مبتلا ہیں۔ کوئی اولاد چاہتا ہے کہ اس کے بعد اس کا نام چلے۔ کوئی محل بناتا ہے کہ اس کے بعد اس کا نام قائم رہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اس
بحث و تکرار
جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگا ہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے
خوشامد
دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان مرضِ مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے
اردو زبان اور اس کی عہد بہ عہد ترقی
اس ملک میں اب جو زبان مروج ہے اور جس میں سب لوگ بولتے چالتے ہیں اس کا نام ’’اردو‘‘ ہے اور تحقیق اس کی یوں ہے کہ ’’اردو‘‘ فارسی لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بازار‘‘ کے ہیں اور اردو سے مراد اردوئے شاہ جہاں ہے۔ اگرچہ دلی بہت قدیم شہر ہے اور ہندوؤں کے تمام
عید کا دن
السلام علیکم، عید مبارک ہو۔ و علیکم السلام، آپ کو بھی مبارک ہو۔ مصافحہ کیجیے۔ اس سے مجھے معاف رکھو۔ مصافحے کو عید کے دن مخصوص کرنا بدعت ہے۔ اگر بدعت ہے تو جانے دیجیے۔ کیا آپ اسے بدعت نہیں سمجھتے؟ جناب میں تو نہ مصافحے کو بدعت سمجھتا ہوں نہ معانقے کو۔
تعلیم
تعلیم سے ہماری مراد موافق عرف عام کے لکھنا پڑھنا سیکھنے سے ہے۔ ہر زمانہ میں لاکھوں کروڑوں آدمی مختلف مقاصد سے لکھنا پڑھنا سیکھتے رہے ہیں۔ عام مقصد جس کے سبب سے تعلیم پر توجہ ہوتی ہے، خواہ تعلیم پانے والے خود اس پر متوجہ ہوں یا اطفال کے مربیوں نے
مہذب قوموں کی پیروی
چھوٹا بچہ اپنے سے بڑے لڑکے کی باتوں کی پیروی کرتا ہے اور کم سمجھ والا اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ سمجھدار سمجھتا ہے اور ناواقف اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ واقف کار جانتا ہے۔ اسی طرح نا مہذب قوم کو تہذیب یاٖفتہ قوم کی پیروی کرنی ضرور پڑتی ہے، مگر بعضی
اپنی مدد آپ
خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ یہ ایک نہایت عمدہ اور آزمودہ مقولہ ہے۔ اس چھوٹے سے فقرے میں انسانوں کا اور قوموں کا اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے۔ ایک شخص میں اپنی مدد کرنے کا جوش اس کی سچی ترقی کی بنیاد ہے اور جب یہ جوش بہت سے شخصوں
ہمدردی
ہر کوئی اپنی آپ ہمدردی کرتا ہے۔ کیا دھوکے کی چیز ہے! کیا بھلاوے میں پڑے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی مصیبت میں مدد کرنا ہمدردی کرنا ہے۔ کیا قدرت کا کوئی کام بے فائدہ ہے؟ نہیں، گو ہم بہتوں کے سمجھنے سے عاجز ہیں۔ کیا ہم اس فائدہ میں شریک نہیں؟
سراب حیات
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے کیوں! کس خیال میں ہو؟ آج آپ کی طبیعت کچھ متفکر معلوم ہوتی ہے۔ نہیں کوئی بات نہیں ہے۔ یوں ہی سست ہے۔ آدمی کو کبھی کچھ خیال ہوتے ہیں کبھی کچھ۔ ان ہی خیالات سے کبھی آپ ہی آپ خوش ہوتا ہے، کبھی آپ