سراج فیصل خان کی پیدائش 10 جولائی 1991 کو شہیدوں کے شہر 'شاہجہاں پور' کے گاؤں 'مہانند پور' میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی سرکاری اسکول میں ہوئی۔ سال 2011 میں انہیں 'کویتا کوش نولیکھن ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ 2014 میں ان کی غزلوں کو ساجھا غزل مجموعہ 'دستک' میں شامل کیا گیا۔ ان کی غزلیں اور اشعار مختلف رسالوں میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ 2021 میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ 'کیا تمہیں یاد کچھ نہیں آتا' اور سال 2022 میں ان کی نظموں کا مجموعہ 'پرفیوم' شائع ہوا۔
سراج فیصل خان کا شمار نئی نسل کے ابھرتے ہوئے شعراء میں ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کی وہ نسل جس نے پچھلی نسل کے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے ٹکڑوں کو سمیٹ کر اپنی آنکھوں کے لیے نئے خواب تیار کیے ہیں۔ ان کی شاعری محبت، انا، درد اور عصری حسیت کی شاعری ہے۔ ایک جوان اور حساس طبیعت عاشق اس شاعری میں جگہ جگہ پر ملتا ہے۔ خودداری اور خود اعتمادی کے جذبات ان کی شاعری میں کافی جگہ پاتے ہیں اور ان کا بیان اپنے وقت کا دستاویز بھی ہے۔
سراج فیصل کی شاعری میں محبت کا اسکولی گلابی رنگ، رقیب اور ماں تلاش کرنے پر آسانی سے مل جاتے ہیں اور رقابت، اداسی، دور حاضر کی تلخیوں، حسرت، خواب اور بیداری بھی غور کرنے پر نظر آنے لگتی ہیں۔ غزلوں کی طرح ہی نظموں میں بھی ان کا اپنا انوکھا رنگ اور یہ مخصوص طرز نظر آتی ہے۔ سراج فیصل خان دور حاضر کے ان شعراء میں شامل ہیں جن کے شعری اظہار پر خاص ان کی مہر ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا اسلوب، ان کا ڈکشن، بلکل کتابی نہیں بلکہ ان میں تجربوں کی آنچ اور جدید جمالیات، دونوں واضح نظر آتے ہیں۔