Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Suhaib Farooqui's Photo'

صہیب فاروقی

1969 | دلی, انڈیا

صہیب فاروقی کا تعارف

پیدائش : 16 Sep 1969 | اٹاوہ, اتر پردیش

سبھی کے دل میں بسا ہوں خراب ہوتے ہوئے

چمن کو ڈھونڈ رہا ہوں گلاب ہوتے ہوئے

صہیب فاروقی  اپنی ننہال اٹاوہ (اتر پردیش) میں سولہ ستمبر ١٩٦٩ عیسویں کو پیدا ہوئے .  ان کے والد محترم غیر  تقسیم شد  اتر پردیش  کے محکمہ آب پاشی میں انجینیر   تھے. اس  وجہ سے  وہ متحدہ  اتر پردیش میں ادھر ادھر 'بڑے' ہوتے رہے . حالانکہ اجداد کے سلسلہ سے  ان کا وطن 'عمری-کلاں' (مرادآباد) ہے مگر ان کی  اسکولنگ ایٹاہ، دہرہ دون اور سیوہارا ضلع بجنور میں ہوئی اور ہا یر ایجوکیشن مرادآباد کے ہندو کالج سے. بی.ایس.سی، بی.ایڈ، کر چکنے کے بعد  روزگار کی تلاش  انہیں  ہندوستان کی راجدھانی لے آئ. وہ  سن ١٩٩٣ میں میونسپل کارپورشن کے پرائمری سکول میں  ٹیچر ہو گئے-  سن ١٩٩٥ میں محکمہ دہلی پلس میں بطور سب-انسپکٹر بھرتی ہو ے . تب سے دہلی پولیس میں ہی ہیں  اور اگست ٢٠١٠  میں ترقی پا کر انسپکٹرہو گئے ہیں۔
 
صہیب فاروقی کے  خانوادے اور علاقہ میں اردو ہواؤں میں ہے۔ انہیں ان کے بچپن میں چاروں طرف رسائل اخبارات بکھرے ہوئے نظر آتے تھے. جن میں زیادہ تر اردو کے تھے. ان کتابوں کو  گھر کے بڑے ان جیسے چھوٹوں کے ہاتھوں ایکسچینج کروایا کرتے تھے. معلوم ہیں نہیں کب اس عمل مبادلہ میں صہیب فاروقی  کو پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک لگ گیا۔
 
 فاروقی صاحب  یادکرتے ہیں کہ  محرم کے موقع پران کے آبایی  گاؤں میں تعزیتی جلوس اور محفلوں میں مرثیہ اور نوحہ خوانی خوب ہوتی تھیں جن میں سخن سے لگاؤ رکھنے والے بزرگ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے اور ان میں نئے-نئے شعر کہنے کا مقابلہ سا رہتا تھا.  ان کی  والدہ خود میلاد نبی کی تقریب میں نعت شریف اور درود سلام مترنم پڑھتی تھیں. اتنی تفصیل میں لکھنے کا   مقصد یہ بتانے سے ہے کہ صہیب فاروقی کے ذہن میں ادب سے محبّت ازل سے ہی ہے وہ تو بیچ میں پڑھائی لکھائی، روزگار اور شادی بچے جیسے مرحلے یکی پس از دیگری  ان کی زندگی میں آتے رہے۔ 
ایک عمر کے بعد زندگی کے معمول سے ہٹ کر آدمی پناہ یعنی ریفیوج  ڈھونڈتا ہے.   فاروقی صاحب کے لئے ادب  ہمیشہ وہی پناہ گاہ رہا ہے.  عمر کی چوتھی دہائی کی تکمیل پر صہیب فاروقی  سنجیدگی سے سوچنے لگے  کہ کچھ 'لکھا' جائے  .تب  تک سوشل میڈیا کا دور خاصہ شروع ہو چکا تھا . سوشل میڈیا کی منفرد خاصیت یہ ہے کہ اس میں فنکار اور پرستار کے درمیان ایڈیٹر نام کی مخلوق کا وجود نہیں ہوتا . حالنکہ اسکے نقصانات بھی ہیں. لیکن   تازہ کار قلم کار کے لئے بہت مفید پلیٹ فارم ہے۔

دوسرا عنصر: لوگوں پر متضاد بات ہمیشہ سے اثر کرتی آئ ہے. مطلب وردی میں سخن پروری کا  درست لگنا تو بڑی بات نہیں  ہے مگر باوردی سخن آرائی ہضم ہونے والی بات نہیں ہے. لیکن  صاحبان سخن شناس لوگوں نے اس "شاعر ان وردی' کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

تیسرا اور آخری فیکٹر صہیب  احمد فاروقی کا  تھانہ جامعہ نگر، نئی دہلی  کی پوسٹنگ کا رہا ہے . تھانہ جامعہ نگر   کے علاقے میں کم از اکم نیشنل لیول کے دو سو سے زائد شعرا  و ادیب حضرات رہتے ہیں . صہیب فاروقی  کو ان سب کی قربت کا شرف حاصل ہوا مطلب حسن پر اور نکھار آ گیا۔
 
حق شناسی: کہا جاتا ہے کہ فن پیدایشی ہوتا ہے .  یہ بات  بالکل درست ہے مگرفاروقی صاحب  کا  ماننا ہے کہ شادی کے بعد فنکار(اگر فنکار مذکر صنف سے  ہے) کو پرستار تک پہنچانے میں اسکے نصف بہتر کا مکمل ہاتھ ہوتا ہے . اگر بیوی نہیں چاہے تو مجال ہے کہ فنکاری آٹا، دال، نون، تیل کے انتظام سے باہر جھانک بھی لے. صہیب فاروقی  اس معاملے  میں بہت خوش نصیب ہیں. ان کے ہی الفاظ میں  "مجھ جیسے نصف بدتر کو مکمل فنکار بطورشریک حیات حاصل ہے۔ ہم دونوں حالانکہ ہیر رانجھا فلم کی طرح ہر وقت تغزلی مکالمات میں نہیں رہتے مگر بہت کچھ سیکھتا ہوں میں اپنی اہلیہ سے."  
لیکن حضرات جیسے جیسے فاروقی صاحب کی  قلم پرزور ہوتی جا رہی ہے پریشانی کا سبب بن رہی ہے . وہ ایسے کے تصفیه شده شعراء تو انہیں  شاعر تسلیم کرتے نہیں ہی ہیں  جیسے کہ ایک بڑے مشاعرے  میں دور حاضر کے سر فہرست شاعر جناب ڈاکٹر راحت اندوری صاحب مرحوم  نے ان کے  پڑھنے کے بعد فرمایا تھا  "کہ جب کوئی پولیس والا شاعری کرتا ہے تو خدا کی قسم ایسا لگتا ہے کہ جیسے شیطان قرآن شریف پڑھ رہا ہو". یہ جملہ آپ کے لئے مزاق کا موضوع ہو سکتا ہے مگر صہیب فاروقی  اس جملے کو اپنے  لئے باعث فخرمانتے  ہے کیوں کہ شیطان بھی انکار سے پہلے سب سے بڑا عالم اور پرہیزگار تھا. لیکن  اسکا کیا کیا جائے  کہ جس محکمہ میں بھرتی ہونے کے لئے صہیب فاروقی نے  باقائدہ تحریری امتحان کے ساتھ جسمانی قوّت کا ٹیسٹ بھی پاس کیا تھا وہاں کے ساتھی اب انہیں  پولیس والا ماننے سے منکر ہو رہے  ہیں کہ اب وہ   ان جیسے نہیں رہے  مطلب شاعروں  کی  جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔

لیکن صاحبان صہیب فاروقی خود اپنے لئے  یوں کہتے ہیں:-  
یہ کیا کم ہے دل ناداں کسی کی رونمائ کو
کہ اس بےذوق کے چرچے سبھی باذوق کرتے ہیں

اس شعر  میں موصوف  گلاب لفظ  سے  شاعر کی مراد   خود سے ہے . عربی میں صہیب کا لغوی معنی گلاب ہے اور وہ بھی سرخ گلاب . ویسے فاروقی صاحب کی  پیدایش پر ان کا  نام ان کے  والد صاحب کے نام شکیل احمد کے  قافیه  پر عقیل احمد رکھا گیا تھا. اس نام کی صہیب  فاروقی  کی  بڑی   بہن  کے  نزدیک  ادبی کشش نہیں تھی . سو  والدہ نے ان کے  بھرپور احتجاج کے باوجود ان کا  نام صہیب رکھ دیا.   فاروقی صاحب کو عقیل نام چھٹنے کا کئی  برسوں تک صدمہ رہا کیونکہ  اس نام کی نسبت سے  وہ خود کو عقلمند سمجھتے  تھے۔ 

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے