سیداحتشام حسین کے مضامین
ہند آریائی، مسلمانوں کی آمد سے پہلے
ہندوستان میں آریائی زبان کی تاریخ کے متعلق اکثر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ آج تک ہندوستان کی اتنی مربوط اور مسلسل تاریخ کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی اور ہر دور میں اس کے ارتقا کی نشان دہی واضح مثالوں سے کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ خیال بہت
اصول تنقید
علوم وفنون کی پیدائش اور ان کی ابتداکی جستجو، انسان کو تاریخ کے ان دھندلکوں میں لے جاتی ہے، جہاں ذہن کے لئے راستہ صاف نہیں ہوتا، اصول اور ضوابط رہنمائی نہیں کرتے اور قیاس یا ناقص علم کی روشنی صرف اتنا بتاتی ہے کہ کشاکش حیات نے نہ صرف انسانوں کو حیوانوں
تنقید اور عملی تنقید
نقدِ ادب کے اصول کیا ہیں؟ تنقید سے کیا مراد ہے؟ ایسے سوالوں کا جواب دینے سے پہلے اس پرغور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ادب کیا ہے؟ کیونکہ جیسے ہی ادب کے متعلق گفتگو شروع ہوگی، تنقید کے اصول خود بہ خود سامنے آتے جائیں گے۔ ادب اور تنقید کا تعلق اتنا گہرا
غالب کا تفکر
اردو ادب کے مطالعہ کے سلسلہ میں چند بندھے ٹکے میکانکی اصولوں سے کام لینے کی وجہ سے اس وقت تک ہماری رسائی ادیبوں اور شاعروں کی روح تک نہیں ہو سکی ہے۔ وہ روح جو بدلتے ہوئے حالات میں بھی انھیں عظمت بخشتی ہے۔ غالبؔ کے مطالعہ کے سلسلہ میں اس ناکامی کا احساس
اردو ادب میں مہاتما گاندھی
ارسطو نے جہاں تاریخ اور شاعری کے فرق اور ان کی امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے وہاں سب سے زیادہ زور اس حقیقت پر دیا ہے کہ تاریخ مخصوص واقعات اور مخصوص لوگوں سے بحث کرتی ہے، اس کے برعکس شاعری مخصوص لوگوں کو نظر انداز کرکے عمومی حیثیت کا انتخاب کر لیتی
تنقید، نظریہ اور عمل
نقدِ ادب کے اصول کیا ہیں؟ تنقید سے کیا مراد ہے؟ ایسے سوالوں کا جواب دینے سے پہلے اس پرغور کرنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ ادب کیا ہے؟ کیونکہ جیسے ہی ادب کے متعلق گفتگو شروع ہوگی، تنقید کے اصول خود بہ خود سامنے آتے جائیں گے۔ ادب اور تنقید کا تعلق اتنا گہرا
اقبال بہ حیثیت شاعر اور فلسفی
اگر فلسفہ کی ابتدا حیرت سے ہوتی ہے، تو اقبالؔ دنیائے فلسفہ کے ایک محقق سیاح تھے۔ اگر شاعری روح کی بلند پروازی کے لمحات میں گایا ہوا گیت ہے تو اقبال حسین اور نایاب، پر اثر اور پر جوش گیتوں کے شاعر تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی فکری زندگی کے اس موقع پر اقبالؔ
جدید اردو شاعری اور سماجی کشمکش
انسانوں کے ابتدائی سماجی شعور سے لے کر اس وقت تک ان کے احساس، وجدان، ذوق اور نقطۂ نظر میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ اس جدوجہد کی کہانی ہیں جو سماج کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی ضرورتوں میں توازن قائم کرنے کے لئے انسانوں نے کی ہیں، یہ کوئی مابعد الطبیعاتی یا
ادب اور تہذیب
کبھی کبھی یہ سوال پوچھا بھی جاتا رہا ہے اور خود میرے ذہن کو بھی الجھاتا رہا ہے کہ کسی قوم کی تہذیبی زندگی سے اس کے ادب کا کیا تعلق ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ سوال ایک جانی بوجھی چیز سے متعلق ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی شکل میں یہ جانتا ہے کہ تہذیب ایک ملک
اختر شیرانی کی رومانیت
اخترؔ شیرانی کی شاعری کے متعلق رائے دیتے ہوئے غالباً خام کار اور پختہ کار دونوں قسم کے نقاد سب سے پہلے اسی حقیقت پر زور دیں گے کہ وہ ایک رومانی شاعر تھے۔ رومانیت ایک ایسا مبہم تصور ہے کہ اس کے صحیح عناصرِ ترکیبی کا پتہ لگانے میں دشواریاں ہیں کیوں کہ
غالب کی بت شکنی
انسانوں نے ہمیشہ خواب دیکھے ہیں اور ہمیشہ دیکھتے رہیں گے، اپنے سینوں کو تمناؤں سے ہمیشہ معمور کیا ہے اورہمیشہ معمور کرتے رہیں گے اور اگر ان امنگوں، خواہشوں، خوابوں اور تمناؤں کا تجزیہ کیا جائے تویہ بات بہت جلد ذہن پر نقش ہوگی کہ ہر شخص اپنے حوصلے کے
حالی کا سیاسی شعور
کسی شاعر اور ادیب کے شعور کی جستجو کئی حیثیتوں سے کی جا سکتی ہے کیونکہ شعور کی انفرادیت میں جماعتی ضرورتوں اور خواہشوں سے بہت سے پردے گرتے اور بہت سے اٹھتے ہیں۔ ماحول کی مادی بنیادوں سے لے کر خوابوں کی رنگارنگی تک نہ جانے کتنی منزلیں ہیں، اور ہرمنزل
نیا ادب اور ترقی پسند ادب: ایک مباحثہ
یہ بحث ادب کے ان طالب علموں کے لیے بہت مفید ہوگی جو علمی طور پر ادبی تحریکات کے صحیح خط وخال اور تاریخی پس منظر سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر آج ادب کا کوئی حصہ شعوری طور پر ادب کے مقصد اور سماجی ارتقا کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ادبی
پریم چند کی ترقی پسندی
ترقی پسند ادیب اور نقاد پریم چند کو اپنی صف میں شمار کرتے رہے ہیں لیکن بعض حلقوں سے اکثر یہ آواز بلند ہوتی سنائی دی ہے کہ اگر ترقی پسندی وہی چیز ہے جس کی بنیاد تاریخ کے مادی تصور پر ہے تو پریم چند ترقی پسند نہیں ہو سکتے۔ معترضین کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی
غزل میں محبوب کا بدلتا کردار
اصناف ادب میں سے بعض ایسے سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں کہ مخالفت کے باوجود کبھی شکل اور کبھی رنگ بدل کر اپنی زندگی کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ اردو غزل کا بھی یہی حال ہے۔ اس کا سدا بہار حسن یونانی دیو مالا کی ان پریوں کی یاد دلاتا ہے جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔
اکبر کا ذہن
اکبرؔ کی شاعری ادب اور مقصد کے تعلق کی ایک نمایاں اور دلنشیں مثال ہے۔ ان کا مطالعہ خالص فنی نقطۂ نگاہ سے ایک انفرادی مطالعہ ہوگا کیونکہ ابتدائی غزلوں کے سوا اکبرؔ نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور جب تک فن اور تکنیک کے مطالعہ میں موازنہ
ادب میں طنز کی جگہ
اگر یہ صحیح ہے کہ ادب زندگی کا ترجمان اور مصور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا نقاد بھی ہے تو نقدونظر کے تمام آلے، ادب کے ذریعہ سے زندگی کی کشمکش کو سمجھنے سمجھانے اور اس کی ارتقا پذیری اور زوال آمادگی کا تجزیہ اور اظہار کرنے میں ادیب کے شعور کے مطابق کام
اردو شاعری میں قومیت
فلسفہ سیاسیات میں قوم اور قومیت کا مفہوم بہت ہی بحث طلب سوال بن گیا ہے۔ لیکن شعر و ادب میں اس کی حیثیت اتنی الجھی ہوئی نہیں ہے کیونکہ شاعر کے شعور میں قومیت کا احساس ایک جذبے، ایک منصفانہ حق اور ایک انسانی قدر کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں یہ علمی
زبان اور رسم خط
زبان کی قومی، بین الاقوامی اور تہذیبی اہمیت علمی حیثیت سے مسلم ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ دنیا کی چھوٹی سی چھوٹی اور غیر متمدن قوم کے پاس بھی زبان موجود ہے۔ زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ مسئلہ پریشان نہیں کرتا کہ انسان قوت گویائی سے کس طرح کام لیتا ہے۔ تمدنی
مشاعرے کی افادیت
یہ سوال مدتوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ مشاعروں کی کوئی اہمیت اور افادیت ہے یا نہیں؟ ایسے سوال کاجواب’’ہاں‘‘، ’’نہیں‘‘ میں نہیں دیا جا سکتا اور اگر دیا جائےگا تو ہمارے ذہن کی کسی طرف رہنمائی نہیں کرےگا۔ تجزیہ کرکے اس کی ابتدا، عروج یا زوال پر نظر ڈالنا،
جدید ادب کا تنہا آدمی: نئے معاشرے کے ویرانے میں
یہ خط ایک رسالے ے مدیر کے دیے ہوئے عنوان پر مضمون لکھنے کی فرمائش کے جواب میں لکھا گیا تھا جو وہاں شائع نہ سکا۔ احتشام حسین محترمی۔ وقت کی کمی ہے اور آپ کا اصرار، اپنے خیالات مختصراً پیش کرتا ہوں۔ آپ نے جو عنوان دیا ہے اس کا تقریباً ہر اہم
ادب میں جنسی جذبہ
تھوڑے بہت فرق کے ساتھ جنسی جذبہ تمام جانداروں میں پایا جاتا ہے اور ایک عالم گیر حیاتیاتی قانون بن کر زندگی کے باقی رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس کا عمل کسی نہ کسی شکل میں ہر زمانہ میں جاری رہا ہے۔ اگر اس کی شکل بدلی ہے تو انھیں سماجی
ادب کا مادی تصور
ادب اور فنون لطیفہ کی دوسری شکلوں کا خواب کثرت تعبیر سے ہمیشہ پریشان رہا ہے۔ کسی قسم کی مادی بنیاد کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے شعروادب کی دنیا اکثر وبیشتر خواب وخیال کی دنیا سمجھی گئی جس کی نہ تو راہیں متعین ہیں اور نہ سمت مقرر ہے، یعنی ادیب اپنے جذبات
نئی شاعری کا پس منظر
ہر انسانی عمل زمان ومکان کی حدوں کے اندر ہوتا ہے۔ شعری تخلیق اور کچھ نہ ہو ایک عمل ضرور ہے، جو کسی نہ کسی قسم کی داخلی یا خارجی تحریک سے وجود میں آتی ہے۔ اس لیے اس کے ظاہر ہوتے ہی رد عمل کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ زمان ومکان سے صرف حقیقت ہی کا احساس
ذکر اس پری وش کا: جدید اردو شاعری میں
اس ’’پری وش‘‘ کا ذکر کسی نہ کسی پہلو سے ہر زبان کی شاعری کا اہم ترین اور حسین ترین موضوع رہا ہے، حالانکہ اس کے خط وخال، رفتار وگفتار، انداز وادا، عبارت واشارات اور نازوغمزے کے گوناگوں اور نت نئے روپ ہمیشہ سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ پری وش ہندوستان میں شکنتلا،
اودھ کی ادبی فضا (غدر سے پہلے)
مشرق کی شاہی اورجاگیردارانہ تہذیب کی آخری بہار نے اپنی ایک جھلک اس اودھ میں دکھلائی جس پر غدرسے پہلے ایک ایرانی خاندان نے سو سال سے کچھ زیادہ دنوں تک حکومت کی۔ تاریخی حیثیت سے عروج وزوال کی یہ ایک ایسی مخلوط داستان ہے جس میں ’’شمشیر وکتاب‘‘ اور ’’طاؤس
ادیب، حب الوطنی اور وفاداری
ملک اور قوم سے وفاداری اور حب وطن کا مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن عصر جدید میں اس مطالبے کی نوعیت میں بھی فرق آ گیا ہے اور وفاداری اور حب الوطنی کے تصور میں بھی۔ اخلاقیات کی حدوں سے نکل کر اب یہ خالص سیاسی مسئلہ بن گیا ہے جسے حسب ضرورت مذہب اور