تاج الدین محمد کے افسانے
اپاہج
میرے بابا میری دادی کی اکلوتی اولاد تھے۔ دادی کہتی ہیں میری اماں جب بیاہ کر ان کے گھر آئیں تب ابا کی عمر بہ مشکل بیس برس رہی ہوگی۔ اولاد کی خواہش میں بابا کی شادی دادی نے کم عمری میں ہی کر دی تھی۔ گھر کا چھوٹا سا آنگن وسعت میں اب کشادہ معلوم پڑتا تھا۔
داغ محبت
"رنڈیاں کبھی وفا نہیں کرتیں" استاد کے منھ سے یہ جملہ سن کر میں کلاس روم میں انتہائی حیرت و استعجاب کے عالم میں چند ساعت کو کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ استاد محترم کا سراپا میری نظروں کے سامنے ایک لمحے کے لیے اوجھل سا ہو گیا۔ یہ جملہ ان کے ادبی مزاج
مجرم کون؟
اسے کئی گولیاں لگی تھیں۔ وہ مندر سے چند گز کے فاصلے پر پیپل کے درخت کے پاس زمین پر گر پڑا تھا۔ خون سے پورا جسم تر تھا لیکن سانس چل رہی تھی۔ ہاتھ پیر اب تک حرکت کر رہے تھے۔ بھگدڑ کی آواز سن کر کئی لوگ گھروں سے اچانک ہی باہر آئے لیکن گولیوں کی پے در پے
دو کوڑی کا آدمی
کالج کے وسط میں ایک خاصا وسیع و عریض چوک تھا۔ موسم گرما کے آخری دن چل رہے تھے۔ سہ پہر کے چار بجے شدید گرمی کے دنوں میں ہم دو دوست چائے خانے پر بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ تبھی شاہنواز نے اچانک کسی بات پر برافروختہ ہو کر اپنی سیکو فائیو گھڑی میرے منھ
بازگشت
سکینہ کے گھر یکے بعد دیگرے دو بچیوں نے جنم لیا لیکن جب اسے تیسرا حمل ٹھہرا تب سکینہ نے کسی انچاہے خوف سے اپنے حمل کو اپنے شوہر سے چھپائے رکھا۔ پسماندگی درندگی و جہالت کا بھرپور تجربہ آنے والے کو اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لیے غالباً تیار نہ تھے۔ لیکن
آخری سبق
یہ جولائی کی ایک حبس بھری گرم دوپہر تھی۔ ساجدہ مٹھائی کی ٹوکری سر پر اٹھائے پیر صاحب کے حجرے میں قدم رکھنے ہی والی تھی کہ کھسر پسر کی آواز اس کے کان میں پڑی۔ وہ دروازے پر ٹھٹھک کر کچھ دیر کو کھڑی ہو گئی۔ پیر صاحب اپنے ایک مرید سے کہہ رہے تھے عورت ذات
گردش ایام
استاد نے آخر کار عاجز آکر شاگرد کو ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا "ابے لونڈے محنت سے پڑھا کر وقت پر سبق یاد کر لیا کر ورنہ باپ کی طرح ہی جاہل رہ جائے گا"۔ یوں تو وہ باپ کے جوتے اور استاد کے تھپڑ کا عادی ہو چکا تھا، لیکن آج ایک جملے نے یک لخت
آسیب زدہ خواب
تاریکی روشنی کو تیزی سے نگل رہے تھی۔ شام کی دہلیز پر اندھیرے کا رقص جاری تھا۔ سورج غروب ہوکر مغرب کی جانب اب تک طویل سفر طے کر چکا ہوگا۔ رات نے اپنی ہولناک حکمرانی کا اعلان کر دیا تھا۔ راستے پر اکا دکا چہرے اب پرچھائیوں کی مانند دکھنے لگے تھے جیسے چلتے
انا کی دیوار
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رابعہ پاگل ہو گئی ہے۔ بعض کہتے ہیں رابعہ مر چکی ہے 'خدا نہ کرے' اور یہ خبر ان سے چھپائی جا رہی ہے تو چند اسے شدید ذہنی بیمار سمجھنے لگے ہیں۔ جہاں تک میرا گمان ہے رابعہ یقیناً زندہ ہے اور صحیح سلامت ہوگی "انا کے سلاسل میں جکڑی ہوئی
گردش رنگ چمن
لب سڑک ویران پڑی ایک زمین پر دادا کے وقت کی بنی ایک انتہائی مخدوش سی کوٹھری نے اپنا وجود اب تک بچا رکھا تھا۔ کوٹھری کے سامنے ایک برآمدہ تھا عقب میں ایک کنواں تھا نہانے کے لیے ایک چبوترہ بھی بنا ہوا تھا جس کی چہار دیواری کا زیادہ تر حصہ اب گر چکا تھا۔
اذیت
یہ جون کی ایک حبس بھری رات تھی کہ اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ بارش کے قطرے کھڑکیوں پر بجنے لگے۔ ٹپ ٹپ کی آواز دل میں اِرتِعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں ایک ناول سے گھنٹوں جوجھ رہا تھا۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک بدصورت لڑکی تھی جو معاشرے کی ناانصافیوں
تہی دست
ماں نے میری پسند پر اپنا سا منھ بنا کر بارہا سمجھایا تھا بیٹا انساں عادتیں بدل سکتا ہے لیکن فطرت نہیں۔ آدمی جس فطرت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر مرتا ہے۔ ہاں عادتیں تھوڑی سی جدوجہد سے بدلی جا سکتی ہیں جو یار دوستوں کی اچھی بری صحبت سے انسان میں لگ جائے۔ ماں
لاشعوری تعصب
پھاٹک پر ایک جیپ تیزی سے آکر رکی چند طویل قامت پولیس والے اترے اور گلی میں ادھر ادھر غائب ہو گئے۔ ان کے بوٹوں کی چاپ کانوں میں دیر تک سنائی دیتی رہی۔ چند لڑکے پھاٹک کھول کر باہر آئے اور گلی میں دونوں طرف دیکھنے لگے کچھ نے کھڑکی کھول کر باہر جھانکا اور
عشق کا فریب
وہ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھی میں جیسے ہی ٹرین میں داخل ہوا ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالتے ہی اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس نے لال شلوار اور ہرے رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی جس پر زری کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ ایک کالا دوپٹہ جس کے دونوں سرے پر سنہری
قرض کا بوجھ
پردہ نشیں عالیہ نے بڑی معصومیت سے پوچھا بابا میرے جہیز کی خاطر اس طرح پریشان ہوتے ہو؟ میرے بیاہ کے انتظامات میں اس قدر مصروف ہو؟ کبھی کوئی سامان خرید کر لاتے ہو کبھی گھر کا کوئی سامان بیچتے ہو یہ کیسی مصروفیت ہے؟ کہاں سے لاؤ گے اتنے پیسے؟ کون دے گا تمہیں
آخری سفر
کالج دو ماہ کے لیے بند ہو چکا تھا کافی دنوں سے دل میں خیال پیدا ہو رہا تھا کہ گاؤں گھوم آوں؟ تبھی اچانک ماموں آ دھمکے اور امی سے گزارش کر کے مجھے رام گڑھ اپنے گھر لے آئے جو صوبہ جھارکھنڈ میں ضلع رانچی کے قریب واقع ہے۔ وہاں ماموں کا کوئلے کی کان میں کوئلہ
گردش دوراں
باتوں باتوں میں امی کہنے لگیں بڑے بھائی نواب نے چھوٹے بھائی آصف یعنی نجمہ کے والد کو آبائی مکان میں کوئی حصہ نہیں دیا۔ رات کے کھانے میں ٹیبل پر اچانک ہی کوئی بات نکل آئی تھی۔ امی بتا رہی تھیں کہ بڑے بھائی نے ابا کی بیماری میں کافی روپیہ خرچ کیا تھا لیکن
سائبان
تمہارے لیے رشید احمد صاحب کا پیغام آیا ہے خالہ نے نوشابہ کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ نوشابہ نے یہ سنتے ہی خالہ مدیحہ کو سر اٹھا کر قدرے حیرت مگر غور سے دیکھا۔ جی، کیا کہا آپ نے؟ میں یہ کہہ رہی ہوں بیٹی کہ رشید احمد صاحب تمہارے خواہاں ہیں۔
نصیبوں جلی
اس نے غصے میں کچن سے متصل کمرے کا دروازہ زور سے بند کیا اور ہر طرف پاگلوں کی طرح مٹی کا تیل تلاش کرنے لگی جو اکثر اسی کمرے کی ایک طاق میں رکھا رہتا تھا۔ لیکن آج تیل کی شیشی شاید کسی نے وہاں سے اٹھا لی تھی۔ غصہ جنون کی طرح اس کے سر پر سوار تھا۔ آج بھائی