طارق چھتاری کے مضامین
کرشن چندر کی افسانہ نگاری
ترقی پسند تحریک سے وابستہ حقیقت نگاروں میں کرشن چندر سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ معتوب افسانہ نگار ہیں۔ چوں کہ ان کی تخلیقات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انھوں نے تکنیک کے بے شمار تجربے کیے ہیں، اس لیے انھیں خالص حقیقت نگار تسلیم کرتے ہوئے ان کے فن
راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری
راجندر سنگھ بیدی کی تخلیقات کے تھیم، موضوع اور فنی اوصاف کو محسوس کرنا جتنا آسان ہے، بیان کرنا اتنا ہی مشکل۔ بیدی کے افسانوں میں شعور اور لاشعور کی حدیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ ان کے کردار دیر تک اپنے شعوری عمل کے تابع نہیں رہ پاتے، بالآخر ان کا لاشعور تمام
ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟
انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور اس کا ہر عمل کسی داخلی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کا باطن ایک مکمل کائنات کی حیثیت رکھتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرسبز زمین، نیلا آسمان، تپتے ریگستان، چاند ستارے، دریا اور پہاڑ، سوکھی جھاڑیاں، اونچے
پریم چند دور حاضر کے افسانہ نگار کی نظر سے
تخلیقی فن کار کی شخصیت اتنی الجھی ہوئی اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ کسی ایک زمانے میں اس کی تخلیقات کو جو اس کی شخصیت کا عکس ہوتی ہیں، پوری طرح سمجھ لینا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر سادہ اسلوب اختیار کرنے والے پریم چند کی تصنیفات کی بہت سی گھتیاں ہمارے ناقدین
شموئل احمد کا افسانہ ’’سنگھار دان‘‘
ہم عصر افسانہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بعض اہل دانش کے نزدیک معدوم ہو چکی ہے تو بعض اہل نظر اسے معاصر ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی سب سے زیادہ نمایاں اور متحرک تصویر تسلیم کرتے ہیں لیکن شموئل احمد کا افسانہ ’’سنگھار دان‘‘ اردو کی ان چند تخلیقات میں سے ایک
خالدہ حسین کا افسانہ ’’ہزار پایہ‘‘
(موضوع سے متعلق ایک بحث) کسی بھی ملک یا قوم میں جب سیاسی جبر و تشدد انتہا پر پہنچتا ہے تو سماج کا حساس طبقہ نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ احتجاج بھی کرتا ہے۔ احتجاج کے طریقے مخصوص تاریخی پس منظر کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ کہیں احتجاج شدید ہوتا ہے کہیں
سید محمد اشرف: ماحول اور اپنی تخلیقات کے آئینے میں
یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں فضا، یونیورسٹی کے طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، لائبریری کے سامنے وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوبصورت
منٹو کی کہانیاں: تخلیقی قوت کا توانا اظہار
سعادت حسن منٹو ایک بڑا فنکار تھا، لیکن اسے کبھی ترقی پسند کہا گیا، کبھی رجعت پسند اور کبھی جنس پرست۔ منٹو کی زندگی اور ذہنی اتار چڑھاؤ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر ان کی کہانیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود سامنے آ جاتی ہے کہ ان کی کہانیاں تخلیقی
زاہدہ حنا کا افسانہ’’کم کم بہت آرام سے ہے‘‘
زاہدہ حناپر لکھتے ہوئے احمد سلیم اردو افسانے کے متعلق فرماتے ہیں کہ، ’’گذشتہ چند برسوں سے اردو کہانی انسان اور زمین سے بچھڑ گئی ہے۔۔۔ اردو میں کہانی لکھنے والا، قومی اور بین الاقوامی شعور کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھا آدمی، انسان اوراس کے دکھ اوراس
سریندر پرکاش کا افسانہ ’’رونے کی آواز‘‘
’’رونے کی آواز‘‘ سریندر پرکاش کا ایک نمائندہ افسانہ ہے۔ جس زمانے میں یہ افسانہ لکھا گیا تھا وہ جدیدیت کے شباب کا زمانہ تھا۔ اس دورمیں ادیب سماج کی بجائے فرد اور خارجی مسائل کی جگہ داخلی مسائل پر زور دیتے تھے۔ ذات کوکئی حصوں میں تقسیم کرنے کا رویہ عام
آج کی اردو کہانی: زبان اور ساخت
اب تک اردو افسانہ انسانی زندگی کی سنگلاخ زمین پر ایک طویل سفر طے کر چکا ہے۔ اس نے کہیں رومانیت کے عالی شان خیمے لگائے، تو کہیں حقیقت نگار بن کر معاشرے کے روشن و تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ یہی نہیں اس نے بنجر زمینوں کو ہموار کرکے شاداب و سرسبز بھی بنایا
’’لکھنؤ کی پانچ راتیں‘‘ ایک رومانی اور انقلابی داستان
علی سردار جعفری اردو کے جتنے اہم شاعر ہیں اتنے ہی کامیاب نثر نگار بھی۔ ان کا ہر نثر پارہ تخلیق کا درجہ رکھتا ہے اور تخلیقی نثر بقول قاضی عبدالستار، ’’موضوع کے بیج سے درخت کی طرح پھوٹتی ہے اور شاخ پر پھول کی طرح پھولتی ہے۔ تخلیقی نثر کسی رنگ کی بھی پابند