توصیف بریلوی کے افسانے
ذہن زاد
”بیٹے قرطاس تم رو کیوں رہے ہو؟رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم خود کو تنہا نہ سمجھو۔ اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تمہارا وجود فرضی ہے تو میں تم سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وجود میرا کون سا حقیقی ہے۔ تم تو ان ڈھائی تین کروڑ سے کہیں بہتر ہو۔ ہاں۔۔۔! ڈھائی تین کروڑ
ایک چاقو کا فاصلہ
عصمت چغتائی پر صد سالہ عالمی سیمینار کا آخری دن تھا۔ آڈیٹوریم فکشن نگاروں، نقادوں، پروفیسروں، ریسرچ اسکالروں، فیمنسٹوں، کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور صحافیوں کے علاوہ دیگر دیسی اور بدیسی ادیبوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک مضمون اور خاکے پڑھے گئے،
نوز پیس
ارمان نے جب آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھاتو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی چمکدار، بڑی اور پر اثر آنکھیں تنی ہوئی ابروؤں کے نیچے روشن چراغوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔ جن میں وہ کچھ دیر کے لیے کھو گیا تھا۔ صرف آنکھیں ہی تو تھیں جنہیں ارمان دیکھ سکتا تھا کیوں