طفیل چترویدی کے اشعار
نفرتوں کا عکس بھی پڑنے نہ دینا ذہن پر
یہ اندھیرا جانے کتنوں کا اجالا کھا گیا
ہم بزرگوں کی روایت سے جڑے ہیں بھائی
نیکیاں کر کے کبھی پھل نہیں مانگا کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سفر انجام تک پہنچے تو کیسے
میں اپنے راستے میں خود کھڑا ہوں
ہر طرف پھیلا ہوا بے سمت بے منزل سفر
بھیڑ میں رہنا مگر خود کو اکیلا دیکھنا
سبھی زخموں کے ٹانکے کھل گئے ہیں
ہمیں ہنسنا بہت مہنگا پڑا ہے
کبھی زمانہ تھا اس کی طلب میں رہتے تھے
اور اب یہ حال ہے خود کو اسی سے مانگتے ہیں
وہ موسموں پر اچھالتا ہے سوال کتنے
کبھی تو یوں ہو کہ آسماں سے جواب برسے
اس کے وعدے کے عوض دے ڈالی اپنی زندگی
ایک سستی شے کا اونچے بھاؤ سودا کر لیا
ایک سائے کی طلب میں زندگی پہنچی یہاں
دور تک پھیلا ہوا ہے مجھ میں منظر دھوپ کا
یہ بپھرتی موج اندیشے سمندر اور میں
ڈوبتی سانسیں ہتھیلی پر مرا سر اور میں