عمر فاروق کے اشعار
اٹھے جو تیرے در سے تو دنیا سمٹ گئی
بیٹھے تھے تیرے در پہ زمانہ لیے ہوئے
بدن کا بوجھ اٹھانا بھی اب محال ہوا
جو خود سے ہار کے بیٹھے تو پھر یہ حال ہوا
مجھے خرید رہے ہیں مرے سبھی اپنے
میں بک تو جاؤں مگر سامنے تو آئے کوئی
مرے مالک مجھے اس خاک سے بے گھر نہ کرنا
محبت کے سفر میں چلتے چلتے تھک گیا ہوں میں
ہمیں تو ٹوٹی ہوئی کشتیاں نہیں دکھتیں
ہمارے گھر سے ہی دریا دکھائی دیتا ہے