تمام
تعارف
غزل21
نظم10
شعر559
مزاحیہ شاعری1
ای-کتاب31
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 582
قطعہ6
قصہ59
بچوں کی کہانی78
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کی بچوں کی کہانیاں
مور کی کہانی
ایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ۔ دونوں میں محبت تھی۔ دنوں کی صلاح ہوئی۔ کہ چل کر بیر کھاؤ۔ وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں۔ وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔ جب اس درخت کے قریب پہنچے۔ تو مور ار کر اس درخت پر جا بیٹھا۔ درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو آپ
چوہیا اور چڑیا کی کہانی
ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں‘‘ چوہیا نے کہا چلو دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔ چڑیا تو ارتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک
فقیر کی کہانی
ایک فقیر تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی میں رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک مینا پال کے پنجرے میں بند کر کے اپنی جھونپڑی میں لٹکا رکھی تھی۔ فقیر روز بھیک مانگنے جایا کرتا تھا۔ اس مینا نے جو اس فقیر کو بھیک مانگتے دیکھا۔ تو اس پر بھی فقیر کی صحبت کا اثر ہوا۔ اور وہ بھی
محمود اور ایاز
سلطان محمود اپنے نوکروں میں سے ایاز پر بڑا مہربان تھا۔ اس لیے تمام نوکر اسی فکر میں رہتے تھے کہ اس کی کوئی شکایت کر کے سلطان کا دل کھٹا کردیں۔ آخر بہت تلاش کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ایاز جس پلنگ پر سویا کرتا ہے۔ اس کے سرہانے چاندی کا ایک صندوق رکھا
سونے کی تین اینٹیں
ایک دن حضرت عیسیٰ کہیں جا رہے تھے۔ ساتھ ایک اور آدمی بھی ہو لیا۔ آپ نے ایک رومال میں تین روٹیاں باندھ کر اس کے حوالے کیں کہ انہیں سنبھال رکھو جہاں بھوک لگے گی مل کر کھا لیں گے۔‘‘ ساتھی کو بھوک لگی تو اس نے موقع پا کر چپکے سے ایک روٹی نکال کر کھا لی
مکھی کی کہانی
ایک مکھی بیٹھی اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئیں۔ گھر لیپتے لیپتے لیپتے جو انہیں اپنے نام کا خیال آیا۔ تو گئیں ہمسائی کے ہاں۔ ہمسائی سے جاکر کہا۔ بی ہمسائی بی ہمسائی میرا نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ بوا میں نہیں جانتی۔ میرے گھر میں جو
ہمدردی کا صلہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں میاں بیوی رہتے تھے جو بہت ہی بوڑھے تھے۔ ان کا مکان دیہات سے ذرا الگ تھلگ تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دودھ کے لیے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ضرورت کے مطابق اناج اور سبزی اگا لیتے تھے اور اپنے
طوطے مینا کی کہانی
ایک تھا طوطا اور ایک تھی مینا۔ طوطے کا گھر تو تھا نون کا اور مینا کا گھر تھا موم کا۔ ایک دن جو پڑی دھوپ۔ ایسی دھوپ پڑی۔ ایسی دھوپ پڑی۔ کہ مینا کا گھر جو تھا سو پگھل گیا۔ وہ گئیں طوطے کے پاس۔ کہ اے بھئی طوطے آج ایسی دھوپ پڑی۔ کہ میرا گھر پگھل گیا۔ اگر
لالچ بری بلا ہے
ایک فقیر نے کسی جنگل میں کوئی اتنا بڑا خزانہ دیکھ پایا تھا جس کے اٹھا لے جانے کی اس میں طاقت نہ تھی۔ تھوڑے دنوں میں ایک سوداگر کا بھی اس جنگل میں گزر ہوا جو کہیں اپنا مال بیچ کر آٹھ خالی اونٹ گھر کو واپس لیے جا رہا تھا۔ فقیر نے دیکھا تو سوداگر سے
بہلول دانا
بہلول نامی ایک بزرگ غزنی کے رہنے والے تھے۔ یہ اکثر ایسی حرکتیں اور ایسی باتیں کر دیا کرتے تھے جو بظاہر سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ بھوک لگتی تو بھری مجلس میں کچھ لے کر کھانا شروع کر دیتے۔ نیند آتی تو چاہے کوئی امیر یا غریب پاس بیٹھا ہو یہ پاؤں پھیلا کر
میرا نام کیا ہے؟
ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لئے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔ بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب
سچائی کا انجام
ایک کسان کے کھیت میں کسی امیر کے گھوڑے گھس گئے۔ جنہوں نے کچھ تو روند کر اور کچھ چر کر کھیت کا ستیاناس کر دیا۔ کسان غصے بھرا ہوا امیر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کے گھوڑوں نے میرا کھیت تباہ کر دیا ہے۔ امیر نے کہا۔ تمھارے خیال میں کتنا نقصان ہوا ہوگا؟‘‘ کسان
ٹمک ٹوں کی کہانی
اڈھاک تلے کی میں لکڑی لائی۔ لکڑی لے میں نے بڑھیا کو دی۔ بڑھیا نے مجھے آدھی روٹی دی۔ آدھی روٹی لے میں نے کمہار کو دی۔ کمار نے مجھے گھڑا دیا۔ گھڑا لے میں نے گھوسی کو دیا۔ گھوسی نے مجھے بھینس دی۔ بھینس لے میں نے دولہا کو دی۔ دلہا نے مجھے دلہن دی۔ دلہن لے
اونٹ کی کہانی
ایک اونٹ سڑک پر چلا جاتا تھا۔ ایک مینڈکی اس کے پیر تلے آ گئی۔ مینڈکی نے اونٹ سے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی نبو کچلی تھی۔ اونٹ نے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی بنو کچلی تھی۔ اونٹ نے جواب دیا۔ کہ چل موئی نکٹی چیٹی تجھے کسی نے دیکھا تھا؟
موسل کے چاول
پرانے زمانے میں کونکن دیس میں بڑے عالم رہا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہاں ودھوا راجن نامی ایک شاعر بھی رہا کرتا تھا۔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دولت مند بھی کافی تھا۔ لیکن ایک بار سیہ یادری دیس کے راجہ نے کونکن پر ایک بھاری فوج لے کر چڑھائی کر
پنجرے کی شہزادی
ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے چین پر ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ایک ہی لڑکی تھی۔ شہزادی خاور اس کا نام تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکتا دمکتا تھا۔ شہزادی کو بچپن ہی سے پھول اچھے لگتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے محل کے باغ میں
اچھے دوست
شاکر اور انور گہرے دوست تھے۔ دونوں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ ساتھ اسکول جاتے اور ساتھ واپس آتے۔ ساتھ ہی اسکول کا کام کرتے اور رات کے وقت گلی کے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے۔ شاکر کے والد شیخ صاحب اور انور کے والد ملک صاحب دونوں ان کی دوستی سے بہت
سپاہی کی کہانی
ایک سپاہی تھے۔ وہ کہیں سے چلے آتے تھے۔ رستے میں ایک آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے سوا! لمبی چوٹی برخوردار۔‘‘ ایک سندیسہ لیتے جائیو۔ اس نے دیکھا۔ تو ادھر ادھر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر اس نے گھوڑا ہانکا تو پھر اس کو یہی آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے
عقلمند بوڑھیا
دو چور ایک گھر میں گھسے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ وہ گھر ایک بوڑھیا کا تھا جس کا اس دنیا میں کوئی بھی عزیز رشتے دار نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی اور کمانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ محلے کے لوگ صبح شام اس کو کھانا دے جایا کرتے
ایک تھیلی کے چٹے بٹے
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب، دونوں کی مڈبھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوئی۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ
دیانتداری کا نتیجہ
ایک امیر کی دولت پر چند ڈاؤکوؤں نے چھاپا مارنے کی تجویزیں کیں۔ جس کا امیر کو بھی پتا چل گیا اور وہ چھ لاکھ روپیہ ایک سوداگر کے پاس رکھ کر خود کسی دوسرے شہر چلا گیا۔ سوداگر نے پہلے تو امانت رکھنے سے انکار کر دیا۔ مگر آخر اس شرط پر روپیہ رکھ لیا کہ ’’بچ
خیالی پلاؤ
شیخ چلی ایک مشہور آدمی گزرا ہے۔ جس کی بے وقوفی کی کہانیاں تم نے بھی سنی ہوں گی۔ ایک دن شیخ چلی بازار میں جا رہا تھا کہ کسی سپاہی نے تیل کا کپا خریدا اور اسے بلا کر کہا۔ ’’ارے میاں! یہ کپا اٹھا کر ہمارے گھر تک لے چلو۔ دو آنے مزدوری دیں گے۔‘‘ شیخ
لالچ کی سزا
ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اُس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا کہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی اُدھر آ نکلا اور کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رُکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘ غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب!
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ایک کسان کا بیٹا کھیل کود میں وقت کو بے فائدہ گنوایا کرتا تھا۔ باپ نے بہت سمجھایا مگر اس نے اپنی عادت نہ بدلی۔ آخر باپ نے سوچ کر یہ ترکیب نکالی کی بسنت کے دن صبح کے وقت بیٹے کو اپنے ساتھ کھیت پر لے گیا اور کہا۔ بیٹا! آج کے دن جن سب سے اچھی بالوں کے دانے
گدھا اور گھوڑا
دو شخص کسی شہر سے لاہور روانہ ہوئے جن میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا۔ اور دوسرا گدھے پر۔ گدھے والے نے کہا۔ ’’میاں سوار خاں! سفر میں دو آدمی مل کر چلیں۔ تو ایک دوسرے کی رفاقت سے بہت خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم تم ساتھی ہو جائیں تو راستہ بھی اچھا کٹے اور منزل
ہونہار بروا
پٹنہ کے قریب ایک جنگل تھا۔ اس کا نام تھا پیلی کانن۔ بہت دن ہوئے پیلی کانن میں ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کبھی اس عمارت کی شان بھی نرالی ہوگی۔ ایک روز دوپہر کے وقت چند بچے عمارت کے قریب ایک ٹیلے پر راجہ کا
اور بادشاہ سلامت پھٹ گئے
الٹانگر کے بادشاہ سلامت جب اینڈتے اکڑتے دربار میں داخل ہوئے تو نقیب نے کڑک کر کہا۔۔۔’’باادب، با ملاحظہ ہوشیار، شہنشاہ معظم۔ اعلی حضرت فرماں روائے الٹانگر تشریف لاتے۔۔۔‘‘ اور پکارنے والا ابھی پوری بات بھی نہ کہنے پایا تھا کہ بادشاہ سلامت دھڑام سے وزیر
لکشمن_ریکھا
دلی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ
غرور کا انجام
اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریب سے بات تک کرنا برا جانتا تھا۔ اس لیے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں
ملیدہ کوٹنے والی کی کہانی
ایک تھا چوہا۔ ایک تھی چوہیا۔ دونوں میں ہوئی لڑائی۔ چوہیا روٹھ راٹھ کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔ چوہے گئے کہ بی چوہیا اٹھو آٹا گوندھو۔ چوہیا نے کہا : ’’ماری کوٹی کونے لاگی‘‘ میں کیا تیرا آٹا گوندھوں گی؟ چوہا گیا آپ آٹا گوندھ آیا۔ پھر آیا کہ اٹھو بی چوہیا
گفتگو کا سلیقہ
ایک دفعہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ میرے بہت سے دانٹ ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ صبح ہوئی تو عالموں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ ایک شخص نے کہا۔ ’’آپ کے اکثر عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے۔‘‘ یہ بات ہارون رشید کو اتنی ناگوار گزری کہ اس شخص کو اسی وقت دربار
ہنر کی دولت
کسی جزیرے میں ایک امیر رہتا تھا۔ جسے شکار کا بہت شوق تھا مگر شکار کو جاتے ہوئے ایک جگہ کسی غریب ٹوکریاں بننے والے کی زمین پڑتی تھی۔ اس زمین میں نرسل اگے ہوئے تھے۔ اس کھیت کی ناہمواری اور نرسلوں میں سے گزرنے کی تکلیف امیر کو بہت ناگوار معلوم ہوتی تھی۔ ایک
چار سال کا بوڑھا
ایک دن ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھا ملا۔ جسے دیکھ کر بادشاہ نے پوچھا۔ بڑے میاں! تمھاری عمر کتنی ہو گی؟ بوڑھے نے جواب دیا۔ جہاں پناہ کی عمر اور دولت زیادہ ہو، اس گنہگار کی عمر صرف چار سال کی ہے۔ نوشیرواں نے کہا۔
بادشاہ اور غریب میں فرق
ایک بادشاہ خود تو رحم دل اور نیک مزاج تھا۔ مگر اس کا بیٹا اتنا بے رحم اور تلخ مزاج کہ جب دیکھ غصے میں تیوری چڑھائے ہوئے نوکروں کو ڈانٹتا ڈپٹتا مارتا پیٹتا ہی نظر آتا۔ بادشاہ کو یہ خبریں پہنچتیں تو بہت رنج ہوتا۔ بہتیرا اشاروں میں سمجھاتا۔ مگر بیٹے پر
دل اور زبان
کہتے ہیں جب لقمان حکیم پڑھ کر فارغ ہو چکے تو استاد نے کہا۔ ’’لقمان! آج ایک بکرا ذبح کرو اور اس میں جو سب سے اچھی چیز سمجھو، ہمارے لیے پکا لاؤ۔‘‘ لقمان نے بکرا حلال کر کے اس کے دل اور زبان کو خوب اچھے مسالوں کے ساتھ بھون بھان کر استاد کے سامنے رکھ
نیت کا پھل
پانی یوں تو سب جگہ بڑی چیز ہے مگر ریتلے گرم اور خشک علاقوں میں تو خدا کی بڑی ہی نعمت سمجھا جاتا ہے کہ وہاں نہ دریا ہیں نہ کنوئیں نہ نہریں۔ بس جہاں کہیں تالابوں، جوہڑوں میں مینہ کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ سب اسی کو دور دور بھر کر لے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک
وہ تو ہماری بھی نانی نکلی
ظفر، شوکت اور اقبال اپنے چچا سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ چھوٹی نسرین بھی توتلی زبان سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ ’’چچا ہمیں تھگوں والی کہانی سناؤ‘‘۔ ’’ہاں ہاں! ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔‘‘۔ دوسرے بھی بول پڑے اور شور مچانے لگے۔ ’’اچھا
ہاتھی کے گلے میں ڈھولک
ایک دفعہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پرخوش ہو کر روپے اور خلعت کے ساتھ اسےایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجا نے تو بڑی فیاضی دکھائی۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اسے روز دانہ چارہ کہاں سے کھلاؤں گا اور خدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ کچھ سوچنے
کام سے نہ ڈرو
ایک سوداگر کسی سفر میں جہاز پر سوار ہوا تو باتوں باتوں میں کپتان سے پوچھا۔ ’’آپ کے والد کیا کام کرتے تھے؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’مہربان! باپ پر کیا موقوف ہے۔ ہماری سات پیڑھیاں جہاز رانی ہی کرتے تھے گزر گئی ہیں۔‘‘ سوداگر نے پوچھا۔ آپ کے باپ کی قبر کہاں ہے؟‘‘ کپتان
زبان کا زخم
ایک بادشاہ کسی جنگل میں اکیلا جا رہا تھا کہ اچانک اسے شیر نے آ لیا۔ مگر اتفاق سے کوئی کسان بھی اسی وقت آ نکلا۔ جس کے ایک ہاتھ میں تو ٹیڑھی ترچھی لکڑی تھی اور دوسرے میں درانتی۔ شیر بادشاہ پر حملہ کرنے ہی کو تھا کہ کسان نے پھرتی سے ٹیڑھی لکڑی اس کے گلے
دو بھائی
دو بھائیوں کو جیب خرچ کے لیے گھر سے ایک ایک پیسہ روز مل جایا کرتا تھا۔ چھوٹے کی تو یہ عادت تھی کہ کبھی خرچ کرتا اور کبھی اس صندوق میں ڈال دیتا جو مدرسے میں غریب بچوں کی امداد کے لیے رکھا رہتا تھا۔ بڑے بھائی کی یہ حالت تھی کہ جب مدرسے میں کھیلنے کی چھٹی
استاد کی مار
ایک دن مامون رشید کی والدہ نے اس کے استاد سے کہلا بھیجا۔ ’’شہزادہ گھر میں شوخی کرتا ہے۔ اسے سزا دینی چاہیے۔‘‘ استاد نے شہزادے کے منہ پر دو چار طمانچے لگا کر کان پکڑوا دیے۔ جس سے مامون کو اتنی تکلیف ہوئی کہ بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ یہ کان پکڑے
ماں باپ کے لاڈلے
ایک دن اکبر بادشاہ روشنی جھروکے میں بیٹھے مخلوق کی آمدورفت کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ بیربل بھی حاضر تھا۔ بادشاہ نے فرمایا۔ ’’بیربل! کچھ پہچان سکتے ہو۔ ان میں سب سے زیادہ ماں باپ کے لاڈلے کون لوگ ہیں؟‘‘ آنے جانے والوں میں بعض فقیر محتاج بھیک مانگ رہے تھے
میں کیوں نہیں پڑھ سکتا؟
آج کل تو کتابیں بہت سستی مل جاتی ہیں مگر پہلے زمانے میں یہ بات نہ تھی۔ فقط بڑے بڑے گھرانوں میں کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ کیونکہ ہاتھ سے لکھے جانے کے باعث قیمتیں بہت زیادہ ہوتی تھیں۔ ایک بادشاہ کے پاس چند کتابیں پڑی تھیں۔ جن میں لکھائی کے علاوہ جگہ جگہ
عقل کی فتح
ایک غریب آدمی نے سفر پر جاتے وقت کسی ساہوکار کے پاس ایک ہزار روپیہ امانت رکھ دیا تھا مگر نہ کوئی رسید لی، نہ کسی کو گواہ کیا۔ چھ مہینے بعد غریب سفر سے واپس آیا، اور ساہوکار سے روپے مانگے تو وہ صاف مکر گیا۔ کہ میں نے تمہاری کوئی امانت نہیں رکھی۔ یہ
آج کا کام نہ رکھو کل پر
ایک دفعہ کسی گاؤں کا چودھری سودا لینے شہر میں آیا تو دیکھا، کسی جگہ لوگ ایک وکیل کی بڑی تعریف کر رہے ہیں کہ وہ تو سو سو روپے کی ایک ایک بات بتاتا اور ہزار ہزار روپے کا ایک ایک نکتہ سمجھاتا ہے۔ چودھری نے دل میں کہا۔ ’’ہم بھی چل کر اس کی کوئی بات سن
بے غرض نیکی
ایک نیک عورت کہیں گاڑی میں سوار جا رہی تھی کہ اسے سڑک پر چھوٹی عمر کا ایک لڑکا نظر آیا، جو ننگے پاؤں چلا جا رہا تھا اور بہت تھکا ہوا معلوم ہوتا تھا یہ دیکھ کر نیک عورت نے کوچوان سے کہا ’’غریب لڑکے کو گاڑی میں بٹھا لو۔ اس کا کرایہ میں ادا کردوں گی۔‘‘ اس
بڑھیا کا جھونپڑا
کہتے ہیں۔ نوشیران نے شاہی محل بنوانا چاہا تو اس کے چوکور بنانے کے لیے ایک طرف کسی قدر زمین کی ضرورت تھی۔ جس پر ایک غریب بڑھیا کا جھونپڑا بنا ہوا تھا۔ سرکاری ملازموں نے بڑھیا سے زمین خریدنی چاہی تو اس نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ نوشیرواں نے سنا تو فرمایا۔