تمام
تعارف
غزل21
نظم10
شعر561
مزاحیہ شاعری1
ای-کتاب32
تصویری شاعری 30
آڈیو 1
ویڈیو 631
قطعہ6
قصہ59
بچوں کی کہانی78
لوری1
گیت2
پہیلی37
نامعلوم کی بچوں کی کہانیاں
چوہیا اور چڑیا کی کہانی
ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں‘‘ چوہیا نے کہا چلو دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔ چڑیا تو ارتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک
فقیر کی کہانی
ایک فقیر تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی میں رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک مینا پال کے پنجرے میں بند کر کے اپنی جھونپڑی میں لٹکا رکھی تھی۔ فقیر روز بھیک مانگنے جایا کرتا تھا۔ اس مینا نے جو اس فقیر کو بھیک مانگتے دیکھا۔ تو اس پر بھی فقیر کی صحبت کا اثر ہوا۔ اور وہ بھی
مور کی کہانی
ایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ۔ دونوں میں محبت تھی۔ دنوں کی صلاح ہوئی۔ کہ چل کر بیر کھاؤ۔ وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں۔ وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔ جب اس درخت کے قریب پہنچے۔ تو مور ار کر اس درخت پر جا بیٹھا۔ درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو آپ
مکھی کی کہانی
ایک مکھی بیٹھی اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئیں۔ گھر لیپتے لیپتے لیپتے جو انہیں اپنے نام کا خیال آیا۔ تو گئیں ہمسائی کے ہاں۔ ہمسائی سے جاکر کہا۔ بی ہمسائی بی ہمسائی میرا نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ بوا میں نہیں جانتی۔ میرے گھر میں جو
موسل کے چاول
پرانے زمانے میں کونکن دیس میں بڑے عالم رہا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہاں ودھوا راجن نامی ایک شاعر بھی رہا کرتا تھا۔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دولت مند بھی کافی تھا۔ لیکن ایک بار سیہ یادری دیس کے راجہ نے کونکن پر ایک بھاری فوج لے کر چڑھائی کر
ٹمک ٹوں کی کہانی
اڈھاک تلے کی میں لکڑی لائی۔ لکڑی لے میں نے بڑھیا کو دی۔ بڑھیا نے مجھے آدھی روٹی دی۔ آدھی روٹی لے میں نے کمہار کو دی۔ کمار نے مجھے گھڑا دیا۔ گھڑا لے میں نے گھوسی کو دیا۔ گھوسی نے مجھے بھینس دی۔ بھینس لے میں نے دولہا کو دی۔ دلہا نے مجھے دلہن دی۔ دلہن لے
سپاہی کی کہانی
ایک سپاہی تھے۔ وہ کہیں سے چلے آتے تھے۔ رستے میں ایک آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے سوا! لمبی چوٹی برخوردار۔‘‘ ایک سندیسہ لیتے جائیو۔ اس نے دیکھا۔ تو ادھر ادھر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر اس نے گھوڑا ہانکا تو پھر اس کو یہی آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے
طوطے مینا کی کہانی
ایک تھا طوطا اور ایک تھی مینا۔ طوطے کا گھر تو تھا نون کا اور مینا کا گھر تھا موم کا۔ ایک دن جو پڑی دھوپ۔ ایسی دھوپ پڑی۔ ایسی دھوپ پڑی۔ کہ مینا کا گھر جو تھا سو پگھل گیا۔ وہ گئیں طوطے کے پاس۔ کہ اے بھئی طوطے آج ایسی دھوپ پڑی۔ کہ میرا گھر پگھل گیا۔ اگر
لکشمن_ریکھا
دلی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ
میرا نام کیا ہے؟
ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لئے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔ بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب
ملیدہ کوٹنے والی کی کہانی
ایک تھا چوہا۔ ایک تھی چوہیا۔ دونوں میں ہوئی لڑائی۔ چوہیا روٹھ راٹھ کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔ چوہے گئے کہ بی چوہیا اٹھو آٹا گوندھو۔ چوہیا نے کہا : ’’ماری کوٹی کونے لاگی‘‘ میں کیا تیرا آٹا گوندھوں گی؟ چوہا گیا آپ آٹا گوندھ آیا۔ پھر آیا کہ اٹھو بی چوہیا
ہونہار بروا
پٹنہ کے قریب ایک جنگل تھا۔ اس کا نام تھا پیلی کانن۔ بہت دن ہوئے پیلی کانن میں ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کبھی اس عمارت کی شان بھی نرالی ہوگی۔ ایک روز دوپہر کے وقت چند بچے عمارت کے قریب ایک ٹیلے پر راجہ کا
اونٹ کی کہانی
ایک اونٹ سڑک پر چلا جاتا تھا۔ ایک مینڈکی اس کے پیر تلے آ گئی۔ مینڈکی نے اونٹ سے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی نبو کچلی تھی۔ اونٹ نے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی بنو کچلی تھی۔ اونٹ نے جواب دیا۔ کہ چل موئی نکٹی چیٹی تجھے کسی نے دیکھا تھا؟
عقلمند بوڑھیا
دو چور ایک گھر میں گھسے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ وہ گھر ایک بوڑھیا کا تھا جس کا اس دنیا میں کوئی بھی عزیز رشتے دار نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی اور کمانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ محلے کے لوگ صبح شام اس کو کھانا دے جایا کرتے
اور بادشاہ سلامت پھٹ گئے
الٹانگر کے بادشاہ سلامت جب اینڈتے اکڑتے دربار میں داخل ہوئے تو نقیب نے کڑک کر کہا۔۔۔’’باادب، با ملاحظہ ہوشیار، شہنشاہ معظم۔ اعلی حضرت فرماں روائے الٹانگر تشریف لاتے۔۔۔‘‘ اور پکارنے والا ابھی پوری بات بھی نہ کہنے پایا تھا کہ بادشاہ سلامت دھڑام سے وزیر
اچھے دوست
شاکر اور انور گہرے دوست تھے۔ دونوں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ ساتھ اسکول جاتے اور ساتھ واپس آتے۔ ساتھ ہی اسکول کا کام کرتے اور رات کے وقت گلی کے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے۔ شاکر کے والد شیخ صاحب اور انور کے والد ملک صاحب دونوں ان کی دوستی سے بہت
وہ تو ہماری بھی نانی نکلی
ظفر، شوکت اور اقبال اپنے چچا سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ چھوٹی نسرین بھی توتلی زبان سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔ ’’چچا ہمیں تھگوں والی کہانی سناؤ‘‘۔ ’’ہاں ہاں! ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی۔‘‘۔ دوسرے بھی بول پڑے اور شور مچانے لگے۔ ’’اچھا
کھلونوں کی شکایت
’’یا اللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘ نوری نے آزردگی سے سوچا، اس کو گندا رہنا سخت ناپسند تھا۔ ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوبصورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن
ایک تھیلی کے چٹے بٹے
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب، دونوں کی مڈبھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوئی۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ
وفادار گیند
طہٰ میاں کی سالگرہ آئی اور ڈھیر سارے تحفے ساتھ لائی۔ خود بخود گھومنے والی اور سائرن بجانے والی کار، ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتی، ایک چھوٹا سا بٹوے کی شکل کا ٹیلی ویژن جو جیب میں رکھا جا سکتا تھا۔ چھوٹا سا کیمرہ اور دوربین، چھوٹی سی چھرے والی بندوق
ہاتھی کے گلے میں ڈھولک
ایک دفعہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پرخوش ہو کر روپے اور خلعت کے ساتھ اسےایک ہاتھی بھی بخش دیا۔ مہاراجا نے تو بڑی فیاضی دکھائی۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اسے روز دانہ چارہ کہاں سے کھلاؤں گا اور خدمت کے لیے نوکر کہاں سے لاؤں گا۔ کچھ سوچنے
پنجرے کی شہزادی
ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے چین پر ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ایک ہی لڑکی تھی۔ شہزادی خاور اس کا نام تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکتا دمکتا تھا۔ شہزادی کو بچپن ہی سے پھول اچھے لگتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے محل کے باغ میں
سونے کی تین اینٹیں
ایک دن حضرت عیسیٰ کہیں جا رہے تھے۔ ساتھ ایک اور آدمی بھی ہو لیا۔ آپ نے ایک رومال میں تین روٹیاں باندھ کر اس کے حوالے کیں کہ انہیں سنبھال رکھو جہاں بھوک لگے گی مل کر کھا لیں گے۔‘‘ ساتھی کو بھوک لگی تو اس نے موقع پا کر چپکے سے ایک روٹی نکال کر کھا لی
غرور کا انجام
اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریب سے بات تک کرنا برا جانتا تھا۔ اس لیے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں
اوئے چوہا!
مسٹر چوہے خاں روز لوگوں سے بھری ہوئی بس کو سڑک پر فراٹے بھرتے دیکھتے ان کا بھی جی چاہتا کہ وہ بس کی سیر کریں۔ لیکن چھوٹے پاؤں ہونے کی وجہ سے اتنی لمبی چھلانگ نہ لگا سکتے تھے کہ پائیدان پر جا چڑھیں۔ سردیوں کے دن تھے۔ چوہے خاں سڑک پر بیٹھے دھوپ سینک
گھاس کی شکایت
راجاوکرمادتیہ بھارت کے مشہور راجا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ راجا کو بھگوان نے وہ طاقت دی تھی کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کا پتہ چلا لیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے دربار میں کہا کہ وہ جنگل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ا کی حکومت میں جانوروں اور
ہمدردی کا صلہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں میاں بیوی رہتے تھے جو بہت ہی بوڑھے تھے۔ ان کا مکان دیہات سے ذرا الگ تھلگ تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دودھ کے لیے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ضرورت کے مطابق اناج اور سبزی اگا لیتے تھے اور اپنے
دل اور زبان
کہتے ہیں جب لقمان حکیم پڑھ کر فارغ ہو چکے تو استاد نے کہا۔ ’’لقمان! آج ایک بکرا ذبح کرو اور اس میں جو سب سے اچھی چیز سمجھو، ہمارے لیے پکا لاؤ۔‘‘ لقمان نے بکرا حلال کر کے اس کے دل اور زبان کو خوب اچھے مسالوں کے ساتھ بھون بھان کر استاد کے سامنے رکھ
ہنر کی دولت
کسی جزیرے میں ایک امیر رہتا تھا۔ جسے شکار کا بہت شوق تھا مگر شکار کو جاتے ہوئے ایک جگہ کسی غریب ٹوکریاں بننے والے کی زمین پڑتی تھی۔ اس زمین میں نرسل اگے ہوئے تھے۔ اس کھیت کی ناہمواری اور نرسلوں میں سے گزرنے کی تکلیف امیر کو بہت ناگوار معلوم ہوتی تھی۔ ایک
گفتگو کا سلیقہ
ایک دفعہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ میرے بہت سے دانٹ ٹوٹ کر گر پڑے ہیں۔ صبح ہوئی تو عالموں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ ایک شخص نے کہا۔ ’’آپ کے اکثر عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے۔‘‘ یہ بات ہارون رشید کو اتنی ناگوار گزری کہ اس شخص کو اسی وقت دربار
صبر اور دیانتداری
ایک دفعہ قحط کے زمانے میں کسی قصبے کا رئیس ہر روز صبح کو سو دو سو روٹیاں پکوا کر سامنے رکھ لیا کرتا۔ گاؤں کے بچے جمع ہو جاتے اور اپنے ہاتھ سے ایک ایک روٹی اٹھا کر چل دیتے۔ ان میں سے اکثر لڑکے اتنی جلدی کرتے کہ کسی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتے اور کسی کے
اچھا لباس اور اچھا شکار
ایک شہزادے کو اچھی پوشاک پہننے کا اتنا شوق تھا کہ ہر روز قسم قسم کے لباس بنواتا اور طرح طرح کی پوشاکیں پہنے ہر وقت سیر و شکار میں لگا رہتا۔ ایک دن باپ نے فرمایا۔ ’’بیٹا! تم شہزادے ہو۔ تمہیں ایسا لباس پہننا چاہیے جو دوسروں کو نہ مل سکے۔ یہ قیمتی کپڑے
لالچ کی سزا
ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اُس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا کہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی اُدھر آ نکلا اور کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رُکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘ غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب!
سچائی کا انجام
ایک کسان کے کھیت میں کسی امیر کے گھوڑے گھس گئے۔ جنہوں نے کچھ تو روند کر اور کچھ چر کر کھیت کا ستیاناس کر دیا۔ کسان غصے بھرا ہوا امیر کے پاس گیا اور کہا کہ آپ کے گھوڑوں نے میرا کھیت تباہ کر دیا ہے۔ امیر نے کہا۔ تمھارے خیال میں کتنا نقصان ہوا ہوگا؟‘‘ کسان
چار سال کا بوڑھا
ایک دن ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھا ملا۔ جسے دیکھ کر بادشاہ نے پوچھا۔ بڑے میاں! تمھاری عمر کتنی ہو گی؟ بوڑھے نے جواب دیا۔ جہاں پناہ کی عمر اور دولت زیادہ ہو، اس گنہگار کی عمر صرف چار سال کی ہے۔ نوشیرواں نے کہا۔
دو بھائی
دو بھائیوں کو جیب خرچ کے لیے گھر سے ایک ایک پیسہ روز مل جایا کرتا تھا۔ چھوٹے کی تو یہ عادت تھی کہ کبھی خرچ کرتا اور کبھی اس صندوق میں ڈال دیتا جو مدرسے میں غریب بچوں کی امداد کے لیے رکھا رہتا تھا۔ بڑے بھائی کی یہ حالت تھی کہ جب مدرسے میں کھیلنے کی چھٹی
محمود اور ایاز
سلطان محمود اپنے نوکروں میں سے ایاز پر بڑا مہربان تھا۔ اس لیے تمام نوکر اسی فکر میں رہتے تھے کہ اس کی کوئی شکایت کر کے سلطان کا دل کھٹا کردیں۔ آخر بہت تلاش کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ایاز جس پلنگ پر سویا کرتا ہے۔ اس کے سرہانے چاندی کا ایک صندوق رکھا
بہلول دانا
بہلول نامی ایک بزرگ غزنی کے رہنے والے تھے۔ یہ اکثر ایسی حرکتیں اور ایسی باتیں کر دیا کرتے تھے جو بظاہر سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ بھوک لگتی تو بھری مجلس میں کچھ لے کر کھانا شروع کر دیتے۔ نیند آتی تو چاہے کوئی امیر یا غریب پاس بیٹھا ہو یہ پاؤں پھیلا کر
کام بڑا کہ نام
ایک رات کسی بڑے طاقتور چور نے رسم کے اصطبل سے اس کا گھورا چرا لیا۔ اگرچہ رسم اس وقت جاگ رہا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ میرے منہ زور گھوڑے پر کوئی سوار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے چپکا تماشا دیکھتا رہا۔ لیکن جب چور سوار ہو کر اسے باہر لے گیا تو رستم خاموش نہ
میں کیوں نہیں پڑھ سکتا؟
آج کل تو کتابیں بہت سستی مل جاتی ہیں مگر پہلے زمانے میں یہ بات نہ تھی۔ فقط بڑے بڑے گھرانوں میں کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ کیونکہ ہاتھ سے لکھے جانے کے باعث قیمتیں بہت زیادہ ہوتی تھیں۔ ایک بادشاہ کے پاس چند کتابیں پڑی تھیں۔ جن میں لکھائی کے علاوہ جگہ جگہ
دیانتداری
کہتے ہیں۔ نوشیروان عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات وہ کسی زمیندار کے گھر پہنچا جو مہمان نوازی میں بہت مشہور تھا۔ نوشیرواں نے سوداگروں کے لباس میں اس کے گھر جا کر دستک دی۔ تو شریف زمیندار خوشی کے ساتھ دروازہ کھول کر
کچھ دے دیں گے
ایک مسافر نے کسی شہر کی سرائے میں اتر کر سرائے والے سے کہا کوئی نائی بلوا دو تو میں خط بنوا لوں۔ سرائے والے نے ایک نائی کو بلایا۔ نائی نے حجامت بنانے سے پہلے مسافر سے پوچھا ’’حضور! مزدوری کیا ملے گی؟‘‘ مسافر نے کہا۔ ’’ارے پوچھتا کیا ہے۔ کچھ دے دیں
بادشاہ اور غریب میں فرق
ایک بادشاہ خود تو رحم دل اور نیک مزاج تھا۔ مگر اس کا بیٹا اتنا بے رحم اور تلخ مزاج کہ جب دیکھ غصے میں تیوری چڑھائے ہوئے نوکروں کو ڈانٹتا ڈپٹتا مارتا پیٹتا ہی نظر آتا۔ بادشاہ کو یہ خبریں پہنچتیں تو بہت رنج ہوتا۔ بہتیرا اشاروں میں سمجھاتا۔ مگر بیٹے پر
زبان کا زخم
ایک بادشاہ کسی جنگل میں اکیلا جا رہا تھا کہ اچانک اسے شیر نے آ لیا۔ مگر اتفاق سے کوئی کسان بھی اسی وقت آ نکلا۔ جس کے ایک ہاتھ میں تو ٹیڑھی ترچھی لکڑی تھی اور دوسرے میں درانتی۔ شیر بادشاہ پر حملہ کرنے ہی کو تھا کہ کسان نے پھرتی سے ٹیڑھی لکڑی اس کے گلے
بردباری کا نتیجہ
ایک محلے میں دو ہمسائے پاس پاس رہتے تھے۔ ایک بڑا لڑاکا تھا اور دوسرا دھیما اور دانا۔ دانا کے یہاں کچھ مرغیاں پلی ہوئی تھیں مگر اس بات کا وہ ہمیشہ خیال رکھتا۔ کہ ہمسایوں کو تکلیف نہ ہو۔ باہر جاتے وقت مرغیوں کو دانہ پانی دے کر بند کر جاتا اور جب گھر آتا
ایک بھوکا لکھ پتی
واٹسن نامی ایک لکھ پتی سوداگر ایک دن صبح کے وقت کہیں جانے کو تیار تھا۔ نوکر ناشتے کی میز لگائے منتظر کھڑے تھے کہ اتنے میں ایک بھوکے بوڑھے نے آ کر سوال کیا۔ ’’سوداگر صاحب! میں تین دن سے بھوکا ہوں۔ کچھ کھانا ہو تو خدا کی راہ میں دلوا دو تاکہ میں بھی پیٹ
بڑھیا کا جھونپڑا
کہتے ہیں۔ نوشیران نے شاہی محل بنوانا چاہا تو اس کے چوکور بنانے کے لیے ایک طرف کسی قدر زمین کی ضرورت تھی۔ جس پر ایک غریب بڑھیا کا جھونپڑا بنا ہوا تھا۔ سرکاری ملازموں نے بڑھیا سے زمین خریدنی چاہی تو اس نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ نوشیرواں نے سنا تو فرمایا۔
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ایک کسان کا بیٹا کھیل کود میں وقت کو بے فائدہ گنوایا کرتا تھا۔ باپ نے بہت سمجھایا مگر اس نے اپنی عادت نہ بدلی۔ آخر باپ نے سوچ کر یہ ترکیب نکالی کی بسنت کے دن صبح کے وقت بیٹے کو اپنے ساتھ کھیت پر لے گیا اور کہا۔ بیٹا! آج کے دن جن سب سے اچھی بالوں کے دانے