وزیر آغا کے مضامین
جدیدیت اور مابعد جدیدیت
پچھلے دنوں اردواکادمی دہلی کے زیراہتمام مابعدجدیدیت کے موضوع پر ایک سمینار منعقد ہوا۔ اس قومی سمینار میں بھارت کے کونے کونے سے اردو کے ناقدین، شعراء اور کہانی کاروں نے بھرپورحصہ لیا اور مابعدجدیدیت یعنی Post Modernism کے اوصاف کی نشاندہی کرنے کے علاوہ
انشائیہ کیا ہے؟
انشائیہ کیا ہے۔ بادی النظر میں انشائیہ یا ایسّے کی حدود کومتعین کرنا ایک خاصا کٹھن کام ہے کیونکہ نہ صرف تاریخی اعتبار سے انشائیہ کے مفہوم اور ہیئت میں کئی ایک انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں بلکہ ہرانشائیہ کیا بلحاظ مواد اور کیا بہ لحاظ تکنیک ایک
اردو افسانے کے تین دور
اردو افسانے کے ہر دور میں دیکھنے کے دوزاویے مسلم اور مقبول رہے ہیں۔ ان میں سے ایک زاویہ توارضی رجحان کا علم بردار ہے اوراس کے تحت افسانہ نگار نے زندگی کے مظاہر کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ یوں کہ مظاہر کا کھردراپن سب سے پہلے اس کے شعور کی گرفت میں آیا
اردو غزل میں محبوب کا تصور
ہیئت اور موضوع سے قطع نظر، نظم اور غزل میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جہاں نظم میں محبوب کی شخصیت انفرادیت کی حامل ہے وہاں غزل میں وہ بعض عمومی صفات سے ہم آہنگ ہوکر ایک مثالی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں نظم گوشاعر کی محبوبہ ایک ایسی گوشت پوست
بیسویں صدی کی ادبی تحریکیں
بیسویں صدی کے طلوع سے پہلے سرسیداحمدخا ں کی تحریک نے ایک ثانوی ادبی تحریک کو بھی جنم دیا جس کے ساتھ مولانا حالی، شبلی، محمدحسین آزاد، اسمٰعیل میرٹھی، نذیراحمد اور بعض دوسرے اکابرین کے نام وابستہ تھے۔ اس تحریک کو اصلاحی تحریک کا نام بھی دیا جاسکتا ہے
اردو کا تہذیبی پس منظر
اردوزبان کی ابتدا کے بارے میں آج تک جو نظریات پیش ہوئے ہیں ان میں مقبول ترین یہ ہے کہ اردو ترکی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے لشکر اور اردووہ زبان ہے جو مغلیہ دور میں لشکر کی زبان تھی۔ مراد یہ کہ چونکہ یہ لشکر برصغیر ہند و پاک کے مختلف علاقوں سے آئے
اردو اور پنجابی کا باہمی رشتہ
اردوزبان اور اس کے ادب سے پنجابی زبان اور اس کے ادب کا وہی رشتہ ہے جو دریائے سندھ سے پنجاب کے ان پانچ دریاؤں کا ہے جو پنچندے کے مقام پر ایک ہی دھارے میں منتقل ہوکر بالآخر دریائے سندھ میں جاگرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح پنجاب پانچ دریاؤں کی
اقبال کا تصور عشق!
’’ایک شب پروانے ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ اپنے دلوں میں شمع سے ہم کنار ہونے کی آرزو لئے ہوئے۔ تب ان میں سے ایک پروانہ شمع کی تلاش میں اڑا۔ اس نے دورسے شمع کو جلتے ہوئے ایک نظر دیکھا۔ واپس آیا اور پھر دوسرے پروانوں کے سامنے شمع کے بارے میں بڑی دانشمندی سے
غالب کا ایک شعر
غالب کا ایک شعر ہے، آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے غالب کے اس شعر میں تخلیقی عمل کے جن مراحل کا دکر ہوا ہے ان میں بالترتیب غیب، مضمون، خیال، آواز اور خامہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ غیب وہ منطقہ ہے جس میں زماں اور مکاں
حقیقت اور فکشن
حقیقت کیا ہے؟ اورفکشن کیا ہے؟ ان سوالات پرانسان ہمیشہ سے غور کرتا آیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’حقیقت‘‘ وہ ہے جس کا حواس خمسہ کے ذریعے ادراک ہوتا ہے، بعض دوسروں کا خیال ہے کہ ہمارے حواس خمسہ حقیقت کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، وہ بالعموم غلط یا ناقص
ثقافت، ادب اور جمہوریت
ثقافت یعنی کلچر اور فطرت یعنی نیچرکی آویزش اور انسلاک ہمیشہ سے نہیں ہے۔ ثقافت کا سلسلہ آج سے محض چند ہزار سال پہلے شروع ہوا جب کہ نیچر کا عمل دخل قرنوں سے ہے۔ اس کرۂ ارض پر نیچر کا ایک اہم علامتی مظہر جنگل ہے جو ترتیب، سمت اور تاریخ کی کارفرمائی سے
غزل اور جدید اردو غزل
آج سے کم وبیش ۳۳ برس قبل جب میں نے ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ لکھی تواس میں ایک پورا باب غزل کے مزاج کو دریافت کرنے کے لیے مختص کیا۔ ’’گیت، غزل اور نظم‘‘ کی مثلث میں مجھے غزل کا ایک ایسا مقام دکھائی دیا جو گیت کی بت پرستی اور نظم کی بت شکنی کے عین درمیان
کلچر کا مسئلہ
پچھلے بیس برس میں کلچر کے مسئلہ پر ہمارے ہاں بہت سے اصحاب نے اظہارخیال کیا ہے اورکبھی کبھی تونوبت تلخ وترش تبادلہ خیالات تک بھی جاپہنچی ہے۔ لیکن تاحال کلچر اوراس کے مقتضیات کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں، جذباتیت اپنے عروج پر ہے اور ’’کیاہے؟‘‘
منٹو کے افسانوں میں عورت!
میرے کے بہتر نشتروں کا ذکر بہت سنا ہے مگر کتنے لوگ ان نشتروں کی نشاندہی کے معاملے میں ہم خیال ہیں؟ بہت کم؟ وجہ یہ کہ میر کے ہر قاری نے اپنے طورپر بہتر نشتروں کی ایک فہرست مرتب کر رکھی ہے۔ یہی ایک بڑے تخلیق کار کا امتیازی وصف ہے کہ اسے محض ایک یا چند
تخلیقی عمل اور اس کی ساخت
ہرتخلیق کار جب وہ تحقیقی عمل میں مبتلا ہوتا ہے تواپنی طبع اور مزاج کے مطابق بعض رسوم یا Rituals سے گزرتا ہے۔ مثلاً ایک نوبل انعام پانے والے مصنف کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اسے کچھ کہنے کی طلب ہوتی تھی تو وہ اپنی ایک خاص ٹوپی پہن لیتا تھا جسے وہ سوچنے
معنی اور تناظر
فن کا طرہ امتیاز ہے۔۔۔ قوس! اور غیر فن کا۔۔۔ لکیر! اور قوس اور لکیر کا یہی فرق شعر کو نثر سے جدا بھی کرتا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ہر شعر واقعی شعر ہوتا ہے اورکیا ہر نثرپارہ فن کے دائرے میں لازمی طورپر خارج متصور ہوسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ شعر یا نثر
ولی کی غزل
ولیؔ کی غزل کا امتیازی وصف بت پرستی اور سراپا نگاری کا وہ رجحان ہے جسے بعض نقادوں نے ولیؔ کے رجحان جمال پرستی کا نام دیا ہے لیکن کوئی بھی رجحان محض شخصیت کے بے محابا اظہار کی صورت نہیں ہوتا بلکہ اس کی تشکیل اور ترتیب میں روایت اور ماحول کے جملہ عناصر
کلچر ہیرو کی کہانی
اساطیر میں کلچر ہیرو کی اہمیت قریب قریب وہی ہے جو ٹوٹم قبیلے میں ٹوٹم کی ہوتی ہے۔ ٹوٹم قبیلہ ٹوٹم کو اپنا جدامجد سمجھتا ہے، جوایک رکھوالے کی طرح ٹوٹم قبیلے کے سب افراد کی جان اورمال کی حفاظت کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ٹوٹم قبیلہ اپنے ٹوٹم سے قوت حاصل
آشوب آگہی
انسان کے ہاں آگہی کی ابتدا کب ہوئی؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب مہیا کرنا مشکل ہے۔ خودعلم الانسان بھی قیاسیات سے آگے نہیں جاسکا۔ البتہ اگر یہ خیال ملحوظ رہے کہ انسان اپنی حیات مختصر میں زندگی کی پوری داستان کو دہرا دیتا ہے توپھر آگہی کے نمود کے واقعہ
اقبال: جدید اردو نظم کا پیش رو
آج سے تیس پینتیس برس پہلے جدیداردونظم ایک شجرممنوعہ کا درجہ رکھتی تھی اور ہمارے ثقہ بزرگ اور شاعری کے قدیم رنگ کے رسیا حضرات اس سے پوری طرح بدکتے تھے۔ چنانچہ وہ راشدؔ، میراجی، فیض اور ان سے متاثر ہونے والوں کی شاعری کو بے راہ روی، تھوڑا تھوڑا الحاد
حسرت موہانی کا کاروبار عشق
داغؔ اورحسرتؔ کے عشق کا فرق زیادہ تر محبوب کے سلسلے میں سامنے آتا ہے۔ داغؔ کا محبوب طوائف ہے لہٰذا محبت کی ساری داستان ہی تصنع آمیز ہے۔ یہ تصنع محبوب کے رویے ہی سے نہیں خودعاشق کے رویے سے بھی مترشح ہے کیونکہ طوائف کی طرح طوائف کے عاشق کی محبت بھی چھیڑچھاڑ،