یوسف ناظم کے طنز و مزاح
نتیجہ غالب شناسی کا
مرزا غالب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی دانشمند اور دور اندیش آدمی تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کے وطن میں ان کا کلام سخن فہموں کے ہاتھوں سے نکل کر ہم جیسے طرف داروں کے ہاتھ پڑجائے گا اس لیے انہوں نے باکمال
مشاعروں میں ہوٹنگ کے فوائد
مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ہر مشاعرہ کامیاب نہیں ہوتا اور صرف کامیابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونا چاہئے۔ ایسی ہی کامیابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کامیابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو
ہم بھی شوہر ہیں
آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ اچھا بھلا آدمی دیکھتے دیکھتے شوہر بن جاتا ہے۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہوتے ہیں اور اس معاملے میں سب کی قسمت تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ شوہر کی لکیر سب کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہاتھ کی لکیروں میں یہی ایک لکیر ہوتی ہے جس سے سب فقیر
کرکٹ سیزن
حال حال تک یعنی کوئی دوچار سو سال پہلے تک دنیا میں صرف تین موسم استعمال کئے جاتے تھے یعنی سرما، گرمی اور بارش۔ اور دیکھا جائے تو یہ تین موسم ہماری ضروریات کے لیے کافی سے زیادہ تھے لیکن کچھ ملکوں میں وہاں کی حکومتوں نے عوام کی سہولت کی خاطر اپنی برتری
شادی خانہ آبادی
کہا جاتا ہے کہ حقیقی خوشی کا اندازہ شادی کے بعد ہی ہوتا ہے لیکن اب کچھ نہیں کہا جاسکتا جو چیز ہاتھ سے نکل گئی، نکل گئی۔ شادی نہ کر کے پچھتانے میں نقصان یہ ہے کہ آدمی تنہا پچھتاتا ہے۔ شادی کرکے پچھتانے میں فائدہ یہ ہے کہ اس میں ایک رفیق کار ساتھ ہوتا
عید کا چاند اور مبادیات عید
یوں تو ہرمہینے نیا چاند نکلا ہی کرتا ہے لیکن ان چاندوں میں وہ بات نہیں ہوتی جو عید کے چاند میں ہوا کرتی ہے۔ عید کا چاند نظام شمسی میں چیف گیسٹ کی حیثیت کا چاند ہوا کرتا ہے۔ عید کا چاند بڑی محنت سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ اپنی نازکی اور باریکی کے
انتساب
ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔ انتساب نہ تو کوئی صنف ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز
نئے سال کی آمد پر
ہر نیا سال اپنے وقت کا پابند ہوتا ہے اور اس مہمان کی طرح ہوتا ہے جو بالکل ٹھیک وقت پر معینہ دنوں کے لیے آتا ہے اورخاموشی سے چلا جاتا ہے۔ اس کے آنے اور جانےکونظام ِشمسی بھی نہیں روک سکتا۔ نئے سال اور موسم میں یہی فرق ہوتا ہے۔ ہم نے حساب کیا تو یہ
مرغ و ماہی
آدمی کا پیٹ، آدمی کے جسم کا سب سےطاقتورحصہ ہے۔ آدمی کا دل ودماغ اس کی گویائی اورسماعت اوراس کا ضمیر سب پیٹ کی رعیت ہیں۔ دنیا کے آدھے سے زیادہ جرائم کی بنیاد یہی پیٹ ہے۔ فلسفہ اورمنطق جیسےعلوم کےعلاوہ ادب اور شاعری بھی درد ِشکم ہی کی پیداوار ہے۔
پانچ بیچارے
اردوغزل میں کوئی آٹھ کردارہوتے ہیں۔ یہ سب موقع موقع سے اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین کردارمرکزی، مقوّی اور مفید کہلائے جاسکتے ہیں۔ یہ تینوں غزل کو جسم و جان بخشتے ہیں۔ (جاں بخشی نہیں کرتے) اپنی افادیت اوراپنے صفات کےلحاظ سے ان میں معشوق
وجود زن سے ہے
کہا جاتا ہے ہماری دنیا میں جتنا بھی رنگ و روغن ہے وہ صرف عورت کے وجود کی بناء پر ہے۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے، مردوں کی یہ حیثیت نہیں کہ وہ تصویر کائنات میں اپنی طرف سے کوئی رنگ بھر سکیں۔ زندگی بھر خود ان کا رنگ اُڑا اُڑا سا رہتا ہے تو وہ غریب کہاں سے یہ
ذرا مسکرائیے
چاہے وہ جلسہ ہو یا مشاعرہ، قوالی کی محفل ہو یا کوئی سرکاری تقریب، کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا ایوان، ایسی تمام جگہوں پر دعوت اور ٹکٹ کے بغیر داخل ہو جانے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ گلے میں ایک ناکارہ کیمرہ لٹکا لیا جائے۔ کیمرہ لٹکا رہے تو گردن بھی سیدھی
رموز شکم پروری
ایک اچھی توند جس کی دیکھ بھال بھی مقبول طریقے پر کی گئی ہو، عمدہ صحت کی نشانی ہے۔ یہ اگر قدرت سے نصیب ہوتا ہے تو کیا کہنے ورنہ آدمی خود بھی توجہ کرے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ ایک مناسب توند کا مالک نہ بن سکے، بس تھوڑی سی محنت درکار ہے۔ باڈی بلڈنگ کے
نوکری کی تلاش میں
دنیا میں دیکھا جائے تو کام ہی کام پڑا ہوا ہے اور اتنی کثیر تعداد میں پڑا ہوا ہے کہ اگر دنیا کی موجودہ آبادی میں مزید اتنی ہی آبادی کا اضافہ، آئینِ فطرت اور قانونِ قدرت کی مدد سے ہو جائے تب بھی کارِ دنیا ختم ہونے میں نہ آئے۔ دنیا اسی لئے اب تک نامکمل
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اب تو خیر حالات اچھے ہیں اور پوری دنیا میں امن وامان کا دور دورہ ہے ورنہ اس دُنیا میں ایک زمانے میں ایسا کڑا وقت بھی آچکا ہے جب سبھی لوگ سچ بولنے لگے تھے۔ بوڑھے، بچے، مرد عورتیں معلوم نہیں انہیں کس کی نظر لگ گئی تھی کہ صبح سے شام تک بلاناغہ یہ لوگ
فیشن
دنیا کی یوں تو سبھی چیزیں بدلتی رہتی ہیں کیونکہ دنیا کا انتظام انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم انسان اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا اسی ڈھب پر چلتی رہے جس ڈھب پر سورج، چاند، ستارے اور ہوا جیسی چیزیں چلتی آرہی ہیں۔ سورج وہی اپنی قدیم رفتار پر قائم ہے نہ تو
گرہست شاستر
پیش لفظ، شادی کر لینا ایک نہایت ہی ادنیٰ بلکہ حقیر کام ہے جسے دنیا کا ہر شخص خواہ، وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو بآسانی انجام دے سکتا ہے۔ شادی کرنا چونکہ ایک مذہبی اور شرعی فعل ہے اس لئے شادی کے لئے علمی قابلیت، ذہنی استعداد، وجاہت، صورت شکل وغیرہ
نمبر صحیح ہونا چاہئے
شادی کو آدمی کا اختیاری فعل سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ اختیاری سے زیادہ اضطراری عمل ہوتا ہے۔ اسے فعل کہنا ایک لحاظ سے زیادتی ہی ہے۔ یہ ایک حرکت ہے جو چند مخصوص لوگوں میں آہستہ آہستہ عادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور مشکل ہی سے چھوٹتی ہے اور کچھ لوگ
آئینے میں
دنیا میں کوئی ایسا خوش نصیب ملک نہیں ہے جہاں ادیب پیدا نہ ہوتے ہوں۔ بہت سے ملک ایسے ہوتے ہیں جہاں ادیبوں کو فرش وغیرہ پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ انھیں وہاں کے لوگ ہمیشہ سرآنکھوں پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بھی لوگوں کے سروں پر بیٹھے رہنے کی اتنی
دھواں ہی دھواں
جب سے سگریٹ کی ڈبیا پر اور اس کے اندر کی ہر سگریٹ کے سرے پر یہ لکھا جانے لگا کہ ’’سگریٹ صحت کے لیے مُضر ہے‘‘ اس وقت سے سگریٹ کی تجارت سب سے زیادہ منافع بخش تجارت ہوگئی ہے اور سگریٹ کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوتا جارہا ہے سگریٹیں اتنی ہی زیادہ بکنے لگی