ذاکرہ شبنم کے افسانے
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
فبای الآء ربکما تکذبن: ثمیہ جیسے ہی عارفہ کے گھر کے داخلی دروازے تک پہنچی تبھی یہ قرآن مجید کی خوبصورت آ یت ثمیہ کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔۔ ثمیہ کچھ لمحوں کے لیے رک سی گئی اس کا من کر رہا تھا کہ وہیں ٹہر کر کچھ دیر اور سماعت فرمائیں، دروازہ کھٹ
پیار اور جہیز
تمنا خوبصورت ہو نے کے ساتھ ساتھ نہا یت شریف اور نیک سیرت لڑکی تھی۔ وہ شہر میں رہنے کے باوجود بھی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکی۔ صرف میٹرک پا س کیا تھا۔ وہ کالج جانا چاہتی تو جا سکتی تھی لیکن اسے کالج کے ماحول سے ہی ڈر لگتا تھا۔ اس لیے وہ گھر پر ہی اچھی
جیسی کرنی ویسی بھرنی
بہو نے اپنے آ ٹھ سالا منے کو آواز دی، منا دادی ماں کو ناشتہ دے آؤ۔ منا نا شتہ لے کر دادی ماں کے کمرے میں چلا آیا اور دادی ماں کی طرف پلیٹ بڑھا دی۔ جس میں معمول کے مطابق رات کا بچا ہوا کھانا اور اس پر ڈالا ہوا کچھ سالن تھا۔ دادی نے منے کے ہاتھوں سے پلیٹ
عجیب سزا ہے غریب ہونا بھی
رات کے نو بج رہے تھے، ٹرین جیسے ہی اسٹیشن پر رکی سبھی قلی ٹرین کی جانب دوڑ پڑے، ان میں جمال بھی تھا، بیچارہ جمال صبح سے دو چار روپیے کمانے کی کوشش میں اس طرح ہر ایک ٹرین کے رکنے پر اتر نے والے مسافروں کی جانب دوڑ پڑتا کہ کو ئی اسے اپنا بوجھا دے دے تو
شبنمی یادیں
الحمد اللہ۔۔۔ اللہ کا کرم ہے کہ رمضان المبارک کا بابرکت فضیلتوں اور رحمتوں وسعتوں والا مہینہ پھر اک بار ہم گناہگار اور حقیر بندوں پر سایہ فگن ہوا ہے۔ اب ماشااللہ رحمت اور معفرت کا دوسرا عشرہ بھی ختم ہو نے کو ہے، دو دن بعد انشا اللہ جہنم سے نجات کا تیسرہ
پیاسی ممتا
رات بھر کافی زوروں کی بارش ہوئی تھی، اس وجہ سے صبح بھی موسم کافی ٹھنڈا سا تھا، ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھیں، صبح کے سات بجے تھے، دودھ والے نے جب دروازہ پر دستک دی تو میری آنکھیں کھلیں، میں نے جیسے ہی دودھ لینے کی غرض سے دروازہ کھولا تو باہر ٹھنڈ سے ٹھٹھرتی
حب الوطنی
آج علی رحمان کی شادی ہو ئے صرف ایک ماہ گذرا تھا۔ علی اپنی شادی کے لیے دو ماہ کی چھٹی لے کر اپنے گھر دلی آیا ہوا تھا۔ اسے اپنی شریک حیات کے روپ میں پڑھی لکھی بہت ہی خوبصورت اور نیک سیرت رو شنی مل گئی تھی۔ وہ رو شنی کو پا کر بےحد خوش تھا۔ علی رحمان آرمی
ڈوپٹہ
میں جیسے ہی اپنے گیٹ کے قریب پہنچی۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک کمسن لڑکی کو بیٹھے ہو ئے پایا۔ میں نے پرس سے چابی نکالی اور گھر کا دروازہ کھولتے ہو ئے ان لوگوں سے پوچھ ہی لیا۔ کون ہیں آپ لوگ اور آپ کو کیا چاہیے، وہ عورت جو اب میں یوں مخاطب ہوئیں۔ بیٹی
اولاد
میں بڑی بےچینی سے نانی ماں کا انتظار کر رہی تھی، وہی نانی جن کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ نہ ہی ان کا اپنا کوئی گھر نہ ہی ان کا کوئی رشتہ دار، وہ چند دن اس شہر کی درگاہ میں رہتیں پھر کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر چلی جاتیں، ہر جگہ کسی نہ کسی درگاہ ہی کو