ضیا ضمیر
غزل 32
نظم 2
اشعار 42
اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں
روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کیسی تعبیر کی حسرت کہ ضیاؔ برسوں سے
نامراد آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں خواب کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
افسانہ 2
تصویری شاعری 3
تک رہا ہے تو آسمان میں کیا ہے ابھی تک کسی اڑان میں کیا وہ جو اک تجھ کو جاں سے پیارا تھا اب بھی آتا ہے تیرے دھیان میں کیا کیا نہیں ہوگی پھر مری تکمیل کوئی تجھ سا نہیں جہان میں کیا ہم تو تیری کہانی لکھ آئے تو نے لکھا ہے امتحان میں کیا ہو ہی جاتے ہیں جب جدا دونوں پھر تعلق ہے جسم_و_جان میں کیا ہم قفس میں ہیں اڑنے والے بتا ہے وہی لطف آسمان میں کیا پڑھ رہے ہو جو اتنی غور سے تم کچھ نیاپن ہے داستان میں کیا اردو والے کمال دکھتے ہیں کوئی جادو ہے اس زبان میں کیا
احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے_گا ہر زخم کو اب پھول بنانا تو پڑے_گا ممکن ہے مرے شعر میں ہر راز ہو لیکن اک راز پس_شعر چھپانا تو پڑے_گا آنکھوں کے جزیروں پہ ہیں نیلم کی قطاریں خوابوں کا جنازہ ہے اٹھانا تو پڑے_گا چہرے پہ کئی چہرے لیے پھرتی ہے دنیا اب آئنہ دنیا کو دکھانا تو پڑے_گا ذہنوں پہ مسلط ہیں سیہ سوچ کے بادل ظلمت میں دیا دل کا جلانا تو پڑے_گا وہ دشمن_جاں جان سے پیارا بھی ہمیں ہے روٹھے وہ اگر اس کو منانا تو پڑے_گا رشتوں کا یہی وصف ہے ذاکرؔ کی نظر میں کمزور سہی رشتہ نبھانا تو پڑے_گا