زبیر احمد ثانی کے اشعار
موضوع گفتگو تو ہے جنسی جمالیات
اور مرکز خیال تمہارا ہی جسم ہے
زندگی سے ملا نہیں کچھ بھی
پھر بھی اک آس ہے مسلسل ہے
تری معصوم نگاہوں کے تقدس کے طفیل
عشق تہذیب سے آراستہ ہو جاتا ہے
دل بیباک کا مالک ہوں مجھے خوف نہیں
حاکم وقت کے حکم رسن و زنداں سے
میں رفتہ رفتہ تجھے بھولتا ہی جاتا ہوں
کسی کی یاد یوں پروردگار آتی ہے
دل پاکیزہ میں یوں آ کے ٹھہر جاتے ہیں
ان حسینوں کا ٹھکانہ یہ حرم ہو جیسے
لمحوں کے ساز پر تری دھڑکن کی لے ہو تیز
آنکھوں کے زاویے ہوں گھڑی کی بساط پر
چشم پوشی کریں مخلص ہیں وفا میں وہ اگر
کیوں مرے اچھے برے پر وہ نظر رکھتے ہیں
زندگی کا اس قدر پیچھا کیا
آ گیا ہوں موت کی دیوار تک
ہم چاہ کے بھی ایک نہیں ہو سکے کبھی
آخر ہمارے بیچ کی دیوار کون ہے
آئیے شوق سے بھونچال بپا کر دیجے
بزم دل آپ کی خاطر ہی سجا رکھی ہے
اس واسطے محال ہے ہم دونوں میں نباہ
تو خود نما ہے میں بھی ریا کے خلاف ہوں
روز ملتا ہے بلندی کا نیا زینہ مجھے
روز تکلیف کئی لوگوں کو ہو جاتی ہے