نوجوان افسانہ نگاروں کے 20 منتخب افسانے
گذشتہ چند برسوں میں
اردو افسانے کے منظرنامے پر جو نام ابھرے ان میں بعض نے اپنے قصہ گوئی اور انداز بیان سے قارئین کو متوجہ کیا ہے ۔ان کے یہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور زبان و بیان کا ہنرمندانہ استعمال بھی۔ یہاں ہند و پاک کے کچھ ایسے ہی نوجوان لکھنے والوں کے ۲۰ افسانے آپ کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
ٹوٹی ہوئی سڑک
وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک چھوٹی سی سڑک تھی، جس کے ارد گرد درخت ہی درخت تھے درختو ں کے پیچھے سکول کی عمارت تھی، اس سڑک پر آپ اگر چلتے جائیں تو آگے ہسپتال آ جائےگا جہاں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھتے تھے، جو سب کو ایک ہی طرح کی کڑوی ادویات دیتے تھے ان کے پاس
محمد جمیل اختر
سویٹ ہارٹ
(دل جیسی اک بوند کی کیا اوقات سمندر بیچ) ’’اچھا سویٹ ہارٹ اب میں اسٹڈی کرنے جا رہا ہوں۔ Please Don't Disturb‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہونٹ چومے اور اس کے روم روم میں اپنا وجود چھوڑ کر شب خوابی کا لباس پہنتے ہی کمرے سے باہر چلا گیا اور کمرے کا دروازہ
رابعہ الرباء
ادھورا لمس
غزالی آنکھیں ستواں ناک، خوبصورت ہونٹ، کتابی چہرہ لمبی گردن جس پر تل کی موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ شاید خدا نے نظر بد کے ڈر سے ٹیکا لگا ڈالا۔ نازک اندام اور سرو قد یہ کسی شاعر کا خواب نہیں بلکہ جیتی جاگتی سومیہ تھی۔ انتہائی زہین اور زندگی سے بھرپور۔
سیمیں درانی
اک چپ سو دکھ
(یہ افسانہ صائمہ شاہ کی نذر ہے جن سے مکالمہ اس افسانے کا محرک بنا) ایک وقت آتا ہے جب کچھ بھی ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہتا اگرچہ کچھ نہ کچھ ہمیشہ یاد رہتا ہے اور وہ وقت مجھے ہمیشہ یاد رہا جب اس نے مجھ سے کلام کیا تھا۔ یہ ایک تپتے دن کی تپش بھری شام تھی
آدم شیر
چھنال
مانسون کی پہلی بارش والے روز اس کا جسم درد سے اینٹھ رہا تھا، اور وہ چارپائی پر پڑی رہنا چاہتی تھی۔ صبح سے آسمان پر بادل تھے۔ وہ بے خیالی میں اس چیل کو تک رہی تھی، جو ہوا میں تیرتی معلوم ہوتی۔ کچھ دیر بعد چیل غوطہ لگا کر منظر سے غائب ہوگئی۔ وہ یوں
اقبال خورشید
کہانیوں سے پرے
تصویر کے عقب میں تحریرشدہ عبارت پڑھنے کے بعد میرے اوسان خطا ہو گئے۔ تاریخ پرنظرپڑی تو حواس معطل ہو گئے، گویا پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔ مجھے کسی بھی حال میں پہنچنا تھا لیکن میں یہ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ مجھے جانا چاہئے یا نہیں۔ نئی نئی ملازمت،
محمد ہاشم خان
آنکھ کی پتلی کا تماشا
’’مجھے اس سے دس گھنٹے محبت ہوئی تھی صرف دس گھنٹے۔۔۔ اس کے بعد میرا دل خالی ہو گیا۔‘‘ وہ خالی نظروں سے دور کہیں ان دیکھے منظروں میں کھوئی کہہ رہی تھی۔ میں نے کچھ حیرانی اور قدرے دلچسپی سے اسے دیکھا اور بنا ٹوکے اسے کہنے دیا جو نجانے کب سے وہ کہنا
فارحہ ارشد
انحطاط
وہ سڑک اب بالکل ویران ہو گئی تھی، جہاں روزانہ غول کے غول کبوتر آتے تھے اور دانوں سے بھری سڑک پر بغیر کسی خوف وخطر، شکم سیر ہوتے تھے۔۔۔ اس سڑک کی ویرانی میں اس بڑے سے شاپنگ مال کا ہاتھ تھا جو عین سڑک کے ساتھ اونچا لمبا آسمان چھوتا دکھائی دیتا تھا۔
مریم تسلیم کیانی
کبالہ
تو یوں ہے کہ وہ ایک فنکار کی باہوں میں مر گئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس نے ایک نیا حکمنامہ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ میں عدالت کی بجائے عدالت عالیہ کا لفظ استعمال کروں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسے عدالت عالیہ سے بڑی امیدیں تھیں کہ وہ اس
منزہ احتشام گوندل
نوحہ گر
ایک بوسیدہ مکان میں ہم چار ’’جاندار‘‘ اکھٹے رہا کرتے تھے۔ ابا، اماں، میں اور ایک سفید بکری۔ میں چارپائی سے بندھاہر روز۔۔۔ بکری کو ممیاتے، ماں کو بڑبڑاتے اور ابا کے ماتھے پر موجود لکیروں کو سکڑتے پھیلتے دیکھا کرتا۔ میری ماں زیرلب کیا بڑبڑایا