Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

’انگارے‘ کی کہانیاں

1932 میں ’ انگارے‘

کے نام سے لکھنؤ سے 9کہانیوں اور ایک ڈرامے پر مشتمل کتاب شائع ہوئی تھی۔ آگے چل کر اس کتاب کے افسانے ہی جدید اردو افسانے کا نقطہ آغاز ٹھہرے۔ اس کتاب میں شامل کہانیوں کے موضوعات اتنے غیر روایتی اور بظاہر اتنے باغیانہ تھے کہ اس کتاب کو سرکاری حکم سے ضبط کر لیا گیا اور اسے فحش، خلاف اخلاق اور مذہب مخالف قرار دیا گیا۔ یہاں ہم اس کتاب میں شامل تمام تحریریں آپ کے لیے پیش کر رہے رہیں۔

1.3K
Favorite

باعتبار

نیند نہیں آتی

’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو غریبی، بے بسی، بھٹکاؤ اور نیم خوابیدگی کے شعور کا شکار ہے۔ وہ اپنی معاشی اور معاشرتی حالت سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ رات میں چارپائی پر لیٹے ہوئے مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہوا وہ اپنی بیتی زندگی کے کئی واقعات یاد کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کتنی جد و جہد کی ہے۔‘‘

سجاد ظہیر

دلی کی سیر

یہ فریدآباد سے دہلی کی سیر کو آئی ایک عورت کے ساتھ ہوے واقعات کا قصہ ہے۔ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ دہلی کی سیر کے لیے آتی ہے۔ دہلی میں اس کے ساتھ جوکچھ واقع ہوتا ہے واپس جاکر انہیں وہ اپنی سہیلیوں کو سناتی ہے۔ اس کے ساتھ ہوئے سبھی واقعات اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ اس کی سہیلیاں جب بھی اس کے گھر جمع ہوتی ہیں، ہر بار اس سے دہلی کی سیر کا قصہ سنانے کے لیے کہتی ہیں۔

رشید جہاں

گرمیوں کی ایک رات

’’کہانی میں سماجی ناہمواری کی بہت باریکی سے عکاسی کی گئی ہے۔ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے منشی برکت علی اور جمن میاں کے ذریعے ہندوستانی سماج کے پسماندہ متوسط طبقہ کے لوگوں کی محرومیوں، بے بسی، بناؤٹی زندگی اور دوہرے کردار کی بہت دل نشیں انداز سے عکاسی کی گئ ہے۔‘‘

سجاد ظہیر

مہاوٹوں کی ایک رات

مہاوٹوں کی رات ہے اور زبردست بارش ہو رہی ہے۔ ایک غریب کنبہ جس میں تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹے سکڑے لیٹے ہوئے ہیں۔ گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے اور وہ بھوک سے بدحال ہیں۔ بچوں کی ماں اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتی ہے اور سوچتی ہے کہ شاید وہ جنت میں ہے۔ جب بچے باربار اس سے کھانے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں سوچتی اور کہتی ہے اگر وہ ہوتا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا۔

احمد علی

جنت کی بشارت

’’کہانی ایک مولانا کے ذریعے مذہبی روایات اور مولویوں کے ڈھونگ اور فریب کے اخلاق پر تلخ حملہ کرتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں خدا کی عبادت میں ڈوبے مولانا صبح کی نماز پڑھتے ہوئے ایک خواب دیکھتے ہیں۔ خواب میں انہیں ایک عالیشان کمرا دکھائی دیتا ہے اور اس کمرے کی ہر کھلی کھڑکی میں ایک حور نظر آتی ہے۔‘‘

سجاد ظہیر

جواں مردی

یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو خود کو اپنے نو زائیدہ کی موت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس کی جب شادی ہوئی تھی تو اسے اپنی بیوی پسند نہیں آئی تھی۔ وہ اسے چھوڑکر ودیش چلا گیا تھا۔ وہاں ایک عرصہ تک رہنے کے بعد جب اسے بیوی کی یاد ستانے لگی تو وہ واپس چلا آیا۔ ان دنوں وہ بیمار تھی اور اس کی بیماری میں ہی اس نے اپنی جوانمردی کو ثابت کرنے کے لیے اس کے ساتھ سونے کا فیصلہ کیا۔

محمود الظفر

دلاری

’’یہ ایک غیر مساوی معاشعرتی نظام میں خواتین کے جنسی استحصال کی ایک دردناک کہانی ہے۔ دلاری بچپن سے ہی اس گھر میں پلی بڑھی تھی۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ چھٹیوں میں گھر آئے مالکن کے بیٹے کے ساتھ اس کی آنکھ لڑ جاتی ہے اور وہ محبت کے نام پر اس کا استحصال کرتا ہے۔ وہ اس سے شادی کا وعدہ تو کرتا ہے مگر شادی ماں باپ کی پسند کی ہوئی لڑکی سے کر لیتا ہے۔ اس شادی کے بعد ہی دلاری گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔‘‘

سجاد ظہیر

پھر یہ ہنگامہ۔۔۔

یہ کہانی کئی آزاد افسانوں کا مجموعہ ہے، جن کے ذریعے مذہبی روایتوں اور اس کے تضادات، رئیسوں کی رئیسانہ حرکتوں، متوسط طبقہ کے مسلم خاندانوں کے تضاد سے بھرپور رشتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ کہانی سماج اور اس میں موجود مذہبی جنونیت پر شدید وار کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ جب سب کچھ پہلے سے طے ہے تو پھر یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟

سجاد ظہیر

بادل نہیں آتے

اور بادل نہیں آتے، نگوڑے بادل نہیں آتے۔ گرمی اتنی تڑاخے کی پڑ رہی ہے کہ معاذ اللہ! تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح بھنے جاتے ہیں، تمازت آفتاب اور دھوپ کی تیزیت! بھاڑ بھی ایسا کیا گرم ہوگا، پوری دوزخ ہے۔ کبھی دیکھی بھی ہے؟ نہیں دیکھی تو اب مزا چکھ لو۔ وہ موئی

احمد علی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے