اردو کے بہترین اور منتخب مزاحیہ مضامین
ہاسٹل میں پڑنا
ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی،اے بھی پاس کر لیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران جو کالج میں گزارنی پڑی، ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔ خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا، یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب
پطرس بخاری
غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں
دور جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیل القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیراجیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما
کنہیا لال کپور
کتے
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار
پطرس بخاری
پڑیئے گر بیمار
تو کوئی نہ ہو تیماردار؟ جی نہیں! بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے! مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے
مشتاق احمد یوسفی
مریدپور کا پیر
اکثر لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھی حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات کو ٹال دیتا ہوں۔ اس سے لوگوں کو طرح طرح کے شبہات
پطرس بخاری
جنون لطیفہ
بڑامبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھرمیں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلاجائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بارآتے ہیں اورتلخی کام ودہن کی آزمائش کرکے گزرجاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعرصرف دو ہی موقعوں پرنصیب
مشتاق احمد یوسفی
چارپائی
چارپائی اورمذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اسی پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسہ، آفس، جیل خانےکونسل یاآخرت کا راستہ لیتے ہیں۔ چارپائی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم اس پردوا کھاتے ہیں۔ دعا اور بھیک بھی مانگتے ہیں۔ کبھی فکر سخن کرتے ہیں
رشید احمد صدیقی
بیوی کیسی ہونا چاہیے
مزاحیہ اسلوب میں مردوں سے متعلق ایک بہت ہی اہم سوال پر بحث کرتی داستان ہے، اس میں اس بات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ شریک حیات یعنی بیوی کیسی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے افسانے میں کئی واقعات، حادثات کا ذکر ہے۔ آخر میں یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے جسے ہر شادی شدہ مرد جاننا چاہےگا۔
چودھری محمد علی ردولوی
مرزا غالب کا خط پنڈت نہرو کے نام
جان غالب۔ بین الاقوامی صلح کے طالب، میاں جواہر لال خوش فکر و خوش خصال جگ جگ جیو، تا قیامت آب حیات پیو۔ سنو صاحب! امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد آئے ہیں، اور اپنے ہمراہ دو نسخے دیوان غالب کے لائے ہیں، جو مجھے ابھی موصول ہوئے ہیں۔ ایک نسخہ علی سردار
فرقت کاکوروی
چارپائی اور کلچر
ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہےکہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیاکہ میں جو قوالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں
مشتاق احمد یوسفی
کرکٹ
مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔ ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی
مشتاق احمد یوسفی
کسٹم کا مشاعرہ
کراچی میں کسٹم والوں کا مشاعرہ ہوا تو شاعر لوگ آؤ بھگت کے عادی دندناتے پان کھاتے، مونچھو پر تاؤ دیتےزلفِ جاناں کی بلائیں لیتےغزلوں کے بقچےبغل میں مارکر پہنچ گئے۔ ان میں سے اکثر کلاتھ ملوں کے مشاعروں کے عادی تھے۔ جہاں آپ تھان بھر کی غزل بھی پڑھ دیں
ابن انشا
فیض اور میں
بڑے لوگوں کے دوستوں اور ہم جلیسوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس دوستی اور ہم جلیسی کا اشتہار دے کر خود بھی ناموری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے وہ عجز و فروتنی کے پتلے جو شہرت سے بھاگتے ہیں۔ کم از کم اپنے ممدوح کی زندگی میں۔ ہاں اس کے
ابن انشا
چچا چھکن نے تصویر ٹانگی
چچا چھکن کبھی کبھار کوئی کام اپنے ذمے کیا لے لیتے ہیں، گھر بھر کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔ ’’آ بے لونڈے، جا بے لونڈے، یہ کیجو، وہ دیجو،‘‘ گھر بازار ایک ہو جاتا ہے۔ دور کیوں جاؤ، پرسوں پرلے روز کا ذکر ہے، دکان سے تصویر کا چوکھٹا لگ کر آیا۔ اس وقت
سید امتیاز علی تاج
صنف لاغر
سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اورسونگھنے کے بعد ہوتاہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کاپتہ چلانابھی چنداں دشوارنہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص
مشتاق احمد یوسفی
مولوی صاحب کی بیوی
آپ مجھ سے متفق ہوں یا نہ ہوں مجھے اس کی پروا نہیں، مگر میرا تو یہ خیال ہے کہ ’میاں بیوی‘ کے تعلقات کے لحاظ سے گھر کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم تو یہ ہے کہ میاں بھی گھر کو اپنا گھر سمجھیں اور بیوی بھی۔ اس گھر کو بس یہ سمجھو کہ جنت ہے۔ لیکن مشکل
مرزا فرحت اللہ بیگ
جگر گوشے
دس سال سے یعنی جس دن سےمیری شادی ہوئی ہے، یہی ایک سوال بار بارکسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے، آپ کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کے ہاں روٹی ہے؟ گھر ہے؟ روزگار ہے؟ خوشی ہے؟ عقل ہے؟ سب یہی پوچھتے ہیں کہ آپ کے ہاں
کرشن چندر
دھوبی
علی گڑھ میں نوکرکوآقا ہی نہیں ’’آقائے نامدار‘‘ بھی کہتے ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں جوآج کل خود آقا کہلاتے ہیں بمعنی طلبہ! اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ نوکرکا کیا درجہ ہے۔ پھرایسے آقا کا کیا کہنا ’’جو سپید پوش‘‘ واقع ہو۔ سپید پوش کا ایک لطیفہ بھی
رشید احمد صدیقی
انکم ٹیکس والے
منکر نکیر اور محکمہ انکم ٹیکس کے انسپکٹروں میں یہی فرق ہے کہ منکر نکیر مرنے کے بعد حساب مانگتے ہیں اور موخر الذکر مرنے سے پہلے ۔بلکہ یہ کہ منکر نکیر صرف ایک بار مانگتے ہیں اور انکم ٹیکس کے انسپکٹر بار بار نیز یہ کہ منکر نکیر گناہوں کا حساب لیتے وقت
کنہیا لال کپور
کرکٹ میچ
بعض دوستوں نے سیالکوٹ چلنے کو کہا تو ہم فوراً تیار ہوگئے مگر جب یہ معلوم ہوا کہ اس سفر کا مقصد کرکٹ میچ ہے تو یکایک سانپ سونگھ گیا۔ سفر کا تمام ولولہ ایک بیتی ہوئی یاد کی نظر ہوکر رہ گیا۔ اب لاکھ لاکھ سب پوچھتے ہیں کہ چکر آگیا ہے۔ فالج گرا ہے۔ قلب
شوکت تھانوی
ہم پھر مہمان خصوصی بنے
مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ دوسری بار ڈسے جانے کے خواہش مند کو کوئی دوسرا سوراخ ڈھونڈنا چاہیے۔ خود کو مہمان خصوصی بنتے ہم نے ایک بار دیکھا تھا۔ دوسری بار دیکھنے کی ہوس تھی۔ اب ہم ہر روز بالوں میں کنگھا کرکے اور ٹائی
ابن انشا
پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر
اگر کسی مرد سے پوچھا جائے پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر کون سے ہیں تو وہ کہے گا، ’’صاحب! عقل کے ناخن لیجئے۔ بھلا شوہر بھی کبھی بے ہودہ ہو ئے ہیں۔ بےہودگی کی سعادت تو بیویوں کے حصے میں آئی ہے۔‘‘ اور اگر کسی عورت سے یہی سوال کیا جائے تو جواب ملے گا، ’’صرف
کنہیا لال کپور
سسرالی رشتہ دار
مصیبت یہ ہے کہ ریڈیو سیٹ سسرال میں بھی ہے اور وہاں کی ہر دیوار گوش دارد، مگر بزرگوں کا یہ مقولہ اس وقت رہ رہ کر اکسا رہا ہے کہ بیٹا پھانسی کے تختہ پر بھی سچ بولنا، خواہ وہ پھانسی زندگی بھر کی کیوں نہ ہو، موضوع جس قدر نازک ہے اسی قدر اخلاقی جرأت چاہتا
شوکت تھانوی
ہماری فلمیں
ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں۔ جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری فلموں نے اتنے تھوڑے سے عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چند ہی سال کی بات
شفیق الرحمان
داخلے جاری ہیں
پرسوں ایک صاحب تشریف لائے، ہے رند سے زاہد کی ملاقات پرانی پہلے بریلی کو بانس بھیجا کرتے تھے۔ یہ کاروبار کسی وجہ سے نہ چلا تو کوئلوں کی دلالی کرنے لگے۔ چونکہ صورت ان کی محاورے کے عین مصداق تھی، ہمارا خیال تھا اس کاروبار میں سرخ روہوں گے۔ لیکن
ابن انشا
سگریٹ No شی
صاحب! میں تو اخبار اس لیے پڑھتا تھا کہ دنیا کے بارے میں میری معلومات اپ ٹوڈیٹ رہیں۔ آج کا اخبار پڑھ کر پتہ چلا کہ میری تو اپنے بارے میں معلومات اپ ٹوڈیٹ نہیں ہیں۔ یہاں ڈیٹ سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ امریکی ڈاکٹروں نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ
محمد یونس بٹ
میرا من پسند صفحہ
کچھ لوگ صبح اُٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اُٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے آخر تک معہ اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔ یوں
کرشن چندر
سوئز بینک میں کھاتہ ہمارا
حضرات! میں کسی مجبوری اور دباؤ کے بغیر اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاؤنٹ موجود ہے۔ آپ اس بات کو نہیں مانتے تو نہ مانئے۔ میری بیوی بھی پہلے اس بات کو نہیں مانتی تھی۔ اب نہ صرف اس بات کو
مجتبی حسین
عید ملنا
مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچے اتنے تھے کہ بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا اسکول میں آگیا ہے۔ ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب
محمد یونس بٹ
کار بکاؤ ہے
ہم سے پہلےبھی کوئی صاحب گزرے ہیں جنہوں نے بیٹھے بٹھائے بکری پال لی تھی اور پھر عمر بھر اس کے زانو پر سر رکھ کرمنمناتے رہتے تھے۔ ہمیں غیب سے یہ سوجھی کہ اتفاق سے ولایت جارہے ہیں، کیوں نہ وہاں سے نئی کارلائی جائے؟ یعنی کیوں نہ جانے سے پہلے پرانی کار بیچ
کرنل محمد خان
مکان کی تلاش میں
مکان کی تلاش۔۔۔ ایک اچھے اور دل پسند مکان کی تلاش۔۔۔ دنیا کے مشکل ترین امور میں سے ہے۔ تلاش کرنے والے کا کیا کیا جی نہیں چاہتا۔ مکان حسین ہو۔ جاذب نظر ہو۔ آس پاس کا ماحول روح پرور اور خوشگوار ہو۔ سنیما بالکل نزدیک ہو۔ بازار بھی دور نہ ہو۔ غرض بیچ میں
شفیق الرحمان
یونیورسٹی کے لڑکے
صاحب لڑکوں کی تو آج کل بھرمار ہے۔ جدھر دیکھیے لڑکے ہی لڑکے نظر آتے ہیں۔ گویا خدا کی قدرت کا جلوہ یہی لڑکے ہیں۔ گھراندر لڑکے، گھر باہر لڑکے، پاس پڑوس میں لڑکے، محلہ محلہ لڑکے، گاؤں اور شہروں میں لڑکے، صوبے اور ملک میں لڑکے، غرض یہ کہ دنیا بھر میں لڑکے
احمد جمال پاشا
گدھے شماری
’’یرقان بھائی‘‘ ’’ہاں فرقان بھائی‘‘ ’’بھی بہت اداس اوررنجیدہ اورملول وغیرہ دکھائی دے رہے ہو۔ کیا ہوگیا؟‘‘ ’’جو ہونا تھا ہوگیا۔ برا ہوا یا بھلا ہوا۔‘‘ ’’یرقان بھائی تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی جواتنے پرانےفلمی گانے الاپ رہے ہو۔‘‘ ’’یہ
مستنصر حسین تارڑ
وکیل
ہندوستان میں جیسی اچھی پیداوار وکیلوں کی ہو رہی ہے اگر اتنا ہی غلہ پیدا ہوتا تو کوئی بھی فاقے نہ کرتا۔ مگر مصیبت تو یہ ہے کہ غلہ پیدا ہوتا ہے کم اور وکیلوں کی فصل ہوتی ہے اچھی۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہی سب غلہ کھا جاتے ہیں اور باقی سب کے لیے فاقے چھوڑ
شوکت تھانوی
کلب
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں ہر شام کلب جایا کرتا تھا۔ شام کو بلیرڈ روم کا افتتاح ہو رہا ہے۔ چند شوقین انگریز ممبروں نے خاص طور پر چندہ اکٹھا کیا۔۔۔ ایک نہایت قیمتی بلیرڈ کی میز منگائی گئی۔ کلب کے سب سے معزز اور پرانے ممبر رسم افتتاح ادا کر رہے ہیں۔
شفیق الرحمان
ہم نے کتا پالا
’’آپ خواہ مخواہ کتوں سے ڈرتے ہیں، ہرکتا باؤلا نہیں ہوتا۔ جیسے ہر انسان پاگل نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ تو’ال سیشن‘ ہے۔ بہت ذہین اور وفادار۔‘‘ کیپٹن حمید نے ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ کیپٹن حمید کو کتےپالنےکا شوق ہے۔شوق نہیں جنون ہے۔ کتوں کو وہ اتنی محبت
کنہیا لال کپور
میں ایک شاعر ہوں
صاحب میں ایک شاعر ہوں چھپا ہوا دیوان تو خیر کوئی نہیں ہے۔ مگر کلام خدا کے فضل سے اتنا موجود ہے کہ اگر میں مرتب کرنے بیٹھوں تو ایک چھوڑ چار پانچ دیوان مرتب کر ہی سکتا ہوں۔ اپنی شاعری کے متعلق اب میں خود کیا عرص کروں البتہ مشاعروں میں جانے والے حضرات اگر
شوکت تھانوی
کچھ سگریٹ کے بارے میں
سائنس دانوں نے اپنی طرف سے یہ بری خبر سنائی ہے کہ ہر بڑے شہر کی ہوا میں ایک دن سانس لینا دوپیکٹ سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ حالانکہ اس سے اچھی خبر اور کیا ہوگی کہ ہم مفت میں روزانہ دو ڈبی سگریٹ پیتے ہیں۔ مجھے تو گاؤں کی صاف فضاؤں میں رہنے والوں سے ہمدردی
محمد یونس بٹ
بیمار کی باتیں
’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔ تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ تندرستی ہزار نعمت ہے گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ؛ تنگدستی بھی
ابراہیم جلیس
دفتر میں نوکری
ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے۔ ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘ ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘ ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘ ’’بھئی،
احمد جمال پاشا
اگر میں شوہر ہوتی
آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟ آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔ اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا،
سرور جمال
ادیبوں کی قسمیں
ہندوستان اور پاکستان کی اگر رائے شماری کی جائے تو نوے فیصدی ادیب نکلے گا باقی دس فیصدی پڑھا لکھا، لیکن اگر شعرا حضرات کے سلسلے میں گنتی گنی جائے تو پتہ چلے گا کہ پورا آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہے۔ اب ذرا یہ بھی سوچئے کہ رائے شماری کرنے والے عملے کا کیا حشر
احمد جمال پاشا
مشاعروں میں ہوٹنگ کے فوائد
مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ہر مشاعرہ کامیاب نہیں ہوتا اور صرف کامیابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونا چاہئے۔ ایسی ہی کامیابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کامیابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو
یوسف ناظم
روزہ رکھا
آج 28 واں روزہ تھا۔ غفور میاں کے کندھے پر ایک کھردرا تولیہ، قمیض اور پائجامہ پڑاتھا۔ کچھ اداس اداس گھر سے باہر پٹیوں پر بیٹھے تھے کہ بفاتی ادھر سے گذرا۔ اسلاع۔۔۔ غفور دادا۔ غفور میاں نے چونک کر بفاتی کو دیکھا اور کہہ کر دوسری طرف منھ پھیر لیا۔
تخلص بھوپالی
ستم ایجاد کرکٹ اور میں بیچارہ
میں کرکٹ سے اس لیے بھاگتا ہوں کہ اس میں کھیلنا کم پڑتا ہے اور محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ ساری محنت پر اس وقت پانی پھرجاتا ہے جب کھیلنے والی ایک ٹیم ہارجاتی ہے۔ ایمان کی بات ہے کہ ہم نے’’سائنس‘‘ کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھا مگر کبھی اس مضمون سے دل نہ
احمد جمال پاشا
نوکری کا انٹرویو
اس مضمون پر بحث کرنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ نوکری کے انٹرویو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جس میں امیدوار ایسا نوجوان ہوتا ہے جس کی تعلیم پر ماں باپ کی کمائی لٹ چکی ہوتی ہے جس نوجوان کی آئندہ زندگی سے والدین کی ہزاروں امیدیں وابستہ ہوتی ہیں
بھارت چند کھنہ
ہم بھی شوہر ہیں
آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ اچھا بھلا آدمی دیکھتے دیکھتے شوہر بن جاتا ہے۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہوتے ہیں اور اس معاملے میں سب کی قسمت تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ شوہر کی لکیر سب کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہاتھ کی لکیروں میں یہی ایک لکیر ہوتی ہے جس سے سب فقیر
یوسف ناظم
ملاؤں کی کانفرنس
جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ ایک اشتہار میری طرف بڑھا دیا گیا۔ میں پڑھنے لگا۔ لکھا تھا، ’’آپ حضرات سے التجا ہے کہ ملاؤں کی کانفرنس میں شریک ہوکرثوابِ دارین حاصل کریں۔ لیکن کانفرنس میں شرکت کے لئے ’مولوی‘ ہونےکی سند لازمی ہے۔ تاہم غیرمولوی
ہاشم عظیم آبادی
مفت کےمشورے
یہ کوئی انگلینڈ یا امریکہ تو ہےنہیں جہاں خیال بکتا ہو۔ مشورے حاصل کرنے کےلئے روپیہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ کسی سےملنے یا باتیں کرنےکےلئے ہفتوں پہلے اپوائنٹ منٹ کرنا پڑتا ہو، یہ جناب ہندوستان ہے ہندوستان، جہاں رشتہ داروں سے زیادہ ملاقاتی اور ملاقاتیوں سے زیادہ
سرور جمال
دوپٹے سے پٹے تک
’’اے ہے! یہ نگوڑا مارے دو ڈھائی گز کے دوپٹے تم سے نہیں سنبھلتے؟‘‘ ’’غضب خدا کا، تمام مردوں کا سامنا ہورہا ہے اور تمھارے سر پر دوپٹہ تک نہیں ٹکتا۔‘‘ ’’الہیٰ خیر! یہ دوپٹہ ہے یا گلے کا ہار؟‘‘ ’’ارے بی بی سر پر دوپٹہ تو ڈالو۔‘‘ یہ تیر