اردو کے بہترین طنزیہ، مزاحیہ اقوال و اقتباسات
اردو میں لکھا گیا طنزیہ
و مزاحیہ ادب غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اسی کی ایک جھلک آپ کو دکھانے کے لیے ہم نے اردو میں لکھی گئیں مزاحیہ تحریروں سے چھوٹے چھوٹے اقوال و اقتباسات کا انتخاب کیا ہے جو یہاں ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ان مزاحیہ اقوال کو پڑھیے اور زندگی کو پر لطف بنائیے۔
لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔
مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا ختم کیسے کرے۔
مسلمان ہمیشہ ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔
گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو صرف اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔
-
موضوعات : مادری زباناور 1 مزید
جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو ’’مسلمانوں کے سائنس پر احسانات‘‘ رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا۔
کبھی کبھی کوئی انتہائی گھٹیا آدمی آپ کو انتہائی بڑھیا مشورہ دے جاتا ہے۔ مگر آہ! کہ آپ مشورے کی طرف کم دیکھتے ہیں، گھٹیا آدمی کی طرف زیادہ۔
بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہر شخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
ایک خاتون نے ہونے والے خاوند سے کہا، ’’شادی کے بعد میں آپ کے دکھ بانٹا کروں گی۔‘‘ اس نے کہا، ’’مگر مجھے تو کئی دکھ نہیں۔‘‘ تو وہ بولی، ’’میں شادی کے بعد کی بات کر رہی ہوں۔‘‘ شاید اسی لیے ہر سیاست دان یہی کہتا ہے اگر میں جیت گیا تو آپ کے دکھ بانٹوں گا۔
عورتوں کی آدھی عمر تو اپنی عمر کم کرنے میں گزرجاتی ہے۔ ایک ملازمت کے انٹرویو کے دوران انٹرویو لینے والے نے پوچھا، ’’محترمہ! آپ کی عمر؟‘‘ جواب ملا، ’’۱۹سال کچھ مہینے‘‘ پوچھا، ’’کتنے مہینے؟‘‘ جواب ملا۔ ’’چھیانوے مہینے!‘‘
چار آدمیوں کی صحبت ادیب کے تخلیقی کام میں کھنڈت ڈالتی ہے۔ لڑاکا بیوی، باتونی انٹلکچول، لائق معلم، ادب کی سرپرستی کرنے والا افسر۔
سگریٹ ہے کیا؟ کاغذ کی ایک نلی جس کے ایک سرے پر شعلہ اور دوسرے پر ایک نادان ہوتا ہے۔ کہتے ہیں سگریٹ کے دوسرے سرے پر جو راکھ ہوتی ہے دراصل وہ پینے والے کی ہوتی ہے۔ ایش ٹرے وہ جگہ ہے جہاں آپ یہ راکھ اس وقت ڈالتے ہیں جب آپ کے پاس فرش نہ ہو۔ ویسے تو سگریٹ پینے والے کے لیے پوری دنیا ایش ٹرے ہی ہوتی ہے بلکہ ہوتے ہوتے یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ سگریٹ منہ میں رکھ کر سمجھتا ہے ایش ٹرے میں رکھا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کہتا ہے کہ ایک عورت صرف ایک عورت ہوتی ہے جبکہ اچھا سگار بس دھواں ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے مہنگا سگریٹ آپ کا پہلا سگریٹ ہوتا ہے، بعد میں سب سستا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ پینے والا بھی۔
کنواری لڑکی اس وقت تک اپنا برتھ ڈے مناتی رہتی ہے جب تک وہ ہنی مون منانے کے قابل نہیں ہوجاتی۔
دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقہ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریب شہر ہو تو اس کے لیے انڈا پہلے اور غریب شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈا اس کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے۔
اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ مہمان کا درجہ بھگوان کا ہے تو میں بڑی نمرتا سے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ مجھے بھگوان سے بھی نفرت ہے!
خدا نے گناہ کو پہلے پیدا نہیں کیا۔ انسان کو پہلے پیدا کردیا۔ یہ سوچ کر کہ اب یہ خودبخود گناہ پیدا کرے گا۔
یہ مرد ایورسٹ پر چڑھ جائیں، سمندر کی تہ تک پہنچ جائیں، خواہ کیسا ہی ناممکن کام کیوں نہ کرلیں، مگر عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ بعض اوقات ایسی احمقانہ حرکت کر بیٹھتے ہیں کہ اچھی بھلی محبت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور پھر عورت کادل۔۔۔ ایک ٹھیس لگی اور بس گیا۔ جانتے ہیں کہ حسد اور رشک تو عورت کی سرشت میں ہے۔ اپنی طرف سے بڑے چالاک بنتے ہیں مگر مرد کے دل کو عورت ایک ہی نظر میں بھانپ جاتی ہے۔
بٹن لگانے سے زیادہ مشکل کام بٹن توڑنا ہے۔ اور یہ ایک طرح سے دھوبیوں کا کاروباری راز ہے۔ ہم نے گھر پر کپڑے دھلواکر اور پٹخوا کر دیکھا لیکن کبھی اس میں کامیابی نہ ہوئی جب کہ ہمارا دھوبی انہی پیسوں میں جو ہم دھلائی کے دیتے ہیں، پورے بٹن بھی صاف کرلاتا ہے۔ ایک اور آسانی جو اس نے اپنے سرپرستوں کے لیے فراہم کی ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنی لانڈری کے ایک حصے میں بٹنوں کی دکان کھلوادی ہے جہاں ہر طرح کے بٹن بارعایت نرخوں پر دستیاب ہیں۔
اس کی اداسی بھی ایک ادا سی ہی ہوتی ہے۔ پوچھو، ’’محبت کیسے شروع ہوتی ہے؟‘‘ تو کہے گی، ’’محبت م سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ کسی نے کہا کہ میاں بیوی کے جھگڑوں میں ثالث بچے ہوتے ہیں، تو کہنے لگی بالکل غلط، میاں بیوی کے جھگڑوں میں ثالث رات ہوتی ہے۔ کہتی ہے، ’’مرد اور عورت کی سوچ ایک جیسی ہوتی ہے، عورت مرد سے سونا مانگتی ہے اور مرد بھی بدلے میں سونا ہی چاہتا ہے۔‘‘
اہم آدمی اس وقت آتا ہے جب سب آچکے ہوتے ہیں اور اس کی آمد کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ دیر سے آنا دراصل عام سے خاص ہونے کا عمل ہے۔
ہمیں دشمن سے جھگڑنے کے بعد ہی وہ گالی یاد آتی ہے جو دشمن کی گالی سے زیادہ کراری اور تیکھی تھی۔
جب کوئی چیز نایاب یا مہنگی ہوجاتی ہے تو اس کابدل نکل ہی آتا ہے جیسے بھینس کانعم البدل مونگ پھلی۔ آپ کو تو گھی سے مطلب ہے۔ کہیں سے بھی آئے۔ اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ ہمارے ہاں بکرے اور دنبے کی صنعت بھی قائم ہو۔ آپ بازار میں گئے اور دکاندار نے ڈبا کھولا کہ جناب یہ لیجیے بکرا اور یہ لیجیے پمپ سے ہوا اس میں خود بھر لیجیے۔ کھال اس بکرے کی کیریلین کی ہے۔ اور اندر کمانیاں اسٹین لیس اسٹیل کی۔ مغز میں فوم ربڑ ہے۔ واش اینڈ ویر ہونے کی گارنٹی ہے۔ باہر صحن میں بارش یا اوس میں بھی کھڑاکر دیجیے تو کچھ نہ بگڑے گا۔ ہوا نکال کر ریفریجریٹر میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ آج کل قربانی والے یہی لے جاتے ہیں۔
جانتے ہو عورت کی عمر کے چھ حصے ہوتے ہیں۔ بچی، لڑکی، نو عمر خاتون، پھر نو عمر خاتون، پھر نو عمر خاتون، پھر نو عمر خاتون۔
بیوی آپ سے کتنی نفرت کرتی ہے، اس کا اس وقت تک پتا نہیں چلتا، جب تک مہمان گھر میں نہ آئے۔ جیسے آپ کو بھولنے کے سوا کچھ نہیں آتا، ایسے ہی بیوی یاد رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ جانے کب کا بغض آپ کے خلاف سینے میں لیے بیٹھی ہے جو مہمان کے آتے ہی پنڈورا باکس کی طرح آپ کے سرپر الٹ دیتی ہے۔
ایک صاحب کہہ رہے تھے، ’’سگریٹ پینے سے عادت نہیں پڑتی کیونکہ میں گزشتہ بیس سالوں سے سگریٹ پی رہا ہوں، مجھے تو عادت نہیں پڑی۔‘‘ میں نے کہا، ’’پھر تم سگریٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ بولے، ’’سبھی کہتے ہیں سگریٹ نہ پینا سودمند ہے اور میں سود کے بہت خلاف ہوں۔‘‘
کہتے ہیں پہلے آدمی سگریٹ کو پیتا ہے، پھر سگریٹ سگریٹ کو پیتا ہے اور آخر میں سگریٹ آدمی کو پیتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ اتنے لوگ سگریٹ سے نہیں مرتے جتنے سگریٹ پر مرتے ہیں۔ انگریزی میں اسے اسموکنگ کہتے ہیں لوگوں کو شاید اسموکنگ پسند ہی اس لیے ہے کہ اس میں ’کنگ‘ آتا ہے لیکن اس دور میں ’کنگ‘ کہیں کے نہیں رہے۔ سو لگتا ہے عنقریب دھواں دینے والی گاڑیوں کی طرح دھواں دینے والے افراد کابھی چوراہوں میں چالان ہواکرے گا۔
میرا ذاتی نظریہ تو یہی ہے کہ ایک تندرست انسان کو محبت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ آخر کوئی تک بھی ہے اس میں؟ خواہ مخواہ کسی کے متعلق سوچتے رہو، خواہ وہ تمہیں جانتا ہی نہ ہو۔ بھلا کس فارمولے سے ثابت ہوتا ہے کہ جسے تم چاہو وہ بھی تمہیں چاہیے۔ میاں یہ سب من گڑھت قصے ہیں۔ اگر جان بوجھ کر خبطی بننا چاہتے ہوتوبسم اللہ! کیے جاؤ محبت۔ ہماری رائے تو یہی ہے کہ صبر کرلو۔