مزاح: یوسفی کے دس منتخب مضامین
ہوئے مر کے ہم جو رسوا
اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کوضرورساتھ لیتا ہوں۔ ایسے موقعوں پرہرشخص اظہارِہمدردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ
مشتاق احمد یوسفی
پڑیئے گر بیمار
تو کوئی نہ ہو تیماردار؟ جی نہیں! بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے! مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے
مشتاق احمد یوسفی
جنون لطیفہ
بڑامبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھرمیں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلاجائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بارآتے ہیں اورتلخی کام ودہن کی آزمائش کرکے گزرجاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعرصرف دو ہی موقعوں پرنصیب
مشتاق احمد یوسفی
چارپائی اور کلچر
ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہےکہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیاکہ میں جو قوالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں
مشتاق احمد یوسفی
کرکٹ
مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔ ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی
مشتاق احمد یوسفی
حویلی
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں یادش بخیر! میں نے 1945 میں جب قبلہ کو پہلے پہل دیکھا تو ان کا حلیہ ایسا ہو گیا تھا جیسا اب میرا ہے۔ لیکن ذکر ہمارے یار طرح دار بشارت علی فاروقی کے خسر کا ہے، لہٰذا تعارف کچھ انہی کی زبان سے اچھا معلوم ہو گا۔ ہم
مشتاق احمد یوسفی
اور آنا گھر میں مرغیوں کا
عرض کیا، ”کچھ بھی ہو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار نہیں۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ان کا صحیح مقام پیٹ اور پلیٹ ہے اور شاید۔“ ”اس راسخ عقیدے میں میری طرف سے پتیلی کا اور اضافہ کرلیجیے۔“ انہوں نے بات کاٹی۔ پھر عرض کیا، ”اور شاید یہی وجہ ہے کہ
مشتاق احمد یوسفی
صنف لاغر
سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اورسونگھنے کے بعد ہوتاہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کاپتہ چلانابھی چنداں دشوارنہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص
مشتاق احمد یوسفی
کافی
میںنے سوال کیا ’’آپ کافی کیوں پیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’آپ کیوں نہیں پیتے؟‘‘ ’’مجھے اس میں سگار کی سی بو آتی ہے۔‘‘ ’’اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتٍ شامہ کی کوتاہی ہے۔‘‘ گو کہ ان کا اشارہ
مشتاق احمد یوسفی
موذی
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگرٹ ہی کو لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگرٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگرٹ