مزاح: خواجہ حسن نظامی کے پانچ منتخب مضامین
بنت چھپکلی
خدا کے لئے ریزلو جلدی آؤ۔ اس بنت چھپکلی کو دیوار سے ہٹاؤ، یکساں پروانوں کو کھائے چلی جاتی ہے۔ گرمی آئی میں نے لیمپ جلایا۔ پروانوں کی آمد ہوئی۔ لکھنا پڑھنا خاک نہیں ان کی بے قراریاں دیکھ دیکھ کر جی بہلاتا ہوں۔ شریر چھپکلی زادی کہاں سے آگئی۔ جو
خواجہ حسن نظامی
عشق باز ٹڈہ
ہزاروں لاکھوں ننھی سی جان کےکیڑوں پتنگوں میں ٹڈہ ایک بڑےجسم اوربڑی جان کاعشق باز ہے اور پروانے آتے ہیں تو روشنی کےگرد طواف کرتے ہیں، بے قرار ہو ہو کر چمنی سے سر ٹکراتے ہیں۔ ٹڈے کی شان نرالی ہے۔ یہ گھورتا ہے، مونچھوں کو بل دیتا ہے اور اچک کر ایک حملہ
خواجہ حسن نظامی
عید کی جوتی
جناب اکبر نے فرمایا تھا، ڈاسن نے جوتا بنایا، میں نے مضمون لکھا۔ میرا مضمون نہ چلا اور جوتا چل گیا۔ اب کوئی ان سےعرض کرے، ولائتی جوتوں کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے چلتے پاؤں بھی لنگڑے ہوئے جاتے ہیں۔ عید پر خلقت جوتے خریدنے جاتی تھی اور دو جوتیاں
خواجہ حسن نظامی
جگرنرخ کے ٹکڑے
کاغذ کی گرانی ہندوستان میں جتنے کارخانے کاغذ بنانے کے ہیں وہ رات دن بچاری کلوں کو چلاتے ہیں۔ پل بھر کا آرام نہیں لینے دیتے۔ گھاس اور گودڑ ڈھونڈتے پھرتے ہیں جن سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔ اس پر بھی پوری نہیں پڑتی۔ کاغذ کا بہاؤ دن بدن گھڑی بہ گھڑی، منٹ
خواجہ حسن نظامی
ال گلہری
گلہری ایک موذی جانور ہے۔ چوہے کی صورت، چوہے کی سیرت۔ وہ بھی ایذا دہندہ یہ بھی ستانے والی۔ چوہا بھورے رنگ کا خاکی لباس رکھتا ہے، فوجی وردی پہنتا ہے۔ گلہری کا رنگ چولھے کی سی راکھ کا ہوتا ہے۔ پیٹھ پر چارلکیریں ہیں، جس کو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت بی بی فاطمہ