مزاح: احمد جمال پاشا کے پانچ منتخب مضامین
یونیورسٹی کے لڑکے
صاحب لڑکوں کی تو آج کل بھرمار ہے۔ جدھر دیکھیے لڑکے ہی لڑکے نظر آتے ہیں۔ گویا خدا کی قدرت کا جلوہ یہی لڑکے ہیں۔ گھراندر لڑکے، گھر باہر لڑکے، پاس پڑوس میں لڑکے، محلہ محلہ لڑکے، گاؤں اور شہروں میں لڑکے، صوبے اور ملک میں لڑکے، غرض یہ کہ دنیا بھر میں لڑکے
احمد جمال پاشا
دفتر میں نوکری
ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے۔ ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘ ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘ ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘ ’’بھئی،
احمد جمال پاشا
ادیبوں کی قسمیں
ہندوستان اور پاکستان کی اگر رائے شماری کی جائے تو نوے فیصدی ادیب نکلے گا باقی دس فیصدی پڑھا لکھا، لیکن اگر شعرا حضرات کے سلسلے میں گنتی گنی جائے تو پتہ چلے گا کہ پورا آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہے۔ اب ذرا یہ بھی سوچئے کہ رائے شماری کرنے والے عملے کا کیا حشر
احمد جمال پاشا
ستم ایجاد کرکٹ اور میں بیچارہ
میں کرکٹ سے اس لیے بھاگتا ہوں کہ اس میں کھیلنا کم پڑتا ہے اور محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ ساری محنت پر اس وقت پانی پھرجاتا ہے جب کھیلنے والی ایک ٹیم ہارجاتی ہے۔ ایمان کی بات ہے کہ ہم نے’’سائنس‘‘ کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھا مگر کبھی اس مضمون سے دل نہ
احمد جمال پاشا
مکان کی تلاش
ایک آدمی دریا میں ڈوبتے ہوئے چلّا رہا تھا۔ ’’بچا ؤ! بچا ؤ!‘‘ ایک شخص دوڑا اور اس سے پوچھا، ’’تم کہاں رہتے ہو؟‘‘ اس کاپتہ نوٹ کرکے بھاگا لیکن جب اس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک منٹ پہلے نیا کرایہ دار آچکا ہے۔ آنے والے نے ٹھنڈی سانس