مزاح: رشید احمد صدیقی کے پانچ منتخب مضامین
چارپائی
چارپائی اورمذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اسی پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسہ، آفس، جیل خانےکونسل یاآخرت کا راستہ لیتے ہیں۔ چارپائی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم اس پردوا کھاتے ہیں۔ دعا اور بھیک بھی مانگتے ہیں۔ کبھی فکر سخن کرتے ہیں
رشید احمد صدیقی
دھوبی
علی گڑھ میں نوکرکوآقا ہی نہیں ’’آقائے نامدار‘‘ بھی کہتے ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں جوآج کل خود آقا کہلاتے ہیں بمعنی طلبہ! اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ نوکرکا کیا درجہ ہے۔ پھرایسے آقا کا کیا کہنا ’’جو سپید پوش‘‘ واقع ہو۔ سپید پوش کا ایک لطیفہ بھی
رشید احمد صدیقی
ارہر کا کھیت
دیہات میں ارہر کے کھیت کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ہائیڈ پارک کو لندن میں ہے۔ دیہات اور دیہاتیوں کے سارے منصبی فرائض۔ فطری حوائج اور دوسرے حوادث یہیں پیش آتے ہیں۔ ہائیڈ پارک کی خوش فعلیاں آرٹ یا اس کی عریانیوں پر ختم ہو جاتی ہیں، ارہر کے کھیت کی خوش فعلیاں
رشید احمد صدیقی
گواہ
گواہ قرب قیامت کی دلیل ہے۔ عدالت سے قیامت تک جس سے مفر نہیں وہ گواہ ہے۔ عدالت مختصر نمونہ قیامت ہے اور قیامت وسیع پیمانے پر نمونہ عدالت۔ فرق صرف یہ ہے کہ عدالت کے گواہ انسان ہوتے ہیں اور قیامت کے گواہ انسانی کمزوریاں یا فرشتے۔ بہرحال عدالت کو قیامت
رشید احمد صدیقی
گھاگ
گھاگ (یا گھاگھ) کی ہیئت صوتی و تحریری اس کو کسی تعریف کا محتاج نہیں رکھتیں۔ الفاظ کے شکل اور آواز سے کتنے اور کیسے کیسے معنی اخذ کیے گئے ہیں۔ لسانیات کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کبھی کبھی تلفظ سے بولنے والے کی نسل اور قبیلہ کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ گھاگ