منٹو: محبت کی 20 منتخب کہانیاں
جنسی موضوعات کے ساتھ
منٹو کا نام اس طرح وابستہ ہو گیا ہے کہ دوسرے موضوعات نظر انداز ہوگئے۔جبکہ اس نے دیگر موضوعات پر بھی اسی قدر خوش اسلوبی سے لکھا ہے۔ منٹو کے یہاں محبت کی کہانیوں میں دیوانگی ، خود سپردگی اور محبت کے لیے بغاوت کر جانے کا جذبہ موجود ہے ۔ یہاں پر پیش کی جا رہیں چند کہانیوں کو پڑھ کر آپ ضرور ایک انوکھے لطف سے سرشار ہوں گے۔
آنکھیں
تشنہ جذبات کی کہانی ہے۔ بینائی سے محروم حنیفہ کو وہ اسپتال میں دیکھتا ہے تو اس کی پرکشش آنکھوں پر فدا ہو جاتا ہے۔ حنیفہ کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسپتال اس کے لیے بالکل نئی جگہ ہے اس لیے وہ اس کی مدد کے لیے آگے آتا ہے۔ اس کی پرکشش آنکھوں کی گہرائی میں غوطہ زن رہنے کے لیے جھوٹ بول کر کہ اس کا گھر بھی حنیفہ کے گھر کے راستے میں ہے، وہ اس کے ساتھ گھر تک جاتا ہے۔ پہنچنے کے بعد جب وہ تانگہ سے اترنے کے لیے بدرو کا سہارا لیتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ بینائی سے محروم ہے اور پھر۔۔۔
سعادت حسن منٹو
آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
انار کلی
سلیم نام کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو خود کو شہزادہ سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کالج کی ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ لڑکی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتی۔ اس کی محبت میں دیوانہ ہو کر وہ اسے انارکلی کا نام دیتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین نے اسی نام کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کی خبر سن کر وہ دیوانہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ سہاگ رات کو جب وہ دلہن کا گھونگھٹ ہٹاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی نام کی کوئی دوسری لڑکی تھی۔
سعادت حسن منٹو
بارش
ایک نوجوان کے نامکمل عشق کی داستان ہے۔ تنویر اپنی کوٹھی سے بارش میں نہاتی ہوئی دو لڑکیوں کو دیکھتا ہے۔ ان میں سے ایک لڑکی پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ ایک دن وہ لڑکی اس سے لفٹ مانگتی ہے اور تنویر کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہے لیکن بہت جلد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کسبی ہے اور تنویر مغموم ہو جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
برقعے
کہانی میں برقعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورت حال کو بیان کیا گیا ہے۔ ظہیر نامی نوجوان کو اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس گھر میں تین لڑکیاں ہیں اور تینوں برقعہ پہنتی ہیں۔ ظہیر خط کسی اور کو لکھتا ہے اور ہاتھ کسی اور کا پکڑتا ہے۔ اسی چکر میں اس کی ایک دن پٹائی ہو جاتی ہے اور پٹائی کے فوراً بعد اسے ایک رقعہ ملتا ہے کہ تم اپنی ماں کو میرے گھر کیوں نہیں بھیجتے۔ آج تین بجے سنیما میں ملنا۔
سعادت حسن منٹو
بانجھ
خود نوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے۔ بمبئی کے اپولو بندر پر سیر کرتے ہوئے ایک دن اس شخص سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہی محبت پر گفتگو ہونے لگی ہے۔ آپ چاہے کسی سے بھی محبت کریں، محبت محبت ہی ہوتی ہے، وہ کسی بچے کی طرح پیدا ہوتی ہے اور حمل کی طرح ضائع بھی ہو جاتی ہے، یعنی قبل از پیدائش مر بھی سکتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو چاہ کر بھی محبت نہیں کر پاتے ہیں اور شاید ایسے لوگ بانجھ ہوتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
ایک زاہدہ، ایک فاحشہ
یہ ایک عشقیہ کہانی ہے جس میں معشوق کے متعلق غلط فہمی کی وجہ سے دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ جاوید کو زاہدہ نامی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے اور اپنے دوست سعادت کو لارنس گارڈن کے گیٹ پر زاہدہ کے استقبال کے لئے بھیجتا ہے۔ سعادت جس لڑکی کو زاہدہ سمجھتا ہے اس کے بارے میں تانگہ والا بتاتا ہے کہ وہ فاحشہ ہے۔ گھبرا کر سعادت وہیں تانگہ چھوڑ دیتا ہے اور وہ لارنس گارڈن واپس آتا ہے تو جاوید کو زاہدہ سے محو گفتگو پاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بیگو
’’کشمیر کی سیر کے لیے گئے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جسے وہاں ایک مقامی لڑکی بیگو سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ بیگو پر پوری طرح مر مٹتا ہے کہ تبھی اس نوجوان کا دوست بیگو کے کردار کے بارے میں کئی طرح کی باتیں اسے بتاتا ہے۔ ویسی ہی باتیں وہ دوسرے لوگوں سے بھی سنتا ہے۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد اسے بیگو سے نفرت ہو جاتی ہے، مگر بیگو اس کی جدائی میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ بیگو کی موت کے بعد وہ نوجوان بھی عشق کی لگی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
عشق حقیقی
اخلاق نامی نوجوان کو سنیما ہال میں پروین نامی ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے جس کے گھر میں سخت پابندیوں کا پہرا ہے۔ اخلاق ہمت نہیں ہارتا اور بالآخر ان دونوں میں خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن پروین اخلاق کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پروین کے گال کے تل پر بوسہ لینے کے لئے جب اخلاق آگے بڑھتا ہے تو بدبو کا ایک تیز بھبھکا اخلاق کے نتھنوں سے ٹکراتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ پروین کے مسوڑھوں میں گوشت خورہ ہے۔ اخلاق اسے چھوڑ کر اپنے دوست کے یہاں لائل پور چلا جاتا ہے۔ دوست کے غیرت دلانے پر واپس آتا ہے تو پروین کو موجود نہیں پاتا۔
سعادت حسن منٹو
پشاور سے لاہور تک
جاوید پشاور سے ہی ٹرین کے زنانہ ڈبے میں ایک عورت کو دیکھتا چلا آرہا تھا اور اس کے حسن پر نثار ہو رہا تھا۔ راولپنڈی اسٹیشن کے بعد اس نے راہ و رسم پیدا کی اور پھر لاہور تک پہنچتے پہنچتے اس نے سیکڑوں قسم کے منصوبے ذہن میں ترتیب دے ڈالے۔ لیکن لاہور پہنچ کر جب اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک طوائف ہے تو وہ الٹے پاؤں راولپنڈی واپس ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
چغد
جنسی خواہش ایک حیوانی جبلت ہے اور اس کے لیے کسی اسکیم اور پلاننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی بنیادی نکتہ پر بنی گئی اس کہانی میں ایک ایسے نوجوان کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو ایک پہاڑی دوشیزہ کو راغب کرنے کے لیے ہفتوں پلان بناتا رہتا ہے پھر بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ایک لاری ڈرائیور چند منٹوں میں ہی اس لڑکی کو رام کرکے اپنی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
حسن کی تخلیق
’’یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے، جو اپنے وقت کی سب سے خوبصورت اور ذہین جوڑی تھی۔ دونوں کی محبت کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا تھا۔ پھر پڑھائی کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔ اپنی بے مثال خوبصورتی کی بناپر وہ اکثر اپنے ہونے والے بچے کی خوبصورتی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ہونے والے بچے کی خوبصورتی کا خیال ان کے ذہن پر کچھ اس طرح حاوی ہو گیا کہ وہ دن رات اسی کے بارے میں باتیں کیا کرتے۔ پھر ان کے یہاں بچہ پیدا بھی ہوا۔ لیکن وہ کوئی عام سا بچہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک نمونہ تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
پھاتو
محبت کی اثر پذیری کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ میاں صاحب کو بخار کی حالت میں اپنی ملازمہ پھاتو سے محبت ہو جاتی ہے۔ پھاتو اپنے محلے میں کافی بدنام ہے لیکن اس کے باوجود میاں صاحب خود پر قابو نہیں کر پاتے اور ایک مہینے بعد اسے گھر سے لے کر فرار ہو جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
بڈھا کھوسٹ
یہ ایک بوڑھے کرنل کے عشق کی کامرانیوں کی داستان ہے۔ کرنل عثمانی ایک بوڑھا آدمی تھا جسے سلیم جیسا جوان آدمی بڈھا کھوسٹ اور غیر ضروری شے سمجھتا تھا لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ کرنل عثمانی اس کی محبوبہ آئرن کا بوسہ لے رہے ہیں تو سلیم کو لگا کہ وہ خود کرنل عثمانی سے زیادہ بڈھا کھوسٹ ہے۔
سعادت حسن منٹو
راجو
سن اکتیس کے شروع ہونے میں صرف رات کے چند برفائے ہوئے گھنٹے باقی تھے۔ وہ لحاف میں سردی کی شدت کے باعث کانپ رہا تھا۔ پتلون اور کوٹ سمیت لیٹا تھا، لیکن اس کے باوجود سردی کی لہریں اس کی ہڈیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی سبز روشنی میں
سعادت حسن منٹو
خورشٹ
یہ افسانہ معاشرہ کے ایک نازک پہلو کو سامنے لاتا ہے۔ سردار زور آور سنگھ، ساوک کاپڑیا کا لنگوٹیا یار ہے۔ اپنا اکثر وقت اس کے گھر پہ گزارتا ہے۔ دوست ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی خورشید سے بھی بے تکلفی ہے۔ سردار ہر وقت خورشید کی آواز کی تعریف کرتا ہے اور اس کے لیے مناسب اسٹوڈیو کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنے ان حربوں کے ذریعہ وہ خورشید کو رام کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
نواب سلیم اللہ خان
نواب سلیم اللہ خاں بڑے ٹھاٹ کے آدمی تھے۔ اپنے شہر میں ان کا شمار بہت بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ مگر وہ اوباش نہیں تھے، نہ عیش پرست۔ بڑی خاموش اور سنجیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ گنتی کے چند آدمیوں سے ملنا اور بس وہ بھی جو ان کی پسند کے ہیں۔ دعوتیں عام ہوتی
سعادت حسن منٹو
چوہے دان
شوکت کوچوہے پکڑنے میں بہت مہارت حاصل ہے۔ وہ مجھ سے کہا کرتا ہے یہ ایک فن ہے جس کو باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے اور سچ پوچھیے تو جو جو ترکیبیں شوکت کوچوہے پکڑنے کے لیے یاد ہیں، ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کافی محنت کی ہے۔ اگر چوہے پکڑنے کا کوئی فن نہیں
سعادت حسن منٹو
بلونت سنگھ مجیٹھیا
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ شاہ صاحب کابل میں ایک بڑے تاجر تھے، وہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیے، اپنے دوست بلونت سنگھ مجیٹھیا کے مشورے سے منتر پڑھے ہوئے پھول سونگھا کر اسے رام کیا لیکن حجلۂ عروسی میں داخل ہوتے ہی وہ مر گئی اور اس کے ہاتھ میں مختلف رنگ کے وہی سات پھول تھے جنہیں شاہ صاحب نے منتر پڑھ کر سونگھایا تھا۔
سعادت حسن منٹو
مس اڈنا جیکسن
یہ ایک کالج کی ایسی معمر پرنسپل کی کہانی ہے، جس نے اپنی طالبہ کے دوست سے ہی شادی کر لی تھی۔ جب وہ کالج میں آئی تو طالبات نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا تھا۔ حالانکہ اپنے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنی طالبات کے درمیان مقبول ہو گئی تھی۔ اسی اثنا اسے ایک لڑکی کی محبت کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک لیکچرر سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی کی پوری داستان سننے کے بعد پرنسپل نے لیکچرر کو اپنے گھر بلایا اور خود سے آدھی عمر کے اس نوجوان لیکچرر کے ساتھ شادی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
پیرن
برج موہن ایک لڑکی پیرن سے راہ و رسم رکھتا تھا اور اس کو منحوس بھی سمجھتا تھا، کیونکہ جب تک اس سے تعلقات رہتے تھے وہ بے روزگار رہتا تھا۔ اس سے تعلقات ختم ہوتے ہی پھر کوئی کام مل جاتا تھا۔ برج موہن کی خواہش تھی کہ کبھی ایسا ہو کہ پیرن سے ملنے کے بعد اسے ملازمت سے برطرف نہ کیا جائے بلکہ وہ خود اپنا استعفی پیش کر دے۔ لیکن ہوا یہ کہ پیرن سے ملاقات کے اگلے دن جب اس نے سیٹھ کو استعفی پیش کیا تو اس نے استعفی نامنظور کرنے کے ساتھ ہی سو روپے تنخواہ میں اضافہ بھی کر دیا۔
سعادت حسن منٹو
والد صاحب
یہ ایک نیم مزاحیہ رومانی کہانی ہے۔ توفیق کے والد صاحب ڈی ایس پی تھے جو ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہاں توفیق کی نظر ایک نرس سے لڑ گئی اور جس شام کو توفیق نرس کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جانے والا تھا اسی شام اس نے والد کو نرس کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا۔ جس وقت توفیق وارڈ میں داخل ہوا اس کے ساتھ اس کی والدہ بھی تھیں۔
سعادت حسن منٹو
ڈائرکٹر کرپلانی
ڈایرکٹر کرپلانی ایک اصول پسند ڈایریکٹر تھا۔ جوانی میں عشق میں ناکام ہو چکا تھا اوراس کی محبوبہ بھی مر گئی تھی اسی لیے فلم انڈسٹری میں وہ کسی لڑکی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ ایک دن نئی ہیروئین کے انتخاب کے لیے اسے بلایا گیا تو اس کی شکل اپنی محبوبہ سے ملتی جلتی معلوم ہوئی اور پھر پتہ چلا کہ وہ اس کی محبوبہ کی بہن ہے۔ اس کے اگلے ہی دن کرپلانی کی موت ہو جاتی ہے۔