منٹو کی کہانیوں میں کشمیر
اردو افسانے میں کشمیر
کی قدرتی خوبصورتی ،وہاں کے دلفریب مناظر کی تصویر کشی کئی افسانہ نگاروں نے کی ہے لیکن منٹو کا زاویۂ نظر مختلف تھا انھوں نے کشمیری عوام اور اس خطے کے مسائل کو محسوس کرکے کچھ ایسی کہانیاں لکھیں جو ان کے دکھوں ، ان کے متعلق قائم غلط فہمیوں اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر مساویانہ رویے کو سامنے لاتی ہیں۔
آخری سلیوٹ
آزادی ہند کے بعد کشمیر کے لیے دونوں ملکوں میں ہونے والی پہلی جنگ کے مناظر کو پیش کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح دونوں ملک کے فوجی جذباتی طور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں لیکن اپنے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے پابند ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہی لوگ جو جنگ عظیم میں متحد ہو کر لڑے تھے وہ اس وقت الگ الگ ملک میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔
سعادت حسن منٹو
ٹیٹوال کا کتا
کہانی میں بنیادی طور سے مذہبی منافرت اور ہندوستانی و پاکستانی افراد کے مابین تعصب کی عکاسی ہے۔ کتا جو کہ ایک بے جان جانور ہے ہندوستانی فوج کے سپاہی محض تفریح طبع کے لیے اس کتے کا کوئی نام رکھتے ہیں اور وہ نام لکھ کر اس کے گلے میں لٹکا دیتے ہیں۔ جب وہ کتا پاکستان کی سرحد کی طرف آتا ہے تو پاکستانی فوج کے سپاہی اسے کوئی کوڈ ورڈ سمجھ کر چوکنا ہو جاتے ہیں۔ دونوں طرف کے سپاہی غلط فہمی کے باعث اس کتے پر گولی چلا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
بیگو
’’کشمیر کی سیر کے لیے گئے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جسے وہاں ایک مقامی لڑکی بیگو سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ بیگو پر پوری طرح مر مٹتا ہے کہ تبھی اس نوجوان کا دوست بیگو کے کردار کے بارے میں کئی طرح کی باتیں اسے بتاتا ہے۔ ویسی ہی باتیں وہ دوسرے لوگوں سے بھی سنتا ہے۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد اسے بیگو سے نفرت ہو جاتی ہے، مگر بیگو اس کی جدائی میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ بیگو کی موت کے بعد وہ نوجوان بھی عشق کی لگی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
موج دین
یہ کہانی مذہبی مساوات کے باوجود معاشرے میں رائج ثقافتی تقسیم کو بہت ہی واضح طور سے بیان کرتی ہے۔ موج دین ایک بنگالی نوجوان ہے، جو مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور آیا ہوا ہے۔ وہاں سے اسے چندہ جمع کرنے کے لیے کشمیر بھیجا جاتا ہے۔ وہاں جا کر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں جنگ ہونے والی ہے تو وہ بھی اس میں شامل ہونے کے لیے واپس لوٹ جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ مدرسے کے سربراہ کو بنگالی زبان میں ایک خط لکھتا ہے، جسے خفیہ محکمہ کے لوگ کوڈ زبان سمجھ کر اسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ گرفتاری کے دوران اسے اس قدر ٹارچر کیا جاتا ہے کہ وہ جیل میں ہی پھانسی لگاکر مر جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
لال ٹین
اس افسانے میں مصنف نے اپنے کشمیر دورے کے کچھ یادگار لمحوں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ مصنف کو یقین ہے کہ وہ ایک اچھا قصہ گو نہیں ہے اور نہ ہی اپنی یادوں کو ٹھیک سے بیان کر سکتا ہے۔ پھر بھی بٹوت (کشمیر) میں گزارے ہوئے اپنے ان لمحوں کو وہ بیان کئے بغیر نہیں رہ پاتا، جن میں اس کی وزیر نام کی لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے سبب وہ اپنے دوستوں میں کافی بدنام بھی ہوا تھا۔ وزیر ایسی لڑکی تھی کہ جب مصنف اپنے دوست کے ساتھ رات کو ٹہلنے نکلتا تھا تو سڑک کے کنارے انہیں راستہ دکھانے کے لیے لالٹین لیکر کھڑی ہو جاتی تھی۔