منٹو کے افسانے جن پر فحاشی کا الزام لگااور مقدمے چلے
منٹو کے نقطہ نظر اور
ان کے ما فی الضمیر کو سمجھے بغیر ان پر فحاشی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کئی افسانوں پر مقدمے بھی چلے اور انہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔جبکہ ان افسانوں میں منٹو نے انسانی ذہن کے پوشیدہ حصے تک رسائی حاصل کر کے ان گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے جو کسی عام انسان یا معمولی تخلیق کار کی دسترس سے باہر ہے۔
ٹھنڈا گوشت
ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کردی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔ کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی
سعادت حسن منٹو
کھول دو
امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گیے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گیے۔ صبح دس بجے۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں
سعادت حسن منٹو
بو
یہ ایک گھاٹن لڑکی کے جسم سے پیدا ہونے والی بو کی کہانی ہے۔ رندھیر سنگھ ایک وجیہ اور خوبصورت نوجوان عورتوں کے معاملے میں منجھا ہوا کھلاڑی ہے لیکن اسے جو لذت گھاٹن لڑکی کے جسم سے محسوس ہوتی ہے وہ اس نے آج تک کسی اور عورت میں محسوس نہیں کی تھی۔ رندھیر کو پسینے بو سے سخت نفرت ہے پھر بھی وہ اس گھاٹن لڑکی کے جسم کی بو کو اپنی رگ رگ میں بسالینے کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
کالی شلوار
دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس
سعادت حسن منٹو
دھواں
یہ افسانہ بلوغت کی نفسیات پر مبنی ہے۔ ایک ایسے بچے کے جذبات کی عکاسی ہے جو جنسی بیداری کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہے اور اپنے باطن میں ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس تو کر رہا ہے مگر سمجھنے سے قاصر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے محسوسات کو درست سمت دینے والا کوئی نہیں ہے۔