تالاب تو برسات میں ہو جاتے ہیں کم ظرف
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا
نام سید اعجاز علی رحمانی اور تخلص اعجاز ہے۔12؍فروری 1940ء کو علی گڑھ میں پید اہوئے۔ آپ کے والدہ اور والد کا کم عمری میں انتقال ہوگیا ، اس وجہ سے پرائمری اور دینی تعلیم ہی علی گڑھ میں حاصل کرسکے۔ 1954ء میں پاکستان آگئے۔کراچی آنے کے بعد ادیب اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کیے اور ابراہیم انڈسٹری ، عثمان آباد کراچی میں ملازم ہوگئے۔ اپنے ایک عزیز فضا جلالوی کے ایما پر قمر جلالوی کے شاگرد ہوگئے۔ مقامی روزنامے میں روزانہ قطعات لکھتے رہے۔ ۔ایک نعت گو کی حیثیت سے انھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’اعجاز مصطفی‘‘، ’’پہلی کرن آخری روشنی‘‘(نعتیہ مجموعے)، ’’کاغذ کے سفینے‘‘، ’’افکار کی خوشبو‘‘، ’’غبار انا‘‘، ’’لہو کا آبشار‘‘، ’’لمحوں کی زنجیر‘‘(غزلوں کے مجموعے)، ’’چراغ مدحت‘‘، ’’جذبوں کی زبان‘‘، ’’خوشبو کا سفر‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:311