غالب کی وفات کے سو سال مکمل ہونے پرسابق وزیر اعظم اندرا گاندھی، فخرالدین علی احمد اور داکٹر ذاکر حسین نے غالب تقریبات کا اہتمام کیا تھا، ان تقریبات کے بعد ۱۹۷۱ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی گئی، اب یہ ایک معروف انسٹی ٹیوٹ ہے، جو مختلف علمی اور ثقافتی شعبوں میں سرگرم عمل ہے۔ انسٹی ٹیوٹ نے 1992 میں اپنی سلور جوبلی منائی۔ یہاں ایک لائبریری (فخرالدین علی احمد ریسرچ لائبریری) ایک میوزیم، ایک آڈیٹوریم اور ایک گیسٹ ہاؤس ہے۔ یہاں ہر سال ایک بین الاقوامی سیمینار عام طور پر دسمبر کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے۔ ہم سب ڈرامہ گروپ، جو انسٹیٹیوٹ کا ایک حصہ ہے، جوبہت سرگرم رہا ہے اور اس کے مختلف ڈراموں کو لوگوں نے پذیرائی بخشی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ شش ماہی تحقیقی جریدہ "غالب نامہ" بھی شائع کرتا ہے۔ جس کے تحت غالب اور اس کے دیگر نامور ہم عصروں کے خصوصی نمبرات شائع ہوئے، جن کو بہت پزیرائی ملی۔ انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری میں شاذ و نادر نسخے اور اہم اشاعتیں موجود ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات و مشمولات کو ریختہ نے ڈیجیٹلائز کردیا ہے، جن میں نشور واحدی کی "آتش و نم، "آغا حشر کے ڈرامے، جوش کی "آیات و نغمات، مجتبی حسین کی "آپ کی تعریف، محمد طفیل کی "آپ، اعجاز حسی کی "ادب اور ادیب، وارث علوی کی "ادب کا غیر اہم آدمی، 'اردو انسائکلو پیڈیا" کی تمام جلدیں، مسعود حسین کی "اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ، مرزا حامد بیگ کی "افسانے کا منظر نامہ، رسوا کی "امراو جان ادا، رجب علی بیگ سرور کی "انشائے سرور، امیر علی جونپوری کی "انیس کے مرثیے" (مکمل) شوکت تھانوی کی "بکواس، "پاکستانی ادب (انتخاب شعر و نثر) یوسف ناظم کی "پلک نہ مارو، "تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند اشاریہ" (تمام جلدیں) مخمور اکبرآبادی کا "نظیر نامہ، شرر کی "فردوس بریں وغیرہ جبکہ رسائل میں "غالب نامہ، "اردو نامہ کراچی، "اردو کراچی، "اصلاح لکھنو، "اقبالیات، 'تحریک وغیرہ اب ریختہ ڈیجیٹل لائبریری پر پڑھے جاسکتے ہیں۔