تمام
تعارف
ای-کتاب505
مضمون54
افسانہ4
اقوال24
انٹرویو10
شعر1
غزل20
نظم17
آڈیو 1
ویڈیو 20
گیلری 22
رباعی9
بلاگ2
شمس الرحمن فاروقی کے مضامین
شعر، غیر شعر اور نثر
در مکتب نیاز چہ حرف و کدام صوت چوں نامہ سجدہ ایست کہ ہر جانوشتہ ایم بیدل نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کیے جائیں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شعر کی حقیقت اور شاعر بننے
شاعری کا ابتدائی سبق
پہلا حصہ (۱) موزوں، ناموزوں سے بہتر ہے۔ (۱) (الف) چونکہ نثری نظم میں موزونیت ہوتی ہے، اس لیے نثری نظم، نثر سے بہتر ہے۔ (۲) انشا، خبر سے بہتر ہے۔ (۳) کنایہ، تشریح سے بہتر ہے۔ (۴) ابہام، توضیح سے بہتر ہے۔ (۵) اجمال، تفصیل سے بہتر ہے۔ (۶) استعارہ،
نظم کیا ہے؟
اس سوال کا مدعا یہ معلوم کرنا نہیں ہے کہ وہ چیز کیا ہے جسے نظم (یعنی منظوم کلام) کہتے ہیں۔ یعنی اس سوال کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نظم کی وجودیات (Ontology) سے بحث کی جائے۔ نظم با معنی ہوتی ہے کہ نہیں ؟ نظم کے معنی اس کے اندر ہوتے ہیں یا باہر؟ نظم کے موضوع
غالب کی مشکل پسندی
شمار سجہ مرغوب بت مشکل پسند آیا تماشائے بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا غالب کے بارے میں ذوق نے کہا تھا کہ مرزا نوشہ کو اپنے اچھے شعروں کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ بات تقریباً صحیح ہے، لیکن غالب کو اپنے مافی الضمیر کی پوری خبر تھی۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ
علامت کی پہچان
تخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے، تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت۔ استعارہ اور علامت سے ملتی جلتی اور بھی چیزیں ہیں، مثلاً تمثیل Allegory، آیتSign، نشانی Embelm وغیرہ۔ لیکن یہ تخلیقی زبان کے شرائط نہیں ہیں، اوصاف ہیں۔ ان کا نہ ہونا زبان کے غیرتخلیقی
کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں
یہ ہماری زبان کی بدنصیبی ہی کہی جائے گی کہ اس کا رسم الخط بدلنے کی تجویزیں بار بار اٹھتی ہیں، گویا رسم الخط نہ ہوا، ایسا داغ بدنامی ہوا کہ اس سے جلد ازجلد چھٹکارا پانا بہت ضروری ہو۔ کبھی اس کے لیے رومن رسم خط تجویز ہوتا ہے، کبھی دیوناگری اور افسوس کی
صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ
کیا کوئی قاری صحیح معنی میں صاحب ذوق ہو سکتا ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کیا کسی ایسے قاری کا وجود ممکن ہے جس کی شعرفہمی پر ہم سب کو، یا اگر ہم سب کو نہیں تو ہم میں سے بیش تر لوگوں کو اعتماد ہو؟ مجھے افسوس ہے کہ اس سوال کا بھی جواب
ہماری کلاسیکی غزل کی شعریات: کچھ تنقیدی کچھ تاریخی باتیں
کلاسیکی اردو غزل کی شعریات جن تصورات پر قائم ہے انھیں موٹے طور پر دو انواع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جن کی نوعیت علمیاتی (Episternological) ہے، یعنی یہ تصورات اس سوال پر مبنی ہیں کہ شعر سے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ دوسری نوع کے تصورات وہ ہیں جنھیں
غالب اور میر: مطالعے کے چند پہلو
غالبؔ نے میرؔ سے بار بار استفادہ کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غالب اور میر ایک ہی طرح کے شاعر تھے۔ یعنی بعض مظاہر کائنات اور زندگی کے بعض تجربات کو شعر میں ظاہر کرنے کے لیے دونوں ایک ہی طرح کے وسائل استعمال کرنا پسند کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ
ادبی تخلیق اور ادبی تنقید
تخلیق اور تنقید کے باہمی تعلق، ان کے درمیان وجودی تناؤ اور خود نقاد کے منصب کے بارے میں بعض سوالات گزشتہ چالیس برس میں ہمارے یہاں کئی بار اٹھے یا اٹھائے گئے ہیں۔ ان سوالات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے، (۱) کیا تنقید کا مرتبہ تخلیق سے بلندتر
اردو غزل کی روایت اور اقبال
اقبال کی غزل کا مطالعہ اگر اصناف سخن کی قسمیات (Typology) کے نقطۂ نظر سے کیا جائے تو ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمیں کسی دوسرے اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ تقریباً ہر صنف سخن اپنی جگہ پر بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر قماش (Pattern)
میر صاحب کا زندہ عجائب گھر، کچھ تعجب نہیں خدائی ہے
محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں ایک دوست سے کہا کہ مجھے خبر نہیں کہ اس میں کوئی پائیں باغ بھی ہے۔ واقعہ نہایت مشہور ہے لیکن اسے محمد حسین آزاد کے گل و گلزار الفاظ میں سنا جائے تو لطف اور ہی کچھ ہوگا،
مغرب میں جدیدیت کی روایت
کپلنگ کا بدنام زمانہ قول ’’مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب، اور دونوں کا نقطۂ اتصال کوئی نہیں۔‘‘ ہندوستان اور یورپ دونوں کے دانش وروں کا ہدف ملامت رہا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس جذبہ کے تحت یہ بات کہی گئی وہ یقیناً قابلِ اعتراض تھا، لیکن کپلنگ
کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟
تنقید کیا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید بہت تشفی بخش نہ ہو، لیکن تنقید کیا نہیں ہے؟ کا جواب یقینا تشفی بخش اور بڑی حد تک قطعی ہوسکتاہے۔ تنقید عمومی اور سرسری اظہار رائے نہیں ہے۔ غیرقطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔ تنقید کا مقصد معلومات
نثری نظم یا نثر میں شاعری
شاعر کی حیثیت سے اپنے آپ کو دہرانا اور نقاد کی حیثیت سے اپنا حوالہ آپ دینا مجھے انتہائی قبیح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت بات ہی ایسی آ پڑی ہے کہ مجھے اپنی کہی ہوئی باتیں دہرانی پڑ رہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میں نثری نظم کا مخالف ہوں۔ لہٰذا ضروری
اکبر الہ آبادی، نوآبادیاتی نظام اور عہد حاضر
اکبر الٰہ آبادی کے بارے میں چند باتیں عام ہیں۔ ہم انھیں دو حصوں میں منقسم کرکے مختصراً یوں بیان کرسکتے ہیں، (۱) اکبر طنز ومزاح کے بڑے شاعر تھے۔ (۲) وہ حریت پسند تھے۔ (۳) انھوں نے انگریز کی مخالفت میں پرچم تو نہیں اٹھایا لیکن بہت سی انگریز مخالف
میر کی شخصیت: ان کے کلام میں
شاعری کے بارے میں ہمارے یہاں یہ خیال عام ہے کہ یہ شاعر کی شخصیت کا اظہار کرتی ہے۔ اسے طرح طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً نورالحسن ہاشمی نے کہا کہ شاعری یا کم سے کم ’’سچی‘‘ شاعری ’’داخلی‘‘ شے ہے۔ لہٰذا جس شاعری میں شاعر کی ’’داخلی شخصیت‘‘ کا سراغ نہ
فیض اور کلاسیکی غزل
فیض کی غزل کا تذکرہ کرتے وقت عام طور پر جو بات سب سے پہلے کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ فیض نے کلاسیکی علامات کو نئے معنی اور نئی معنویت عطا کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیض کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کے طریق کار میں ہے، جس کے باعث ان کے پانو کلاسیکی زمین میں
اردو لغات اور لغت نگاری
عسکری صاحب مرحوم نے ایک بار مجھ کو لکھا تھا بعض اوقات ہمیں ڈرامے سے لے کر آڈن (W.H.Auden) تک دس کے دس پرچے ایم۔ اے کے درجوں کو پڑھانے پڑتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے ان کے اور ان کے مرحوم استاد پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب (S.C.Deb) یا د آئے جو ہر وہ مضمون پڑھا دیا
غزل کی شعریات: فراق اور احمد مشتاق کا محاکمہ
میزبان: حمید قیصر، سہیل احمد زیدی رپورٹ: احمد محفوظ غالباً ۱۹۸۶ء کی بات ہے کہ جناب حمید قیصر کے دولت کدے پر ادارۂ فن وادب، الہ آباد کی ایک مخصوص نشست منعقد ہوئی۔ اس کے انعقاد کی ایک خاص وجہ تھی۔ فراق صاحب کا انتقال ۱۹۸۲ء میں ہو چکا تھا اور
جدید شعری جمالیات
خالی میدان میں اگر کتا بھی گذرے تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ (والیری) اگر قدیم شعری جمالیات منسوخ ہو چکی ہے تو میدان خالی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ ہر وہ چیز جو اس کی جگہ بھرنے کے لیے میدان میں آئےگی، جعلی ہوگی اور اگر جعلی
انسانی تعلقات کی شاعری
میر کی زبان کے اس مختصر تجزیے اور غالب کے ساتھ موازنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ میر اور غالب میں اشتراک لسان ہے اور نہیں بھی۔ استعمال زبان سے ہٹ کر دیکھیے تو بھی اشتراک کے بعض پہلو نظر آتے ہیں۔ اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ میر کے بعد غالب ہمارے سب
تاریخ، عقیدہ اور سیاست
پرانے زمانے میں ’’اردو‘‘ نام کی کوئی زبان نہیں تھی۔ جولوگ ’’قدیم اردو‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، وہ لسانیاتی اور تاریخی اعتبار سے نادرست اصطلاح برتتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ’’قدیم اردو‘‘ کی اصطلاح کا استعمال آج خطرے سے خالی نہیں۔ زبان کے
اردو شاعری پر غالب کا اثر
بڑا شاعر اپنا کوئی اسکول قائم نہیں کرتا، یہ بات عجیب ضرور ہے لیکن اتنی عجیب نہیں جتنی یہ حقیقت کہ بڑے شاعر کی آنکھ بند ہوتے ہی جو شعری اسلوب نمودار ہوتا ہے، وہ اس کے اسلوب کی تقریباً ضد ہوتا ہے، اور اگر ضد نہیں ہوتا تو اس سے قطعاً مختلف ضرور ہوتا ہے۔
پلاٹ کا قصہ
افسانے پر نظریاتی بحث کی ابتدا ارسطو سے ہوتی ہے۔ چونکہ المیہ، طربیہ اور افسانہ، تینوں میں واقعات کا بیان ہوتا ہے، اس لئے المیہ اور طربیہ میں واقعات کے بارے میں ارسطو نے جو کچھ کہا اس کو افسانے کے لئے بھی صحیح سمجھ لیا گیا۔ چنانچہ ارسطو کے زیرِ اثر یہ
غالب اور جدید ذہن
بڑی شاعری کی ایک پہچان یہ ہے کہ ہرزمانہ میں اس کے پرستار اس کی بڑائی کی جو وجہیں ڈھونڈتے ہیں، وہ اکثر ایک دوسری سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ یہ شاعری بڑی ہے لیکن کیوں بڑی ہے؟ اس سوال کے جوابات نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ اکثر
ولی نام کا اک شخص
۱۹۶۶ میں لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق اس وقت دیوان ولی کے ۶۵نسخے ایسے موجود تھے جن میں تاریخ کتابت درج تھی۔ اور ۵۳ یسے تھے جن میں تاریخ کتابت نہ تھی۔ ان کے علاوہ، ۳۳ایسی مخطوطہ بیاضیں موجود تھیں جن میں ولی کے کلام کا معتدبہ انتخاب درج تھا۔ نورالحسن
افسانے میں بیانیہ اور کردار کی کشمکش
نئے افسانے کے بارے میں عام طور پر اس تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس کو روایت سے اللہ واسطے کا بیر ہے، اس میں روایت شکنی کا رجحان ہے، بلکہ اسے روایت شکنی کی بیماری ہے۔ اس میں بیانیہ کی روایتی خوبیاں نہیں ہیں، یا بہت کم ہیں۔ افسانے سے بیانیہ کے اخراج
اردو غزل کی روایت اور فراق
(رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، ۱۸۹۶ء تا ۱۹۸۲ء) فراق صاحب کی موجودہ عزت و شہرت کے پیش نظر ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات کہنا بھڑوں کا چھتہ چھیڑنا ہے۔ میں اپنے دفاع میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں یہ کام فراق صاحب کی زندگی میں بھی تھوڑا بہت کر چکا ہوں۔
اردو اور اس کا رسم الخط: ایک مباحثہ
شمارہ ۲۵۰ کے ’’شب خون‘‘ میں مضمون ’’کچھ اردو رسم خط کے بارے میں‘‘ نظر نواز ہوا۔ پورا مضمون پڑھا اور پڑھنے کے بعد بس ایک خیال نے چند جملے لکھنے پر مجبور کیا۔ بقول فیض، وہ بات جس کا فسانے میں کوئی ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے میں
ہماری شاعری پر ایک نظر ثانی
نیمارہ نمائے من است، امامن ساختۂ خودم فروغ فرخ زاد اس وقت بالکل یاد نہیں کہ مسعود حسن رضوی ادیب کا نام پہلی بار کب سنا تھا۔ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ حالی اور محمد حسین آزاد کی طرح مسعود حسن رضوی ادیب کا نام بھی میرے ذہن میں اس وقت سے محفوظ ہے جب
تاریخ کی تعمیر نو، تہذیب کی تشکیل نو
’’ہندی/اردو‘‘ کی اصطلاحات کب اور کس طرح رائج ہوئیں، ان کے بارے میں کس کس طرح کے اساطیر وضع کیے گئے اور ان کی اصل، تاریخی صورت حال کیا ہے، ان معاملات کا مندرجہ بالا مختصر بیان ضروری تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بہت سے علما اس رائے کے حامل ہیں کہ وہ زبان
اردو غزل کی روایت اور فراق، پس نوشت
کوئی ڈھائی تین سال ہوئے جب میں نے اپنا مضمون ’’اردو غزل کی روایت اور فراق‘‘ کراچی کے ’’نیا دور‘‘ میں اشاعت کے یے بھیجا تو جمیل جالبی نے مجھ سے کہا کہ مضمون چھپ تو جائےگا لیکن اس کی اشاعت کے بعد جو غلغلہ اٹھےگا اور مضمون کے بارے میں جو کچھ لکھا جائےگا،
افسانے کی حمایت میں (۳)
نقاد نمبر ایک ایسا لگتا ہے نئے افسانہ نگاروں کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ وہی چند گھسی پٹی علامتیں جن کامفہوم خود انہیں بھی ٹھیک سے نہیں معلوم، وہی پرتکلف انداز بیان، وہی زندگی سے بیزاری۔ جو برائیاں آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے افسانہ نگاروں کا
افسانے کی حمایت میں (۲)
افسانہ نگار مجھے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ آپ نے اردو افسانے پر مغربی معیار مسلط کر دیے ہیں۔ ممکن ہے کہ یورپ میں افسانہ غیر ضروری ہو گیا ہو یا اس کو سنجیدگی سے لکھنے اور پڑھنے والے کم ہوں، لیکن آٖپ کو چاہیے تھا کہ اس مسئلے کو ہندوستان اور خاص کر اردو
قرأت، تعبیر، تنقید
قرأت اور تنقیدی قرأت ہم ادب کے عام قاری ہوں یا تنقیدی قاری ہوں، دونوں ہی حیثیتوں میں ہم فن پارے کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ہر فن پارہ تعبیر کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہمارا یہ کہنا کافی نہیں۔ اس قول، یا اس دعوے کے ساتھی یہ بھی کہنا یا یہ دعویٰ بھی
چند کلمے بیانیہ کے بیان میں
ممتاز شیریں نے اپنا بےمثال مضمون ’’تکنیک کا تنوع، ناول اور افسانے میں‘‘ یوں شروع کیا تھا، ’’اردو کے اچھے افسانوں میں یوں ہی چند چن لیجئے، ’آنندی‘، ’حرا م جادی‘، ’ہماری گلی‘، ’شکوہ شکایت۔‘ یہ کس تکنیک میں لکھے گئے ہیں؟ بیانیہ۔ ٹھیک! ان میں مکالمے سے
سادگی، اصلیت اور جوش
حالی نے نئی شاعری کی عمارت جن بنیادوں پر استوار کرنی چاہی تھی، انہیں تخیل، سادگی، اصلیت اور جو ش کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تخیل کے بارے میں عام طور پر معلوم ہے کہ اس باب میں حالی کے افکار کو لرج سے مستعار ہیں، اگرچہ حالی نے کولرج کا نام کہیں نہیں لیا ہے۔
افسانے کی حمایت میں (۱)
بات یہ ہے رام لعل صاحب کہ ان معاملات پر مناسب ترین رائے دینے کے لئے مجھ سے بہتر لوگ اس وقت موجود ہیں، لیکن چونکہ آپ نے ہیری ٹی مور (Harry T. Moore) کی کتاب ’’بیسویں صدی کا فرانسیسی ادب‘‘ دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہے کہ اس میں افسانہ نگاروں کا ذکر کیوں نہیں
افسانے کی حمایت میں (۵)
کردار، تین دوست، جن میں دو ملاقاتی ہیں اور ایک میزبان۔ ایک درویش۔ ایک ملاقاتی کی عمر چالیس اور ساٹھ کے درمیان ہے۔ چھوٹا قد، گول مول بدن، بڑا سر جس پر گنتی کے دوچار بال، بلند قہقہوں جیسی گونجتی ہوئی آواز، چہرہ داڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ پتلون بش شرٹ
کیا نقاد کا وجود ضروری ہے؟
تنقیدمیں کوئی کسی کا ہم سر یا ہم سفر ہوتا یا ہو سکتا ہے، یہ بات بڑی مشکوک ہے۔ بعض لوگ جو نقادوں سے یا تنقیدوں سے ناراض ہیں، وہ تو یہ کہتے ہیں کہ جس سے تخلیق نہ بن پڑے وہ تنقیدکی دکان کھولتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم سری یا ہم سفری کا کیا سوال؟ اپنی
افسانے میں کہانی پن کا مسئلہ
اگر کسی افسانے میں کہانی پن ہو تو کیا وہ افسانہ دلچسپ ہوجاتا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ ہے، تو کہانی پن اور دلچسپی ایک ہی شے کے دو نام ٹھہرتے ہیں۔ یا اگر وہ ایک ہی شے نہیں تو لازم اور ملزوم ضرور بن جاتے ہیں۔ اگر اس سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے تو
مقدمۂ دیوان چرکین
ہم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے لڑکپن میں چرکین کے دوچار شعر نہ سنے ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے (میں بھی ان میں شامل ہوں) جنھوں نے ایک دو شعر چرکین کے یاد بھی کر لئے ہوں گے لیکن چرکین کے مزید کلام کی تلاش شاید دوچار لڑکوں یا بزرگوں نے بھی نہ کی ہو۔
افسانے کی حمایت میں (۶)
کردار قاری اس کی عمر بیس اور چالیس کے درمیان ہے۔ لمبا سفید کرتا اور علی گڈھ کاٹ کا نیچا پاجامہ پہنے ہوئے ہے۔ پاؤں میں ہوائی سلیپر، کاندھے پر ملگجے رنگ کا تھیلا۔ ایسے رنگ کو پرانے لوگ اگرئی یا ملاگیری کہتے تھے۔ اب شاید صرف ملگجا کہلائےگا۔ قاری کی
دریافت اور بازیافت: ترجمے کا معاملہ
ترجمے کے بارے میں سوالات اور مسائل کا گہرا تعلق زبان کی اصل اور نوعیت کے بارے میں سوالات سے ہے۔ اگر کوئی ایسی واحد قدیمی زبان نہیں تھی جسے ہم ام الالسنہ کہہ سکیں اور اگر ہر زبان اپنی جگہ بے عدیل و بےنظیر ہے، تب تو ترجمہ ناممکن ہے۔ چوں کہ ایک زبان سے
مرثیے کی معنویت
آج کے زمانے میں مرثیے کی معنویت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اب سے کوئی سواسو برس پہلے، جب انیسؔ (۱۸۰۲ء تا ۱۸۷۴ء) اور دبیرؔ (۱۸۰۳ء تا ۱۸۷۵ء) موجود تھے، تب مرثیے کی معنویت کیا تھی؟ جواب میں کہا جاسکتا تھا کہ اس وقت مرثیے کی
خدائے سخن، میر کہ غالب؟
اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ ہم نے ابھی میر کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، گوپی چند نارنگ اور محمد حسن عسکری کی اکادکا تحریروں اور اثر لکھنوی کی پرزور مدافعت اور وکالت کے سوا میر شناسی کا دامن خالی ہے۔ فراق گورکھ پوری اور
دبیر کے مرثیوں میں بیانیہ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرزا دبیر بڑے شاعرنہ تھے۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے لیے انیس و دبیر کا تقابلی مطالعہ چنداں ضروری نہیں۔ انیس کے مقابلے میں دبیر ہی کیا، تمام مرثیہ گو پھیکے اور محدود معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دبیر کا مطالعہ الگ سے بھی کیا جائے اور