سراج اورنگ آبادی کا تعارف
تخلص : 'سراج'
اصلی نام : سید شاہ سراج الدین حسینی
پیدائش : 21 Mar 1712 | اورنگ آباد, مہاراشٹر
وفات : 16 Apr 1764 | اورنگ آباد, مہاراشٹر
LCCN :n85184728
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
اردو مین غنائی شاعری کی منفرد آواز
سراج اورنگ ابادی پر گفتگو کرتے ہوے،عام طور پر انھیں،ولی کے بعد اردو کا دوسرا اہم شاعر اور ولی کا جا نشینن کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ایسی ہی ہے جیسے یہ کہہ دیا جاے کہ چاند،سورج کے بعد زمین پر قدرتی روشنی کا دوسرا وسیلہ اور سورج کا جانشین ہے۔ سراج اک بڑے اور منفرد شاعر تھے جن کا کلام زمانی اور مکانی حوالوں کے بغیر بھی پڑھا جاے تو اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ سراج کی شاعری جس توجہ کی مستحق ہے،حق یہ ہے کہ ہم اس کا خاطر خواہ حق ابھی تک ادا نہیں کر سکے ہیں۔
سراج کا پورا نام میر سراج الدین تھا۔ ان کا خاندان حسینی سادات کے محترم گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔اور اسے علم و فضل کی وجہ سے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فقر و درویشی اس خاندان کا طرہء امتیاز تھا۔ ان کے والد سید درویش اسم با مسمی تھے۔ انھوں نے سراج کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ بارہ سال کی عمر تک سراج متداول علوم کی تحصیل میں مصرف رہے۔ اور تمام فارسی اساتذہ کا کلام پڑھ کر اسے اپنی روح میں اتار لیا۔لیکن اسی عمر ان پر اک عالم جذب طاری ہو گیا بیخودی کی اس کیفیت میں وہ گھر سے نکل جاتے۔ اکثر وہ صوفی بزرگ برہان الدین کے مزار پر دیکھے جاتے ، رات رات بھر صحرا نوردی کرتے۔ ان کے والد ان کو پکڑ کر لاتے لیکن موقع ملتے ہی یہ پھر بھاگ نکلتے، یہاں تک کہ مجبورا ان کو زنجیروں میں جکڑا گیا۔ یہ حالت سات سال تک رہی۔ غور طلب ہے کہ جوانی کی دہلیز پر میر تقی میر پر بھی جنون طاری ہوا تھا لیکن میر کا جنون ایک طرح سے نروس بریک ڈاون تھا جبکہ سراج کی بیخودی پر مجذوبیت غالب تھی۔
اس معرکۂ حیات سے گزرنے کے بعد سراج نے ،جب ان کی عمر انیس بیس سال کی تھی اپنے زمانہ کے جید بزرگ عبد الرحمان چشتی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہی زمانہ ان کی شاعری کے آغاز اور عروج کا تھا۔ 1152ہجری میں انھوں نے مرشد کے حکم پر شاعری چھوڑ دی۔ اس طرح ان کی شاعری کی مجموعی عمر چھ سات سال رہی، کہا جا سکتا ہے کہ شاعری اک طوفان کی طرح ان پر آئی اور گذر گئی لیکن بعد کے عہد والوں کو وہ کچھ دے گئی جو دوسرے بہت سے شاعر عمر بھر کی محنت کے بعد بھی نہیں دے پاتے سراج شاعری کو اپنے لئے قابل فخر نہیں سمجھتے تھے نہ ہی وہ اپنی شاعری کے لئے داد کے طلبگار تھے۔ یہ اور بعد کی ان کی غزلیں ان کی زندگی میں ہی مقبول خاص وعام ہو گئی تھیں جو عمائد کی محفلوں میں شوق سے پڑھی جاتی تھیں اور قوال ان کو گاتے تھے۔ لیکن ان کے صوفیانہ تقدس،اور بزرگی نے جو عقیدت مندی حاصل کر لی تھی اس کے نتیجہ میں ان کی شاعری پس پشت جا پڑی تھی۔ پھر بھی تقریبا تمام تذکرہ نویسوں نے بطور شاعر ان کا نام نہایت احترم سے لیا ہے۔
سراج کی شاعری اردو میں عشقیہ شاعری کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ عشق اردو غزل کا خاص موضوع ہے اس کے باوجود بیشتر عشقیہ شاعری مصنوعی ہے۔ ہم شعر کی تعریف کرتے ہیں لیکن ہم کو نہ اس بات سے سروکار ہوتا ہے اور نہ توقع کہ شعر میں کہی گئی بات آپ بیتی بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسی شاعر کی اسی غزل میں، یا دوسری غزلوں میں ایسے شعر مل جائیں گے جو اس شاعر کے عشق کی تلون مزاجی ظاہر کریں گے۔ مختلف غزلوں کے مختلف اشعار میں داخلی ربط کا فقدان شاعر کی کوئی واضح امیج بننے ہی نہیں دیتا۔ میر تقی میر نے البتہ اس داخلی ربط پر زور دیا اور جا بجا "مربوط ریختہ" کہنے پر ناز کیا، اسی لئی ان کی شخصیت ان کی شعری شخصیت سے کسی قدر قریب نظر آتی ہے۔
سراج کا معاملہ یہ ہے کہ کیف و سرمستی اور وجد کا عالم ان کے سارے وجود میں رچا بسا ہے، اس عالم میں جو کچھ بھی ان کی زبان سے نکلتا ھے اس میں مغائرت بالکل نہیں ہوتی ان کی شعری شخصیت اور ان شاعری دونوں ایک دوسرے کی ترجمان ہیں۔ ان کی مشہور زمانہ غزل "خبر تحیر عشق سن۔۔۔۔الخ" کو اردو کی عشقیہ شاعری کے تاج کا تابناک ہیرا کہنا غلط نہ ہو گا ۔ یہ غزل اردو کی عشقیہ شاعری میں اپنی مثال آپ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ، دوسرا تو خیر کیاِ، خود سراج بھی اس رتبہ کی دوسری غزل نہیں کہہ پائے۔ لیکن ان کی تمام شاعری مختلف فاصلوں کے ساتھ اسی غزل کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔
سراج کا عشق مجازی ہے ۔ بہت سے صوفی اور شاعر عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے عشق مجازی کو زینہ بنانے پر زور دیتے ہیں، لیکن سراج کا معاملہ مختلف ہے ۔ ان کے یہاں حقیقت و مجاز ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔۔۔"نہ تو تو رہا نہ میں میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی" سراج کے مجازی عشق میں جو پاکیزگی ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ مجاز بھی حسن حقیقی کا ایک پرتو ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انھوں نے کبھی اپنے مجازی محبوب کو الوہیت کے درجہ پر فائز نہیں کیا۔ ان کے نزدیک ہر حسن، حسن حقیقی کا پرتو ہے پھر جزو، کُل کے رتبہ کو کیسے پہنچ سکتا ہے؟ سراج کی شاعری کا سفر حقیقت سے مجاز کی طرف اور مجاز سے حقیقت کی طرف ہے۔۔۔"خوبرو عاشقوں کے عاشق ہیں * حسن اور عشق میں جدای نئیں" انھوں نے سچ ہی کہا ۔۔۔"اور عاشقوں مثال مجھے تم نہ بوجھیو* سب مبتلاے عام ہیں میں مبتلاے خاص" سراج نےانسانی تعلق کو روحانی طرز احساس سے محسوس کرکے دکھایا۔ اس تک پہنچنا اور اس سے لطف اندوز ہونا اک تربیت یافتہ ذہن کا متقاضی ہے۔ اعلی درجہ کی شاعری معانی سے زیادہ احوال کی منتقلی سے عبارت ہوتی ہے اس لحاظ سے سراج شاعری کو اک اعلی درجہ عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ سراج کی شاعری میں تخیل کی کار فرمائیاں کم نظر آتی ہیں۔ بڑے شاعر کی اک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے شعری مفروضات کو آندھی کی طرح اُڑا لے جاتا ہے سراج کی شاعری کا بھی تقاضہ ہے کہ اسے اس کی اپنی جمالیاتی قدروں کے حوالے سے پڑھا جائے
۔سراج اور ولی کی شاعری میں زبان ،اسلوب بیان، رنگ تغزل، بے تکلفی، بے ساختگی اور سلاست کی بہت سی خوبیاں مشترک ہیں لیکن سراج کے اپنے شخصی نغمے جدا ہیں۔ ولی کے یہاں جو چیز رعب، علمیت اور ہمہ گیر ذکاوت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، سراج کے یہاں وہ درد مندی اور سو کی شکل میں نظر آتی ہے درد اور سوز میر کے کلام میں بھی نمایاں ہے لیکن ان کا مخصوص نغمہ یاس ہے جبکہ، سراج کے یہاں احساس قناعت، تسلیم و رضا، سپردگی بلکہ درد میں حد درجہ چاشنی موجود ہے۔ معشوق کے تغافل پر بھی ان کو پیار آتا ہے۔۔"مجھے نگاہ تغافل،رقیب پر الطاف*اداے مصلحت آمیز نے غلام کیا"۔
سراج کی زبان اپنے تمام ہم عصروں، مظہر جان جاناں، آبرو، مضمون، تاباں وغیرہ کے مقابلے میں عصر حاضر کی زبان سے زیادہ قریب نظر آتی ہے ان کے شعروں پر کبھی میر تقی میر کی زبان کا دھوکا ہوتا ہے تو کبھی وہ غالب کے لب و لہجہ میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔ "گوہر اشک سب سماے ہیں* آج دامن وسیع ہے میرا (سراج) /"فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا* آج دامن وسیع ہے اس کا(میر) اور "جس پھول نے ترے سے کیا دعویٔ جمال*وہ پائمال آفت باد خزاں ہوا(سراج)/چمن میں گل نے جو کل دعوے جمال کیا*جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا(میر) اور پھر غالب کے لب و لہجہ میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں "عالم آب ہے سیرابئ گلزار جنوں*خط ساغر رگ برگ گل سودا سمجھوں"/تپش دل ہے مجھے شاہد مقصد کا وصل*پیچش دود جگر زلف چلیپا سمجھوں"/ہے دل مرا گل رعناے فصل غیر مقرر* کبھی خزان تغافل کبھی بھار تبسم"/چشم عبرت سے تماشاے جنوں کرتا ہوں*خاک در خاک ہے یہ انجمن گِل در گِل"زبان کے برتاو کی ایسی مثالیں سراج کے ہمعصروں کے یہاں مشکل سے ملیں گی۔ بیسیوں الفاظ اور ترکیبیں سراج کے کلام میں ایسی ملتی ہیں جو غالب کے ساتھ مخصوص سمجھی جاتی ہیں، جیسے "سبک روحان معنی"خار گرانِ جاں"،"فکر شرر افشانئی دل"،"بلاے جاں ہر نخچیر"،چراغانِ فراق"،"شکست موج"حسنِ گل فریبِ خانہ زنجیر" وغیرہ۔ اس طرح زبان کی سطح پر بھی سراج کے نجی حوالے ہیں انھیں ولی کی زبان کی توسیع یا قدرے بہتر شکل قرار دینا سراج کے ساتھ نا انصافی ہے۔
مجموعی طور پر سراج کا کلام لفظ و معنی کا اک ایسا گلدستہ ہے جو منفرد اور اپنی مثال آپ ہے سراج نے جس دلسوزی اور درد مندی کے ساتھ عشق کے نغمے گائے وہ ان کو اردو کی غنائی شاعری میں اک منفرد مقام پر فایز کرتی ہے ان کی شاعری کو بار بار اور زیادہ توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n85184728