ظفر گورکھپوری کے دوہے
من صحرا ہے پیاس کا تن زخموں کی سیج
ساری دھرتی کربلا مولا پانی بھیج
بھوکی بھیڑ ہے جسم میں بس سیپی بھر خون
چرواہے کو دودھ دے یا تاجر کو اون
پربت ہو تو پھینک دوں کسی طرح اے جان
کیا چھاتی پہ ہے دھرا خود میں ہی انجان
کون یہاں جو ہاتھ میں سارا یگ لے تھام
ایک سرا جو چھو سکے بہت بڑا یہ کام
سکھی ری جب یہ ٹھان لی جانا ہے ساجن دوار
کیا سانسوں کی بیڑیاں کیا تن کی تلوار
ہرے بھرے کچھ دھیان تھے اور نہ تھا کچھ پاس
پاؤں تلے سے کھینچ لی کس نے ٹھنڈی گھاس