رات کو مطلق نہ تھی یاں جی کو تاب
آشنا ہوتا نہ تھا آنکھوں سے خواب
لوٹتا تھا سوز غم سے آگ میں
دل جگر سکتے تھے دونوں جوں کباب
ہر زماں تھی ساتھ اپنے گفتگو
کیا کروں شہر اور میں دونوں خراب
تھا کرم شیوہ جنھوں کا اٹھ گئے
بیٹھے بیٹھے کھینچئے کب تک عذاب
جایئے کس کے در اوپر کون ہے
ملیے کس سے کون ملنے کا ہے باب
لے جوانی سے پھرے پیری تلک
امتحاں میں آگئے سب شیخ و شاب
ناگہاں مجھ سے لگا کہنے سروش
رہگذر سے لطف کی کر کر خطاب
ہے کریم اب بھی وزیر ابن وزیر
آصف الدولہ فلک قدر و جناب
آسماں رتبہ ہے جس کا آستاں
ناز کر طالع پہ جو ہو باریاب
اس کی ہمت سے سخن کیا سر کروں
بات کہتے دے در و یاقوت ناب
اس کے دست و دل کے رشک و شرم سے
خون ہے دل کان کا دریا ہے آب
جم حشم انجم سپہ گردوں شکوہ
مرجع خرد و کلاں عالم مآب
دست ہمت اس کا گر دربار ہو
پانی پانی شرم سے ہووے سحاب
مال کیا ہے ہفت گنج خسروی
اک ہی کو نواب بخشے ہے شتاب
فخر سام و رستم اس کی بندگی
داخل خدام یاں افراسیاب
جس سحر جرأت سے کھینچی ان نے تیغ
ڈھال رکھے منھ پہ نکلا آفتاب
رزم کے عرصے میں ہلچل پڑ گئی
آسماں کے خیمے کی کانپی طناب
مدعی گر کوہ تھا مارا اکھاڑ
ور زمیں تھا بے سکوں پایا شتاب
خرمن آسا جل گیا انبوہ خصم
چل پڑی جو اس کی تیغ برق تاب
دیو تھے گو معرکے میں بے شمار
ایک ٹھہرا ہو مقابل کیا حساب
زین رکھا جائے مرکب پر اگر
راجا پرجا آن کر دابیں رکاب
زلزلہ پڑ جائے سارے ملک میں
ملک داروں سے کہیں ہاں سرحساب
مطلع ثانی کی اب مائل ہے طبع
کفر ہے حرف و سخن سے اجتناب
مطلع ثانی
اے ترے ڈر سے جگر شیروں کے آب
دشمنوں کو روبہانہ اضطراب
مدعی کی صف ہے کونجوں کی قطار
لشکری اس فوج کا ہر اک عقاب
موج زن جیدھر ہو وہ دریاے فوج
بستیاں اس سمت کی جیسے حباب
گرد اس لشکر کی گر ہووے بلند
پھر زمین و آسماں میں ہے حجاب
جاوے دشمن جوں سگ پاسوختہ
وقت گرگ و میش لے منھ پر نقاب
داوری و منصفی سن دلبراں
چھوڑ دیں عشاق پر کرنا عتاب
رفع بدعت چاہے تو پھر کیا مجال
اٹھ سکے جو نغمۂ چنگ و رباب
منع مے ہووے تو پھر قدرت ہے کیا
جو گلے سے شیشے کے اترے شراب
بحر کیا ہے جو کرے تہ سے سوال
کوہ تیرے حلم کا کیا دے جواب
خوبیاں ہی خوبیاں سر تا قدم
تب کیا صانع نے تجھ کو انتخاب
لطف طبع صاحب مجلس کہوں
یا لکھوں پاکیزہ اس صحبت کا داب
نکلی مستعمل نہایت ورنہ شب
چاندنی کی جاے بچھتی ماہتاب
گر نہ ہو ممدوح علم ظاہری
پر نہیں ہوتی ہے یہ رائے صواب
جو کہے تو چاہیے وہ لکھ رکھیں
حرف ہر یک تیرے منھ کا ہے کتاب
کر دعا پر میرؔ اب ختم سخن
تو کہے جو کچھ کرے حق مستجاب
زیردست اس کے رہیں گردن کشاں
تا قیامت وہ رہے مالک رقاب
دوست اس کے جوش زن جیسے محیط
خاک بر سر مدعی جیسے سراب