۵/ دسمبر۔۔۔ ایک سال پہلے یہی دن، یہی وقت، یہی سماں۔ درختوں کے سائے رات کے دھندلکے میں ڈوب رہے ہیں۔ گنگا پرشاد میمویل ہال کے برآمدہ میں، میں سردار بائی سے باتیں کر رہی ہوں۔ ساحر آٹو گراف کے شائقین کے ہجوم میں گھرے ہوئے ہیں، ہم لوگ دوپہر کو یونیورسٹی گئے تھے، وہاں سے ’’نیا پتھ‘‘ کے دفتر ہوتے ہوئے ابھی ابھی واپس آئے ہیں۔ چھ بجے آپا کی صدارت میں یو۔ پی اسٹوڈنٹس کنونشن کا آخری اجلاس ہونے والا ہے۔ کئی دن سے ایک ہنگامہ تھا، آج خاموش ہوجائے گا۔ شاید یہ سوچ کر فضا بھی اداس سی ہے۔ میری نگاہیں صوفیہ کو ڈھونڈ رہی ہیں، آج میں نے ان سے مجاز صاحب کے یہاں جانے کا طے کر رکھا تھا۔۔۔
وہ آئیں۔ ’’میں صبح سے آپ کا انتظار کر رہی تھی، آپ نے تو آج دارالسراج چلنے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘
لکھنؤ دو کششوں نے کھینچا تھا، صفیہ آپا مرحومہ کی خاک لحد پر کچھ آنسو نذر کرسکوں، یہ مدت سے آرزو تھی۔۔۔ اور بنے بھائی جنہیں ترقی پسند تحریک کا روح رواں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔۔۔ انھیں دیکھنے کی تمنا۔ لیکن آپا کے بعد آپا کے گھر جانے کا حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔ صوفیہ سے ملاقات ہوئی تو کچھ دل بڑھا، پرسوں مجاز صاحب سے بھی کہا تھا، اور انھوں نے بھی چلنے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ لیکن سب ہی کانفرنس کے ہنگاموں میں الجھے رہے۔۔۔ آج تو بہت رات ہوجائے گی۔ آپ مجھے بتا دیجیے، میں خود ہی آجاؤں گی، میں شرمندہ ہوتے ہوئے صوفیہ سے کہہ رہی ہوں۔۔۔
اور مجھے نہیں معلوم آج ہی رات جانا ہے۔۔۔ رات گئے۔۔۔ مجاز وعدہ نبھائیں گے اور تنہا نہیں۔۔۔ جاؤں گی۔۔۔ سردار بھائئ۔۔۔ ساحر۔۔۔ بنے بھائی۔۔۔ آج رات تو سبھی کو جانا ہے۔۔۔
’’صوفیہ صبح مجاز صاحب تو گھر پر ہوں گے!‘‘
وہ تو کئی دن سے گھر نہیں گئے، ممکن ہے چلے جائیں۔ کانفرنس سے پہلے تو دن میں گھر پر رہتے تھے۔ سردار بھائی چونکے۔
آج مجاز نظر نہیں آئے، کیا گھر پر نہیں؟
’’جی نہیں، جب سے کانفرنس شروع ہوئی ہے وہ گھر سے باہر ہی ہیں۔‘‘
اور اس لمحہ صوفیہ کا چھوٹا بھائی آیا، وہ گھبراہٹ کے ساتھ صوفیہ کو کچھ بتارہا ہے۔ صوفیہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو رہا ہے اور بس وہ گرپڑی۔
مجاز صاحب بلرام پور ہاسپیٹل میں ہیں۔ ان کی حالت بہت نازک ہے۔ دن کے دو تین بجے انہیں وہاں بے ہوشی کی حالت میں لے جایا گیا تھا۔ اب تک ہوش نہیں آیا۔۔۔
یہ کیا ہوا۔۔۔ کچھ سمجھ یں نہیں آتا، کل تک تو کتنے شگفتہ اور شاداب نظر آرہے تھے۔ بڑے زندہ بڑے متحرک۔۔۔ اور سب کہہ رہے تھے، مجاز کو ایک مدت کے بعد اس عالم میں دیکھا ہے۔
ایک سال پہلے میں نے اسی زمانے میں انھیں دہلی میں دیکھا تھا پہلی بار۔۔۔ بڑے ڈوبے ڈوبے سے، خاموش۔۔۔ رانچی سے واپس آئے تھے، مگر ازلی معصومیت اور متنانت جنوں کی چاک دامانی کو چھپائے ہوئے تھی۔۔۔ سب کے درمیان ہوکر بھی وہ بہت دور تھے۔۔۔ وہ سب جن کی شعلہ بیانی اور گلفشانی کے تذکرے عام تھے۔ خاموشی کی مہر لگائے۔۔۔ جیسے کسی شریر بچے کو استاد نے منھ پر انگلی رکھ کر بٹھادیا ہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ ان سے باتیں کروں، بہت سی باتیں۔۔۔ ساحر صاحب کے پیچھے انھیں اچانک دیکھ کر میں بے بے ساختہ اچھل پڑی۔۔۔ مجازؔ۔۔۔ اور میں اور باجی (میری خالہ زاد بہن نجمہ سلطان) دل ہی دل میں مجاز کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔۔۔ جیسے اچانک کوئی بڑی قیمتی چیز مل جائے۔۔۔ دل چاہتا تھا کہ مجاز آپے میں ہوتے اور ان سے بہت سی باتیں کرسکتی، اس خوشی اور اس خلوص سے جو دل میں خاموشی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ ان سے کچھ سنانے کی فرمائش کی اور انھوں نے دو غزلیں سنائیں
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تیری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
بہ ایں سیل و غم و سیل حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
نظر آپ ہی سے ملانا بھی ہے
پہلی بار مجاز کو دیکھا اور سنا۔۔۔ کہیں یادوں کے لیے وہ خاموش ملاقات بھی امٹ تھی۔۔۔ مجاز کو والہانہ پڑھا تھا۔۔۔ لیکن ان کی شخصیت کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں تھا، ۔۔۔ ہاں بچپن سے یہی سنا تھا، مجاز شرابی ہیں، آوارہ ہیں۔۔۔ وہ شاعروں میں قے کردیتے ہیں۔ وبال جان ہوجاتے ہیں۔۔۔
لیکن مجاز کو پہلی بار دیکھا تو مجاز میں وہ شرابی کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔ اتنے معصوم جیسے فرشتوں نے بھی معصو میت مجاز سے پائی ہے۔۔۔ جنوں کی حدیں پار کر کے آئے تھے، لیکن نظر نظر میں قرینہ۔۔۔ ایک متانت وقار۔۔۔ لکھنؤ کی تہذیب کا باتکلف سراپا۔۔۔
میرے دل میں تو ان کے لیے بڑی عزت بڑا احترام پیدا ہوا۔۔۔ نارتھ ایونیو سے لال قلعہ تک مجاز کا بس میں ساتھ رہا۔۔۔ وہ آگے چلے گئے۔۔۔ ہم لو گ ایڈورڈ پارک پر اترگئے جہاں مجاز کی ’’آوارہ‘‘ نے جنم لیا تھا۔۔۔ راستہ بھر ان کا ذکر کرتے آئے۔۔۔ اور اس خاموش سی ملاقات کی مدت کا احساس نہیں مٹ سکا، جس دن ساحر نے باقر مہدی سے تعارف کروایا، میرے منھ سے بے ساختہ یہی نکلا میں نے آپ کو مجاز کے ساتھ دہلی میں دیکھا تھا اور وہ سوچنے لگے۔۔۔
بھوپال میں کتنی بار انہیں بلانے کے لیے ہاتھ پیر مارے۔۔۔ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہاں ہیں۔ دہلی سے سرفراز بھائی نے لکھا۔۔۔ مجاز دہلی میں ہوتے تو شہر کی گلیوں میں چرچے ہوتے۔
لکھنؤ آتے ہوئے سوچا تھا، مجاز کو لے کر یا کم از کم آنے کا وعدہ لے کر آؤں گی، ایک ساتھی نے کہا ’’بخشیے، ابھی تو نیازحیدر کو بھگتنا ہے۔۔۔!‘‘ تومیں نے جل بھن کر کہا، ’’مجاز کو بھگتنے کی ضرورت کسی کو نہیں پڑے گی۔‘‘
مجاز کو بھگتنا اب بھی کچھ لوگوں کی راحت اور مسرت ہے۔۔۔
پھر ۳/ دسمبر کو ساحر نے مجاز سے ملوایا تو مجاز، مجاز نظر آرہے تھے۔۔۔ بڑے شگفتہ سرگرم گفتگو۔۔۔
ساحر نے کہا مجاز تم سردار ک کے پاس کب سے بیٹھے ہو؟
’’پینتالیس منٹ سے‘‘ مجاز گھڑی دیکھ کر مسکرائے۔
’’ تو بس پانچ منٹ میں یہاں آجاؤ۔‘‘
اور مجاز ساحر کے پاس آکر بیٹھ گئے۔۔۔ دونوں پچھلی ملاقاتوں کی یادیں بڑی مسرت اور بڑے جوش سے یاد کر رہے تھے۔۔۔ میرے ہاتھ میں ’’پرچھائیاں‘‘ تھیں۔
مجاز نے ساحر سے کہا۔ ’’یہ تمہاری نئی نظم ہے،‘‘ اور کتاب دیکھنے لگے۔
ساحر نے کہا، تم ابھی مت پڑھو، میں نے زہرہ سے بھی یہی کہا تھا۔ میں نے مدت بعد تو نئی نظم لکھی ہے تم لوگ پھر یہی شکایت کروگے، کوئی نئی نظم نہیں سنائی، مجاز مسکرائے اور پھر یہ مسکراہٹ ایک حسرت میں کھوگئی۔
’’تم لوگ اپنی نئی نظمیں پڑھوگے اور ہم نے ایک عرصے سے کچھ لکھا ہی نہیں۔۔۔ اور اب کبھی لکھیں گے یہ امید بھی نہیں۔‘‘
ساحر نے ملول ہوکر کہا، ’’مجاز تم نے اب تک جو کچھ لکھا ہے تمام پر بھاری ہے جو ہم لکھ چکے ہیں اور لکھیں گے۔‘‘
’’یہ تو تمہاری محبت ہے‘‘
میں مجاز کو بایتں کرتے ہوئے سن کر خوش ہو رہی تھی کہ میں بھی ان سے باتیں کرسکوں گی۔۔۔ وہ پہلی ملاقات کی یاد تازہ کر رہے تھے۔۔۔ اور بہت سی باتیں جلسہ کی کارروائی تک ہوتی رہیں۔۔۔ اور ختم ہوگئیں۔
دس بجے سے مشاعرہ تھا، ساحر نے کہا، تم تو یہیں ٹھہروگی، ہم لوگ ابھی آتے ہیں۔ ’’آج میں نے اور سردار نے مجاز کی دعوت کی ہے، تم تو وہاں جانا پسند نہیں کروگی۔‘‘ دعوت کی نوعیت واضح ہوچکی تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے تکلیف سی ہوئی۔
’’آپ لوگ مجاز کی اب بھی یہی خاطر کرتے ہیں۔‘‘
’’اگر ہم لوگ آج یہ خاطر نہ کرتے تو دوسرے کرتے اور وہ خاطر زیادہ نقصان دہ ہوتی۔‘‘ اتنے میں مجاز نے پکارا۔
ساحر بے تابی سے لپکتے ہوئے بولے، ’’مجاز بہت دن بعد ملا ہے، اس سے ایک لمحہ دور رہنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘اچھا ابھی آتے ہیں اور پھر جاتے جاتے مڑ کر کہا۔ ’’مجاز کا تو کہہ نہیں سکتا، مگر میں باہوش و حواس ہی آؤں گا۔‘‘
اور پھر مشاعرہ شروع ہوچکا تھا۔ مجاز اور ساحر آئے۔ عصمت آپا نے اشارہ سے پوچھا، ’’مجاز کیا حال ہے‘‘
مجاز دو زانو ہوکر کئی بار آداب بجالائے مشاعرہ کا پھیکا پھیکا حصہ عصمت آپا کی چٹخارہ دار باتوں میں گزر رہاتھا، قریب بیٹھی ہوئی سب ہی لڑکیاں اور خواتین ادھر ہی کان لگائے تھیں۔
آپا بولیں، ’’مجھے اپنے دو لڑکوں کی بڑی فکر ہے تم اتنی ساری لڑکیاں کس مرض کی دوا ہو، کوئی مجاز اور ساحر سے شادی کیوں نہیں کرلیتیں۔‘‘
’’ایک خاتون بولیں، ساحر سے تو کوئی بھی کرلے۔ مجاز سے کون کرے گا؟‘‘
’’کیوں مجاز میں کیا عیب ہے۔‘‘ آپا کو ناگوار گزرا، ’’اب تو وہ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’ٹھیک ہوجانا ہی تو کافی نہیں، بیوی کو کھلائیں گے کہاں سے؟‘‘
’’یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ شوہر ہی کما کر کھلائے۔‘‘
’’لیکن ہر لڑکی کی خواہش تو یہی ہوتی ہے‘‘
’’کیوں بیوی کما کر نہیں کھلا سکتی، شادی پیسہ سے کی جاتی ہے یا انسان سے؟‘‘
’’انسان سے ہی کی جاتی ہے، لیکن پیسے کے بغیر کب ہوتی ہے؟‘
’’ہنھ، نہیں ہوتی ہوگی۔ میں نے تو کم از کم انسان سے شادی کی ہے۔ پیسے سے نہیں۔‘‘ آپا نے بری خوداعتمادی سے خود کو اٹھا لیا اور اس روایت کو دمان سے حقارت سے جھٹک دیا۔ ’’کیوں کیا شادی پیسہ سے کی جاتی ہے۔‘‘ آپا نے میرے کان میں سرگوشی کی اور میں منمنائی، ’نہیں آپا۔۔۔ پیسہ سے تو نہیں کی جاتی اور میں نے ساحر اور مجاز کی طرف دیکھا۔ پیسہ سے نہ ساحر کی شخصیت میں اضافہ تھا، نہ مجاز میں کوئی کمی اور مجھے لگا جیسے مجاز اور ساحر کو دوپلڑوں میں رکھ کر ان باتوں نے ایک طرف پیسہ چڑھادیا ہے تو مجاز بہت اوپر اٹھ گئے ہیں۔۔۔ ان کی شخصیت کی یہ بھی بلندی ہے۔
آپا کہنے لگی۔۔۔ شاہد نے لکھنؤ سے دوچیزوں کی فرمائش کی تھی، چکن او رمجاز۔ جب میں نے مجاز سے کہا تو کہنے لگا، ’’یہ کہیے کہ گریبان اور چاک گریبان دونوں ہی منگوائے ہیں۔‘‘
گلابی لاؤ چھلکاؤ لنڈھاؤ کہ شیدائے گلابی آگیا ہے۔
اور مجاز اٹھے۔۔۔ گلابی چھلکائے، لنڈھاتے۔۔۔ اور محفل پر سرور چھاگیا۔۔۔ کچھ ان کی بے خودی پر خندہ زن بھی تھے اور کچھ ملول ہوں گئے تھے۔۔۔ وہ ایک عجیب انداز میں پڑھ رہے تھے۔ جوش مستی، بیخودی ہوشیاری۔۔۔ تپک، گرج۔۔۔ سوز درد۔۔۔
بہ ایں سیل غز و سیل حوادث
میرا سر ہے ک ہاب بھی خم نہیں ہے
اور
زمانہ سے آگے تو بڑھ اے مجاز
زمانہ کو آگے بڑھانا بھی ہے
ایسا یقین کہ زمانہ کو آگے بڑھانے کے لیے اس آخری شرط سے بھی گزر ہی جائیں گے۔۔۔ اور محفل سے اٹھ گئے۔۔۔
تصورات کی پرچھائیاں ابھر ابھر کر ڈوب رہی تھیں۔۔۔ اور اب۔۔۔ اچانک یہ ہوگیا۔
سردار بھائی وار ساحر مضطرب ہیں، ’’مجاز کو دیکھ تو آئیں، پھر جلسہ ختم ہونے پر چلے جائیں گے ان کے پاس، اور جاتے جاتے سردار بھائی نے مجھے پکارا، ’’زہرہ تم مجاز کو دیکھنے چلوگی؟‘‘
میرا دل تو چاہتا ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ میں نے صوفیہ کا سہارا لیا۔۔۔ وہ مجاز کی بھتیجی ہیں۔۔۔ اور میرے اصرار پر وہ تیار ہوگئیں۔ ٹیکسی میں اندھیرا ہے، باہر اندھیرا ہے، دل و نظر کے سامنے اندھیرا ہے، کیا ہوگیا، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہاسپٹل آگیا۔ ایک خوف ایک دہشت، ایک درد۔۔۔
تیز تیز قدموں سے سب ہال میں داخل ہو رہے ہیں۔ مہربانی سے کیا آپ بتاسکیں گے۔ ’’مجاز کہاں ہے‘‘ سردار بھائی پوچھ رہے ہیں۔
’’مجاز کون مجاز۔۔۔‘‘ چہرہ پر لاعلمی ابھری، اردو کے مشہور شاعر اسرارالحق مجاز لکھنوی۔۔۔!
’’ادھر معلوم کیجیے شاید کوئی بتاسکے۔‘‘
’’سسٹر مہربانی سے بتاسکیں گی کہ مجاز اردو کے مشہور شاعر کس وارڈ میں ہیں، انہیں آج ہی جنرل وارڈ میں داخل کیا گیا ہے۔‘‘
جی۔۔۔ وہی لاعلمی۔۔۔ اور پھر سردار بھائی نے کہا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں تین بجے بے ہوشی کی حالت میں ایک مریض کو داخل کیا گیا ہے، کیا آپ بتاسکیں گی وہ کہاں ہیں۔ ’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ وہ کیس ہے۔۔۔ ہاں وہی ہوگا۔ وہ کیس سب جانتے ہیں۔۔۔ جی ہاں وہی مریض اردو کے مشہور شاعر اسرارالحق مجاز ہیں۔
وارڈ مل گیا ہے!
قدموں کی چاپ دل کی دھڑکنیں سمیٹے وارڈ میں داخل ہو رہے ہیں۔ دروازے کے قریب پہلا ہی بیڈ ہے۔
میری باتوں میں مسیحائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بیمار ہوں میں
سرخ کمبل اور سفید پٹیوں میں سے وہی تیکھے تیکھے خدوخال جھانک رہے ہیں، منھ سے لاوا اچھل کر بہہ رہا ہے۔۔۔ سرخ سرخ سیال شے۔۔۔ خون تو نہیں۔۔۔ اس نے کہا نہیں شراب ہے۔۔۔ صوفیہ کے والد صاحب سرہانے بیٹھے کپڑے سے منھ پونچھ رہے ہیں۔
’’مجاز کو آکسیجن دی جاری ہے۔۔۔‘‘ نفسِ شعلہ بار سے گلشن اور گلستاں پھونکنے والا آج اپنی ہی زندگی کا اجڑا، ٹوٹا کھسوٹا چمن، پھونکنے پر تل گیا ہے۔۔۔ اور یہ آکسیجن۔۔۔ یہ مصنوعی سانسیں۔۔۔ کون ہے جو یہ مجاز کو سانسیں دے رہا ہے۔ وہ دکھائی کیوں نہیں دیتا جس نے مجاز سے اس کی سانسیں بھی چھین لی ہیں۔۔۔ یہ بھیک کے چند سانس۔۔۔ ڈاکٹر کہتا ہے، وہ بچ نہیں سکیں گے۔ وہ جس کی خودداری نے کبھی زندگی کو بھیک کا کاسہ نہیں بنایا۔۔۔ آج چند سانسوں کی بھیک لے گا۔۔۔ شاید یہی فیصلہ ہونا ہے، آج کی رات، سردار بھائی نے ڈاکٹر سے کہا۔ انھیں پرائیویٹ وارڈ میں منتقل کروا دیجیے۔‘‘
’’ہم لوگ کہہ چکے ہیں کہ ایک جنبش میں بھی خطرہ ہے۔‘‘
’’زہرہ تم یہیں ٹھہروگی یا چلوگی، ہم لوگ کسی بڑے ڈاکٹر کو لینے جارہے ہیں۔‘‘
’’نہیں ہم لوگ یہیں رکیں گے۔ آپ جلدی سے ڈاکٹر کو لے آئیے۔‘‘
سردار بھائی نے پھر پکارا۔ ’’زہرہ سنو تم اس نرس سے دوستی کرلو تاکہ وہ اچھی طرح مجاز کی دیکھ بھال کرے۔‘‘
میں صوفیہ کے پاس آکر ایک خالی بیڈ پر بیٹھ گئی ہوں اور نرس کو دیکھنے لگی۔ وہ کسی اناڑی سنگتراش کے بنائے ہوئے احساس سے عاری ایک مجسمہ دکھائی دے رہی ہے۔ وہ مجاز کی نورا نہیں ہے۔ سردار بھائی نے اسے بتایا کہ یہ مریض اردو کا بہت بڑا شاعر ہے۔ لیکن شاید وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ شاعر کیا ہوتا ہے۔۔۔ اور اردو کاشاعر۔۔۔ وہ اردو نہیں جانتی وہ پوری بے نیازی سے اپنی کرسی پر بیٹھی پاؤں ہلا رہی ہے اور مریض کی رپورٹ پر غور کر رہی ہے جو ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہے۔۔۔! کمرہ میں کچھ بستر اور ہیں۔۔۔ کونے سے ایک عورت نے پکارا۔
بائی تم ان کی کون ہو؟
میں نے صوفیہ کی طرف دیکھا۔۔۔ میرا مجاز سے جو رشتہ تھا میں اسے جانتی تھی۔۔۔ لیکن سماج تو آج بھی نہیں پہچانتا کہ انسان کا انسان سے بھی کوئی رشتہ ہوتا ہے۔۔۔ اور فن کار کا تو سب سے بڑا رشتہ عوام ہی سے ہوتا ہے۔
’’میرے چچا ہیں۔‘‘
’’اور یہ کون ہیں ان کی۔‘‘
’’یہ بھی میری بہن ہیں۔‘‘
وہ بولی ’’ان کی بیوی کہاں ہیں۔۔۔‘‘
’’ان کی شادی نہیں ہوئی‘‘
’’بے چارے!‘‘
اور میں سوچ رہی ہوں۔۔۔ بے چارے۔۔۔ مجاز بیچارے ہوگئے۔۔۔ کسی مجبور خداکی ذیا کے محتاج۔۔۔ میں اس سے کیسے کہوں یہ بے چارے نہیں۔۔۔ انہوں نے بے چارگی کی کلائیاں مڑوری ہیں۔۔۔ بغاوت کے گیت گائے ہیں۔۔۔ بغاوت کے نعرے لگائے ہیں۔۔۔ اور خدا کو بھی جھنجھوڑ کر جگانا چاہا ہے۔
لیکن میں تو اس سے یہ بھی نہیں کہہ سکتی ہوں کہ مجاز کا مجھ سے کیا رشتہ ہے۔۔۔ خود اس سے کیا رشتہ ہے۔۔۔ شاعر کا عوام سے، زندگی سے کیا رشتہ ہوتا ہے، اور زندگی سے وہ رشتہ توڑ بھی لیں تو زندگی ان سے رشتہ نہیں توڑے گی۔۔۔ ان کا رشتہ آج کوئی رشتہ نہیں، لیکن کل اس رشتے کو مضبوط بنایا جائے گا۔۔۔ ہر نسل سے، ہر دور سے، ہر انسان سے یہ رشتہ قریب تر ہوتا جائے گا۔
اور میں یہ سارے احساس سمیٹے، سارا شعور لیے بیٹھی ہوں، لیکن دوچار قدم پر مجاز موت کے سمندر میں غوطے کھارہے ہیں۔۔۔ آہ یہ ممکن نہیں کہ میں ہاتھ بڑھاسکوں۔۔۔ میں کچھ بھی تو نہیں کرسکتی۔۔۔ کاش میں کچھ کرسکوں، میرا دل چاہ رہا ہے کہ ہر قیمت دے کر بچاسکوں۔ اس وقت میری نگاہوں میں ایک انجانے چہرے کے نقوش ابھر رہے ہیں۔۔۔ سردار بھائی کی کہانی کی ہیروئن گلیتا کے نقوش۔ سوویٹ روس کی وہ عظیم بیٹی جس نے ترکی کے شاعر ناظم حکمت کو نئی زندگی دی ہے اور جیسے گلیتا مجاز سے کہہ رہی ہے۔۔۔ مجاز تمہارے ملک نے زہرہ جبیں اور سلمہ اور ناہید اور انجم ہی پیدا کی ہیں۔۔۔ کسی گلیتا کو جنم نہیں دیا مجاز۔ جو زندگی کے ہر زخم کو اپنی بے لوث محبت کے ریشم سے بھر سکتی۔۔۔ تمہیں موت کے منھ میں جانے کے لیے یوں تنہا نہ چھوڑدیتی۔۔۔
گلیتا۔۔۔ جو تم سے بصد تباہی بصد خانہ خرابی بھی محبت کرسکتی۔۔۔ اس لیے کہ تم شاعر ہو۔ فن کار ہو۔ فن کار ندگی کے لیے پیدا ہوتا ہے، انسانیت کے لیے پیدا ہوتا ہے۔۔۔ وہ تمھیں بتاسکتی ہے۔ تمہیں زندگی کی ضرورت نہیں لیکن زندگی کو تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ اسے صدیوں کوئی تم سا نہیں ملے گا۔۔۔ اور یہ نرس تمہیں نہیں جانتی کیوں کہ یہ اردو نہیں جانتی اور تم اردو کے شاعر ہو، تمہارا ملک کب جانے گا مجاز کہ ہر زبان ملک کی زبان ہے، ہر شاعر عوام کا شاعر ہے، اور ساری زبانیں انسانیت کی زبان ہیں۔۔۔ سارے فن کار انسانیت کا دل۔۔۔ تم شراب پیتے تھے۔۔۔ شراب تمہارے لیے زہر بن گئی۔ لوگ دیکھتے رہے تم زہر پی رہے ہو۔۔۔ تم سے نفرت کرتے رہے۔ کسی نے یہ زہر تم سے چھین لینا نہیں چاہا۔۔۔ تمہارے لیے شراب کشید کر کے خوبصورت الماریوں میں نہیں سجائی۔۔۔ یہ نہیں سوچا تمہارے شعور کے چراغوں کی زندگی کے اندھیروں میں بہت بڑی قیمت ہے۔۔۔
کاش مجاز تمہارا ملک کوئی گلیتا پیدا کرسکتا۔۔۔ یا اس کا جبر و استبداد تمہیں اپنی سرحدوں سے دور پھینک دیتا اور کوئی گلینا تمہیں اپنی بانہوں میں لے لیتی۔۔۔ تم اہنسا کی کند چھری سے یوں ذبح نہ ہوتے۔ تمہارا احساس، بے کاری، مفلسی کے زخم کھا کھا کر شراب کی پناہ نہیں لیتا۔۔۔
مجاز تمہارا ملک گلیتا کب پیدا کرسکے گا۔۔۔ گلیتا۔۔۔ جو ساری انسانیت کی دوست ہے۔۔۔ ملکوں کی دوست ہے۔۔۔ عوام کی دوست ہے۔ وہ ناظم حکمت سے محبت کرتی ہے۔۔۔ مجاز سے محبت کرتی ہے۔۔۔ وہ ترکی کے شعر اپنی زبان میں ترجمہ کرتی ہے اردو کے شعر بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ زندگی سے محبت کرتی ہے۔۔۔ اور موت سے نفرت۔۔۔ وہ پیار سے محبت کرتی ہے۔۔۔ نفرت سے نفرت۔۔۔
گلیتا۔۔۔ میرا ملک گلیتا کب پیدا کرسکے گا، میں سوچ رہی ہوں۔۔۔ لیکن گلیتا۔۔۔ میرے سامنے سے کیوں نہیں ہٹتی یہ مجھ سے کیا چاہتی ہے۔
وارڈ کی خاموش اور غم ناک فضا میں تیز تیز سانسوں سے انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اور بھی خاموشی چھاجاتی ہے، موت کے قدموں کی آہٹ تیز تر ہورہی ہے۔۔۔ کوئی ڈاکٹر نہیں ملا سردار بھائی اور ساحر صاحب پھر گئے ہیں، تاکہ اجلاس ملتوی کروادیں اور ڈاکٹر کو تلاش کرکے لائیں۔۔۔
صوفیہ کے والد اٹھ کر باہر گئے اور ہم دونوں سرہانے کھڑے ہوگئے ہیں۔۔۔ زندگی یوں چپکے سے سب کی نگاہوں سے دور یہ آنسو گرا دینا چاہتی ہے جس کے ٹپکتے ہی نہ جانے کتنے خلوص سے دھڑکتے ہوئے دل آنکھوں سے خون برسائیں گے۔۔۔ یہ رات کتنی تاریک۔۔۔ خاموش اور تنہا ہے۔ مجاز کی موت اور زیست کی کشمکش کا راز اپنی گہرائیوں میں چھپائے۔۔۔ میری جرأتیں ہر جھجھک کا دامن جھٹک رہی ہیں، لیکن میں یہ زہر ہی تو پونچھ سکتی ہوں، جو کل پی گئے تھے۔۔۔ آج چھلکا رہے ہیں۔۔۔ وقت گزر رہا ہے۔۔۔ ہاتھ سانسوں کی ابھرتی ڈوبتی تال پر رقص کر رہا ہے۔۔۔ یہ کیسا دردناک رقص ہے، کتنا بھیانک۔۔۔ ہر لمحہ اس احساس سے کانپ رہا ہے کہ ساز خاموش نہ ہوجائے۔۔۔
یہ شراب ہے جس سے لوگ نفرت کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے برسوں لب معجز نما نے آگ برسائی ہے مجاز پر۔۔۔ شراب سے میں نے بھی نفرت کی تھی اور یہ پہلا اتفاق ہے کہ شراب میرے اتنے قریب آگئی ہے لیکن میرے احساس میں تو نفرت کا کوئی احساس نہیں، ہاں مجھے اس زہر سے ضرور نفرت ہو رہی ہے، جو مجاز کو ہلاک کر رہا ہے، لیکن اس زہر میں مجاز کی موت ہے تو زندگی بھی ہے۔۔۔ یہ زہر بھی ہے خون بھی ہے، اور خون اور زہر سے تر روئی کی بالٹیاں بھرتی جارہی ہیں، جیسے زندگی بھر کی پی ہوئی چھلکا کے جارہے ہیں۔۔۔ اور وہ صاحب بار بار آرہے ہیں جو مجاز کے کل رات کے ہم مشربوں میں سے تھے۔۔۔
’’آپ تھک گئی ہوں گی اب آپ گھر چلی جائیے۔ سردی بہت ہے یہ زہریلے گھونٹ برداشت نہیں ہو رہے۔۔۔ زندگی اور موت کی گھاٹی سے گزرتے ہوئے اس انسان سے زیادہ کسی کو تکلیف نہیں۔۔۔ دل چاہتا ہے کہ یہ تکلیف ہر سینہ میں ہر دل میں اس طرح تڑپ اٹھے۔۔۔ یہ لمحے خنجر بن کر اتر جائیں۔۔۔ اور ان لمحوں میں کائنات کی گردش بھی رک کر ان سانسوں کو گننے لگے۔ لکھنؤ اپنی مسیحائی کی ساری طاقت آج کی رات مجاز پر صرف کردے۔۔۔ کیا آج ہندوستان میں اتنا بھی ممکن نہیں؟ ۔۔۔ میرے وطن میں ایک رات کے چند گھنٹے بھی ایک فن کار کی زندگی کی قیمت نہیں۔۔۔
گلیتا کی دھرتی نے برسوں ترکی کے شاعر ناظم حکمت کی زندگی پر توجہ صرف کی ہے۔۔۔ مجاز کے لیے کوئی ڈاکٹر نہیں مل سکا۔۔۔ یہ سفاک مسیحا جس کے دل پر انسان نہیں پیسے کی حکومت ہے۔
نرس اب بھی اپنے بوائے فرینڈ سے مذاق کر رہی ہے۔۔۔ قہقہہ لگا رہی ہے، کیوں کہ اس سرخ کمبل کے نیچے دم توڑتی ہوئی سانسوں کی کوئی قیمت نہیں۔۔۔ یہ ان کروڑوں انسانوں کی سانسیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں۔۔۔ قیمت تو مٹھی بھر سانسوں کی ہے۔۔۔ وہ سانسیں جو پرائیویٹ وارڈ میں لے جائی جاتی ہیں۔
مجاز کے کتنے ہی ہم عصر پیسہ کا پیوند بن گئے ہیں لیکن ان کی زندگی کا اس سرخ کمبل سے کیا رشتہ ہے، شعور اور زندگی نے کیا عہد و پیمان کیے ہیں کہ جہاں شعور نے دم توڑا وہیں زندگی بھی ڈھیر ہونا چاہتی ہے۔ اندھیری رات کا مسافر فن کی دنیا میں خود بھی گم ہونا چاہتا ہے۔۔۔ نو بج چکے ہیں، ہر آواز پر سردار بھائی اور ساحر کا گمان ہوتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر کو نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔ لیکن اداس اداس چہرے لیے خاموش قدموں سے کالج کے لڑکے، کنوینشن کے نمائندے آتے ہیں۔۔۔ چلے جاتے ہیں۔
’’کیا آپ کا جلسہ ختم ہوگیا۔‘‘
’’جی ہاں وہ تو کب کا ختم ہوگیا تھا۔‘‘
’’پھر سب کہاں ہیں، سردار بھائی ڈاکٹر کو لینے گئے تھے۔۔۔؟‘‘
’’میں ابھی معلوم کرتا ہوں،‘‘ وہ صاحب چلے گئے۔۔۔
ڈیوٹی کا ڈاکٹر آیا۔۔۔ نبض دیکھیں۔۔۔ اس کے چہرہ پر مایوسی کی کھڑی ہوئی ساری دیواریں توڑ کر امید کی کرن پالینا چاہتی تھیں نگاہیں۔۔۔ لیکن اس کی آنکھوں میں ناامیدی کا اندھیرا ہے۔۔۔ چہرہ کی شکن نہیں پگھل رہی۔۔۔ اس نے سرہلایا۔
’’ڈاکٹر۔۔۔؟‘‘ ’’جتنی دیر لے لیں حیرت ہی ہے۔۔۔ کچھ باقی نہیں۔ کوئی امید نہیں۔ آج رات اگر گزر جائے گی تو امید ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ لیکن رات گزرجائے گی۔۔۔ اس کی کوئی امید نہیں۔۔۔ چند گھنٹوں کی زندگی ہے، آہ یہ لمحے کتنے سنگین ہیں، جی چاہتا ہے کہ کوئی جھنجھوڑ کر جگادے۔ مجاز آنکھیں کھولو۔۔۔ تم کہاں جارہے ہو۔۔۔ لیکن آنکھیں بند ہیں۔۔۔ اور زندگی اپنی آخری منزلیں طے کر رہی ہے۔
میرے ایک ہاتھ میں قینچی ہے جس سے روئی تھام کر مجاز کا منھ اور ناک صاف کر رہی ہوں۔ دو آتشہ ہر سانس کے ساتھ ہل رہی ہے۔ دو آتشہ۔۔۔ شراب اور مجاز کا لہو۔۔۔ دوسرے ہاتھ سے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں پیشانی پر رکھ رہی ہوں جو فوراً ہی گرم ہوجاتی ہیں۔۔۔ صوفیہ آئس کیپ کاگرم پانی بدل بدل کر دے رہی ہے۔۔۔ میں اپنے چھوٹے سے رومال سے آنسو جذب کر رہی ہوں۔۔۔ یہ کیا۔۔۔؟ میں خوفزدہ نظروں سے صوفیہ کو دیکھ رہی ہوں، پٹی سرد ہے۔۔۔ پیشانی اور چہرے سے پسینہ پھوٹ رہا ہے۔۔۔ سانس بے قاعدہ ہوگئی ہے اور بہت سے لوگ آگئے ہیں۔۔۔ نیاز حیدر چلا رہے ہیں، ’’بے بی ہٹ جاؤ۔‘‘
میں نے رومال سے موت کا پسینہ پوچھا۔۔۔ مجاز کے خون، آنسوؤں اور پسینے میں تر رومال مٹھی میں بھینچ لیا۔ ’’آنکھیں بند کرو‘‘ آواز آئی، میں پھر بڑھی اور اپنے ہاتھ سے مجاز کی آنکھیں بند کردیں۔۔۔ سب مجھے ہٹاکر باہر لے آئے۔ بنے بھائی، باقر مہدی، نیاز حیدر بہت سے اصحاب نظر آرہے ہیں۔ ساحر پر نظر پڑی ’’اب آئے ہیں آپ لوگ۔۔۔؟ میں نے شکایت کی۔
ساحر کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ یہ امید نہ تھی۔۔۔ حیات اللہ انصاری زبردستی ڈنر پر سب کو لے گئے تھے۔۔۔ بمشکل آیا ہوں۔۔۔‘‘ انہوں نے تلخی سے کہا ’’اس ہاسپٹل میں باہر کا ڈاکٹر نہیں آسکتا‘‘ میرا سارا جسم کانپ رہاتھا۔ ہاتھ خون میں تر تھے۔ ’’دیکھیے یہ مجاز کا خون ہے۔۔۔ یہ ہاتھ یونہی رہیں دل چاہتا ہے۔۔۔‘‘ مگر ساحر مجھے باغ کے نل پر لے گئے اور سمجھایا کہ ہاتھ دھولوں۔۔۔ میں نے ہاتھ دھوئے۔۔۔ سب باہر آگئے عصمت آپا اور سردار بھائی بھی آگئے ہیں۔۔۔ ہر سمت آنسو ہیں۔۔۔ ایمبولینس آئی مجاز کو گھر لے جارہے ہیں۔ عجیب سفر ہے، ہم سب لوگ پتھر بنے بیٹھے ہیں، مجاز صاحب لیٹے ہوئے ہیں۔
اپنے چاہنے والے ساتھیوں کی مجودگی میں گہری پرسکون نیند۔۔۔ مجاز نے رخت سفر باندھنے کے لیے یہی دن چن رکھا تھا۔۔۔ کل جوش صاحب سب کو ملیح آباد لے جانا چاہتے تھے۔ کسے معلوم تھا کتنا بے رحم دن ہوگا۔ دارالسراج آگیا، ضعیف ماں پچھاڑیں کھا رہی ہیں۔ دو دن سے بیٹے کے انتظار میں مسہری پر سفید براق بستر سجا رکھا تھا، اس پر لٹوا رہی ہیں۔۔۔ اجّن کو اپنے۔۔۔ بزرگ والد صبر و تحمل کا پیکر بنے ہیں۔۔۔ بیوی کو تسلی دے رہے ہیں، ’’آپ کے بیٹے نے خود کو تباہ کیا ہے کسی دوسرے کو کبھی ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچا، وہ جنتی ہے۔‘‘ مجازصاحب کی والدہ کی حالت دیکھی نہیں جارہی، میں ان کے پاس بیٹھی ہوں۔ تدفین صبح ہوگی۔ دوبجے رات کو ہم لوگ واپس آرہے ہیں۔ لکھنؤ کی سڑکیں مجاز کے ماتم میں ڈوب گئی ہیں۔۔۔ صبح سارا شہر ماتم کناں ہوگا۔
سردار بھائی کہہ رہے ہیں ساحر کتنی عجیب بات ہے مجاز نے زندگی بھر جس لڑکی سے عشق کیا اس کا نام زہرہ ہے اور جس لڑکی نے مجاز کی آخری خدمت کی اس کا نام بھی زہرہ ہے۔ میری میزبان کا دروازہ کھٹکھٹانے پر بھی نہیں کھلا۔۔۔ مجبوراً مجھے ساحر صاحب کے ساتھ ان کے ہوٹل پر آنا پڑا۔۔۔ تین چار بجے تک مجاز کی باتیں کرتے رہے وہ۔۔۔ اور افسوس کرتے رہے، مجاز کاش ان کے ساتھ ہوتے۔ دیسی شراب خانے نہ جاتے۔۔۔ میں آرام کرسی پر بیٹھی رہنا چاہتی تھی۔ سردار بھائی لمبا چوڑا کمبل اپنا، میرے گرد لپیٹ گئے تھے۔۔۔ میرا ذہن پریشان سا ضرور تھا مگر ضمیر مطمئن تھا۔ میں نے جو آزادی پائی تھی وہ ضبط ناموس تھی۔ ساحر نے اصرار سے اپنا بستر مجھے دے دیا۔ خود وہ کاری ڈور میں سوگئے جہاں فاروقی بھی تھے۔
پانچ بجے۔۔۔ اخبار والے کی آواز سڑکوں سے آرہی ہے۔ ’’اسرارالحق مجاز کا انتقال‘‘۔۔۔ سب جاگ گئے۔ دارالسراج کے لیے روانہ ہوئے۔۔۔ ساحر ایک دکان پر رک گئے ’’مجاز کو کھوچکے ہیں اب دوسرا صدمہ برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے؟‘‘
’’مطلب یہ کہ دسمبر کی سردی، اس میں یہ شلوار کرتا، مہین دوپٹہ، نمونیہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ سوئٹر پسند کرلو۔‘‘ میں بے حد منع کر رہی ہوں۔ ’’عالیہ کے گھر میرا سوئٹر اور کوٹ موجود ہے لیکن وہاں جانے میں دیر ہوگئی۔‘‘ لدھیانہ کا بنا ہوا سوئیٹر انہوں نے پسند کرلیا ’’یہ میرے شہر کا ہے۔‘‘ دوکاندار بھی اصرار میں ہمنوا ہوگیا۔ اندر جاکر سوئیٹر مجھے پہننا پڑا۔۔۔ شکستہ دل لیے دارالسراج آئے۔ مجاز کی تصویر آویزاں ہے۔۔۔ یہ آنکھیں۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے بند کی ہیں۔۔۔ کیسی عجیب خدمت تھی۔۔۔ مجاز کی شاعری کی ہم عمر میں۔۔۔ جادو اور اویس برسوں کے بچھڑے ملے ہیں۔ اویس مجھے بھول گیا تھامگر جادو نہیں۔ زہرہ آپا مجھے یاد ہے آپ میری امی کی بہت چہیتی تھیں۔ دونوں میرے گرد اس طرح منڈلا رہے ہیں جس طرح محبوب منزل میں صفیہ آپا کے گھر میں منڈلاتے تھے۔ ’’زہرہ آپا آپ مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہیں یا اویس سے؟‘‘ ’’تم سے‘‘میں دونوں کو چپ چاپ جواب دیتی ہوں۔
’’زہرہ آپا آپ جادو سے زیادہ محبت کرتی ہیں یا مجھ سے؟‘‘ اب اویس آگئے۔
’’تم سے‘‘ ’’واہ زہرہ آپا‘‘ اویس کہہ رہے ہیں، آپ نے ان سے بھی یہی کہا ہے۔ ’’آپ بتائیے زیادہ اچھا کون لگتا ہے۔‘‘
’’بات یہ ہے کہ تم دونوں ہی مجھے بہت پیارے لگتے ہو۔ برابر۔ برابر۔ جاؤ باہر کھیلو۔‘‘
اتنی چھوٹی چھوٹی سمجھیں اس نازک وقت اور مرحلہ کی سنجیدگی سے بے خبر ہیں۔ ہمیشہ دونوں میں ہر بات میں سخت قسم کا کامپٹیشن رہتا تھا۔۔۔ معصوم بچپن ماحول سے بے نیاز ہے۔۔۔
رضیہ آپا مجاز کی پائنتی بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہیں۔ میں مجاز صاحب کی والدہ ماجدہ کے پاس بیٹھی ہوں۔ ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ جادو کان میں سرگوشی کر رہے ہیں۔
’’زہرہ آپا آپ اتنی کنارہ کش کیوں ہوگئیں!‘‘
ذہانت سے جھکتی آنکھیں، کنارہ کش جیسا لفظ۔۔۔ معصومیت اور بچپن شاید مجھے بھی اپنی شرارتوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ خواتین اپنی ساڑیوں کے متعلق گفتگو کر رہی ہیں۔ صوفیہ بتا رہی ہے والدہ صاحبہ کس طرح ٹٹول ٹٹول کر میز پر کھانا رکھ دیتی تھیں۔ مجاز کے لیے۔۔۔ ان کی مے نوشی اور لاابالی پن سے ہر ایک تنگ آجاتا تھا مگر ماں کی مامتا ان کی طرف داری میں ہی رہتی تھی۔۔۔ ماں جوان بیٹے کا سہرا نہ دیکھے۔۔۔ اسے رخصت کرے اس طرح۔۔۔ یہ مامتا کا سنگین امتحان ہے۔ پے درپے چار جوان اولادیں دوبیٹیاں دو بیٹے رخصت ہوگئے۔ دارالسراج کے گردوپیش اژدہام ہے۔ لوگ اپنے محبوب شاعر کو لے جارہے ہیں۔۔۔ بنے بھائی، سردار بھائی، ساحر، نیاز حیدر اور ان گنت ساتھی اور بزرگ رفیقان راہ ادب۔۔۔
شام کو ہم سب مہدی بھائی کے یہاں آگئے۔ ریڈیو سے مجاذ صاحب کا تعزیتی پروگرام سننے کے لیے۔۔۔ میں نے ساحر کو سوئیٹر کا بل دینا دینا چاہا۔۔۔ ساحر اس طرح اچھل پڑے جیسے چوٹ لگی ہو۔ ’’تم ادیبہ ہوکر ایک شاعر کے احساسات کی توہین کر رہی ہو۔‘‘ میں شرمندہ ہوگئی۔
سردار بھائی نے ساحر سے کہا ’’زہرہ نے کل دوپہر سے کچھ کھایا نہیں تم اسے کھانا کھلاؤ۔۔۔‘‘ میں حیران ہوں سردار بھائی یہ چھوٹی سی بات اس قدر محسوس کر رہے ہیں۔۔۔ ہوٹل سے جبراً قہراً کچھ کھانا کھاکر واپس آئی۔ پروگرام شروع ہوا۔ مجاز کی آواز۔۔۔ پردرد پرسوز:
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں‘‘
میری نگاہوں میں ان کی ہر آخری تصویر پھرنے لگی۔۔۔ وہ رومال جس میں ان کے آنسو اور خون جذب ہے میرے پاس ہے۔۔۔ پھر مجھے ہوش نہ رہا۔
ہوش آیا تو عصمت آپا ڈانٹ رہی تھیں ’’کمبخت کتنا پریشان کیا ہے سب کو۔۔۔‘‘ پتہ ہے؟
دوسرے دن ہم لوگ پھر دارالسراج گئے۔ حمیدہ آپا آچکی ہیں۔۔۔ مجھے ہو بہو صفیہ آپا کی تصویر نظر آئیں۔ مجاز صاحب کی باتیں ان کی زندگی کی انوکھی انوکھی ادائیں۔۔۔ میں مجاز صاحب کی قبر پر جانا چاہتی ہوں۔ سردار بھائی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔۔۔ ’’تمہاری طبیعت خراب ہوجائے گی بڑی مشکل سے اجازت ملی۔ ساحر اور فاروقی کے ہمراہ ٹیکسی میں قبرستان گئے۔ برسوں بعد صفیہ آپا کے قدموں پر سر رکھ کر روئی۔۔۔ دل کا بوجھ کم ہوا جیسے آپا کو مجاز کا پرسہ دیا ہو۔ مجاز صاحب کی تازہ قبر ان کے پہلو میں تھی۔۔۔ ایک مٹھی خاک اٹھالائی۔۔۔ دوب لہلہارہی تھی، ہر طرف گہرا سناٹا اور سکون۔۔۔ قبرستان ایک خاموش بستی لگ رہا ہے۔
مجاز کا تعزیتی جلسہ ہے۔ ساتھی دوست عقیدت مند، محبت، یادوں اور سراہنا کا نذرانہ دے رہے ہیں۔۔۔ میں جادو اور اویس کو صبح سے اپنے ساتھ لے آئی ہوں۔ جلسہ میں وہ بھی موجود ہیں۔ سردار بھائی، بنے بھائی۔۔۔ ایک ایک جملہ ان کا دل کا تہہ وبالا کر رہا ہے۔۔۔ ساحر زارو قطار رو رہے ہیں۔۔۔ کسی مرد کو اس طرح روتے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ حساس اور جذباتی ہیں۔ مجاز سے بے پناہ محبت ہے انہیں۔۔۔
وہ اور مجاز بمبئی میں ایک ساتھ آئے تھے، جدوجہد کی دنیا میں۔۔۔ مجاز کا شاعرانہ احساس لکھنوی تہذیب کی لطافتیں، جھیل نہ سکیں بمبئی کی فلمی دنیا کو۔ چلے گئے۔۔۔ ساحر کو بہرحال جدوجہد کرنا تھی۔ اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے لیے۔۔۔ جدوجہد کامیاب ہو چکی تھی۔۔۔ وہ مجاز کو بمبئی لے جانے کا مقصد رکھتے تھے لیکن مجاز اب ہر گرفت سے باہر تھے۔۔۔ اس دہشت جنوں کی وسعتیں شاید اب انہیں تنگ لگنے لگی تھی۔۔۔ ایک پیراہن چاک لیے کسی لامحدود عالم کو پہنچ گئے۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.