بمبئی سے بھوپال تک
بھئی واہ۔۔۔ ’’خوب گئے تم لوگ بھوپال!‘‘ یوسف نے مسرت سے بلبلا کر کہا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کون ذات شریف ہیں یوسف صاحب اور بھوپال میں منعقد ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس سے ان کا کیا رشتہ؟
اگر آپ کو کسی ایسے آلے کی تلاش ہو جس کی مدد سے بغیر دماغ کھپائے یہ معلوم ہوجائے کہ کون سی چیز ترقی پسند ہے اور کون سی چیز رجعت پسند تو آپ یوسف سے رجوع کیجیے جس بات پر یوسف گالیاں دے اور کاٹنے دوڑے وہ سوفیصدی ترقی پسند ہے اور جس پر وہ دانت نکال کر ہنسنے لگے وہ رجعت پسند ہے۔
اب اس ہی کی بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ یوسف کے خیال میں عسکری دنیا کا سب سے بڑا فلاسفر ہے میراجی عظیم ترین شاعر ہے اور عباس نے اگر کوئی سلیقہ کی چیز لکھی ہے تو وہ ’’اور انسان مرگیا‘‘ کا دیباچہ ہے۔ صحیح طریقہ جینے کا وہی ہے جس کی تصویر راما نند ساگر نے کھینچی ہے۔
تو پھر علی سردار جعفری کی گرفتاری کی خبر سن کر جو ہماری صفوں میں بھگدڑ مچ گئی اسے دیکھ کر یوسف کی باچھیں کیوں نہ کھل جاتیں؟ کوئی دوسرا وقت ہوتا تو میں شاید چڑھ جانے کی کوشش کرتی مگر سیما کے پاجامے نہیں سلے تھے۔ جانگیوں میں سردی لگتی۔ چلو اچھا ہی ہوا جو کچھ ہوا۔
جعفری نے بڑا گھربسایا۔ کیفی اعظمی اور نیاز حیدر کے نام وارنٹ بھوپال کے مشاعرے کا تو مرثیہ لکھ گیا۔ جعفری ہی ہم لوگوں کو ڈرا دھمکا کر، بہلا پھسلا کر بھوپال لے جارہے تھے۔ ادھر سے ڈھیل ملی ادھر ہم سب کے سب کٹ پتلیوں کی طرح چت چڑ گئے۔
اتوار کے دن یہ فیصلہ کرکے کہ بھوپال تو جانا نہیں ہے چلو ترقی پسند مصنفین کی میٹنگ میں سردار کی گرفتاری پر ذرا اظہار غم و غصہ ہی کر آئیں اور جناب وہاں جاکر صو رت حال بدلی ہوئی نظر آئی۔ جعفری کی غیرموجودگی میں کرشن چندر سالار اعلیٰ بنے مورچہ سنبھالے کھڑے تھے۔
بھوپال جانا ہے اور اب تو ضرور ہی جانا پڑے گا سالار اعلیٰ نے الٹی میٹم دے دیا اور تو اور شاہد لطیف جو عرصہ ہوا ادب کا دامن چھوڑ کر فلم سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ جوش میں آگئے اور کہا ’’ہماری انتہائی بزدلی ہے کہ اگر ہمارا ایک ممبر پکڑا جائے تو سب کے سب دبک کر رہ جائیں۔ ایک سردار کی گرفتاری نے ہم سب کی گردنوں میں کم ہستی کا طوق ڈال دیا۔‘‘بس جناب آگیا جوش اور میں نے راتوں رات سیما کے پاجامے سی ڈالے اور یہ مختصر سا لشکر چھ بڑے اور دو چھوٹے افراد پر مشتمل بھوپال روانہ ہوگیا۔ کرشن چندر، مہندرناتھ، شاہد لطیف، مجروح، عادل رشید اور میں۔ ایک بچی میری اور ایک عادل رشید کی۔ باقی کی رونق صندوقوں ناشتہ دانوں اور بستروں نے مہیا کردی۔
ارادہ تو یہ تھا کہ تھرڈ میں جائیں گے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ تھرڈ کا ڈبہ ربر کا بنا ہوا نہیں۔ وہاں تو ہوا کی بھی کیا مجال کہ پرمارسکے۔ ویسے تھرڈ کلاس کی تمام مشکلات ریلوے کے محکمے نے بڑی کاوشوں کے بعد سیکنڈ کلاس ہی میں مہیا فرمادی ہیں۔ لہٰذا ہم لوگ بڑے آرام سے بستروں پوٹلیوں اور صندوقوں کے نوک دار کونوں میں بیٹھ کر رمی کھیلنے لگے۔
اتنے میں عادل رشید نے چند پہاڑیوں کی طرف، نہ جانے کون سی پہاڑی کو چھانٹ کر اشارہ کیا۔ ’’حاجی ملنگ شریف، حاجی ملنگ شریف‘‘ اور ہم سب اپنے چہروں پر تقدس کی گھٹائیں جمع کرکے پہاڑیوں کو گھورنے لگے۔ اس وقت مجروح کے پاس دو جوکر آئے تھے اور وہ مصر تھے کہ قبر پرستی کا خیال چھوڑ کر سب کو تاشوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے مگر ہم نہایت دل لگا کر دعا مانگ رہے تھے، ’’یا حاجی ملنگ شریف ۱۰جوکر دلوائیے یا پیر دستگیر! جوکر دلوائیے۔‘‘
’’آپ لوگوں کا اعتقاد نہیں ہے اس لیے آپ کی دعا ہرگز قبول نہ ہوگی۔‘‘ مجروح نے موقع پاتے ہی جوکر پارکردیا۔
اور میں سوچنے لگی یہ اعتقاد کیا بلا ہے۔ ہم گوں کو ہر چیز پر اعتقاد رکھنے اور رکھوانے کی عادت کیوں ہے؟ کب تک مردوں سے اپنے حقوق مانگتے رہیں گے۔ مجروح کی تاش کی گڈی میں سے جوکر کیوں نہیں سرکا لیتے۔ ٹھاٹ ہیں ان لوگوں کے ’’عادل نے جگہ کی قلت کی وجہ سے جسم توڑ مروڑ کر مختصر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’قبر میں پیر پھیلا کر سونے کی جگہ تو ملتی ہے۔‘‘
’’ان کے ہاں پگڑی وگڑی تو نہ بھرنی پڑتی ہوگی۔‘‘ مہندرناتھ بولے مگر چین کہاں ہے ان بیچاروں کے نصیب میں، دن رات کی دھماچوکڑی تو مچی رہتی ہے۔ کبھی بھوت اترے رہے ہیں، کبھی بے سری قوالیاں ہو رہی ہیں، اور تو اور لوگ اپنی منہ چڑھی رنڈیوں کو لیے داد عیش دینے بھی یہیں آتے ہیں۔ انسان مرتا ہے زندگی کی دوڑ دھوپ سے تھک کر پیر پسار نے کے لیے، نہ کہ یوں اپنے سینہ پر کودوں دلوانے کے لیے۔ ’’بھئی میں نے کبھی خطبۂ صدارت نہیں لکھا ہے اور نہ ہی اب لکھ سکنے کا ارادہ ہے۔‘‘ میں نے الٹی میٹم دے دیا۔
’’ارے بالکل مشکل نہیں۔ گھنٹہ بھر میں لکھ جائے گا۔ ’’سالار اعلیٰ نے اطمینان دلایا۔‘‘ مگر مجھے معلوم ہی نہیں کہ وہ کم بخت لکھ کیسے جاتا ہے۔ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ شروع کہاں سے کروں۔۔۔ معزز حاضرین۔۔۔ حاضرات۔۔۔
’’نہیں جی ان حماقتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے تمام ہتھکنڈے خطبۂ صدارت لکھنے کے باقاعدہ سمجھانا شروع کیے جو میری کھوپڑی میں کسی سوراخ سے بھی گھسنے پر رصامند نہ ہوئے اور مجھ پر ہول سوار ہونا شروع ہوگیا۔
’’میں خطبۂ صدارت ساری عمر نہ لکھ سکوں گی۔ بہتر ہے کہ آپ لوگ ایک ایک پیراگراف بانٹ کر نہایت خوشخط لکھ ڈالیں۔ میں اسے پڑھ دوں گی۔ جیسا کہ میں نے ایک دفعہ اور بھی کیا تھا۔‘‘
یہ جب کا واقعہ ہے جب میں نے پہلی دفعہ اسکول میں کام کرنا شروع کیا تھا ہمارے منیجر صاحب نے حکم دیا۔ ’’ایک خطبۂ صدارت لکھ ڈالیے؟‘‘
’’معاف کیجیے گا، مجھے خطبۂ صدات لکھنے نہیں آتے۔‘‘
’’ارے اس میں بات ہی کیا ہے۔ گھنٹہ بھر میں لکھ جائے گا؟‘‘ انھوں نے کرشن چندر کی طرح چٹکی بجائی۔
’’آپ ایک گھنٹہ کہتے ہیں میں ایک برس میں بھی اتنی ثقیل چیز نہ لکھ سکوں گی۔‘‘
’’ہیں! یعنی خطبۂ صدارت ثقیل چیز ہوتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں! اور قطعی بے ہودہ بھی۔‘‘
’’معاف کیجیے گا۔ اور آپ جو یہ بے ہودہ۔۔۔‘‘
’’معاف کیجیے گا افسوس ناک حدتک بے ہودہ شاید لکھوانا پسند نہ کریں گے۔‘‘
’’خیر میں ہی جھک ماروں گا۔‘‘
وہ خون کھولاتے رہے اور دوسرے بیچارے نہایت دقیق قسم کی جھک مار لائے مگر یہاں کوئی منیجر صاحب کی طرح جھک ارنے کو تیار نہ ہوا۔
’’آپ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دلواناچاہتی ہیں۔‘‘ کرشن چندر نے طعنہ مارا۔ ’’کون احمق مردوں سے برابری کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور زیادہ رہیں گی۔‘‘
مگر کوئی طعنہ کوئی خوشامد اور کوئی دھمکی کارآمد ثابت نہ ہوئی۔ کرشن چندر صرف چند پوائنٹ سے آگے نہ کہہ سکے۔
’’ارے حاجی ملنگ۔ حاجی ملنگ! عادل رشید پھر چلائے۔‘‘
’’ارے بھئی یہ حاجی ملنگ ہمارے پیچھے کیوں پڑگئے؟‘‘کرشن بولے، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے ہمارے ساتھ کانفرنس میں بھوپال جارہے ہیں۔‘‘ اور کرشن چندر نے تخیل کی لگام جھٹک کر چھوڑدی۔۔۔ ان پیر فقیر لوگوں کی کیا کانفرنس نہیں ہوتیں۔ اگر ان کی ایک کانفرنس ہو اس میں کلیر شریف، اجمیر شریف، غازی میاں معین الدین چشتی، تشریف لائیں تو بھلا کس قسم کی بات چیت کریں گے۔ ان کی کیا مشکلات ہوں گی۔ یہی کہ لوگ بڑے بے ہودہ ہوتے جارہے ہیں۔ نذر نیاز غائب خالی خولی دعائیں مانگنے چلے آرہے ہیں۔ ادھر بوہروں اور خوجوں کی آمد میں بھی کمی آگئی ہے۔ بڑے بڑے آسامی تو پاکستان کھسک گئے ہیں۔ اب ٹٹ پونجئے رہ گئے ہیں، سو یہ کس کام کے۔ باقی رہے دہریے سو ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔‘‘
’’اجی تو پھر یہ لوگ بھی پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے۔ دنیا کی منتیں مرادیں پوری کرتے ہیں ذرا اپنا مزار شریف کھسکا لے جائیں۔‘‘
’’کھسکانا ہی پڑے گا ایک دن بے چاروں کو۔ اپنے باپو کی کتنی ڈھیر ساری یاترائیں بن رہی ہیں۔ نئی یاتراؤں کے سامنے یہ بیچاری پرانی قبروں کی کیا چلے گی۔‘‘
یہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں۔ ہندوستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ یہاں مذہبی رواداری قائم رہے گی۔ مسلمانوں کو حق حاصل ہوگا کہ وہ جتنے حاجی ملنگ بنانا چاہیں آزادی سے بناسکتے ہیں۔
’’ارے کفر کیوں بک رہے ہو کم بختو! حاجی ملنگ کو غصہ آگیا تو ریل اٹھاکر پٹخ دیں گے‘‘ عادل رشید نے ڈرایا۔
’’سبوٹاج۔۔۔ بڑار کیک حربہ ہے۔‘‘ شاہد صاحب بولے۔
اتناہی رکیک جتنا صفِ مخالف کے افراد کو جیلوں میں ٹھونسنا ہے۔ ان کی زبان پر تالے ڈالنا ہے۔ ان کے اخباروں کا گلا گھونٹنا ہے۔ کرشن تشریح کی۔
’’شش شش، پتا چلو، پتا۔‘‘ مہندر ناتھ بولے۔
اور ہم لوگ پتا چلنے لگے۔
ساتھ کھانا بھی تھا اور بھوک بھی، مگر ٹفن کیریر کھول کر کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس مہم کو سرانجام دینے کے لیے خاص قسم کی نٹ بازی کی ضرورت ہے۔ نوالہ واقعی منہ کی بجائے ناک میں گھس رہا تھا۔ کچھ تو ڈائننگ کار کی لہریں اور کچھ ریل بھی ہل رہی تھی۔ ادھر کوئی بکس کا کونہ چبھ رہا تھا اور کسی ہولڈال کا بکسوا ان کے آر پار ہورہا تھا۔
’’ارے صاحب انقلاب لانا مذاق نہ باشد۔ سالے یہ صندوق اور ہولڈال کس شمار و قطار میں ہیں۔ آج مجروح انقلاب لانے کا پکا فیصلہ کرچکے تھے۔ چنانچہ جب کوئی بھاری صندوق گھسیٹنے کا موقع آتا شاہد لطیف للکارتے۔
’’میاں مجروح! اسی بوتے پر کہتے ہو انقلاب لانا ہے۔‘‘ اور جوش میں آکر مجروح بکس گھسیٹتے اور بستر گھسیٹتے۔ بچیوں کو باتھ روم لے جاتے ایسے کہ ان کے جوتے نہ خراب ہوں، اور پھر بکس گھسیٹتے اور اس شان سے کہ ہر بار کمپارٹمنٹ میں انقلاب عظیم کا لطف آجاتا۔
کھانے کے بعد سونے کا اہم سوال اٹھا۔ کرشن چندر اور شاہد لطیف نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہم لوگ شرنارتھیوں کی سی مسکین صورت بناکر بیٹھ گئے۔ ایک سیٹ مجھے اور سیما کو دے دی گئی ایک سیٹ عادل رشید اور ان کی لڑکی ناہید کو۔ ہم بچے والوں کا تو انتظام ہوگیا۔ رہ گئی ایک چھوٹی سی سیٹ او رباقی چار آدمی تھوڑی سی تو تو میں میں کے بعد یہ طے پایا کہ وہ سیٹ کرشن چندر اور مہندرناتھ کو دے دی جائے۔ یقین مانیے دو اچھے بھلے مرد نہ جانے کس طرح اپنے آپ کو توڑ مروڑ کراس سیٹ پر اٹک گئے۔ رہ گئے شاہد اور مجروح تو ان کی یہ حالت تھی کہ اگر سوئی کی نوک پر بھی لٹکا دیے جاتے تب بھی نہایت آرام سے سوجاتے۔ دوچار گٹھریوں، پوٹلیوں اور بڑی ساخت کے صندوقوں پر یہ لوگ بیٹھے، پھیلے پھر خراٹے بھرنے لگے۔
بھساول کے اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ وہاں کے ترقی پسند مصنفین کو نہ جانے کس طرح خبر مل گئی کہ آج بھوپال جانے والے ادھر سے گزریں گے وہ لوگ ہار پھول لیے اتنی سردی میں بے تکی رفتار سے آنے والی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے ہمیں ایک ہی پیغام دیا کہ بھوپال میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں میدان ترقی پسند مصنفین کے ہاتھ سے نکل کر کہیں رجعت پسندوں کے قبضے میں نہ چلا جائے۔ یہ سن کر اونگھتی ہوئی فضا چوکنی ہوگئی اور ہم لوگ اپنے گلوں میں ان کے ہار اور دلوں میں ان کا قصد لے کر روانہ ہوگئے۔ کسی ایک محاذ پرہمیں شکست ہوگئی تو باقی کے کتنے محاذ کمزور پڑجائیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا۔
پلک جھپکتے رات گزرگئی۔ پو پھٹتے ہی مجروح نے حلق پھاڑ کر پکارنا شروع کیا۔ ’’چائے آگئی ہے، اگر فوراً نہ پی گئی تو ٹھنڈی ہوجائے گی بسکٹ بھی کھانے پڑیں گے، ورنہ پیسے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘ خیر صاحب چائے بھی پینی پڑی اور پچ پچاسا بسکٹ بھی کھانا پڑا۔
مجروح ایک تو ترقی پسند شاعروں کے نمائندہ بن کر جارہے تھے کیوں کہ اللہ کے دیے ایک وہی باقی بچ رہے تھے، دوسرے دولہا بن کر بھی جارہے تھے کیوں کہ بھوپال سے انھیں سیدھے اپنی برات میں شرکت کرنے کے لیے جانا تھا۔ لیکن وہ نہایت کھرے پن سے چھینپ رہے تھے جیسے اگر وہ دولہا بن گئے تو انقلاب نہ لاسکیں گے۔ شادی بذات خود ایک رجعت پسندانہ فعل ہے۔ خاص طور پر ایسی حالت میں کہ فریق مخالف گاؤں کی ایک ناخواندہ الھڑ دلہن ہو، جیسی کہ مجروح کے پلے باندھی جارہی تھی۔
’’ارے بھئی تو کیا زبردستی ہے کیوں کر رہے ہو تم ایسی شادی؟‘‘ مہندرناتھ جھلائے۔ ’’اس لیے کہ میں نہیں چاہتا کہ میری گرہستی زندگی چکنی ہموار سڑک پر تیل دیے ہوئے پہیے کی طرح پھسلتی چلی جائے مجھے ہچکولوں کی ضرورت ہے۔ میں خانہ آباد ہوکر بیوی بچوں کی محبت میں اونگھ جاؤں گا۔ پھر یہ کسک، یہ ٹھیس اور گداز مندمل ہوجائے گا۔‘‘
اور میں سوچنے لگی یہ کیا بات ہے یہ ادیب اور شاعر گاؤں کی بھولی بھالی الہڑ دوشیزہ کو صرف تخیل کی دنیا میں اچھالتے ہیں اور جو زندگی میں آمنا سامنا ہوجائے تو سرپکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کیوں۔۔۔؟ ان مردوں کو اپنے سارے کارناموں کا الزام عورت کے سر تھوپنے میں کیا مزہ آتا ہے۔ جب تک کلیجہ پر بے وفائی کا زخم نہ لگے شاعری کی مدھرا نہیں چھلکتی۔ الہام صادر ہونے کے لیے لازم ہے کہ کوئی چک پھیریاں دے کر چھوڑدے۔۔۔ مگر اپنے مجاز کو تو یہ نسخہ الٹا پڑگیا۔ شاید خوراک انڈیلتے وقت ہاتھ بہک گیا اور مقدار کچھ زیادہ ہوگئی اب حکیموں نے یہ رائے قائم کی ہے کہ کوئی نہایت ملین سی معجون اللہ شافی کہہ کردی جائے تو یقیناً شاعری کی مرجھائی ہوئی کونپل میں جان پڑجائے گی۔ اور میں نے دعا مانگی کہ خدا کرے گاؤں کی نئی نویلی دلہن جلد ہی داؤ پیچ سیکھ جائے اور مجروح کے دل کو دوچار ایسے اڑنگے لگائے کہ ایک بار واقعی غم جاناں پھیل کر غم دوراں ہوجائے۔
بھوپال کے اسٹیشن پر لوگ استقبال کو موجود تھے۔ میں اور شاہد جاں نثار اختر کے یہاں پہنچادیے گئے۔ عادل رشید اپنی سسرال چلے گئے اور کرشن چندر اور مہندرغیرہ کو اختر سعید لے گئے۔ اس چھوٹے سے سفر کے بعد ہی یہ بٹوارہ کچھ شاق گزرا۔
جاں نثار اخترکے گھر پہنچے تو زینہ ہی پر میں اور صفیہ ایسے بھدے پن سے گلے ملے کہ نیچے لڑھکتے لڑھکتے بچے۔ اوپر پہنچ کر ایک دوسرے کے بچوں کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ صفیہ نے کہا میری بچی ہم دونوں سے اچھی ہے ’’اور میں نے کہا، اس کے بچے ان دونوں سے اچھے ہیں،‘‘ اور پھر ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک بہتر دنیا کی بنیادیں ڈال رہے ہیں۔ ایک تندرست اور خوبصورت دنیا۔
ناشتہ کرکے صفیہ تو کسی کام سے کالج چلی گئی اور مجھ سے کہہ گئی کہ جو کچھ بھی چاہے پکواؤ اور کھاؤ۔ اور مجھے خیال آیا کہ مجھے ابھی جھک مارنا ہے یعنی خطبہ صدارت۔۔۔ اف، میری جان نکل گئی۔ میری ہی بچی کیا کم تھی کہ اور صفیہ میری تربت پر اپنے دونوں چراغ روشن کرگئی۔ شکر ہے خطبہ صدارت فسادات کے بارے میں تھا۔ ان تین بچوں نے مل کر میری ہستی کو کھنڈر بنانے کا تہیہ کرلیا تھا۔ کرشن چندر کا کہنا ہے کہ میں نے اس میں تلخ نوائی سے کام لیا ہے۔ ضرور لیا ہوگا اور بخدا اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔ اف یہ بچے!
کانفرنس کے پہلے اجلاس میں جاتے وقت میری اور صفیہ کی کسی نہایت ہی معمولی بات پر کھٹ پٹ ہوگئی۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے خمیر میں تیزابیت بہت ہے اور میں کہتی تھی کہ اسے بناتے وقت فرشتوں نے مٹی کو بجائے سادہ پانی کے شہد اور دودھ میں گوندھ ڈالا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو احمق سمجھتے ہوئے منٹو ہال پہنچ گئے۔ ہال کے ایک کونے میں پردے کا انتظام تھا مردانے میں بھیڑ کم تھی، مگر زنان خانے میں کافی گہماگہمی تھی۔ ہال بڑا تھا اور مائیکرو فون کچھ عجیب ڈھیٹ قسم کا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور لڑکیاں روہانسی ہوکر اس کونے سے اس کونے تک اس امید میں دوڑ رہی تھیں کہ شاید ایک آدھ لفظ لپک سکیں۔ جب ناامید ہوگئیں تو خالص عورتوں کے انداز میں بیٹھ کر ترقی پسند مصنفین کی ناکوں اور مونچھوں پر ناقدانہ بحث مباحثہ کرنے لگیں۔ لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ ایک دم سے مائیکرو فون جاگ اٹھا جوں ہی کرشن چندر نے خطبہ صدارت شروع کیا۔ ان کی آواز صاف آنے لگی۔ اس پر میں نے اور صفیہ نے ایک بوگس قسم کا لطیفہ ایک دوسرے کے کان میں پھونکا۔
خطبۂ صدارت پسند کیا گیا۔ نہ صرف اپنے موضوع کی بنیاد پر بلکہ کرشن کی اس شاعری کے بل بوتے پر جس پر ایک دفعہ علی سردار جعفری کو بھی اعتراض ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کرشن کا طرز تحریر نوخیز دلوں کو بڑا مسحور بنادیتا ہے۔ کرشن جوتا بھی مارتا ہے تو شاعری میں لپیٹ کر اور یہی وجہ ہے کہ ضرب گہری پڑتی ہے مگر نشان نہیں پڑتا۔ میرا دل بیٹھنے لگا۔ میں تو جیسے کھڑونچے سے مارتی ہوں جن سے کھال چھل جاتی ہے۔ خطبۂ صدارت کا بھوت دانت نکوس کر مجھے ڈرانے لگا ہے۔ واپس آکر میں نے اس کے کئی ایک کانٹے ذرا کھٹل کیے۔
کتنے دماغوں پر کرشن کو گرفت حاصل ہے۔ کچی ٹہنیاں اس کی تحریر کی آندھیوں کے رخ پر جھک رہی ہیں۔ کتنے معصوم دلوں میں تفکر کا بیج پڑ رہا ہے۔ نئے ایوانوں کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ اگر معمار کا ہاتھ لغزش کھاجائے تو۔۔۔؟ قلم بھی تو رہنمائی کرتا ہے، کبھی کبھی بھٹکا بھی دیتا ہے، یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں۔
دوسرے دن شاہد لطیف نے جلسہ کی صدارت کی۔ ظفر صاحب نے اپنا ایک ڈرامہ پڑھا۔ لیکن مائیکروفون کا دماغ آج پھر ساتویں آسمان پر تھا۔ دوسرے ڈرامہ ذرا طویل تھا۔ تیسرے موصوف نے اسے مقررہ وقت میں ختم کرنے کی غرض سے بے حد سرپٹ پڑھا۔ میں نے بھی کہانی پڑھی۔ صرف ٹرائل کے خیال سے کہ کہیں خطبۂ صدارت پڑھتے وقت ٹانگیں لرز لرز کر گھگھی نہ بندھ جائے مگر اس قسم کا کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ نہ ہی گھگھی بندھی نہ ہی ٹانگیں لرزیں۔ کتنے ہی حاجی ملنگ شریف ہم نے اپنی پیٹھ پر سوار کر رکھے ہیں، انہیں کب پٹخ چکیں گے، ابھی کتنے مرحلوں سے ہمیں اور گزرنا ہے۔ میں جو بڑی آزاد اور ترقی پسند بنتی ہوں۔ ان واہموں کی چنگل میں پھنسی بیٹھی ہوں تو پھر وہ جو پردے کے پیچھے دبکی بیٹھی ہیں ان سے کیا کہہ سکتی ہوں۔
سندرلال جی کی صدارت میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کااجلاس بڑا شاندار اور رعب دار رہا۔ انہیں مائیکرو فون کی تو ضرورت نہ تھی، ہال کا کونہ کونہ ان کی خطیبانہ للکار سے گونج رہا تھا۔ مجھے تو بس اس بات پر رشک آرہاتھا کہ وہ خطبۂ صدارت لکھنے کے بجائے بول رہے تھے۔ موضوع ’’اردو زبان کی حمایت‘‘ تھا لیکن وہ تو چومکھی رسید کر رہے تھے۔ کبھی دوہاتھ سیاست کے، کبھی اقتصادیات کے، کبھی ایک آدھ جھانپڑ مذہب کے بھی رسید کردیتے تھے۔ پھر ہندو مسلمان دونوں کو بھگو بھگو کر رسید کیں۔ بیچ بیچ میں حسب موقع ایک آدھ اللہ میاں کے بھی چپکاتے جاتے تھے۔ پھر جیل خانوں اور ان کی ٹانگ گھسیٹ ڈالی۔ دوچار پٹخنیاں اکھنڈ ہندی اور اردو کو بھی دے ڈالیں۔ سوائے کھانے پکانے اور سینے پرونے کے نسخوں کے دنیا کے ہر پہلو کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ان کی تقریر سن کر یہ تو یقین ہوگیا کہ سندرلال جی مختلف زبانوں میں مختلف باتوں پر ایک ہی وقت میں ایک ہی روانی کے ساتھ تقریر کرنے کی حیرت انگیز مہارت رکھتے ہیں۔ مٹھاس اور کڑواہٹ، نمکینی اور ترشی نہایت ہی موزوں اور نپی تلی مقدار میں شامل کرتے جاتے ہیں۔ کہیں تو مریض کو پچھاڑ کر نسخہ میں اتارتے ہیں تو کہیں چپکے سے شکر میں لپیٹ کر کونین کی گولی کھلادیتے ہیں۔ مگر پورا نسخہ کچھ بھاری پڑجاتا ہے۔
کہیں کہیں لوگ بالکل کھوسے جاتے ہیں کہ نہ جانے کیا بے تکی سی ہانک رہے ہیں مگر جب انہوں نے پیشین گوئی کے طور پر کہا کہ ہندوستان میں چین کی طرح انقلاب آئے گا اور ضرور آئے گا اور کوئی طاقت اسے روک نہ سکے گی تو کچھ لوگ چوکنے ہوبیٹھے، لیکن سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو ہندوستان سے مٹائے نہ مٹے گی جیسے انگریزی انگریزوں کی انتھک کوششوں کے باوجود ہندوستان کی مادری زبان شکست نہ دے سکی اسی طرح اکھنڈ ہندی، اردو کو فنا نہ کرسکے گی۔ بلکہ ان دونوں زبانوں کے میل سے ہمیں ایک نئی زبان کو جنم دینا ہوگا اور وہ ہوگی ’’ہندوستانی‘‘۔
ایک اجلاس سے دوسرے اجلاس کا درمیانی وقفہ میں نے عموماً زنان خانے میں گزارا۔ تین سال پہلے میں نے حیدرآباد کی طالبات کے درمیان بھی تھوڑا سا وقت گزارا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ حیدرآباد کی لڑکیوں سے بھوپال کی لڑکیاں ایک قدم آگے بڑھ آئیں ہیں۔ مثلاً حیدرآباد کی لڑکیوں نے پوچھا، محبت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ ’’محبت کے بارے میں قطعی اکسپرٹ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی، مجھے موجودہ طریقہ بھی اگر اس میں دیوداسیت ہو تو قطعی پسند نہیں۔ محبت ایک قسم کی ضرورت ہے جیسے بھوک اور پیاس۔ اگر وہ صرف جنسی ضرورت ہے تو اسے بجھانے کے لیے گہرے کنوئیں کھودنا حماقت ہے۔ بہتی گنگا میں بھی ہونٹ تر کیے جاسکتے ہیں۔ رہا دوستی اور ہم خیالی کی بناپر محبت کا دارومدار تو اس ملک کی آب و ہوا اس کے لیے سازگار نہیں۔‘‘
بھوپال کی لڑکیوں نے مجھ سے زیادہ تر سوال پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق کوئی حل معلوم کرنا چاہا۔ دوچار نے اشتراکیت کے متعلق بھی چھوٹے چھوٹے سوال کیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی زندگیوں میں رومان تو ہے مگر سیٹھا پھیکا۔ وہ اب بیباکی سے رومان لڑانے کے بجائے کچھ اور بھی کرنا چاہتی ہیں۔۔۔ وہ کیا؟ یہ انہیں نہیں سوجھتا۔
اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی۔ خدا کی پناہ یہ بھیڑ ہے یا میری آنکھوں کو ایک ایک کے چار نظر آرہے ہیں۔ جدھر دیکھو انسانوں کے چہرے۔ آج زنان خانے کو گھسیٹ کر بہت دور کونے میں رکھ دیا گیا تھا۔ مائیکرو فون ٹھپ پڑا تھا۔ مگر جاں نثار اختر منہ میں ٹھونسے دیتے تھے چونکہ وہ اس کا کرایہ دے چکے تھے، لہٰذا بقول کسے خان اپنا مال کھا ہی نہیں رہا تھا بلکہ دوسروں کو بھی کھلا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مائیکرو فون گلا دبوچے لیتا ہے ایک بار آواز کو نگل لیتا ہے، اور پھر بڑھاکر اگلنے کے بجائے ڈکار جاتا ہے۔ ہال میں برابر کانا پھونسی ہو رہی تھی۔ پردے کے پیچھے سے بیویاں کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ خدا خدا کرکے پرچہ ختم ہوا۔
دوسرے اجلاس میں ڈرامہ تھا، خاک پلے نہیں پڑا۔ کسی کو اپنا پارٹ یاد نہ تھا۔ پرومپٹر کی آواز سب پر غالب تھی۔ ستم ظریفی دیکھے، وہ لڑکے صاحب جو لڑکی کا پارٹ کر رہے تھے، شیوکرنا بھول گئے تھے۔ چوٹی کسی احمق نے اتنی ڈھیلی لٹکائی تھی کہ معلوم ہوتا تھا اب ٹپکی اور جب ٹپکی۔ لڑکیاں تو بیچاری اسی ہول میں مری جارہی ہیں کہ ڈراپ سین ہونے سے پہلے چوٹی ضرور ٹپک جائے گی۔ لیکن جب ڈرامہ بخیر و خوبی چوٹی سمیت انجام پاگیا تو سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ اتنی دیر جانو سولی پر لٹکے رہے۔
دوسرا لڑکا جس نے لڑکی بننے کی سعیِ بلیغ فرمائی تھی، سینے پر اتنا گودڑ ٹھونس لیا کہ لڑکیاں شرم اور غصے کے مارے بھنائی جارہی تھیں۔ دو ایک نے آکر مجھ سے شکایت کی۔
’’دیکھیے تو کیسا عورت کا ہیولیٰ بناکر مذاق اڑایا جارہا ہے۔‘‘
میں پہلی ہی جلی بیٹھی تھی، جی چاہا منہ نوچ لوں کمبختوں کا۔ میں نے کہا ’’یہی سزا ہے تم لوگوں کی۔ تم پردے میں بیٹھو اور جی بھر کر بیٹھو اور تمہارے بھوت بناکر لوگ ایک دوسرے کو ڈرانے کے کام میں لائیں۔ جانتی ہو تمہاری اس پردہ داری نے کتنے دماغوں کو توڑ مروڑ کر الٹ دیا ہے۔ اور تمہیں تو مظلوم بننے کی عادت پڑچکی ہے۔ مجھے اس قسم کی لڑکیوں سے کوئی ہمدردی نہیں جو خود اپنی مدد آپ نہ کرنا جانتی ہوں۔‘‘ میں نے عذر گناہ کے جواب میں کہا۔
لڑکیوں کے منہ اترگئے اور مجھے یاد آگیا صفیہ سچ کہتی ہے۔ میرے خمیر میں تیزابیت بہت زیادہ ہے جو صرف دکھ پہنچا سکتی ہے، جو نرم و نازک سطح کو کھرونچ ڈالتی ہے۔ میں نے ارادہ کرلیا آج تو ضرور صفیہ کے قول کو جھٹلادونگی اور میں نے اپنے لہجہ میں تھوڑا سا شہد ملانا شروع کیا۔
’’آپ ہی سوچیے، مرد آپ کے کیا کیا کریں۔ ہاتھ نہیں بٹاسکیں تو کمسے کم اپنا بار ہی ان کے شانوں سے اٹھالیجیے۔‘‘ مگر اس لکچر بازی میں میرا دل قطعی نہ لگا۔ ایک بات دیکھی میں نے ان پردہ نشین لڑکیوں کی آنکھوں میں، لاچاری اور بے کسی کے ساتھ ساتھ اب ایک ہلکی سی رمق جھلاہٹ اور غصہ کی بھی کبھی کبھی جھلکنے لگتی ہے۔ میں نے سوچا، یہ زیادہ دن یہاں نہ رک سکیں گی۔
کچھ ان میں ایسی ہی ہیں جو منتظر ہیں کہ کوئی روشن خیال اللہ کا بندہ انہیں بیاہ کر لے جائے اور چوتھی، بری کے جوڑوں کے ساتھ منہ دکھائی میں انہیں آزادی بھی نذر کردے۔ پھر یہ اس آزادی کو لے کر مزے سے سینماؤں، پارٹیوں میں گھوم سکیں۔ یہ مجھے باہر گھومتے دیکھ کر رشک کر رہی ہیں۔ کچھ لڑکیوں کی آنکھوں میں تو میں نے حد سے زیادہ بے صبری دیکھی۔ وہ اپنی موجودہ فضا سے اتنی گھبرا گئی ہیں کہ اسے ہر قیمت پر چھوڑنے کو تیار ہیں۔ اور وہ اس پہلے شخص کے ساتھ نکل بھاگیں گی جو انہیں یہ سب کچھ دینے کا وعدہ کرے۔
’’بتائیے نا۔۔۔ ہم کیا کریں۔‘‘ انہوں نے مجھے خاموش دیکھ کر کہا۔
میں اگر آپ سے کہوں آپ پردہ چھوڑدیجیے، تعلیم حاصل کیجیے، نوکریاں کیجیے، تعلیم بالغان میں حصہ لیجیے وغیرہ وغیرہ تو مجھے معلوم ہے کہ اس میں کچھ نہیں دھرا ہے۔ آپ پردے کی قید میں گرفتار ہیں۔ آپ کی بہنیں جاہل ہیں۔ آپ کے ملک کے بچے بھوکے، ہیں ننگے ہیں۔ نوجوان بیروزگار ہیں، بیمار ہیں۔ یہ پردہ، یہ جہالت، یہ بھوک اور افلاس یہ سب ایک ہی پیڑ کے پھول پتے ہیں۔ یہ ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ آپ اگر ان پھول پتوں کو ایک بار نوچ بھی ڈالیں تو ان میں پھر نئے پتے پھوٹ آئیں گے جن میں اس سے زیادہ گھناؤنے پھل پھول کھلیں گے۔ اس لیے ہمیں جڑوں کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔
’’ہمیں ان جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا اور پھر میں سٹ پٹائی۔ یہ لڑکیاں میرا امتحان لے رہی ہیں او رمجھے تھرڈ نمبروں سے بھی پاس ہونے کے رونے پڑنے ہیں۔ اور ان کے اس چھوٹے سے سوال کا جواب بھی نہ دے سکی اور میرا سر ندامت سے جھک گیا۔ ہمارے پاس کوئی بھی ایساپروگرام نہیں جسے ہم اپنے نوجوانوں کے سامنے پیش کرسکیں کوئی راستہ ایسا نہیں جس کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیں، ’’ادھر سیدھے چلے جاؤ۔‘‘
’’آپ لٹریچر پڑھیے،‘‘ میں نے چاہا اس وقت انہیں آسان سا نسخہ پکڑا دوں جسے یہ استعمال کریں۔ دوسری کوئی پیٹنٹ دوا تیار ہو ہی جائے گی، حالاں کہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ لڑکیاں بھلا کیا پڑھ سکیں گی۔ یہ عمر، یہ فضا، یہ ماحول، یہاں تو بس قصے کہانی اور ناولوں ہی کی کھپت ہوسکتی ہے اور پھر میرے خمیر کی تیزابیت نے زور مارا۔ کل ہی تو کسی لڑکی نے مجھ سے کہا تھا، زیادہ تر لڑکیاں رؤسا اور کھاتے پیتے لوگوں کی ہیں۔ لاحول ولاقوۃ! میں نے استری سدھار کا پرچار کیوں کردیا۔ سدھار میرا مقصد ہی نہیں۔ اس کھنڈر کی مرمت میں جان کھپانا حماقت ہے، اسے تو ڈھاکر نئے ایوان بنانے ہوں گے۔ بہت دن مرہم پٹی کرلی اب نشتر کی ضرورت ہے جو تیز بھی ہو اور پھرتیلا بھی۔ مگر میرے پاس لڑکیوں کی بات کا کچھ تو جواب ہوناچاہیے۔ میں نے سوچا، اس وقت باہر بھاگنا چاہیے۔ باہر مردانے میں بڑے بڑے سورما بیٹھے ہیں، شاید ان لڑکیوں کو چت کرنے کا کوئی داؤں بتادیں۔ کرشن چندر سے پوچھوں گی وہ ضرور بتادیں گے۔ جب باہر آئی تو کرشن چندر طلبا کے نرغے میں پھنسے بتا رہے تھے۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے سامنے کوئی تعمیری پروگرام نہیں ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے لیکن وہ ہی مثل ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے اور کیسے باندھے؟‘‘
میں نے کہا ’’لو بھئی مسیحا خود گرفتار بلاہیں۔‘‘
تیسرے دن مہندر ناتھ نے صدارت کی۔ ان کا خطبۂ صدارت زنان خانے میں بڑے ہی انہماک سے سنا گیا، کیوں کہ وہاں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔ جو کچھ مہندر ناتھ نے کہا، اس سے بہت قریب تھیں اور کرشن چندر اور شاہد لطیف کے خطبۂ صدارت سے زیادہ سمجھ رہی تھیں۔
جوں جوں شام ہوتی گئی مجمع بڑھتا گیا۔ آج عورتوں کو گھسیٹ کر بالکل اسٹیج کے قریب کردیا گیا تھا آج وہاں سے خوب صاف سنائی دے رہا تھا۔ بھوپال کے لوگ مشاعرے کے بہت زیادہ شوقین معلوم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین تو آج بہت آئیں تھیں۔ پونے بارہ بجے مشاعرہ غزلوں اور نظموں کے بل بوتے پر گھسٹتا رہا۔ ترقی پسند شعرا کی صف میں ایک تو مجروح تھے جو بطور تبرک کے وقت آخر کے لیے چھوڑے گئے تھے۔ جوش صاحب جو کہ بارہ بجے کی گاڑی سے لکھنو آرہے تھے، آہی نہ چکے تھے۔ ایک تو مشاعرہ ویسے ہی کچھ سویا ہوا تھا، دوسرے میرے اور صفیہ کے بچے جاگ رہے تھے۔ سوائے حضرت تاباں کی نظم ’’دیوالی‘‘ کے اور کسی چیز کا لطف نہ اٹھاسکے۔ بھیڑ اور غل میں بچے بوکھلا بوکھلا کر ہم دونوں کا ناطقہ بند کیے دیتے تھے۔ اتنے میں شور ہوا، ہٹو بچو، جوش ملیح آبادی زندہ باد۔۔۔ شاعر انقلاب زندہ باد۔۔۔ اور ہم نے دیکھا کہ شاعر انقلاب صفوں کو چیر کر اسٹیج کی طرف لائے جارہے ہیں۔
جب جوش صاحب مسند پر براجمان ہوگئے تو صفیہ اختر نے اٹھ کر ایک چھوٹا سا سپاسنامہ پردہ نشین طالبات کی طرف سے جوش صاحب کی طرف پیش کیا۔ اور گوٹے کا ہار اپنے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے ان کے گلے میں آویزاں کیا۔ ہال تالیوں اور نعروں سے گونج اٹھا اور ہمارے بچے دہل کر رونے لگے۔
اب کچھ اکھاڑا جمتا نظر آیا۔ مجاز اور ساحر، جن کی جوش صاحب کے ساتھ آنے کی امید تھی، معلوم ہوا کہ وہ نہ آسکے۔ ساحر کو تو بخار آرہا تھا اور مجاز۔۔۔ ان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی غیرحاضری کا تو اب ہمیں عادی ہوجانا چاہیے۔ خیر! کچھ مجروح نے سنبھالا اور جوش صاحب تک مشاعرہ کو پہنچادیا۔ ایک تو لمبے سفر کی تکان، دوسرے کچھ ڈھلتی رات، جوش صاحب کچھ چڑے ہوئے سے نظر آرہے تھے، نہ جانے کیا گڑبڑ ہوئی اور مشاعرہ ایک دم ختم ہوگیا۔
جب سے مصرع طرح کا فیشن اٹھ گیا ہے، شعرا نے مشاعروں میں نئی چیزیں پڑھنے کا فیشن بھی اٹھادیا۔ سب وہی اپنی پرانی چیزیں اٹھاکر سنا دیتے ہیں۔ اس پورے مشاعرے میں علاوہ تاباں کی ’’دیوالی‘‘ کے میں نے تو ہر چیز پہلے ہی سن رکھی تھی، لہٰذا کچھ مزہ نہ آیا۔ یہ دیکھیے پھر تیزابیت نے زورمارا۔
جاں نثار نے دوسرے کمرے میں جوش صاحب کو ٹھہرادیا، ان کے ساتھ کوئی صاحب بھی تھے۔ صفیہ نے اپنے اور جاں نثار کے پلنگ اٹھاکر ان دونوں کے لیے دوسرے کمرے میں لگوادیے اور خود بچوں کو لے کر فرش پر سونے کا انتظام کرلیا۔ اس کا بس چلتا تو اپنے شوہر کے گرو دیو جوش صاحب کے لیے اپنی کھال بھی اتار کر بچھا دیتی۔ آج وہ بے انتہا خوش تھی۔ اس کے گھر میں ہندوستان کا سب سے بڑا شاعر جلوہ افروز تھا۔ اس جوش و خروش کے سلسلے میں کھانا پکوانا بھی بھول گئی۔ اب اس پر لرزہ چڑھا کہ اگر جوش صاحب کھانا مانگ بیٹھے تو کیا ہوگا؟ میں نے اس کو صلاح دی کہ صفیہ! جوش صاحب بڑے بھولے آدمی ہیں۔ اگر ان سے زور دے کر کہے کہ وہ کھانا کھاچکے ہیں تو وہ فوراً مان جائیں گے۔ لیکن جوش صاحب واقعی ریل میں کھانا کھاکر آئے تھے۔
صبح سویرے ہم لوگ سوہی رہے تھے کہ پاس کے کمرے سے جوش صاحب کے رباعیاں پڑھنے کی آواز آئی۔ صفیہ نے ہمیں جھنجھوڑ کر جگایا اور منہ پر چھپکا مار کر ہم ان کی خدمت میں پہنچ گئے۔ جوش صاحب نہائے دھوئے صاف ستھرے کپڑوں میں شعر مجسم معلوم ہو رہے تھے۔
یہ شاعر بھی عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر یہ نئے شاعر! مجروح قطعی شاعر نہیں لگتا۔ فرسٹ ایر کا طالب علوم معلوم ہوتا ہے جعفری کا ناک نقشہ ان عربی و فارسی کے الفاظ سے کتنا دور نظر آتا ہے جو اس کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ کیفی کو دیکھ کر شبہہ ہوتا ہے کہ اسے ابھی گھڑے میں سے نکال کر کھڑا کردیا ہے اور کوئی دم میں اونگھ کر گرجائے گا۔ لیکن جب وہ اپنے اشعار پڑھتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وجود ایک دبے ہوئے اسپرنگ کی طرح اچھل کر اوپر آرہا ہے۔ مجاز کو دیکھ کر یہ شبیہ بھی نہیں کہ یہ خون کی آندھیاں چلا سکتا ہے لیکن جوش صاحب زندگی میں بھی ویسے ہی چاق و چوبند اور گرجدار نظر آتے ہیں جیسے اپنی شاعری میں اور اس وقت کچھ موڈ میں بھی تھے۔ گزشتہ شب کے مشاعرے سے کبیدہ خاطر نظر آرہے تھے۔
دوپہر کا کھانا ہم سب نے اختر سعید کے ہاں کھایا۔ وہاں سے احسن علی ہم لوگوں کو اختر جمال کے ہاں لے گئے۔ اختر جمال بھوپال کی ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے ہیں جن کے والدین روشن خیال ہیں۔ اور انہوں نے اپنی اولاد کو آزادی دے رکھی ہے۔ میں یہ اندازہ نہ لگاسکی کہ ان لڑکیوں نے اس آزادی کو استعمال کرنے کا کیا پروگرام بنایا ہے۔ وہاں سے ہم کافی کلب گئے جہاں مجلس استقبالیہ کی طرف سے ہم لوگوں کو ایٹ ہوم دیا گیاتھا۔
رات کو قریب کے کمرے سے جوش صاحب کی صدارت میں منعقد ہونے والے گھریلو مشاعرے نے ہم لوگوں کو بھی کھینچ بلایا۔ جوش صاحب بڑے موڈ میں تھے اور ڈانٹ ڈانٹ کر سب سے داد لے رہے تھے۔ میں نے پہلی دفعہ جوش صاحب کو ان کے اپنے اصلی رنگ روپ میں دیکھا۔ گزشتہ شب کے مشاعرے کی کڑواہٹ اب تک ان کے منہ میں تھی اور یونین کی طرف سے جومشاعرہ ہونے والا تھا۔ اس میں قطعی شریک ہونے کو تیار نہ تھے لیکن لوگ کہیں چھوڑنے والے تھے۔
دوسرے دن میں نے سوچا تھوڑی دیر کو حمیدہ سلام الدین کے ہاں ہو آؤں ورنہ وہ ناراض ہوجائے گی۔ میں وہاں جاکر بیٹھی ہی تھی کہ اختر سعید صاحب کا ٹیلیفون آیا کہ ’’ہم لوگ سانچی جارہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا بھلا چار بجے سانچی جارہے ہیں تو پھر لوٹیں گے کس وقت؟ کہنے لگے وقت کی کوئی پرواہ نہیں۔ سانچی جارہے ہیں اور لوٹ ہی آئیں گے کبھی نہ کبھی۔ میں نے دل میں سوچا بھوپال آئے اور سانچی کے استوپس نہ دیکھے تو کچھ بھی نہ کیا۔ ویسے ہی ساری دوکانیں بند ہیں بٹوے بھی ملنا مشکل ہیں۔
لیکن گھر آکر معلوم ہوا کہ جوش صاحب لحاف اوڑھے قیلولہ فرمانے پر مصر لیٹے ہیں اور کسی طرح چلنے پر راضی نہیں ہوتے۔ صفیہ اور جاں نثار جانو بیٹی بیاہ کر اٹھے ہیں، لہٰذا تھکے ماندے پڑے ہیں۔ شاہد کو بھی نیند آرہی ہے لیکن کرشن چندر، مہندرناتھ، عادل رشید اور ادھو کمار لاری میں ڈٹے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں ہم سانچی جاکر رہیں گے۔ اختر سعید، احسن علی بھی ان کے ہم نواں ہیں۔ جوش صاحب کے پاس وفد بھیجا جارہا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کرشن نے کہا ہم جوش صاحب کے بغیر جائیں گے۔ لاری اسٹارٹ کرنے کا حکم دیا۔ اتنے میں عسکری صاحب اوپر سے چلائے ٹھہرو ٹھہرو جوش صاحب اٹھ رہے ہیں۔
پندرہ منٹ گزر گئے۔ ہم لوگ بھی چیخے کہ ہم جارہے ہیں۔ اوپر سے آواز آئی جوش صاحب واقعی اٹھ بیٹھے ہیں۔
پندرہ منٹ اور گزر گئے۔
اب صبر کے پیمانے چھلک گئے۔ مگر پھر کسی نے اطلاع دی ’’جوش صاحب زینے میں ہیں۔‘‘
مگر اس سے قبل کہ پیمانہ الٹ جائے جوش صاحب مع تام جھام کے واقعی زینے میں آگئے۔ معہ جاں نثار اختر، صفیہ، عسکری اور شاہد کے دونوں سیٹوں کے بیچ میں گداڈال کر ایک گاؤ تکیہ لگادیا گیا اور شاعر انقلاب براجمان ہوگئے۔
ہم کسی معمولی لاری میں نہیں جارہے تھے بلکہ ہسپتال سے ایک ایمبولینس مستعار لی گئی تھی۔ کمبخت اس قدر غل مچاتی کھڑکھڑاتی چلتی تھی کہ مردے بھی جاگ پڑتے ہوں گے۔ تین چار میل گئے ہوں کہ اس نے ہچکیاں لینی شروع کردیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ مریضوں کی صحبت میں رہ کر کمبخت خود بھی ادھ مری ہو گئی تھی۔
کھچ کھچ۔۔۔ کھچ، مریضہ بولی۔
’’یہ گاڑی نہیں چلے گی صاحب۔‘‘ ڈرائیور نے نہایت ہی کھرے پن سے کہا۔ ہیں! چلے گی کیسے نہیں۔ اختر سعید نے ڈانٹا۔
ڈرائیور نے کوئی نہایت ہی مشینی قسم کا نام لے کر بتایا کہ وہ آلہ نہیں ہے اور پٹرول میں کچرا آرہا ہے۔ گاڑی رک گئی ہے۔
ڈرائیور کچھ اٹرپٹر کرنے لگا۔ سب نے اتر اتر کر اپنی کمر سیدھی کی۔ ایک جھٹکے میں کمبخت جوڑ جوڑ ہل گئے ہیں۔ صفیہ نے کہا ’’آج احسن علی کو کیا ہوگیا اور ہم دونوں نے دیکھا کہ وہ کچھ عجیب رومانٹک انداز میں کھڑے ایک پیڑ کی بلندی ناپ رہے تھے۔ اتنے میں گاڑی ٹھیک ہوگئی اور چل پڑی۔ کوئی آدھ میل گئے ہوں گے کہ پھر وہی گھٹی گھٹی ہچکیاں مگر اختر سعید اندر سے غرائے اور گاڑی چلتی رہی۔ ادھر میں نے ڈرائیور کی صورت دیکھ کر کہا ’’صفیہ ڈرائیور کو کیا ہو رہا ہے۔ اس کے چہرے کے پینچ کیوں کستے جارہے ہیں؟‘‘
ملٹری کاآدمی معلوم ہوتا ہے غصہ آرہا ہے اسے۔ ڈرائیور نے شاید ہماری کھسر پھسر سن لی گاڑی پھر رک گئی۔ پھر کچرا۔ اور مجھے۔۔۔ نیاز حیدر یاد آگئے۔۔۔ ہٹاؤ کچرا۔
اختر سعید بھناکر اترے ڈرائیور کو گھورا اور گاڑی کی میکینزم سمجھنے کی دھمکی دینے لگے۔ صفیہ نے بھی کہنی کا ٹھوکا دے کر کہا۔ وہ دیکھو؟ اور میں نے دیکھا کہ احسن علی پھر پیڑوں کی بلندیاں ناپ رہے تھے۔
’’معلوم ہوتا ہے اس شخص کو کسی سے عشق ہوگیا ہے‘‘ صفیہ نے نبض ماروں کی طرح کہا۔
احسن کی آواز میں للکار ہے۔ الفاظ جی دار ہوتے ہیں خیالات بے چین اور پھڑکتے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب احسن بولتا ہے تو نہ جانے کیوں علی سردار جعفری یاد آجاتا ہے۔
صفیہ اور میں سوچنے لگے کہ کیا بات ہے کہ عشق کرتے وقت سب مرد یکساں ہوجاتے ہیں۔ اس وقت انہیں اپنے مسلک اور اس کے طور طریقے بالکل یاد نہیں ہوتے۔ ایک شاعر ایک ادیب ایک کمیونسٹ بھی عشق کرتا ہے تو آسمان ہی کی طرف تکتا ہے۔ لیکن مزدور اور کسان جب عشق کرتا ہے تو تارے گنتا اور پھول سونگھ کر آہیں بھرتا ہے۔
’’ارے کیوں بے چارے کے سرطوفان جوڑ رہی ہو۔ اس کے یہاں تو غم جاناں کبھی کا غمِ دوراں بن چکا ہے۔ صفیہ نے کہا۔
گاڑی پھر چل پڑی اور اب کے بڑی دھوم دھام سے چلی۔ شاید کہ مریضوں کو دارفانی پہنچانے کی عادی ہوچکی تھی کیوں کہ جس طوفانی رفتار سے ہم سب کو جھکولتی، کھڑکھڑاتی اور غل مچاتی جارہی تھی اس سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ ہم لوگوں کا آخر وقت آگیا ہے۔ بیچارے جوش صاحب گاؤتکیہ دبوچے اپنے جسم کو تولے بیٹھے تھے۔ اور سب بھی اپنا سر ایک دوسرے کے سر سے پھوٹ جانے کے ڈر سے بے چین سے نظر آرہے تھے۔
’’جوش صاحب بڑے خوبصورت ہیں۔ میں نے چپکے سے صفیہ کے کان میں کہا۔ ’’شش‘‘ چپ کیا غضب کرتی ہو۔ جوش صاحب سن لیں تو؟
’’میری بلا سے سن لیں۔۔۔ کیوں جی جوش صاحب اور ان کی برادری کے لوگ تو عورت کے حسن کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملادیں اور ہماری جبیں پر شکن بھی نہ پڑے اور اگر میرے منہ سے جوش صاحب کے حسن سے مغلوب ہوکر دوبول نکل جائیں تو وہ برا ماننے کی دھمکی دیں؟‘‘
’’اف فوہ! ۔۔۔ کیا مصیبت ہے تم سے بات کرو تو جھاڑ کا کانٹا اپنی جان کو لگالو۔۔۔ بھئی یہ کچھ قابل تعریف بات نہیں سمجھی جاتی کہ عورتیں مرد کے حسن پر لٹو ہوتی پھریں۔‘‘
تو پھر تمہاری رائے میں عورتوں کو ہاتھی گھوڑے کے حسن پر لٹو ہونا چاہیے۔ مجھے قطعی تمہاری بات سے اتفاق نہیں۔ ’’عورت کو مرد کے حسن کی تعریف کرنے کا پورا پورا حق ہے اور اب تو مجھ سے کرشن چندر نے بھی کہا ہے کہ ایک افسانہ یا مقالہ مردوں کے حسن پر لکھوں اور دیکھ لینا میں اسے پہلی فرصت میں لکھوں گی۔۔۔ میں اس میں مرد کی ناک کے بالوں کا لطیف ذکر چھیڑوں گی، اس کی مونچھ کی نوک کو خنجر آبدار سے زیادہ ہلاکت آفریں ثابت کردوں گی اور اس کی داڑھی کو سانولی سلونی شاموں میں امنڈنے والی گھٹاؤں سے تشبیہ دوں گی، جس کی پنہائیوں میں عورت کا دل جنگلی کبوتر کی طرح پھنس کر پھڑپھڑاتاہے۔ اور جیسے ہزاروں اشعار عورتوں کی چولی اور اس کے بند اور تکمے کی شان میں کہے ہیں اسی طرح میں مرد کے لنگوٹ اور۔۔۔‘‘
’’ہائے ہائے۔۔۔ کم بخت۔۔۔ مرجاؤ۔۔۔ موت آئے تمہیں۔‘‘ صفیہ نے زور سے میرا منہ مل دیا اور سر سے پیر تک لرز اٹھی۔
’’جب ہی تو لوگ تمہیں فحاشی کا الزام دیتے ہیں۔۔۔‘‘
ایمبولینس نے پھر ہچکیاں لیں اور ہم مردوں کے حسن کے نقطے سے پھسل کر منہ کے بل گرتے گرتے بچے۔
’’صاحب موٹرآگئی تو واپس نہ لوٹ سکے گی۔ ویسے آپ کہتے ہیں تو چلنے کو تیار ہوں۔‘‘ ڈرائیور نے مودب بننے کی کوشش کی۔ اگر وہ ذرا صاف گو ہوتا تو کہتا ’’احمقو! بھلا شام کے چھ بجے سانچی کے استوپ دیکھنے جارہے ہیں سترمیل کا سفر نہ کھانا نہ پانی۔ میں تمہارا بہی خواہ ہوں اس لیے کہتا ہوں کہ کیوں خواہ مخواہ وہاں جھک مارنے جارہے ہو۔‘‘
’’کیوں۔۔۔ کیا موٹر پھر بگڑ گئی؟‘‘ اختر سعید غرائے۔
’’بھئی واپس چلو‘‘ کرشن نے کہا ’’ڈرائیور کا دل نہیں کہتا جانے کو۔‘‘
’’مجال ہے اس الو کے پٹھے کی!‘‘ اختر سعید جھلائے۔
ڈرائیور نے چہرے کے پینچ اور بھی کس لیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ ’’تمہاری مرضی، پھر مجھ سے شکایت نہ کرنا، میں قطعی ایسے پاگل وقت سانچی جانے کو تیار نہیں۔‘‘
’’ایسا ہے تو پھر واپس چلو بھئی۔‘‘ جاں نثار نے ڈرائیور کو معنی خیز خاموشی سے سہم کر کہا۔
’’اب کے نہیں بگڑے گی۔‘‘ ڈرائیور نے شرارت سے مسکراکر اطمینان دلایا۔
’’ارے احسن علی کہاں گئے؟‘‘ کسی نے یاد دلایا۔ بڑی مشکل سے موٹر رکی اور واپس لوٹائی گئی۔ احسن صاحب ایک چمیلی کی ٹہنی لیے سڑک پر کھڑے آسمان کو تک رہے تھے۔ سب بے چارے کو ڈانٹنے لگے مگر وہ خاموش رہے۔ سانچی جانے کا سارا موڈ ختم ہوگیا۔ سب کی یہی رائے ہوئی کہ بخیر و عافیت جلد از جلد گھر پہنچنا چاہیے۔ تیس چالیس میل کا چکر لگاکر لوٹ آئے۔ یہ ہوئی سانچی کی سیر۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد آج پہلے ذرا صفیہ سے گپ شپ کا موقع ملا، پر نہ جانے بازو کے کمرے میں لوگ کیا سرگوشیاں کر رہے تھے کہ ہمارا جی نہ لگا۔ عجیب پر اسرار قسم کی آوازیں آرہی تھیں۔ گھسر پھسر اور پھر ایک طویل قہقہہ۔ میں نے اور صفیہ نے فیصلہ کیا کہ گیلری میں چپکے سے جاکر سنا جائے۔ اب ڈر یہ تھا کہ ہمارے بدتمیز بچے وہاں ساتھ جاکر ہمارے وجود کااعلان کردیں گے اور ہم پر ان قہقہوں کا بھید نہ کھل سکے گا۔ بری مشکل سے ان کم بختوں کو بہلا پھسلاکر نوکرکے سپرد کیا، اور خود گیلری میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ گیلری میں پہنچ کر جو کچھ سنا تو ہم پر چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے چند رکن سر جوڑے بالکل اس ہی موضوع پر اشعار سنا رہے تھے جس پر ہمارے گھر کی پکی عمر کی بہوبیٹیاں چھٹو جان سے لطیفے سنا کرتی تھیں۔
یہ چھٹو جان دلی کی طوائف تھی۔ ہماری ممانی جان کی بری منہ چڑھی تھیں۔ اس اللہ کی بندی کو ایسے ایسے پرائیویٹ لطیفے یاد تھے عورت اور مرد کے پوشیدہ تعلقات پر مختلف من گڑھت قصے، جنسی درندگیوں کے متعلق سنسنی خیز لطیفے۔ اونچے گھرانے کی بھلی بے جان، وہ جو لڑکیوں کے سر سے اگر دوپٹہ ڈھلک جائے تو سات سو طوفان جوڑنے لگیں، انہیں سن سن کر کلکاریاں مارتیں اور لوٹ پوٹ ہوجاتیں۔ نہ جانے کیوں ان باتوں کو سن کر مجھے پنجاب کے ننگے جلوس یاد آگئے۔ وہ سڑکوں پر زنا اور عورت کی بھیانک تخریب کی تصویر آنکھوں میں پھر گئی، جیسے دونوں ایک ہی جذبے کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔ پھر صفیہ نے مجھے بتایا کہ قریب قریب تمام چوٹی کے شعرا کا اس قسم کا کلام پرائیویٹ اور بے تکلف موقعوں پر لطف اندوز ہونے کا بہترین نسخہ ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ مشغلہ گھر میں بیٹھنے والی ناکارہ عورتوں ہی تک محدود ہے۔ مرد تو سیاست، اقتصادیات اور معشیات پر بحث و مباحثہ کرتے ہوں گے۔
لوگ منٹو پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں۔ اگر کہیں وہ یہ سب کچھ لکھ دے تو اسے توپ دم کردیا جائے اور اگر میں وہ سب کچھ لکھ دوں جو معزز بیویاں چٹخارے لے لے کر سنتی سناتی ہیں تو نہ جانے لوگ میرا کیا حال کریں۔ مگر یہ سب باتیں خلوت میں ہوتی ہیں تو انہیں ادب کی ایک پرلطف شاخ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی ان کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے منظرعام پر لے آئے تو لوگ پارسا بیویاں بن کر ناک سکیڑنے لگتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کے اشعار کا ایک بہت ضخیم خزانہ موجود ہے جو بالکل شاہی نسخوں کی طرح سینہ بہ سینہ چلا آتا ہے۔ بے چارے چرکین کا حشر دیکھنے کے بعد لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر شایع کیا گیا تو لوگ اسے چوراہے پر ڈال کر جوتیوں سے پیٹ کر ختم کرڈالیں گے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے ذہنیت کی پرورش کے لیے دماغوں تک ہی محدود رکھا جائے۔
سوال یہ ہے کہ یہ فن کیوں ظہور میں آیا؟ یہ تو میں کسی حالت میں بھی ماننے کو تیار نہیں کہ غم و غصہ، نفرت اور محبت کی طرح یہ جنسی درندگی بھی انسانی جبلت ہے۔ یقیناً یہ شاہی نظام کے تحفے ہیں۔ امراء اور رؤسا جب جسمانی عیاشی سے جس کی آخر کو ایک حد مقرر ہے، اور تمام طلائیں اور گولیاں عاجز آجاتی ہیں تو وہ ذہنی بدکاری ہی پر اکتفا کرتے تھے بڑے درباروں میں اس قسم کے سامان ننگی تصویروں کوک شاستروں، اشعار اور لطیفوں کی صورت میں فراہم کیے جاتے تھے جو اکتائی ہوئی زندگی میں تھوڑی سی جان پڑجاتی تھی۔
پرانے کپڑوں اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ ساتھ یہ نعمت مصاحبین کے گھر تک آئی اور وہاں سے ان کے مصاحبوں میں رینگ گئی اور اب ان کے تھوکے ہوکے ہوئے نوالے ہمارا طبقہ چباتا چلا آرہا ہے لیکن اب وہ لوگ جو انقلاب کے علمبردار بنتے ہیں۔ اس ذہنیت سے کس طرح سمجھوتہ کرتے ہیں؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اور میرا دل بے طرح اداس ہوگیا۔ اونہہ چھوڑو ان باتوں کو جب سب کچھ بدل جائے گا۔ تو ذہنیتیں خود بخود بدل جائیں گی۔ جڑ بدلنے کے بجائے پتوں کی کانٹ چھانٹ میں وقت گزاری حماقت ہے۔ اس طبقے کے کیڑْ مارنا فضول ہے۔ جڑ بدل گئی تو پھر نئی ٹہنیوں میں نئے پتے اور نئے پھول کھلیں گے۔
بمبئی آکر معلوم ہوا کہ علی سردار جعفری رہا ہوگئے۔ معلوم ہوتا ہے محکمۂ بالا سے کچھ گھپلا ہوگیا تھا یا شاید بھول چوک ہوگئی۔
بھساول کے ترقی پسند مصنفین کو میرا پیغام ہے کہ آپ کے کہنے کے مطابق ہم نے میدان رجعت پسندوں کے قبضہ میں نہ جانے دیا۔ بات یہ تھی کہ وہاں کوئی سامنے آیا ہی نہیں۔ لہٰذا میدان جیت آئے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.