Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی کی بپتا

سید ضمیر حسن

دلی کی بپتا

سید ضمیر حسن

MORE BYسید ضمیر حسن

    بندر نے کہا صاحبو! دنیائے دوں، نیرنگیِ زمانۂ شعلہ پرور، بوقلموں، عبرت و دید کی جاہے۔ گرماگرم آیند و روند کا بازار ہے، کس وناکس جنس ناپائیدار ہے، لہو و لعب کا خریدار ہے، اپنے کام میں مصروف قضا ہے، جوشے ہے فنا ہے۔ معاملات قضا وقدر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مسئلہ جبر و اختیار ہے۔ دنیا جائے آزمائش ہے، نادان جانتے ہیں یہ مقام قابل آرام و آسائش ہے۔ دو روزہ زیست کی خاطر کیا کیا سازوسامان پیدا کرتے ہیں، فرعون بے سامان ہو کر زمین پر پاؤں نہیں دھرتے ہیں۔ انجام شاہ گدا دو گز کفن اور تختۂ تابوت کے سوا نہیں۔ کسی نے ادّھی یا محمودی کا دیا، کسی کو گاڑھا گزی کا میسر ہوا۔ کسی نے بعد مرگ سنگ مرمر کا مقبرہ بنایا، کسی نے مرمر کو گور گڑھا پایا۔ کسی کا مزار مطلا، منقش، رنگارنگ ہے، کسی کی مانند سینۂ جاہل گورتنگ ہے۔ مسرتِ دنیا سے کفن چاک ہوا، بستر دونوں کا فرش خاک ہوا۔ نہ امیر سمور و قاقم کا فرش بچھا سکا، نہ فقر پھٹی شطرنجی اور ٹوٹا بوریا لاسکا۔

    بعد چندے جب گردش چرخ نے گنبد گرایا، اینٹ سے اینٹ کو بجایا تو ایک نے نہ بتایا کہ دونوں میں یہ گورِ شاہ ہے، یہ لحدِ فقیر ہے۔ اس کو مرگِ جوانی نصیب ہوئی، یہ استخوانِ بوسیدۂ پیر ہے۔ دنیا فقط رہگزر ہے، پردم مثال تارنفس درپیش سفر ہے۔ تازلیت ہزاروں مفسدے ہیں، ڈر ہے، مرنے کے بعد باز پرس کا خطرہ ہے۔ کسی طرح انسان کو مفر نہیں، کونسا نفع ہے جس کی تلاش میں ضرر نہیں۔ حاصل کار یہ ہے کہ دنیا میں جینے کی خوشی نہ مرنے کا غم کرے، تامقدور کسی کی خاطر نہ برہم کرے۔ دل شکستہ کی دلداری، پا افتادہ کی مدد گاری کرے، ایک دن مرنا ہے، جینا مستعار ہے، اس پر کس کا اختیار ہے۔ نیک عمل کا خیال رہے کہ قید ہستی زیست کا نام ہے، رہائی یہاں سے انجام ہے۔ جب وعدہ آ پہنچا تو، نہ روپیہ کام آتا ہے نہ فوج ظفر موج سے کچھ ہو، نہ تہمتن جرار بچاتا ہے۔ اگر یہی مانع قضا و قدر ہوتے، جمشید و کاؤس، دارا و سکندر بصد حسرت افسوس جان نہ کھوتے۔

    کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

    جب پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے گی جان اوپر

    نقارے، نوبت، بان، نشان، دولت، حشمت، فوجیں، لشکر

    کیا مسند، تکیہ، ملک، مکان، کیا چوکی، کرسی، تخت، چھپر

    سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

    یا فقرا یہ خاکسار، ہیچ مقدار رہنے والا اس اجڑے دیار کا ہے جسے اہل علم و ارباب دانش ہندوستان کا دل، جہاں آباد کہہ کے پکارتے ہیں، جنت مکاں، صاحب قرآں، شاہ جہاں بادشاہ نے اپنے جلوسِ تخت نشینی کے بعد جب آگرے کی گلیوں کو فیلان گراں ڈیل کے لیے تنگ پایا تو احکامات صادر فرمائے کہ آگرہ کے تاجر اور رئیس جو مالکان حویلی اور کوٹھوں کے ہیں اگر بہ رضا و رغبت شہر سے دور کہیں اور بسنا قبول کریں تو اس شہر کے بازار کشادہ کرنے کے لیے کچھ مکانات منہدم کردیے جائیں گے۔ شہر کے رؤسا کو یہ تجویز پسند نہ آئی، اور بمجرد سننے اس حکم کے بادشاہ غریب پرور کے دربار حاضر ہوکر دست بستہ عرض کی کہ ارشاد حضور کے سے ہر چند ہمارے تئیں سرتابی کی مجال نہیں۔ رعیت آپ کی ہیں، جان عزیز درکار ہوتو قدموں پر نثار کریں مگرعدل گستری اور انصاف پروری عالیجاہ کی پہ نظر کرکے یہ عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ ملک آپ کا وافر از مشرق تا مغرب چار دانگ پھیلا ہوا ہے۔

    جنگل بیابان اور افتادہ زمینوں کی کمی نہیں، اگر ہزار قریہ اور شہر پلک جھپکتے آباد کرنے کا قصد کریں تو عنایت ایزدی سے چنداں دشوار نہیں۔ ہم کہ اپنے باپ دادا کے وقتوں سے یہاں بود و باش رکھتے ہیں اور مٹی اس دریا کی ہمارے لیے کجل الجواہر سے زیادہ ہے۔

    آدمی جہاں رہتا ہے اس سرزمین سے اسے لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ فطرت انسان کی ہے، لہٰذا اگر جان کی امان ہو تو مدعا یہ ہے کہ ہماری جمعیت ہرگز اپنی رضا مندی سے گھر بار چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یوں سرکار کواختیار ہے۔ ہم آپ کی رعیت اور بندۂ بے دام ہیں، جہاں آپ بھیجیں گے چلے جائیں گے، عذر کی مجال نہیں، حکم عدولی کا خیال نہیں۔ تب بادشاہ نے تامل کیا اور شفقت سے فرمایا، خاطر جمع رکھو، ہراساں نہ ہو جیو، تمہاری حویلیاں اور تمہارے گھر، جیوں کے توں قائم رہیں گے۔ دل آزاری ہمارے تئیں شعار نہیں ہے جو تمہاری خوشی یہی ہے تو ہم یہاں سے دور جمنا کنارے دوسرا شہر بسائیں گے اور ارباب حل و عقد کو اپنے ہمراہ یہاں سے لے جائیں گے۔

    اس وقت شاہ جہاں آباد کی بنیاد پڑی اور ایک قطع زمین کا جو دریا کے کنارے بیابان پڑا تھا اس کے نصیبوں نے یاوری کی۔ سب سے پہلے لال حویلی کی بنیاد پڑی۔ جہاں پناہ بہ نفس نفیس آگرہ سے چل کر دہلی تشریف لائے۔ لال قلعہ سے کچھ دور عارضی مکان رہائش کے لیے تعمیر کرایا اور اس میں قیام پذیر رہے۔ یہ مکانِ عالیشان دست برد زمانہ کے ہاتھوں کھنڈر ہوکے ابھی تو کچھ دنوں پہلے تک کلاں محل کے نام سے استادہ تھا۔ غریب غربا اہل حرفہ اور پیشہ وروں نے اس میں سکونت اختیار کی تھی۔ یکبارگی احکامات حاکم وقت کی عدالت سے جو صادر ہوئے تو اسے نابود کردیا گیا۔ نشان اس کی بنیادوں تک کے نہ رہے۔ البتہ ایک وسیع اور کشادہ میدان اس کی جگہ دکھائی دیتا ہے۔

    جب لال قلعہ کی نیو رکھی جارہی تھی تو بڑے بڑے لوہے کے کڑھاؤ اور تانبے کی ناندوں میں چربی کھولائی جاتی تھی اور پھلکیوں کی طرح اس میں کوری اینٹیں ڈالی جاتی تھیں۔ جب اینٹیں خوب چربی پی لیتی تھیں تو نکال کر ٹھنڈی کی جاتی تھیں اور گچ کے ساتھ بنیادیں رکھی جاتی تھیں۔ گچ میں سفیدی نارلول کے پتھر کی، ماش کا آٹا، مردار سنگ، گڑ، السی کا تیل، ڈال کر بیل گری کا پانی چھان کر دیا جاتا تھا۔ یہ ادنیٰ قسم کا مسالہ تھا اور بڑھیا قسم مسالوں کی تفصیل کے لیے دفتر درکار ہیں۔ لال قلعے کے اندرونی مکان، قصر و ایوان بن رہے تھے، تخت طاؤس کے لیے جواہر تراشے جاتے تھے۔ جنگل میں منگل تھا، ہزاروں معمار، مزدور، کاریگر، خیموں میں، چھولداریوں میں، جھونپڑیوں میں پڑے رہتے تھے۔

    دور دور کی پہاڑیوں سے چھکڑوں میں پتھر لدے چلے آتے تھے۔ ایک چھکڑے میں سو سو پچاس پچاس بیل جوتے جاتے تھے۔ سنگتراشوں کی چھینیوں اور ٹانکیوں کی دھڑادھڑ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر سو قدم کے فاصلے پر ایک خیمہ خزانے کا برپا تھا۔ ایک ہندو خزانچی اور تین محرر، دس سپاہی روپے کی حفاظت کے لیے حاضر رہتے تھے، روپئے، اٹھنیاں، چونیاں، دوانیاں، پیسے اور کوڑیاں رکھی رہتی تھیں۔ کام امانی میں زیادہ اور ٹھیکے میں کم ہوا کرتا تھا۔ شام کے چار بجے چٹھا بٹ جاتا تھا۔ غریبوں کا پیسہ پیسہ واجب الادا مل جاتا تھا۔

    لال قلعہ کے لاہوری دروازے سے شہر کے لاہوری دروازے تک بازار ٹٹیوں اور جھونپڑیوں میں لگا دیا جاتا تھا جس میں جو، گیہوں، جوار، باجرے کے آٹے سے لے کر قسم قسم کی جنس، کپڑا، ترکاری، کابلی و کشمیری میوے تک ملتے تھے۔ حکم پہ حکم چلا آتا تھا کہ اردو بازار میں ہر قسم کی اشیا کی دوکانیں اضافہ ہوتی رہیں تاکہ غیر ملکوں کے کاریگر جو اپنا دیس چھوڑ کر پردیسی بنے ہیں وہ تکلیف نہ پائیں اور اپنے وطن کی ہر شے اور غذا انھیں میسر ہو۔

    شہر کا نقشہ بناکر اس کے حصے کردیے گئے۔ شاہ جہاں نے ان حصوں کو اپنی اولاد پر بانٹ دیا تھا۔ فرمایا کہ لاگت خزانے سے ملے گی، اپنے حصہ میں عمدہ عمدہ مکانات اور محل بنوا لو تاکہ نیا شہر اچھی اچھی عمارتوں سے آراستہ ہوکر آبادی کی صورت پکڑے۔ چنانچہ دکن کا حصہ اورنگ زیب کے اہتمام سے زیبائش پانے لگا۔ ’’کشمیری دروازے کے قطعہ کو داراشکوہ نے فلک شکوہ قصر و ایواں سے سنوارا۔ چاندنی چوک کے ٹکڑے کو جہاں آرا بیگم کے غلام نے جو ناتواں تخلص کرتا تھا، باغ گلشن اور حماموں سے رشک فردوس بنایا، نٹواں کا کوچہ اسی ناتواں کی یادگار ہے۔

    جامع مسجد کی تعمیر نواب سعد اللہ خاں وزیر کے سپرد تھی۔ اس کی نیویں ہی بھری گئی تھیں جو میر تعمیر، جس کی سپردگی میں جامع مسجد کا نقشہ تھا یکایک مع نقشہ کے غائب ہوگیا اور مسجد کی تعمیر کا کام رکا پڑا رہا۔ اس امر کی خبر پاکر شہنشاہ ناخوش ہوئے۔ حکم صادر فرمایا کہ جو شخص اس کا فرمنش مسلمان کو جس نے خانۂ خدا کی تیاری میں روڑا اٹکایا ہے، پکڑ کر لائے گا اسے بہت کچھ انعام دیا جائے گا۔ مگر وہ خدا کا بندہ ایسا اٹوپ ہوا کہ تین برس کسی نے اس کی جھلک نہ پائی۔ تین برس کے بعد وہ دربار شاہی میں حاضر ہوا۔ حضور والا نے فرمایا کمبخت یہ کیا حرکت تھی۔ اس نے ہاتھ باندھ کر کہا۔

    جامع مسجد کی عمارت بہت بھاری ہوگی، نئی بنیاد پر ایسی عمارت کالے جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ برسات کا پانی نیو میں مرتا اور امن کے ساتھ در و دیوار نیچے کھسکتے۔ ڈاٹیں، کمانیں محرابیں جھک جاتیں، سرکار کے لاکھوں روپے پر پانی پھرتا اور میری آبرو کے ساتھ جان بھی جاتی۔ نیک نیتی اور مصلحت سے فدوی روپوش ہوگیا تھا۔ تین برساتیں کھاکر نیو لوہا لاٹ ہوگئی ہے، اب جو عمارت اس پر کھڑی ہوگی، وہ صدیوں تک کھڑی رہے گی۔ حضور کو اختیار ہے، فدوی کی جان بخشی ہو یا سزا دی جائے۔ بادشاہ نے اس کے عذر کو غور سے سن کر اس کی خطا معاف فرمائی اور خلعت سے سرفراز کیا۔ غرض جامع مسجد نواب سعد اللہ خاں کے اہتمام سے تیار ہونے لگی جو نواب صاحب کو قولنج پڑا اور وہ جنت کو سدھارے۔

    بہرحال جامع مسجد، لال قلع اور شہر بن گیا۔ حضور والا نے دیوان خاص میں تخت طاؤس پر جلوہ افروز ہوکر جشن ماہتابی منایا اور ایک فرمان جاری کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ فخر البلاد جہاں آباد عرف شاہجہاں آباد ہیں جو رعایا آباد کی گئی ہے اس میں خوش حال کم اور اہل حاجت زیادہ ہیں، پھر ان میں کاریگر ہیں، مزدور ہیں، بیمار ہیں، پردہ نشیں عورتیں ہیں جو برقع اوڑھ کر کبھی باہر نہیں نکلتیں اور بغیر سودے سلف کے کام نہیں چلتا۔ اس واسطے میں حکم دیتا ہوں کہ ترکاری فروش، قصائی، میوہ فروش، کسیرے، گندمی، تانبے والے، موچی، کمہار، اپلے ایندھن بیچنے والے، حلوائی، بساطی، پارچہ فروش، منہارنیں اپنے اپنے سامان خوانچوں میں لگاکر یا گٹھڑیوں میں باندھ، کندھے پر رکھ کر گلی کوچے اور محلے محلے میں پھراکریں اور اپنی اپنی جنس کا نام لے کر آواز لگائیں۔

    بزاز کہے ’’نینو، لٹھا، ڈوریہ، ململ‘‘، مچھلی والا کہے ’’لوماچھ‘‘ کھٹ بنے، بڑھئی، لوہار اپنے اپنے پیشہ کا نام لے کر پکاریں، یہاں تک موری دھونے وال پکار کر کہیں کہ موری دھلوا لیجیے تاکہ گھر بیٹھے اہل حاجت کی ضرورت پوری ہو، کوتوالی کے برق انداز ان لوگوں کے ساتھ رہیں اور شہر میں انہیں گشت کرائیں تاکہ گاہک اور سودا بیچنے والے اس طور کے لین دین کے عادی ہوجائیں اور بیچنے والوں کو روزی، مول لینے والوں کو سامان لینے کے لیے بازار نہ جانا پڑے۔ ہر قسم کی چیزیں ان کے دروازوں پر مہیا ہوجائیں۔ جیسی نیت ویسی برکت۔ شاہجہاں کی یہ تدابیر ایسی راس آئی کہ آج تک اس اُجڑے دیار میں لینے والی، بیٹی کا سارا جہیز، اپنے دروازے پر، کواڑ کی آڑ میں کھڑی ہوکر، مول لے لیتی ہے۔

    کہتے ہیں محمد شاہ جو رنگیلے کے نام سے پکارے جاتے تھے اور آخر زمانے میں والیِ سلطنت مغلیہ قرار پائے، ایک رات سرور کے عالم میں اس درگاہ کے اندر بمعہ جوتیوں کے گھس گئے جس میں بزرگوں کے تبرکات امیر تیمور کے عہد سے جمع کیے گئے تھے۔ یہ درگاہ لال قلعے ہی میں تھی۔ اس بے ادبی اور گستاخی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ نادر شاہ آیا اور شاہ جہاں آباد کو اُجاڑ کر چل دیا۔ مرہٹوں، روہیلوں، افغانوں نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور قلعے کو ننگا بوچا کرکے اپنی اپنی راہ ہولیے۔ مغلیہ سلطنت گھٹنے گھٹتے لال قلعہ کی چار دیواری تک ٹھٹھر کے رہ گئی۔

    پھر فرنگیوں کی سازش سے کوئی راجہ، کوئی حاکم، کوئی رئیس، کوئی نواب عہدہ برآ نہ ہوسکا۔ شاہ عالم بادشاہ نے فرنگیوں کو بیٹا بنالیا۔ ان کی دی ہوئی پنشن کو اللہ آمین کرکے قبول کیا۔ دبی بلی چوہوں سے کان کٹائی ہے، مرتا کیا نہ کرتا۔ جان بچی تو لاکھوں پائے۔ فرنگی موذیوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور کچھ عرصہ کے بعد ان کے ہاتھوں جہاں آباد میں ایسا غدر پڑا کہ خلق خدا تراہ تراہ پکار اٹھی۔ کلمہ گویوں کو پکڑ پکڑ کر پھانسیوں پر لٹکایا گیا۔ جامع مسجد میں گورا پلٹن کے گھوڑے بندھے، تمام شہر مکینوں سے خالی ہوگیا۔ شرفا اپنی آبرو بچا، بھرے پرے گھر بار چھوڑ راتوں رات فصیل سے باہر نکل گئے۔ غرض عبرت کا ایسا بازار گرم ہوا جسے سنانے کے لیے لوہے کا کلیجہ اور پتھر کا دل چاہیے۔

    ’’اے ہے میاں ’غدر کی‘، للہ نہ پوچھو۔ اے اللہ دشمن کو نہ دکھائیو۔ برس دن ست ہی ست پر گزری۔‘‘ استانی کے ہاں میں تھی کہ اتنے میں میرے ابا جن کا نام الٰہی بخش تھا اور قلعہ میں کبوتروں کو دانہ دینے پر نوکر تھے۔ ہانپتے کانپتے بھاگے ہوئے آئے۔ کنڈی کھٹکھٹائی اور مجھ سے کہا کہ جلدی گھر چل۔ شہر میں بلوا ہوگیا ہے۔ رات کو پانچ آدمی آئے، بہتیرا شہر کا دروازہ کھلوایا۔ پہرے دار نے نہ کھولا۔ صبح ہوتے ہوتے اور بیسیوں آدمی آملے۔ بادشاہ نے کہلوایا بھی ارے کمبختوں کیوں میری ضعیفی میں مٹی پلید کراتے ہو لیکن انہیں ایک ماننی تھی نہ مانی۔ غرض دروازہ کھلا وہ گھس آئے۔ قلعہ میں ہنگامہ ہے، بادشاہ سلامت کو قید کرلیا ہے اور سارے محلوں کو گھیر لیا ہے، اللہ ہی ہے جو خیر ہو۔

    استانی جی میری سن کے گھبراگئیں۔ گھر میرا لاہوری دروازے صفیلوں میں تھا۔ تھوڑے دنوں تو وہیں رہے لیکن پھر جو گولا پڑا تو میرے نانا جن کا نام خدابخش تھا آئے اور مجھے اور میری ماں کو جن کا نام اکمل النساء تھا، لے کے چتلی قبر اعظم خاں کی حویلی میں اپنی بہن لاڈو خانم کے ہاں چھوڑ گئے۔ تین مہینے ہم یہاں رہے۔ ابا میاں افیون کے عادی تھے۔ وہ کلموئی آئی نہ مسیر۔۔۔ ان کا برا حال ہوا، ایسا کہ لبوں پہ دم آگیا۔ گھر میں کوئی آدم نہ آدم زاد جو پانی کی بوند بھی حلق میں ٹپکائے۔ مٹکے سوکھے، پانی کی بلوں بلوں۔ اتنی ان میں سکت نہیں جو باہر نکل سکیں، جب مارے پیاس کے بیتاب ہوئے تو بڑے روئے اور گڑگڑائے۔

    روئے جو سہی تو وہ موسلادھار پانی پڑا اور اتنا برسا کہ دو کٹورے پانی کے بھر گئے۔ انہوں نے وہ پی لیے۔ گورے گھس آئے تھے اور پانی پینے سے ان میں ذرا دم آیا۔ رات کو چپکے سے نکل گھسٹتے گھسٹاتے میرے نانا کے مکان تک آئے۔ یہاں مارے ڈر کے میرے نانا نے دروازے کو تیغہ دیدیا تھا۔ ابا نے جو دروازے میں تیغہ لگا پایا تو بڑے پریشان ہوئے۔ لیکن رات کو میری نانی تہجد کی نماز کو اٹھتی تھیں اور خالہ کی آنکھ ڈر کے مارے نہیں لگی تھی، ابا نے جو آوازدی تو نانی اور خالہ دونوں کی دونوں ڈر گئیں۔

    نانا کو اٹھایا، انہوں نے آواز پہچان کے کہا، کون ہے؟ الٰہی بخش؟ ابا نے کہا کہ ہاں باوا میں ہوں۔ نانا نے کہا پچھواڑے سے آجاؤ، ہمسائی کی کھڑکی میں سے۔ ابا نے کہا کہ میں تو ہل بھی نہیں سکتا۔ گھٹنیوں گھسٹتا تو یہاں تک آیا ہوں، اب تو ذرا دم نہیں ہے۔ نانا گھبرائے۔ باہر جا پڈی پہ ڈال کے اندر لائے، صبح ہوتے ہی چتلی قبر آئے۔ اماں کو لے گئے۔ وہ گئیں تو دیکھا سارے لت پت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جلدی جلدی پائجامہ اتروا دُھلا دھلو صاف کیا۔

    آدھے شہر میں گورے گھس آئے تھے۔ ابا کی چارپائی انگنائی میں بچھی تھی۔ اور سب اندر دالان میں تھے۔ چھت پہ دھم دھم کی آواز ہوئی سب کے سب ڈر کے سہم گئے۔ اتنے میں ایک دھڑا کے کی آواز ہوئی۔ اوپر تھی تختے بندی کی دیوار، نگوڑے گورے دیوار پر سے جھک کر نیچے گھر میں جانکھتے تھے کہ ساری تختہ بندی نیچے آن پڑی۔ ابا کی چارپائی نیچے ہی تھی، ایک دھاڑ ماری اور پھٹکار بھی نہ کھایا۔ چادر جو اوڑھے تھے اسی میں لپیٹ نانا دوتین محلے کے مردوں کو لے، باہر دوکان میں گڑھا کھود دبا آئے۔

    لوٹتے ہوئے گوروں نے دیکھ لیا۔ نانا بڈھے پھونس، ایک ہی گولی میں فیصلہ ہوگیا۔ میری ممانی کے دو دہیزو جنگی صندوق تھے۔ نانی اور خالہ نے انھیں توڑ نانا کو دوپٹوں میں لپیٹ مارا مار گڈھا کھود زمین میں امانت رکھ دیا اور سب بھاگ کر چتلی قبر آگئے۔ شہر میں گوروں کالوں کی لڑائی برابر جاری تھی۔ ہمارے پچھواڑے شہزادے جواں بخت کی سسرال تھی۔ گورے غارتی رات بھر ان کے دروازے کی زلفیاں کاٹتے رہے اور ہر ٹھناکے کے ساتھ ہمارے دم نکلیں۔ اماں، نانی اور ساری گھر کی عورتیں، مردوے کے نام تو چڑیا کا بچہ تک نہ تھا، قرآن شریف کھولے گھڑی چھت پر چڑھتیں اور گھڑی نیچے اترتیں۔

    سب چاروں طرف پڑھ پڑھ کے چاروں طرف دستک دیں اور بال کھول کھول کر دعائیں مانگیں کہ الٰہی مردوں کی جانوں اور عورتوں کی آبرو کا تو ہی والی ہے۔ میں زاروقطار روؤں۔ سامنے پہاڑی پر گولیاں سائیں سائیں جائیں۔ دھنادھن، ٹھوں ٹھائیں ٹھنانا کی آوازیں کلیجے نکالے دیں۔ کس کا کھانا، کس کا پانی، جانوں اور آبروؤں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اور میاں اعمالوں کی شامت دیکھو کہ پہلے اچھے خاصے نکل گئے تھے۔ سنا تھا کہ بادشاہ جارہے ہیں۔ ساری خلقت شہر سے ان کے ساتھ نکل رہی ہے۔

    ہم عورتیں گھر سے حق تو حق تو کرتی نکلیں۔ مٹیامحل کے بازار سے لے کر جامع مسجد کی سیڑھیوں تک آدمیوں کا یہ حال کہ میں تجھ پر اور تو مجھ پر۔ تل دھرنے کو جگہ نہیں، جہاں پناہ تام جھام میں سوار، ایک ایک آنکھ سے ہزار ہزار آنسو جاری بہہ بہہ کے نوارنی مقیش سی داڑھی پہ آئیں۔ آپ رومال سے انہیں صاف کرتے ہوئے، آثار شریف کی زیارت کرکے رخصت ہونے آئے تھے۔ پیچھے پیچھے قوال، بادشاہ سلامت نے جو غزل اپنی بپتکہانی میں کہی تھی، گاتے ہوئے، آدمی روتے روتے لوٹے جائیں اور وہ ’’پیٹک‘‘ بپتیا بڑی کہ الحفیظ والاماں۔ کلیجے میں کس کے طاقت ہے جو بیان کرے۔ اے ہے، یاد پہ پھر جائے لوکا، اس اب بول ایک بھی یاد نہ رہا۔ میں نے تو خوب صاف صاف سنی تھی کیونکہ پیچھے جو ریلا آیا تو نانی بیچاری گرگئیں اورمیرا ہاتھ اماں پکڑے ہوئے تھیں۔

    ہم دونوں جنیاں تام جھام تک زمین سے ادھر جاپہنچے۔ جان نانی میں پڑی تھی کہ الٰہی کچل گئیں یا کیا ہوا۔ پھر پلٹے انھیں ایک جگہ پڑا پایا۔ ساتھ لے کر گھر واپس ہوئے۔ پھر گورے گھس ہی چکے تھے۔ نکلنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ لیکن جب جواں بخت کی زلفیاں کاٹ کر وہ اندر گھسے اور عورتوں کے رونے پیٹنے کی آواز آئی تو پھر جو جس حالت میں تھا نکل کے بھاگا، ننگے پیر، ننگے سر، کس کا برقعہ، کس کی چادر، گرتے پڑتے، رستہ معلوم نہیں کہ کدھر جائیں۔ جانے کدھر کے کدھر نکل گئے۔ ہزاروں عورتیں، مردوے، بچے کچے، چیختے چلاتے، روتے بلبلاتے، اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے۔

    ہم سب بھی ان میں مل گئے۔ جانے لاہوری دروزّہ تھا یا موری دروزہ یا خدا جانے کہ کابلی دروزہ تھا، غرض ہوش نہ تھا کہ کہاں جاتے ہیں۔ بازار لاشوں سے پٹے، جگہ جگہ خون کے تھتھے کے تھتھے، قدم قدم پہ سر اور دھڑ پڑے ہوئے۔ دروازے کے باہر جو نکلے پہرے داروں نے جو جس کے پاس تھا دھروا لیا۔ اوڑھنے کے کپڑے لتے چھین لیے۔ سڑک کے دونوں طرف کپڑوں کے اٹم بار لگے تھے، رات، ایک پرانہ تہہ خانہ تھا، وہاں بسر کی، لیکن آنکھوں میں نیند کہاں۔ پلک سے پلک نہ لگی، ساری رات لرزتے گزری۔

    رات بھر شہید مرد ادھر ادھر پھرتے دکھائی دیں۔ تلواروں کے خچا کے اور خون کے فراٹے کی آواز کلیجہ دہلائے دیتی تھی۔ پہلے تو میں ضبط کرکے بیٹھی رہی آخر ایک چیخ ماری اور رونا شروع کیا۔ میری چیخ اور رونے سے جو بچے سو رہے تھے ان کی گھگھی بندھ گئی۔ پھر جو کہرام مچا تو توبہ ہے۔ بڑے بوڑھے ایک ایک کا منہ تکیں اور بچے بلک بلک کر اور بڑوں سے لپٹ لپٹ کر روئیں۔ مرددؤں کو موت اور ہاتھ بھر کی رسی اور درختوں کے جھونٹے دکھائی دیں۔

    تین دن میں مرتے کرتے تغلق آباد پہنچے۔ وہاں نگوڑے گنواروں نے ظلم توڑے، سب کو پکڑ لیا اور کہا کہ جب تک آدمی پیچھے روپیہ نہ لے لیں گے ہرگز نہ چھوڑیں گے، جن کے پاس تھا، دے کے چھٹکارا پایا۔ یہاں کیا خاک دھری تھی جو ان کے دیدوں میں جھونکتے۔ سارے دن ساری رات بندھے بیٹھے رہے۔ کھائے ہوئے تیسرا دن تھا۔ روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو اور پانی کے ایک گھونٹ کو ترسیں اور میسر نہ آئے۔ آخر خدائی خواروں نے ہار جھک مار چھوڑدیا۔ برسوں جنگل کی خاک چھانی، میاں جانی، بیان کرنے کو کس کی چھاتی لاؤں۔ دل میں طاقت نہیں۔ الٰہی اب دکھائیو اور اس دن کو موت دیجیو۔ گوروں کے سلوک جو انھوں نے مرد، عورت سے کیے، بیان کروں تو پکڑی جاؤں اور گھسٹتی پھروں۔ شہزادیوں کی تو وہ خواری تھی کہ کیا کہوں۔ چوٹیاں پکڑ کے سڑکوں پے گھسیٹتے تھے۔ جھوٹوں کو کوئی کسی کو شہزادہ بتادے بس اس کی اجل تھی۔ لیا گھوڑے کی دم سے باندھا اور بھگایا۔ گھوڑے کو، یا سڑک پر ڈالا اور بیلن چلادیا۔ ہڈیاں پس کر ملیدہ ہوجائیں۔ قیامت تھی قیامت نہ داد نہ فریاد۔

    یہاں تک کہہ کے درویش نے ایک لمبا سانس لیا، چلم اٹھاکر ٹھپ سے اپلا نکالا اور اپلے کو مٹی کی ٹھکلی پر لٹکا کر یوں گویا ہوا کہ کہانی اس نے کپڑے والی افضل النساء کی زبانی سنی تھی، سو بے کم و کاست بیان کردی۔ پھر گڑگڑی کے دوچار کش لے کر فقیر جب تازہ دم ہوا تو اس نے آگے حکایت یوں بیان کی۔

    کہنے والے کہتے ہیں، اور سنانے والوں سے جو سنا ہے وہ نقل کرتا ہوں، یاں تلک تو داستان غیروں کی بیان ہوئی تھی، اب قصہ اپنوں کے مظالم کا سنیے۔ محمد علی، گاندھی جی، ڈاکٹر انصاری، نہرو، آزاد اور بہت سے دوسرے لوگوں کی کوشش سے ملک آزاد ہوا۔ دلّی کے لال قلعہ سے انگریز دھکے دے کر نکال دیے گئے۔ اپنا راج ہوگیا مگر فرنگی کم بخت جاتے جاتے ہندو اور مسلمانوں کے بیچ سیہہ کا کانٹا رکھ گئے۔ آزادی بعد وہ جوت چلے اور ایسی افراتفری مچی کہ توبہ ہی بھلی۔ اچھا خاصا آدمی جانور بن گیا۔ دلّی بطور خاص نشانہ بنی۔ پنجاب سے نکالے ہوئے لوگ یاں پہنچے تو ان کی حالت زار دیکھی نہ جاتی تھی۔

    نزلہ برعضو ضعیف نتیجہ کے طور پر دل والوں کی شامت آئی۔ توبہ تو بہ، تھو تھو، شیطان کے کان بہرے، اب سے دور، ان دنوں دلی والوں پر ایسا پیمبری وقت پڑا کہ جب خیال آتا ہے تو سارے بدن کی جان نکل جاتی ہے۔ غدر میں اتنا تو تھا کہ کشتم پشتم فصیل کے باہر نکل گئے تو امان مل گئی۔ مگر ان دنوں تک ملک کے کونے کونے میں غدرابود مچا تھا۔ ہر طرف چھری، چاقو، کرپانیں ناچتی دکھائی دیتی تھیں۔ غرض ایک موجۂ خوں رواں تھی۔ وہ بیرا کھیری مچی کہ مرد، عورت، بوڑھے، بچے، سب کھیرے ککڑی کی طرح کاٹے جانے لگے۔ دلّی کے ان بازاروں میں جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا، ہوئی عالم ہوگیا۔ جہاں لچھمی ہُن برساتی تھی، وہاں بھیروں ناچ رہا تھا۔

    رات دن کرفیو لگا رہتا تھا۔ فوجیں گشت کیا کرتیں اور فوجی جوان اوپچی بنے ناکوں پر تعینات کھڑے رہتے تھے۔ ٹھائیں ٹھائیں گولیاں چلتیں۔ جس کی آتی وہ مرجاتا، باقی دھڑا دھڑ گرفتار ہوتے۔ گھروں کی تلاشیاں ہوتیں۔ ترکاری کاٹنے کی چھری بھی کسی کے ہاں نکل آتی تو گھر کے سب مرد گرفتار کرلیے جاتے تھے۔ پھر بھی ہر طرف چپکے چپکے مقابلوں کی تیاریاں کی جارہی تھیں، گپتیاں بنوائی گئیں، چھتوں پر اینٹیں چنوائی گئیں۔ لال مرچیں اور تیزاب کی بوتلیں جمع کی گئیں، اونچے اونچے مکانوں پر لال اور سبز رنگ کے قمقے لگائے گئے کہ جب لال بتیاں جلیں تو ہوشیار ہوجائیں کہ خطرہ ہے اور جب سبز بتیاں جلیں تو سمجھیں کہ خطرہ ٹل گیا۔

    ہر محلے کے سرے پر لوہے کے دروازے چندہ کرکے چڑھوائے گئے۔ سب کو تاکید کی گئی کہ کم از کم ایک لفتہ کا راشن گھر میں رکھیں۔ محلے کے جو سردھرے تھے ان سے کہا گیا کہ تم دس دس بیس بیس بوریاں گیہوں کی اپنی حویلیوں ہی میں محفوظ رکھیں۔ وقت چونکہ سب پر پڑا تھا اس لیے سب چھوٹے بڑے سرجوڑ کر کام کر رہے تھے۔ لال بتیاں جلتیں تو گلیوں میں سارے مرد لاٹھیاں، پلنگ کے سیروے، پٹیاں، پائے اور حد تو یہ ہے کہ گھبراہٹ میں پھکنی اور دستپاتک ہاتھ میں لے کر نکل آتے۔ عجیب بھیانک سماں تھا۔ اوّل اوّل تو بڑا ہراس طاری ہوا کئی راتیں آنکھوں میں کٹیں پھر اس کے بعد یہ ایک معمول ہوگیا اور لوگوں کے دلوں سے خوف کا عنصر نکل گیا۔

    فصیلی شہر کے گرد و نواح میں ہر طرف لوٹ مار، قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم ہوا کہ وہاں سے لوگ نکل نکل کے جامع مسجد پر آنے لگے۔ کیمپ بن گئے، جو لوگ گھروں سے نکل کر بھاگتے وہ چوراہوں پر جلتے الاؤ میں زندہ جھونک دیے جاتے۔ کان گہنگار ہیں، اللہ دشمن کو یہ منظر نہ دکھائے۔ گھر کے گھر تباہ ہوگئے۔ کسی کے بچوں کا پتہ نہیں کسی کی بیوی غائب، کسی کے بوڑھے ماں باپ رہ گئے۔ خواتین ننگے سر ڈونڈائی ڈونڈائی پھر رہی تھیں۔ کہاں کی عزت، کیسا وقار۔ اپنی جانوں کا ہوش تو تھا نہیں۔ کچھ ہی دن میں جامع مسجد اور مشرقی رخ کے سنگھاڑے ان نگھروں سے بھر گئے۔ شہروالوں نے چندہ کرکے کھانا پکوایا اور ان میں تقسیم کیا۔ جو لوگ سال بھر میں لاکھوں روپے خیرات کرتے تھے وہ دو دن میں روٹیوں کے محتاج ہوگئے۔

    سبزی منڈی کے جیالے رائیں اور ملتانی ڈھانڈے کے بندھانی فوج سے بھڑگئے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ کچھ دیر تو نہتوں نے مقابلہ کیا مگر خالی ہاتھ پاؤں سے کوئی لڑائی ہوتی ہے۔ فوج نے جو برین گنوں اور اسٹین گنوں سے گولیوں کی بارش کی تو کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ غرض یہ کہ آدمی چنوں کی طرح بھون دیے گئے، جب بدحواس ہوکے بھاگے تو گٹھڑیاں اور پوٹلیاں چھینی، جو زیور پہنے ہوئے تھیں ان کے زیور نوچے گئے، بالیوں کے ساتھ کان تک غائب۔ پھر بھی جن کی زندگی تھی وہ کسی نہ کسی طرح پناہ گاہوں تک پہنچ گئے۔ کہاں تک اس کی تفصیل بیان ہو، عجیب درندگی کا دور تھا۔ اپنا گھٹنا کھولیے آپ ہی لاجوں مریے۔

    اس ہنگامے میں ہندومسلمان کی تخصیص نہیں تھی، دونوں ہی آپے سے باہر تھے۔ مسلمانوں کو جب معلوم ہوتا کہ آج سات مسلمانوں کے چھرے گھونپے گئے ہیں تو وہ بھی سات گھٹنائیں کرکے حساب چکتا کردیتے۔ کرے کوئی بھرے کوئی۔ گدھے پہ بس نہ چلا گدھیا کے کان اینٹھے۔ کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔

    دلی میں ہمیشہ ہندو مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے، یہ میر صاحب کا گھر ہے یہ لالہ جی کی حویلی۔ شام کو ایک ساتھ دیوان خانوں کی محفلیں جمتیں۔ گڑوالوں اور شریف خانیوں دوستی ضرب المثل بنی ہوئی تھی۔ سنا ہے اُن کے بزرگ ٹوپی بدل بھائی تھے۔ اب جب سے فسادات کی وبا پھیلی تھی تو ہندوؤں کے محلے سے مسلمانوں کا اور مسلمانوں کے محلے سے ہندوؤں کا گزر مخدوش ہوگیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ ملنے جلنے والوں کی آنکھیں بدل گئی تھیں وہ تو اب بھی ساتھ بیٹھ کے اس مصیبت سے نبٹنے کی تدبیریں کرتے تھے، بلکہ اس لیے کہ غنڈوں نے گلی گلی اپنے جال بچھا رکھے تھے، شرفاء بے بس ہوکے رہ گئے تھے۔

    کھانے پینے کی جو قلت ہوئی تو لوگوں نے پالتو جانور کاٹنے شروع کردیے۔ اس غم کو وہی سمجھے گا جو دلّی والوں کی طبیعت کو جانتا ہوگا۔ سوکھی روٹیاں پانی میں بھگوکر کھائی جارہی تھیں۔ گیہوں، جو، مکئی جو کچھ میسر آتا سل پر پیس کر ٹکڑ پکائے جاتے تھے۔ چکیوں کا رواج دلّی میں مدتوں سے نہیں رہا تھا۔ بازار میں گیہوں پسوایا جاتا یا پسا پسایا آٹا بنئے کی دکان سے آجاتا تھا۔ بازار بند پڑے تھے، گیہوں اُبال کر اور نمک چھڑک کر پیٹ کا دوزخ بھرا جاتا تھا۔ بدہضمی اور پیچش کی شکایت عام ہوگئی۔ ڈاکٹر اور دوائیں ملنا مشکل، لوٹ پوٹ کر آپ ہی کھڑے ہوجاتے تھے۔ کمبختی میں جان بھی مشکل سے نکلتی ہے۔

    ایک روز صبح صبح ہمارے محلہ میں خلیفہ بٹو نے آکر آواز دی۔ خلیفہ بڑے جی دار آدمی تھے، لکڑی چلانے میں ان کاجواب نہیں تھا۔ مگر بڑھاپے نے کس بل توڑدیے تھے، کہتے تھے میاں اب میرے ہاتھ کیا دیکھو گے۔ کدی جوانی میں دیکھتے، لفط آجاتا۔ چرپائی کے نیچے قبوتر چھوڑدو، مجال ہے جو نکل جائے، ہاتھ قلم کرا دیتا۔ اب بھی خاک چاٹ کر کہتا ہوں کہ دس پانچ کے بس میں تو آنے کا نئیں۔ خلیفہ نے آواز دی تو جی سن سے ہوگیا کہ نہ جانے محلے پر کیا افتاد پڑی۔

    بارے ڈرتے ڈرتے ان سے جاکر پوچھا کہ خلیفہ خیر تو ہے۔ بولے میاں اللہ خیر ہی رکھے گا۔ لینا! یہ ذرا گھر میں دے آؤ لپک کے، یہ کہہ کے انہوں نے اپنی شالی رومال کے نیچے سے دو سیر کا گوشت کا دونا نکال کر تھمادیا۔ پوچھا خلیفہ یہ کہاں سے لائے اور کتنے کا لائے۔ بولے میاں آج میں نے اپنے ترکی کو حلال کردیا۔ دیکھنا گوشت کیسا توفہ ہے۔ چاندی کے ٹکڑے ہیں چاندی کے ٹکڑے، مجھ سے اس کی بے بسی دیکھی نہ گئی۔ آدمیوں تلک کو کھانے کو مل نہیں رہا، اسے کہاں سے کھلاتا۔ بھلا جس جناور کو دودھ جلیبیاں کھلاکر پالا ہو اسے گھانس تک نصیب نہ ہو۔ نالت ہے اس کے جینے پر۔ اتنا کہہ کر خلیفہ بٹو منہ پھیر، جلدی جلدی قدم اٹھاتے چلے گئے۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

    دلّی کے اُجڑنے اور بسنے کی داستان بڑی عبرت انگیز ہے۔ کہاں میری زبان میں طاقت اور گفتار میں طاقت کہ شمہ مذکور اس کا آپ کے آگے بیان کروں۔ بڑوں سے جو کچھ سنا تھا اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں کہہ دیا۔۔۔ ناصر، نذیر، فراق، یا فرحت اللہ بیگ ہوتے تو باتوں باتوں میں دلّی کی موہنی تصویر کھینچ دیتے، پھر آپ کو اندازہ ہوتا کہ اللہ اللہ اس شہر کی عظمت کا کیا ٹھکانا تھا اور اس کے مٹنے کا غم آپ کی آنکھوں کو لہو رلاتا۔ میں ٹھہرا زبان کا اپاہج، بات کرتا ہوں تو ایسا لگتا جیسے ادوان پر طوطا چڑھتا ہو۔ کیا خاک فسانۂ یارانِ کہن نقل کروں گا۔ ہاں ایک سرسری سا خاکہ ضرور کھینچ رہا ہوں کہ جس میں اہل دل اپنے خون جگر کا رنگ بھریں تو اجڑے دیار کے مٹے ہوئے نقش آپ زندہ کرسکتے ہیں۔ بٹوارے کے بعد اس شہر کے چاہنے والے، شاہ جہانی دیگ کی کھرچن، خاکِ پاک دہلی کے دلدادگان بھی افراتفری میں یہاں سے نکل گئے۔

    نہ شاہد احمد دہلوی رہے نہ ملا واحدی، نہ اشرف صبوحی رہے، نہ خواجہ محمد شفیع۔ زمین بدل گئی، آسمان بدل گئے مگر ان صاحب دلوں کے مزاج نہیں بدلے، یہاں سے ہزاروں میل دور بیٹھے یہ لوگ زندگی بھر اس سرزمین کے ترانے الاپتے رہے۔ کوئی ملنے جاتا تو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بوسہ دینے کی فرمائش کرتے، کسی سے کہتے، میاں دلّی جاؤ تو وہاں کی خاک کا ہمیں تحفہ بھیج دینا۔ کوئی اس غم میں مرگیا کہ اجڑے نگر میں داعی اجل کو لبیک کہوں، اور کسی نے جان دی تو اس کی آنکھیں حسرت دیدار دہلی میں کھلی رہ گئیں۔

    نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے

    کبھی روئے، کبھی سجدے کیے خاک نشیمن پر

    دلّی کی بربادیوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا، بلکہ ہنوز جاری ہے۔ فسادات کے بعد امن و امان ہوا تو لوگ امی جمی سے رہنے لگے۔ ناگہانی ایک آفت بموں کے پھٹنے کی آئی۔ سان نہ گمان، کبھی یہاں دھماکہ ہوگیا۔ کبھی وہاں دھماکہ ہوگیا۔ جانیں تلف ہوئیں، خوف و ہراس پھیلتا اور ذرا دیر میں گہما گہمی والے بازاروں میں قبرستان کا سناٹا ہوجاتا تھا۔

    اربابِ حل و عقد نے اس گتھی کو سلجھانے کی بہتیری کوشش کی، جگہ جگہ برقی قمقے لگا کے رات کو دن بنادیا۔ مسلح پہرہ دار مجرم کی ٹوہ میں چھتوں پر ہمہ وقت ٹہلتے رہتے مگر سوائے افسوس کچھ ہاتھ نہ آیا۔ بم پھینکنے والا کمبخت چھلاوا تھا یا خدا جانے کوئی بد ارواح تھی کہ ذرا سراغ نہ ملتا تھا۔ تھیلیوں، پگڑیوں، جیبوں سب کی تلاشی ہوئی مگر نہ کچھ پتہ چلنا تھا نہ چلا۔ یوں سمجھیے، جس طرح دلی کی باؤلیاں بھینٹ لیتی تھیں، یہاں کے بازار بھی بھینٹ لینے لگے۔ سید رفاعی کی مسجد تلے جوان جہاں انڈے والا مرا تو لوگوں سے اس کی تھل تھل کرتی لاش دیکھی نہ گئی۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ پھر اس کے بعد اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ یہ ہنگامہ سدا کے لیے فرو ہوگیا۔ البتہ مدتوں اور رفتہ رفتہ لوگوں کے ذہنوں سے اس کی دہشت رفع ہوئی تھی۔

    جامع مسجد بانکوں کا علاقہ ہے۔ یہاں والے ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ انگریزی سرکار تھی تو اس سے دون کی لیتے تھے۔ اب اپنا راج ہے تو اس سے آئے دن ٹھنی رہتی ہے، دلوں میں کینہ رکھنے کے یہ قائل نہیں ہیں۔ جب ذرا غبار بھرتا ہے تو جھٹ نکال لیتے ہیں۔ محرم کے جلوس اور عید میلادالنبی کے موقع پر کتنی بار حکام سے دو دو ہاتھ ہوئے۔ جانوں کا زیاں ہوا سو ہوا مگر ساکھ تو رہ گئی۔ غالب نے کہا تھا کہ دلّی اب دلّی کہاں، کیمپ ہے، چھاؤنی ہے۔ تو ان کے سامنے تو یہ چند دنوں کی بات تھی۔ مگر ہم سے پوچھیے تو ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آج تک ایسا ہی دیکھا۔ گوروں کے بارک تو ہمارے بڑوں نے کبھی دیکھے ہوں گے، موئی کالی پلٹنیں ہم روز دیکھا کرتے ہیں۔ ایسے ایسے ہتھیاروں سے لیس جیسے کوریا کی جنگ لڑنے جاتے ہوں۔ بھاری قدموں کی چاپ نے دلّی کے گلی کوچے اس طرح روندے کہ آخر یہاں ویرانی برسنے لگی۔ آبادیاں دیکھتے دیکھتے معدوم ہوگئیں اور جہاں بلبلوں کے آشیانے تھے وہاں اب زاغ و زغن کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    وقت کے ساتھ ہر شے پہ زوال آتا ہے۔ کار دنیا کسے تمام نہ کرد۔ سو اب دلّی بھی بوڑھی ہوگئی، محلات گرنے لگے، حویلیاں سجدہ ریز ہوگئیں۔ مکین تو کب کے فنا ہوگئے تھے، اب مکان بھی ڈھینے لگے۔ وہ گلی کوچے جو کبھی اوراقِ مصور کہلاتے تھے، گندگی کی پوٹ سے گھناؤنے ہوگئے۔ کیوں نہ ہوتے، کثرت خلائق کا بھلا کوئی ٹھکانا ہے۔ جہاں ایک کنبہ رہتا تھا، وہاں سینکڑوں کنبے آباد ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ دلّی میں آن کے آباد ہوگئے۔

    پرانے لوگ کہتے ہیں کہ دلّی باہر والوں کی ماں اور یہاں والوں کی بیوی ہے۔ ان کے پیٹ ٹٹولتی ہے اور ہماری جیبیں۔ خیر یہ تو ایک بات کہنے کی ہے، مگر ہوا یوں کہ دلّی کی کاروباری حیثیت دن بدن بڑھنے لگی۔ پیسے والوں نے جگہ جگہ قبضے کرلیے، پگڑیاں دیں اور جگہیں لیں۔ ان کا بھی کچھ قصور نہیں۔ اب جو دیکتے ہیں تو دلّی ایک منڈی بن گئی۔ گلی گلی، محلے محلے تاجر اور کارخانہ دار گھس آئے۔ سو ان مشکلوں سے دلّی والوں کا جینا دوبھر ہوگیا، دم ناک میں آنے لگا، شور و غوغا ہوا تو پرانے دلّی والوں نے ہائے ویلا مچائی۔ ان کی دیکھا دیکھی سرکاری حکام بھی چلانے لگے کہ دلّی کی حالت سدھارنی چاہیے۔ سب نے کہا تمہارے منہ میں گھی شکر۔ نیکی اور پوچھ پوچھ، اس سے اچھی کیا بات ہے۔ ایک پاکھنڈی حاکم کھڑا اور پڑا اپنے آپے کو پیٹنے لگا۔ جہان آباد کا ایسا جھورا اس مونڈی کاٹے کو لگا کہ اس نے ایک کتاب بھی شہر کی تاریخ پر لکھ ڈالی۔

    وہ جو مثل مشہور ہے کہ ماں سے زیادہ چاہے، پھا پھا کٹنی کہلائے، دلّی کے پرانے گھاگ تو اس کی نیت تاڑگئے۔ مگر سیدھے سادھے لوگوں کو اس نے باتوں میں لے لیا۔ وگیان بھون میں ایک بیٹھک بلاکے وہ ڈھونگ رچایا، اور مگر مچھ کے آنسو بہائے کہ سارا شہر اسے اپنا ہمدرد سمجھنے لگا۔ اگلے دن شہروالوں کا کسی بات پہ پولیس سے مچیٹیا ہوگیا۔ پولیس نامراد نہ جانے کب سے خار کھائے بٹھی تھی۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ گولیاں برسانا شروع کردیں۔ لڑنے والے تو اِدھر اُدھر ہوگئے، راہ چلتوں کی شامت آئی، چتلی قبر پہ اعظم خاں کی حویلی کے پاس جہاں چمو دودھ والے کی دوکان ہے وہاں ایک کوٹھے پہ چڑھ کر ہتھیار بند اوپچی جان لینے پر اتاؤلے ہوگئے، ایک لڑکی بیچارے کے گولی لگی، باپ صدمہ سے جان بحق ہوگیا۔ اچھا خاصا گھر ذرا دیر میں ماتم سرا بن گیا۔ پھر جو کرفیو کا دور دورہ ہوا تو ہفتوں یہ عالم رہا کہ سائیں سائیں۔ کل بازار میں رات دن اُلو بولتا تھا۔ کھانا پینا، کام کاج، دکھ بیماریاں سب بند۔ ایک لڑکی مٹیا محل میں کوٹھے سے گرپڑی، دوچار آدمی اسے کندھے پہ ڈال کر اسپتال لے گئے۔ پھاٹک تک پہنچ کے جو دیکھتے ہیں تو سنگینیں لگی ہیں۔ اِدھر اُدھر با رسوخ لوگوں کے پاس گئے، سب نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ ماں باپ غریب کلیجہ پکڑ کے رہ گئے۔

    سردیوں کے دن تھے، سپاہیوں نے ہاتھ سینکنے کے لیے جگہ جگہ چوراہوں پہ الاؤ روشن کرلیے تھے۔ کاٹ کباڑ کوڑا کرکٹ جو سڑک پر پڑا تھا کام آگیا۔ پھر دکانوں کے تختے جلنے لگے۔ اور ایک دن یہ غضب ہوا کہ کرفیو کھلا تو لوگوں کے ساتھ مزدوری کرنے والے بھی گھروں سے نکل پڑے، کہاں تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں کچھ کمائیں گے تو پیٹ کا دوزخ بھریں گے۔ کاریگر کا مزاج ہمیشہ سے یہ رہا کہ جو کمایا اس سے زیادہ کھا لیا۔ اب جو گھر قید خانے بنے اور باہر کا آنا جانا بند ہوا تو روٹیوں کے لالے پڑگئے، شریفوں کو ہاتھ پھیلانے پڑے، جب کہیں کھانا بٹتا تو ایسی ہاہا کار مچتی کہ دیکھے سے وحشت ہوتی تھی۔

    پیٹ کمبخت سب کچھ کراتا ہے، غریب عورتیں تک برقوں میں منہ چھپائے برتن لیے اپنی باری سے انتظار میں خاموش کھڑی رہتیں۔ مگر وہاں یہ عالم تھا کہ جو زبردست ہے وہ آگے بڑھ کے لے لے اور کمزور ناتواں بے چارے فقط دھکے کھاکے واپس چلے جاتے تھے۔ ایک جھلی والا غریب اپنی سدھ باندھے کہیں چلا جاتا تھا، غالباً اس لیے نکلا تھا کہ مل گئی تو روزی ورنہ روزہ تو ہے ہی۔ چوراہے پہ سپاہیوں سے مڈبھیڑ ہوگئی، انہوں نے جھلی چھین آگ میں جھونک دی، وہ کچھ بولا تو بھبکیا ں دینے لگے۔ آنے جانے والوں نے اسے چپ کردیا اور خون کا سا گھونٹ پی کے رہ گئے۔

    چاؤڑی کے نکڑ پر انہیں دنوں آگ لگی۔ لگی کیا لگائی گئی۔ ہوٹل تو دنوں سے بند تھا، اس میں آگ کا کیا کام۔ روئی والوں کی دکانیں جل کر ختم ہوئیں۔ دکانوں کے مالک ان کا آخری دیدار تک نہ کرسکے، شہر میں کرفیو بدستور قائم تھا۔ البتہ اس کرفیو میں تالے بھی ٹوٹے، چوریاں بھی ہوئیں۔ سب خاموشی سے دیکھتے رہے، دم نہ مارو، شکر گزارد، ظالم مارے اور رونے نہ دے۔

    عہد وسطیٰ میں یہ قاعدہ تھا کہ جب کوئی ملک فتح کیا جاتا تو اس ملک کے بادشاہ کا خزانہ، املاک، محل اور عبادت گاہ سب پر فاتح کا قبضہ ہوجاتا تھا۔ اسی بنیاد پر سلطان قطب الدین ایبک پرتھوی راج کے مندر پر قابض ہوا تھا اور جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب فتح کیا تو لاہور کی شاہی مسجد بھی ان کے تصرف میں آگئی تھی۔ دلّی کی جامع مسجد انگریزی اقتدار کے بعد انگریزوں کے قبضہ میں آئی اور پھر ہزار دقتوں کے بعد واگزار ہوئی۔

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب دنیا آج کی طرح مہذب اور شائستہ نہیں ہوئی تھی۔ اب تو اس طرح کی جنگیں ہوتی ہیں اور نہ فتوحات؛ محل، حرم اور شاہی عبادت گاہوں کا بھی کوئی سوال نہیں۔ مگر پچھلے دنوں جو لپاڈگی پولیس اور شہروالوں میں ہوئی اور دلّی کے من چلے جو چہلیں پولیس اور حاکمان وقت سے کیا کرتے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ارباب اقتدار معہ اپنے تیز تفنگ اور فوج فرا کے، ایک روز فیصلہ کن جنگ کی ٹھان دلّی پر چڑھ آئے، دکاندار جو جامع مسجد کے نیچے دکانیں لگائے بیٹھے تھے سب ہٹادیے گئے۔ تہہ بازاری ختم ہوئی۔

    چلیے اس پر ہی خیر گزرتی مگر وہ جو کہتے ہیں کہ رنڈی اور حاکم کا سامنا اچھا نہیں، نوبت یہاں تک پہنچی کہ جھنجھلاہٹ مسجد پہ اُترنے لگی۔ پشتے کے نیچے روئی والوں کی دوکانیں ڈھانے کے لیے بڑے بڑے جرثقیل بلائے گئے اور ان کی یورش سے اینٹ اور پتھر روئی کے گالوں کی طرح بکھرنے لگے، مسجد کی بنیادیں ننگی ہوئیں تو ظالموں کو ہوش آیا۔ اپنے کیے پر کھسیاتے ہوئے اور جلدی جلدی گارا تھونپنے لگے تاکہ ان کے عیب پر پردہ پڑجائے۔ دانت نکوستی دیوار کھڑی کردی۔ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند، محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین اور دلّی کے دردمند، کیا ہندو، کیا مسلمان، اونچے اونچے میناروں کے نیچے کھڑے حسرت سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔

    جھولتے میناروں اور گنبد چاہے ان کے سروں پر آپڑتے مگر اس وقت ان کو اپنی جانوں کا ہوش نہیں تھا اور توڑ پھوڑ کرنے والے کمبخت ایسا پتھر کا کلیجہ لے کر آئے تھے، کینے سے دل ان کے بھرے پڑے تھے کہ انھیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ ایسی اچھی عمارت جس کی نظیر ہندوستان تو کیا دنیا میں مشکل سے ملے گی، ذرا دیر میں اڑا اڑا دھم کر کے آن پڑی تو کیا ہوگا۔ وہ تو کہو کہ جن معماروں نے اسے بنایا تھا وہ جنتی اور پاک باز تھے۔ ایک ایک اینٹ قل ہواللہ پڑھ کے رکھی تھی، اس لیے مسجد کھڑی رہ گئی ورنہ ان جوانامرگ ڈھانے والوں نے تو کوئی کسر ہی نہ چھوڑی تھی اور اب بھی فن معماری کے ماننے والے کہتے ہیں کہ جامع مسجد کی عمر آدھی رہ گئی ہے۔

    بغداد جب قزاقوں کے ہاتھ لگا اور وہاں کے خلیفہ کو شکست ہوئی تو ان قزاقوں نے گلی گلی ایسا خون بہایا کہ دجلے کا پانی سرخ ہوگیا تھا۔ اس سے بھی بڑا ظلم جو انھوں نے کیا وہ یہ تھا کہ بغداد کے بڑے بڑے ادارے اور کتب خانے جلاکے راکھ کردیے۔ آج وہ ہوتے تو مشرقی دنیا علم و ہنر، کسب و کمال کے میدان میں مغرب والوں سے یوں پیچھے نہ رہ جاتی اور دنیا میں جو عزت یورپ والوں کی ہے اس سے زیادہ ہماری ہوتی۔

    مسجد کی بے حرمتی کے بعد تو دلی پر قیامت ٹوٹ پڑی، روز ایک نیا زوال آنے لگا۔ آئے دن احکامات جاری کیے جاتے تھے۔ ’’یہ علاقہ خالی کراؤ، اس محلے کو نیست و نابود کردو۔‘‘ دلی والے سنتے اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے۔ ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ ایک قتالہ، آفت کی پرکالہ، سفید شلجم جیسی رنگت، آنکھوں پر کولہو کے بیل کی سی اندھیریاں چڑھائے، شہروالوں پر غلام قادر روہیلے کی مانند مصیبت بن کر نازل ہوئی۔ مرد تو اسکے تیور دیکھ کر جان گئے کہ حرافہ ہے، شتاہ جہاں جائے گی گل کھلائے گی۔ مگر عورتیں بے چاری بھولی بھالی اس کے بہکاوے میں آگئیں، کسی نے آناً فاناً برقعہ اُتارا، کوئی ناک چوٹی کٹاخود اس کی صف میں شامل ہوگئی۔

    دلی کے ایک مولوی گھرانے کوایسا نشانہ بنایا تھا کہ وہاں کے بچے بچے کو اپنے سیاہ کرتوتوں کی خاطر گھر سے بازارمیں لے آئی تھی، مولوی بیچارے تو کب کے مرچکے تھے، خدا انہیں جنت نصیب کرے، مگر ان کی اولاد اس بدذات کی ایسی دیوانی ہوئی کہ چھنال کے آگے پیچھے پھرنے لگی۔ مشہور ہے کہ بھوتوں کے گھر اولیاء اور اولیاء کے گھر بھوت۔ سارے شہر میں طبلی پٹوائی، تھڑی تھڑی ہوئی مگر اس کا ساتھ نہ چھوٹا۔

    اورنگ زیب کا انتقال ہوا تو مغلوں کی سلطنت کو زوال ہونے لگا۔ اس کے جانشینوں میں ایک بھی اس لائق نہ تھا کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیتا، سب کے سب عیبی تھے، تلوار اٹھانا ہی بھول گئے تھے۔ ہاں جتنا چاہو ناچ رنگ کرالو۔ ان ہی دنوں جہاندار شاہ بھی تخت پر بیٹھے اور ایک کسبی لال کنور پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ اسے لمبا چوڑا خطاب دے کر اپنے حرم میں داخل کرلیا۔ اس کے لواروں، بھانڈ بھیٹوں کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے اور یہ عالم ہوا کہ دربار میں ہر طرف سازندے نظر آنے لگے۔

    سنا ہے ایک دن لال کنور اپنے چہیتے کے ساتھ جھروکوں میں بیٹھی تھی۔ سامنے جمنا کا پاٹ تھا۔ ساحل پر کچھ لوگ کشتی میں سوار ہوئے تو اس مال زادی نے اٹھلا کر کہا ’’ہم نے کشتی ڈوبتے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ بادشاہ نے تالی بجائی، محلی حاضر ہوا تو اسے حکم دیا کہ سامنے جو کشتی جارہی ہے اسے غرق کردیا جائے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ رات گئے جب بادشاہ سلامت لال کنور کے ساتھ نشہ میں چور قلعہ میں واپس آئے تو گاڑی کے ساتھ وہ بھی اصطبل ہی میں بند کردیے گئے۔ کافی دیر بعد ڈھنڈیا مچی۔ اصطبل کھولا گیا اور اس میں سے بادشاہ برآمد ہوئے۔ دلّی شہر ان دنوں ایک تماشا گاہ بن گیا تھا، ٹھٹھ کے ٹھٹھ بازاروں میں کھڑے بادشاہ اور لال کنور کی چوما چاٹی دیکھا کرتے تھے۔

    محمد شاہ رنگیلے کی والدہ قدسیہ بیگم کو اپنے بچے کے بادشاہ ہونے کا بڑا ارمان تھا۔ مگر من چاہے منڈیا ہلائے، بادشاہت کے نام پر تربھر ہوتی تھیں اور فرماتی تھیں، ’’روشن اختر کو خدا تخت طاؤس کی ہوا بھی نہ لگائے۔ چاہے گھاس کھود کر اپنا پیٹ بھر لے، مگر سلطنت کے پیچھے اس کے دشمنوں کا بال بھی بیکا نہ ہو۔ جہاں روشن اختر کی دائی بندی نے ہاتھ دھوئے، وہاں لال قلعے اور ہندوستان کے تخت و تاج کو سات دفعہ قربان کروں۔‘‘ ادھر سلطان جی کے صاحبزادوں کو کہلا بھیجا کہ درگاہ کو زنانہ کیا جائے میں نو رات کروں گی۔

    ڈیرے تنبو درگاہ کے باہر بھی لگائے گئے اور درگاہ کے صحن میں بھی مناسب جگہ چھوٹا سا خیمہ کھڑا کیا گیا تاکہ آرام دے۔ پہلی رات آئی، بیگم نہا دھو روشن اختر کو جن کی عمر چار برس سے کچھ کم تھی اپنی گود میں لے کر حضرت امیر خسرو کی راوٹی کو پیٹھ دے کر بست دری کے سامنے عین حضرت کی چوکھٹ کے نیچے مودب بیٹھ گئیں۔ درگاہ سامنے، اندر عنبریں شمعیں اور کافور کی بتیاں جل رہی تھیں، خوشبو اُڑ رہی تھی مگر درگاہ میں سوائے ان دو ماں بیٹوں کے تیسرا کوئی نہ تھا۔ اگرچہ آستانے کے چاروں طرف کئی سو سپاہیوں کا پہرہ تھا مگر بیگم کا کلیجہ ڈر کے مارے بلیوں اچھل رہا تھا اور اس تصور سے جان گھلی جاتی تھی کہ جہاں آرا بیگم اپنے مرقد سے کفن پہنے نکل میرے سامنے آکھڑی ہوں گی، آخر حضرت محبوب پاک نے مدد کی اور یہ وہم دل سے مٹ گیا۔

    بیگم مقصد کے دھیان میں ڈوب گئیں۔ آن کی آن میں صبح ہوگئی اور یہ نماز پڑھ بچے کو گودی میں اٹھا اپنی آرام گاہ میں چلی گئیں۔ اس طرح آٹھ راتیں خیر سے کٹیں۔ نویں رات کو روشن اختر اپنی ماں کی گود میں اوندھے پڑے اپنا سر محبوب الٰہی کی دہلیز پر رکھے سو رہے تھے جو یکایک چونکے اور کہنے لگے، اماں حضرت میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ بیگم بولیں جانِ من، قربانت شوم کیا دیکھا۔ روشن اختر نے کہا میں نے دیکھا کہ محبوب الٰہی کی دہلیز پر جہاں میرا سر ٹکا تھا ایک تل پڑا ہے، وہ تل میں نے زبان سے اٹھاکر کھا لیا۔ بڑا مزیدار تل تھا۔ بس میری آنکھ کھل گئی۔ قدسیہ بیگم نے کہا، عمر دراز ہو، مبارک سلامت، ہندوستان کی تل بھر سلطنت جو بچی کھچی ہے وہ حضرت نے تمہیں بخش دی، انشاء اللہ تم بادشاہ ہوکر رہوگے۔ نوراتہ خواب پورا ہوا۔ دنیا جانتی ہے کہ روشن اختر بندی خانے سے نکالے گئے اور بادشاہ بنائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن اختر محمد شاہ رنگیلے حضرت محبوب الٰہی کے ساتھ خاص عقیدت رکھتے تھے، مرنے کے بعد بھی حضور کے قدموں میں رکھے گئے۔

    محمد شاہ کے زمانے میں دلی پر نادر شاہ کا حملہ ہوا تو پیغام رساں انھیں پل پل کی خبر پہنچاتے رہے اور وہ شراب کباب میں مست ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا نعرہ لگا کر اطمینان سے بیٹھ جاتے تھے۔ آخر گڈریے بادشاہ دلی تک آن پہنچے اور لال قلعہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ہیرے موتی، لعل و جواہر، سوناچاندی جو کچھ خزانے میں تھا سب لوٹ کر لے گئے۔ تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا بھی ان کی نذر ہوا، جب کہیں رنگیلے کی جان بچی۔ چلتے وقت اس کی فوج نے دلّی والوں پر تلوار کی ایسی مار ماری کہ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ آخر دانا وزیر نے جاکر چاندنی چوک میں سنہری مسجد کے نیچے تلوار لیے بیٹھے نادر شاہ کے حضور یہ شعر پڑھا

    نہ ماند کس کہ بہ تیغ نگاہِ نازکشی

    مگر کہ زندہ کنی ہر کسے و باز کشی

    نادر شاہ یہ سن کر خجل ہوا اور تب اس کے حکم سے دلّی والوں کا قتل عام روکا گیا۔

    محمد شاہ رنگیلے ایک دن اپنے احباب کے ساتھ محفل ناؤنوش برپا کیے بیٹھے تھے۔ جھروکوں سے اُدھر جمنا بہہ رہی تھی، مگر اب اس کے پاٹ میں کمی آگئی تھی اور پانی قلعہ کی دیواروں سے دور ہٹ گیا تھا۔ بادشاہ نے سوال کیا، آخر یہ جمنا قلعے سے دور کیوں ہوتی جارہی ہے۔ کسی اللہ کے بندے نے کہہ دیا کہ حضور قلعہ میں گناہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ اس لیے پانی دور بھاگ رہا ہے۔ بادشاہ نے ہنس کر جواب دیا، اچھا تو اب ہم جمنا کے اس طرف جاکر گناہ کیا کریں گے گاکہ جمنا پھر قلعے سے آن ملے۔

    آگے ملک روم کا ایک بادشاہ تھا کہ فرعون کی سی رعونت اور چنگیز کی سی شقاوت اس کی ذات میں تھی۔ نام اس کا بدبخت اور شہر قسطنطنیہ اس کا پایۂ تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیت برباد، خزانے خالی، مصیبتیں وافر، سپاہ نہنجار، بدباطن، حکام رذیل، اور غریب غربا پریشان، مفلوک الحال، نا آسودہ، ایسے گزران کرتے تھے کہ ہر ایک کی زندگی موت سے بدتر ہوگئی تھی۔ اس کے عہد حکومت میں وہ افراتفری مچی کہ ایک لشکر کثیر رعیت کی جان کا درپے ہوگیا۔ سارے شہر میں آگ لگ گئی۔ ہر طرف سے چیخوں اور ہائے ویلا کی صدائیں آتی تھیں۔ مگر خدا نے اس نامراد بادشاہ کو ایسی بے غیرتی کی ڈھال عطا کی تھی کہ وہ اس ہنگامے سے بے خبر چین کی بنسی بجاتا رہا۔ چور، چکار، ڈاکو، لٹیرے، اٹھائی گیرے اور صبح خیزیے جتنے تھے سب اس کے دامنِ عاطفت میں سمٹ آئے اور شہر والوں کا جینا حرام کردیا۔ بادشاہ اور اس کے حوالی موالی پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آپ اپنی خوشیوں میں مگن، آنند کے ساتھ اس طرح عیش کرتے رہے کہ دن عید اور رات شب برات۔

    کہتے ہیں جب ترکمان گیٹ پہ تیلیوں کی بستی اجاڑی گئی تو ایک لشکر فوج کا تاحد نظر ٹڈی دل کی طرح پھیل گیا۔ ہتھیار طرح طرح کے ان سپاہیوں کے جسموں پر سجے تھے، پانی پت کا میدان آنکھوں میں پھر گیا۔ کسی بھلے آدمی نے کہا، میاں چڑیا کا گھونسلا اکھاڑو تو وہ ننھی سی جان آدمی پہ حملہ کرتی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ فوج کی فوج پرا باندھے نہتے غریبوں کو اجاڑنے آگئی۔ ظالموں نے کہنے والے کو تہہ تیغ کردیا۔ اللہ اللہ ان کے تیور۔۔۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ برسوں کی لگی بجھانے آئے ہیں۔ کوئی بھلا مانس، ڈھونڈتا ڈھونڈتا فوج کے جرنیلوں تک بھی جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دوبھڑوے، سیاہ کار، رنڈیوں کو بغل میں لیے شراب خانہ خراب سے جی بہلا رہے ہیں۔

    اس نیک بخت نے کہا کہ خلقِ خدا تمہارے دم کو دعائیں دیتی ہے اور تم یہاں بیٹھے اپنی ماؤں سے منہ کالا کر تے ہو۔ تف ہے تمہاری ذات پر اور تمہارے ہوتے سوتوں پر، اگر ذرہ برابر بھی غیرت تمہیں چھو گئی ہوتی تو ہرگز ایسا کام نہ کرتے جس کے عوض ہزاروں بندگان خدا اپنے گھروں سے بے گھر ہوں گے۔ آخر یہ کہاں کی انسانیت ہے اور کون سے مذہب میں جائز ہے۔ یہ دونوں اس مرد خدا کی زبان سے یہ کارات سن کر آگ بگولہ ہوگئے۔ دیوانگی کے عالم میں اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ سینہ اس کا ابھی ہمارے رو برو بندوق کی گولی سے چھیدا جائے۔ پھر کیا تھا ان نامراد زنخوں نے اس نہتے پر وار کر کام اس کا وہیں تمام کردیا۔

    یا فقرا! اس روز دھوپ میں پردہ نشین عورتیں اپنے اپنے گھروں سے نکل کر شاہ ترکمان بیابانی کی درگاہ کے پاس جمع ہوگئیں تھیں اور اپنے خدا سے دعا کر رہی تھیں کہ اے پروردگار ان بزرگوں کے وسیلے سے ہماری کشتی پار لگا۔ ہم دکھیا گھروں سے نکل آخر رواں دواں کدھر جائیں گے اور ہمارا ٹھور ٹھکانا کہاں ہوگا۔ ان ظالموں سے تو ہمارا جی نہیں چاہتا کہ کچھ گزارش کریں۔ بس اب توہی ہمارا رکھوالا ہے۔ کوئی کہتی اگر یہ بلا ٹلی تو معصوم بچوں کو خوراک کھلاؤں گی۔ کسی نے کھڑے کھڑے مشکل کشا کا دونا مانا۔ کوئی مدینے کی طرف ہاتھ اٹھائے فریاد کرتی تھی کہ اے خدا کے حبیب ہماری جانیں آپ کے نام نامی پہ صدقے ہماری مشکل آسان کیجیے۔ کسی کے سر پر چادر نہیں تو کوئی ننگے پیر فرش پہ کھڑی اپنے آپے کو پیٹتی تھی، پانی تک وہاں میسر نہیں تھا اور چیخنے والیوں کے ہونٹوں پر پیڑیاں جمی تھیں۔

    چاروں طرف پرے کے پرے ہتھیار بند فوجیوں کے تھے، ارباب اقتدار بھی ایک طرف بپھرے کھڑے تھے۔ ناگاہ انھوں نے حکم دیا کہ شنوائی کسی کی ہمارے روبرو نہیں ہونے کی اور لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کر سامان وہاں سے نکال لیں کہ شام نزدیک ہے اور ہمیں یہ کل آبادی شام تک جنگل بیابان کی طرح ویران کرنی ہے، آہنی مشینوں سے اس بستی کے مکانوں کی نیویں تک نکال پھینکیں گے۔ اس وقت ایک صاحب حوصلہ اللہ کی بندی، عورت ذات ہیلہ مار کر آگے بڑھی اور للکار کے کہا حرامیو! ہم عورتوں کے تئیں کہ ہتھیار کے نام پر کیل کانٹا بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ تمہاری ان گیدڑ بھبکیوں میں آنا ممکن نہیں، مرنا برحق ہے لو اب اپنے دل کی نکال لو، مردوں سے تو تم کیا نمٹوگے، اگر ہمارے ساتھ کسر کرو تو تمہاری جنتیوں پر طلاق ہے۔ یہ بندوقیں اور سنگینیں جوتم ہم پرتانے کھڑے ہو بیشک تم ہیجڑں کے لیے بڑی ہوں گی ہمارے آگے۔۔۔ کچھ نہیں ہیں۔ تمہاری اس جمعیت کو ہم پیر کی جوتی بھی نہیں سمجھتے۔‘‘

    حکام بالا کو یہ کلمات سننا بھلا کب گوارا تھے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، بندوقیں داغ دیں۔ بھیجے ہوا میں اڑنے لگے۔ بچے، بوڑھے جو کسی لائق نہ تھے ان بیچاروں کاخون ہوا اور جوان خواہ عورتیں ہوں یا مرد ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ دشمنوں کے دانت کھٹے کردیے، چھ گھنٹے رن کے میدان کانقشہ رہا۔ اِدھر ادّھا بوتل، اینٹ پتھر، اُدھر ایسے ایسے نئے ہتھیار کہ جن کا نام لیے سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ آخر نامراد ان ہتھیاروں کے بل پر شیر کی کچھار میں گھس آئے، کمزوروں پر وار کیے اور شہر کو گرانا شروع کردیا۔ پس عزیز، اس وقت ایسی بھگدڑ مچی اور اس قیامت کا منظر بپا ہوا کہ اسے سنانے کی طاقت مجھ جانکاہ میں نہیں ہے۔

    عورتیں اپنی گود کے بچوں کو گھپ اندھیرے میں ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔ بوڑھے، اپاہج، اندھے دھندے سب ابابیلوں کی طرح دیواروں سے سر ٹکراتے تھے۔ سامان جگہ جگہ اینٹ اور مٹی کے ڈھیر تلے دبا پڑا تھا۔ دنیا کی چیز تھی، مگر کسی کو اس کی فکر نہیں تھی، جانوں کی خیر مناتے تھے، کسی کے بچے میلے میں دب گئے۔ کسی کی بڑھیا ماں کا پتہ نہیں، کسی کا بوڑھا باپ لہو لہان ہے تو کسی کا بھائی غائب، ایک طرف یہ مارا کاٹی اور دوسری طرف یہ ظلم کہ سپاہی جوانوں کو گرفتار کرکے بندی خانے لے گئے، زخمی جو اسپتال میں پہنچے تو وہاں ان کی بری درگت بنائی گئی۔ غرض یہ کہ سارا علاقہ دیکھتے دیکھتے خالی ہوگیا۔ رات ہوئی تو وہاں الو بولنے لگے۔ ایسا منظر اس فقیر نے اپنی آنکھوں سے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ خدا کرے کہ آئندہ دیکھنا نصیب ہو۔ بیان اس کا کرتا ہوں تو کلیجہ شق ہوا جاتا ہے اور آنسو آنکھوں سے رواں ہوکر رکنے کانام نہیں لیتے۔

    دلّی کے قریب ایک آبادی شاہی زمانے میں روہیلوں کی تھی۔ وہاں کا ایک امرد غلام قادر نام کا تھا۔ اس کا باپ قلعے میں ملازم تھا۔ شاہ عالم ثانی کی حکومت تھی۔ ان دنوں دلّی کے رؤسا میں امرد پرستی کا بڑا ذوق تھا۔ تو صاحب اس امرد پر بادشاہ کی نظر پڑی تو فریفتہ ہوگئے۔ گاڑی میں سوار ہوکر بہ نفس نفیس اس کی جائے اقامت تک گئے اور داد بھری نظروں سے دیر تک دیکھا کیے، پھر اس کی نس کٹوا اسے اپنی معشوقی میں لے لیا، خدا کا کرنا یوں ہوا کہ وہ ایک دن وہاں سے نکل بھاگا اور پھر کچھ دن بعد دلّی پر اللہ کا عذاب بن کے نازل ہوا۔

    اس نے شاہ عالم کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں اسے اندھا کرکے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا اور اس کے حرم کو برہنہ کرکے اپنے روبرو ناچنے پرمجبور کیا۔ ان گنت غیرت والیوں نے پیچھے جمنا کی طرف کو طرف کود کر اپنی جانیں دے دیں۔ ایک دن وہ تلوار رکھ منہ لپیٹ سر نہوڑا کے لیٹ گیا۔ مغل شہزادوں نے جانا کہ سورہاہے اور عافیت کے ساتھ اِدھر اُدھر پھرتے رہے، کچھ دیر بعد وہ اٹھ بیٹھا اور شہزادوں سے سوال کیا کہ اے تیمور کی اولادوں، بتاؤ میں کیا کرتا تھا۔ وہ بولے حضور آرام فرماتے تھے۔ اس پر اس نے شہزادوں کے تئیں ننگی گالیاں دیں اور برہم ہوکر کہا۔ کیا میں احمق اور گاؤدی ہوں کہ دشمنوں کے نرغے میں آرام کرنے لگوں، میں تو تیموری شہزادوں کی غیرت کا امتحان لیتا تھا۔ معلوم ہو تم سب اپنی مردانگی کھو بیٹھے ہو۔ اس کے بعد اس نے ایک ایک کو رسوا کرکے شہر کے بیچ پھرایا اور اپنے سپاہیوں کے بھاری جوتوں سے ان کی پسلیاں توڑوا ڈالیں۔

    شہر میں جب سے وہ قحبہ جس کی بابت میں نے ابھی بتایا تھا کہ اس کے سبز قدموں نے ہزاروں گھر گھالے مولویوں اور نام نہاد دینداروں کے تئیں شیخ سناں بنایا تھا، سور کے پنجے ان کے کندھوں پر رکھوائے اور اس اِزار کھلی کے لگ ماتروں نے تاوے کاٹنے شروع کیے تھے، اسی دم شہروالوں کاماتھا ٹھنکا تھا۔ آخر ایک دن جب لوگوں نے ابھی اپنی بے دخلی کے ماتم سے نجات نہیں پائی تھی، ایک اور نئی مصیبت ان کی جانوں پرٹوٹ پڑی۔

    نواب دوجانے کے پھاٹک میں زمین دوز مقتل بتایا گیا۔ پہلے دلّی شہر کے لوگ پکڑے گئے، چاروں طرف کارندے سرکار کے شکار ڈھونڈتے پھرتے تھے جو ہاتھ آتا اسے گھیر گھار اندر لے جاتے تھے اور جاتے ہی سونے کی چڑیا پُھر سے اڑادی جاتی تھی۔ جب دلی میں مرد نام کو چڑیا کا بچہ نہیں رہا تو اڑوس پڑوس کے علاقوں پر دھاوا بولا گیا۔ میرٹھ، مظفر نگر، ہاپوڑ، سکندرآباد اور امروہہ سے بھیڑیں بھر بھر کر لائی جاتیں اور دیکھنے والے ان کے انجام پہ نظر کرکے بیری کی مانند لرزتے تھے۔ ان کی بے بسی دیکھ انھیں اپنی موت یاد آتی تھی۔

    رات دن لوگ علامت پہ ہاتھ دھرے چوکسی کیا کرتے، مبادا ایسا نہ ہو کہ سرکاری ہرکارے آئیں اور ان کی مشکیں کس لیں۔ مسجد کے ملا یا خدا جانے داڑھی والے کوئی اور لوگ تھے جو بے غیرتی سے اس سفاکی کے حق میں باتیں کیا کرتے اور اس فعل کو بے بنیاد شرعی اسناد کی روشنی میں سراہتے رہتے تھے۔ ایک روز دلی کی دیواروں پر جہازی اشتہار بھی چسپاں کیا گیا۔ نیمے دروں نیمے بروں، کل مسائل یوں کھول کھول کر بیان کیے تھے کہ بچے بچے نے زندگی کے سربستہ رازوں کو جان لیا اور اس کے باریک نکتوں پر بزرگوں سے بحثیں کیں۔ مدتوں لوگ اس کی عریانی کے چٹخارے لیتے رہے، مسخرے مولویوں نے ایسی ایسی قلابازیاں کھائیں کہ عام لوگ بے چارے حیران رہ گئے کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں۔ بڑی افراتفری کا عالم تھا۔

    سنا ہے بغداد میں کسی خلیفہ کی نظر اپنی باندی پہ جاپڑی۔ دم و ہوش دیوانے ہوگئے۔ عندیہ لینے پر معلوم ہوا کہ وہ باندی ان کے باپ کے حرم میں رہ چکی ہے۔ بہت چاہا کہ دل کو سمجھالیں مگر نفس امارہ کے آگے ایک نہ چلی۔ خلاف شرع لقمہ توڑنے کی مجال نہیں تھی، جھٹ علمائے سوء کو بلاکر حکم دیا کہ راستہ نفس کی آسودگی کا جو نکال کرکے لائے گا، خلعت فاخرہ اور انعام و اکرام بے بہا دربار سے پائے گا۔ آخر ایک شخص کہ اپنے تئیں عالم بے بدل کہتا تھا، حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمومنین یہ امر کہ باندی آپ کے والد ماجد کے حرم میں رہ چکی ہے۔ آپ کو خود اس کی زبانی معلوم ہوا ہے نہ کہ آپ کے والد خلد آشیانی نے آپ کو بتایا تھا، پس لونڈی کا قول ضعیف ہے اور ہرگز لائق اعتبار نہیں، اس لیے آپ بے پس و پیش اس سے نکاح کیجیے اور داد عیش دیجیے۔ خلیفہ نے جودل کی مراد پائی تو عالم کو جاگریں دیکر مالا مال کردیا۔

    اے عزیز جانی! دلّی کے بھرے بازاروں میں ایک روز سرشام انبوہ کثیر کا مجمع تھا۔ ایک شخص کائیاں، مستوں کی صورت بنائے جانب آسمان نگراں تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے منہ پر ناک نہیں تھی۔ پھبتی بازوں نے نکٹے نکٹے کی آوازیں کسنا شروع کردیں۔ وہ شخص تحمل سے بولا۔ میں نے ناک اپنے تئیں آپ کاٹی ہے کہ یہ میرے اور خدا کے درمیان پردہ بنی ہوئی تھی۔ اب دیکھیے میں کھڑا اپنے رب کا دیدار کرتا ہوں، سبحان اللہ و بحمدہ، کیا نور کا عالم ہے۔ کچھ بیوقوف اس کی دیکھا دیکھی آگے بڑھے اور استرا لے اپنی ناکیں کاٹ دیں۔ اب جو اوپر دیکھتے ہیں تو واں کچھ نہیں۔ کیسا دیدار خداوندی، مفت میں نکٹے ہوگئے۔ لجاجت سے اس شخص کے قریب گئے جس کی تحریک پر یہ کام کیا تھا اور یوں گویا ہوئے کہ یا ہادی! ہمیں تو خدا دکھائی دیتا نہیں، تمہیں کہو اب کون سا پردہ ہے۔ اس نے جھک کر ان کے کان میں کہا۔ بس اب یونہی کہتے رہو خدا کا دیدار میسر آیا ورنہ لوگ نکٹا کہہ کہہ کر ناک میں دم کردیں گے۔ چنانچہ سب نے یہی ہانک لگانی شروع کردی۔

    غدر میں سنا ہے کہ ایک فقیر دلّی کے گلی کوچوں میں یہ صدا لگاتے تھے کہ سات دلی، آٹھ با دلی، قلعہ وزیر آباد۔ ان دنوں تو لوگ ان کی بات سمجھ نہیں پائے مگر اب برس ہا برس بعد ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دلّی کے بھرے پرے محلوں کو دشمنوں کی نظر کھا گئی۔ اندر پرستھ، تغلق آباد اور کھلوکڑی کی طرح جہان آباد کے نشانات بھی مٹنے لگے۔ بڑی بڑی آبادیاں یہاں سے نکال بادلی اور وزیر آباد کی کی طرف دھکیل دی گئیں۔ یہ ہنگامہ ہنوز جاری ہے۔

    انت اس کا خدا جانے کیا ہوگا۔ فقیر کی اپنے رب سے یہ دعا ہے کہ اے معبود میرے عزت اور جان و مال دوست دشمن سب کی محفوظ رکھیو اور اس بلا کو دلّی والوں پر سے یوں ٹالیو کہ ان کا بال بیکا نہ ہو۔ ہرچند کہ مجھے پیشین گوئی کا یارا نہیں۔ اس فن سے مطلق طبیعت میری علاقہ نہیں رکھتی اور ایمان میرے تئیں یہ ہے کہ وہ جو کل ہونے والا ہے، سوا خدا کے کوئی نہیں جانتا مگر اپنے قیاس اور دنیا کے ڈول کو دیکھ کر کہتا ہوں، کیا عجب یہ سچ ہو اور کلمہ میری زبان سے نکلا اللہ اپنی رحمت سے پورا کرے۔ ظالموں کا منہ کالا ہو، حق کا بول بالا ہو کہ ایسا ہی اس زمین کے بیچ سدا سے ہوتا آیا ہے۔

    یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور

    اپنی اپنی بولیاں سب بول کراڑجائیں گے

    اتنا کہہ کے وہ درویش باریش زاروقطار رونے لگا۔ رات اپنی انتہا کو پہنچ کے ڈھلنے پر مائل تھی، اس وقت سب نے کھلی آنکھ سے دیکھا کہ دور اُفق کے اس پار روشنی کی ایک کرن سیاہی کے دبیز پردے تلے صبح ہونے کااعلان کر رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے