یہ گاندھی میدان ہے۔ اڑتی ہوئی گرد و غبار شام کے مٹیالے رنگ کو گہرا اور روکھا بنارہی ہے۔ بسوں کے اسٹینڈ سے آگے میدان میں دور ایک بڑا سا پنڈال نظر آتاہے۔ یہ کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کی چھٹی کانفرنس کا پنڈال ہے۔ یہ کانفرنس کا دوسرا دن ہے۔ سورج ڈھلتے ہی کانفرنس کے کارکنوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ ابھی سے ہی عوام کے چھوٹے چھوٹے گروہ پنڈال کاطواف کرنے لگے ہیں۔
شام کی غم ناک دھند اور گرد میں بھی ان کی آنکھوں میں امیدو ں اور تمناؤں کی قندیلیں جگمگا رہی ہیں۔ جیسے جیسے رات پھیل رہی ہے یہ قندلیلیں، جن کے جسم کا رنگ گندمی بھی ہے، سیاہ بھی، گورا بھی، جن کے جسموں سے محنت کے عطر اور پسینے کی خوشبو آرہی ہے اور کہیں کہیں مصنوعی سامان جمال کی بھی، ہاں یہ ساری قندیلیں اپنی گرم سانسوں کے ساتھ پنڈال میں سمٹنے لگی ہیں۔
جیسے جیسے پنڈال بھرتا جاتا ہے کارکنوں کو یقین ہوتاجاتا ہے کہ یہ چادر سر اور پاؤں کو نہیں چھپا سکے گی اور وہ بڑھ کر قناتیں گرادیتے ہیں، دریاں پھیلا دیتے ہیں اور دوسری طرف اسٹیج کو وسیع کردیتے ہیں جس کے پس منظر میں پریم چند کی مفکرانہ آنکھیں اپنے خوابوں کی حیات پذیری پر مسکرا رہی تھیں۔ روشنیوں کی جگمگاہٹ میں اسٹیج کے پاس ہی آگے کانفرنس کے نمائندوں اور مہمانوں کاہجوم اپنی جگہ لے لیتا ہے۔ ان کے بائیں ہاتھ پر موٹی ڈور کے سہ طرفہ احاطہ میں عورتوں کی ہماہمی ہے۔ یہ عورتیں گھریلو عورتیں ہیں اور ان کے ساتھ بچے ہیں۔ یہ عورتیں تہذیبی اور تعلیمی اداروں سے آئی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کتابیں اور چہرے دمک رہے ہیں۔ یہ عورتیں اور یہ مرد جو دہلی کے مختلف طبقوں سے آئے ہیں کارخانوں سے، دکانوں سے، جو بڑے بڑے دفتروں سے آئے ہیں اور جن کے سفید اور سخت کالر میلے ہوچکے ہیں اور وہ بھی جو معمولی بزنس کرتے ہیں اور بڑے بڑے ٹیکس دیتے ہیں۔ ہاں یہ سب اسٹیج کی طرف اپنی آنکھوں میں امیدوں اور تمناؤں کی قندیلیں لیے دیکھ رہے ہیں۔
انہیں انتظار ہے شعر اور نغمہ کا، اور یہ اسٹیج ہے جہاں سے شعر اور نغمے پھوٹیں گے، جہاں سے کتنے دل ابھریں گے اور گائیں گے، ان دلوں میں انہی قندیلیوں کی ضیا ہوگی جن کی برات میں سامنے پنڈال میں سجی ہوئی ہے اور جو اس طرح پھیل گئی ہے کہ پنڈال کی قناتیں گرادی گئی ہیں اور جس کی تنگ دامانی کو سہارا دینے کے لیے گرد سے اٹے ہوئے گاندھی میدان نے اپنا سینہ وا کردیا ہے اور مجمع بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے۔ خاموشی بول رہی ہے اور اب تو تالیاں بھی گونج رہی ہیں۔
مائیک سے آواز آتی ہے، ’’آپ کے شاعر اسٹیج پر آچکے ہیں اور ان کی تعداد تقریباً سو ہے۔‘‘
تالیاں پھر گونجتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ پنڈال چھت میں لٹکتے ہوئے اور جھولتے ہوئے تین رنگ کے قمقوں میں زیادہ نکھار پیدا ہوگیا ہے۔
’’ان شاعروں میں اردو، ہندی، پنجابی اور کشمیری زبان کے شاعر موجود ہیں۔‘‘
تالیوں کا ریلا ہے کہ پورے پنڈال کو بہائے لیے جارہا ہے۔ مجمع بھی مختلف زبانوں کے عوام پر مشتمل ہے۔ مختلف زبانوں کے شاعر بھی اپنے شیدائیوں کے جوش اور والہانہ پن کایہ حال دیکھ کر سنبھل بیٹھے ہیں۔
جگرمرادآبادی کے آتے ہی فضا میں غزل کارس اور شاعری کی گونج پیدا ہوجاتی ہے۔
ہنس راج رہبر شاعروں کے ناموں کااعلان کر رہے ہیں۔ ان کے تین طرف شاعروں کا ہجوم ہے۔ دہلی نے ایسا مشاعرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ درمیان میں جگر مرادآبادی بیٹھے ہیں۔ ان کے دائیں ہاتھ پر فراق گورکھپوری پان کھاتے اور اپنی شیروانی کے بٹن کو گدگداتے نظر آرہے ہیں۔ مجروح کے جواں سال چہرے پر مخصوص ذہانت مسکرارہی ہے۔ وامق کا دبلا چہرہ کبھی مسکراتا ہے ار کبھی سنجیدہ بن جاتا ہے۔ پان کا عرق لب کی سرحد سے آگے نکل رہا ہے۔ اور یہ ہے سردار جس کے چہرے پر فکر کی سخت گیری اور محنت کی معصومیت ہے۔ تاباں ایک منٹ چین نہیں لیتا۔ کبھی وہ سردار کی طرف جھکتا ہے کبھی دبلے پتلے سیمابی رہبر پر۔ راجندر سنگھ بیدی، موہن سنگھ، مان سنگھ راہیؔ، فکر، شیل جی اور مخمور کے چہرے بھی ہلتے، ہنستے اور باتیں کرتے نظر آرہے ہیں۔
مان سنگھ راہی کے گیت نے مجمع کا دل اپنی مٹھی میں لے لیا ہے۔ مان سنگھ اجین کا غریب شاعر ہے اس کی غربت اس کی چیک کی نیلی قمیض اور مٹیالے لٹھے کے چوڑے پائنچے کے پائجامے سے صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ اس کے گیت میں فریاد بھی ہے اور للکار بھی۔ فریاد ان محنت کش عوام کی جو زمین کی کوکھ سے سونا اگلواتے ہیں لیکن جو مان سنگھ راہی کی نیلی قمیض اور مٹیالے پاجامے سے بھی محروم ہیں۔
اب جاں نثار اختر بھی اسٹیج پر آکر فراق کے پاس ہی بیٹھ گیا ہے اور اس کے سیدھے خشک بال جھک آئے ہیں اور اس کے گاڑھے کا کرتہ اپنا گریبان چاک کیے شاعر کے ٹوٹے ہوئے دل کی بڑی چغلی کھا رہا ہے۔
وامقؔ کی نظم شروع ہوگئی ہے۔ وامق بڑے جوش میں ہے، اس کے اڑتے جھپٹے ہوئے ہاتھوں سے مائیک بال بال بچ جاتا ہے۔ سفید شیروانی کے بٹن کھل گئے ہیں اور وہ شاعر کی برقی کیفیتوں سے گھبرا گھبرا کر کبھی ایک طرف جھپٹتی ہے اور کبھی دوسری طرف۔ مجمع پر ایک سکوت طاری ہے۔ شاعر گرجتا ہے،
اگر نہ یہ جنگ رک سکی تو
نہ جانے کتنے سہاگ برہا کی آگ ہی میں سلگ اٹھیں گے
نہ جانے کتنے دلوں کے ارماں دلوں کے اندر ہی جل بجھیں گے
نہ جانے کتنے ہمکتے آغوش خون میں تربتر ملیں گے
کروڑوں معصوم مامتا کی تلاش میں دربدر پھریں گے
یہاں سہاگ بھی ہیں اور دلوں کے ارماں بھی، ہمکتے آغوش اور معصوم مامتا بھی۔ شاعر کی آواز ان کی تالیوں میں غرض ہوگئی ہے۔ کون کہے گا یہ محض تالیاں ہیں جو رسمی طور پر بجائی جاتی ہیں۔ شاعر کی آواز اور دلوں کی دھڑکنیں جب ایک دوسرے میں رچ بس جائیں تو یہی گونج پیدا ہوتی ہے، جذبات کا یہی تلاطم پیداہوتا ہے۔۔۔ شاعر کی آواز اس تلاطم سے ایک بار پھر ساحل بدوش کشتی کی طرح ابھر رہی ہے،
ہمارے یہ تاج اور اجنتا، جمال مرمر،جلالِ اسود
ہمارے تہذیب کے امر کارنامے جن کے نقوش و گنبد
ہماری تخلیق کے نمونے
ہمارے پندار کے سفینے
اور جب وامق تھر تھراتا ہوا ہاتھ ہوا میں لہراتا ہے اور چیخ کرکہتا ہے،
کوئی نہ ہوگا کسی کاہمدم
وہ جنگ ہوگی کہ حشر ہوگا
توپورے مجمع میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے۔ جب تک یہ آگ دلوں کو برماتی رہے گی، جب تک کھیتوں اور کارخانوں کے بیٹے کھیتوں اور باغوں کی حفاظت کے لیے سینہ سپر رہیں گے۔ جب تک ہندوستان کے امن پسند عوام اپنے آدرشوں کو کلیجہ سے لگائے رہیں گے نہ جنگ ہوگی نہ حشر ہوگا۔ مسکراہٹیں ابھریں گی، محبتوں کے آفتاب جگمگائیں گے اور محبت کے چمن زادوں میں کھلنے والے نئے پھول مہکتے رہیں گے اور افق تا افق اپنی خوشبو, اپنی رنگینی پھیلاتے رہیں گے۔ پھولوں کی خوشبو، مسکراہٹوں کی ضو، اور انسانی محنت کے معجزے سنگینوں اور بموں سے زیادہ سبک رو، زیادہ حیران کن اور زیادہ جری ہیں۔
مجروح کا ترنم اپنے گداز کے ساتھ دھیمے سروں میں لوگوں کے دلوں میں اترگیا ہے۔ شاعر نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی پشت پر باندھ رکھے ہیں اس کی عینک چمک رہی ہے اور وہ للکار رہا ہے،
دیکھ زنداں سے پرے، رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاوں کی زنجیر نہ دیکھ
شاعر نے یہ غزل جیل میں لکھی تھی۔ اس لیے اس کے اندر پابند سلاسل ہوکر بھی ابھرتی قوتوں کاولولہ ہے جس سے زندگی کی چمن بندی ہوتی ہے اور اسی کے دم سے بہار کی جوانی پھٹ پڑتی ہے۔ ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘‘ آج شاعری ایک ایسا پھول بن گئی ہے جس کی ایک ایک پنکھڑی سے زنجیریں کٹ رہی ہیں۔
فراق کی رباعیاں کروڑوں عوام کے دلوں کی آواز بن کر فضا میں پرندوں کی طرح اڑ رہی ہیں۔ ان کاہاتھ بار بار اوپر اٹھتا ہے اور جب رباعی ختم ہوتی ہے تو ان کے ہاتھ میں عینک چلی آتی ہے اور ان کاہاتھ تیزی سے نیچے گرتا ہے جیسے تلوار دشمن کی گردن پر۔ تالیوں کی آواز دور دور تک گونج رہی ہے۔
رات آدھی ڈھل چکی ہے۔ مجمع اسی طرح جما ہوا ہے۔ پان کی دکان پر پولیس کے آدمی رپورٹ لکھ رہے ہیں اور جمائیاں لے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔
’’پتہ نہیں یہ طوفان کب تک چلے گا۔ اس سے تو ہولی کی رات والی ڈیوٹی اچھی تھی۔ مزا تو آگیا تھا۔‘‘ دوسرا اسے آنکھ مارتا ہے اور اس کے بازو کا گوشت نوچتا ہے۔
لیکن اسٹیج پر اب سردار جعفری تن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس کی ٹائی اڑ اڑ کر اس کی گردن سے لپٹ رہی ہے۔ اور وہ دانت پیس کر اور اپنے ایک ہاتھ سے بالوں کو سہلاتا ہوا آواز دیتا ہے،
ناگہاں شور ہوا
لو شبِ تار غلامی کی سحر آپہنچی
مشاعرے کی رات صبح کی طرف گامزن ہے لیکن شاعر کی آواز میں شب تار غلامی کی زنجیروں کو جھنجھوڑنے اور توڑنے کی جدوجہد کی جھنکار بھی گھلی ہوئی ہے۔ مجمع کی سنجیدگی میں ایک شعوری کاٹ سی پیدا ہوگئی ہے۔
جیسے ہی سردار نے اپنی نظم ختم کی، جذبیؔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ پتلون کو اوپر سرکاتا ہوا مائیک کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے موٹے ہونٹوں پر ایک سادہ اور گمبھیر مسکراہٹ ہے اور جو ایک گہرے شاعر کے جذب دل کی آئینہ دار ہے۔ شاعر کی آواز دھیمی، مترنم اور بے ربط ہے، لیکن شعر کا جادو پوری طرح بول رہا ہے۔
تاریک رات اور بھی تاریک ہوگئی
اب آمد آمد مہ روشن قریب ہے
رات اندھیری ہے۔ گھٹن حد درجہ بڑھی ہوئی ہے مگر مہ روشن قریب ہے۔ اس قربت سے لوگوں کے چہرے روشن ہوگئے ہیں اور جب جذبی آخری شعر پڑھ کر اپنی جگہ پر جابیٹھتا ہے تو اس کا یہ شعر دیر تک لوگوں کے دلوں میں گونجتا دھڑکتا رہتا ہے،
ان بجلیوں کی چشمک باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے
سردار جعفری پھر مائیک کے سامنے ہے۔
’’آپ جانتے ہیں یہ شاعر جن کے خون جگر میں آپ کے دل کا خون بھی ملاہوا ہے اور جس خون میں ڈوب کر وہ شعر پیدا ہوتا ہے جو شاعر اور عوام کوایک دوسرے سے قریب کرتا ہے، ہاں وہ شعر زندہ رہنے کے لیے کچھ تقاصے بھی کرتا ہے، شاعر کبھی کھانے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور کھانے کی ایک ہی چیز ہے، پیسہ۔۔۔‘‘
شاعر مجمع میں اترگئے ہیں۔ جذبیؔ، وامقؔ، مجروحؔ اور ان کے ساتھ اور بھی بہت سے دوسرے نوجوان شاعر ہیں اور خود بخود عورتوں کے بیچ سے چند لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں، جس طرح درخت اگتے ہیں۔ ان کے آنچل پھیل گئے ہیں۔ نوٹ اور پیسے ان شاعروں اور لڑکیوں کی جھولیوں میں کچے دھاگے سے بندھے چلے آرہے ہیں۔
یہ کچا دھاگا بہت مضبوط ہے۔ یہ دھاگا جذبات اور تہذیب کی ہم آہنگی کا دھاگا ہے۔ اسی لیے جہاں ایک طرف جھولیاں پھلدار درخت کی طرح بھاری ہوتی جارہی ہیں وہاں دوسری طرف فیض کی کتاب ’’دست صبا‘‘ کو خریدنے کے لیے بڑھ چڑھ کر بولیاں دی جارہی ہیں۔ بنئے کی ہانک اور سردار کی آواز میں کتنا فرق ہے۔ ایک شاعر کی آواز میں جو اپنے ایک زنداں نصیب ساتھی کے خون دل میں ڈوبی ہوئی انگلیوں کی سرخی بیچ رہا ہے، جسے پیسے سے خریدا نہیں جاسکتا۔ اس کے خریدنے کے لیے بھی خون دل کی سرخی آگے آتی ہے اور یہ سرخی آواز دے رہی ہے اور یہ آواز بڑھتی جاتی ہے اور جب سب ملاکر سردار نوسو روپے کا اعلان کرتا ہے تو پنڈال خوشی، فتح اور اطمینان کی تالیوں سے دھڑک اٹھتا ہے اور جب میں بھاری تھیلی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے ہوئے شاعروں اور ادیبوں کے درمیان سے گذرتا ہوں تو ایک ہاتھ بڑھتا ہے، دوہاتھ بڑھتے ہیں اور پھر یکے بعد دیگرے درجنوں ہاتھ بڑھتے ہیں اور اس تھیلی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اس کے وزن کا اندازہ کرتے ہیں اور مسکراتے ہیں اور وہ ہاتھ بھی بڑھتا ہے جو کانفرنس کو ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کرتا ہے اور کانفرنس ہوجاتی ہے اور وعدہ کوئی برف کی سل نہیں ہے، خیال ہے، جو پگھل نہیں سکتا وہ دانت نکال کر کہتا ہے۔ ’’ارے یہ تو بہت بھاری ہے۔ بڑامال ہے۔‘‘
ہاں یہ بہت بھاری ہے۔ یہ ریزگاریاں بہت بھاری ہیں۔ ایک ہزار روپے کے وعدے زیادہ بھاری ہیں ان کے وزن میں صرف دھات اور کاغذ کا وزن نہیں ہے ان کے وزن میں ہزاروں دلوں کی محبت کا وزن ہے۔ اور محبت سے وزنی دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ یہ محبت انسان سے انسان کی محبت ہے۔ یہ محبت زبان اور تہذیب کی محبت ہے۔ یہ محبت خوبصورت الفاظ اور شعلہ فشاں آواز کی محبت ہے۔ یہی محبت کلچر کی حفاظت کرتی ہے اور اندھیروں اور تباہیوں کے باوجود ایک پاکیزہ مستقبل کی بشارت بن کر طلوع ہوتی ہے۔ اور یہ وہ سورج ہے جسے سیاہ سے سیاہ گھٹائیں بھی چھپانا چاہیں تو رسوا ہوں اور اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہ ہو۔ یہ اور نکھرے۔۔۔ یہ اور نکھرے۔۔۔
اب تیرا سنگھ چن کی آواز میں پنجاب کا دل دھڑک رہا ہے، اور مجمع میں ایک نیا ابھار پیدا ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ہی سنتوکھ سنگھ دھیر آتا ہے۔ یہ سادہ لوح شاعر جس کے امن گان، پنجاب میں دور دور تک گائے جاتے ہیں اور جنگ کے شکار پنجابیوں کو جنگ کے خلاف ابھارتے ہیں۔ وہ اب ایک نئے پنجاب کی تصویر دکھا رہا ہے۔ اس نئے پنجاب میں جہاں گندم کا سونا کھیتوں میں لہریں مارتا ہے، جاں وارث شاہ کی ہیر عشق کا سوز پیدا کرتی ہے، جہاں کے کڑیل جوان جنگ کا ایندھن بنتے ہیں، وہاں حق اور انصاف کی نئی لگن پیدا ہوتی ہے اور یہ لگن آج خاموش نہیں ہے بلکہ دشمنوں کے قلعہ کی طرف دوڑ رہی ہے۔ اسی پنجاب کی جھلک جسونت سنگھ راہی اور موہن سنگھ کی شاعری میں بھی ہے۔
شیل کی گرج مائیک کا بھی دل دھڑکا رہی ہے۔ وامق کے بعد یہی اتنے جوش سے پڑھ رہے ہیں۔ ان کے اس جوش کے بعد صاحب سنگھ مہرا کا لوک گیت ٹھنڈی آنچ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ اس میں بڑا طنز اور چوٹ ہے،
بولو بھائی بم۔۔۔ کی بولو بھائی بم
شاعر کے ساتھ مجمع بھی نعرہ زن ہے
دنیش نے ایک رومانی چیز سنائی ہے۔ یہ بھاری بھرکم کوی اپنے رومانی جذبات کے اظہار میں بڑی سادگی اور بیساختگی رکھتا ہے۔ لوگوں کے دل میں اس کی بچارگی کے لیے بڑی ہمدردی پیدا ہو رہی ہے اس لیے کہ وہ اپنی محبوبہ سے پوچھ رہا ہے اسے آخری سفر پر الوداع کون کہے گا۔
رام اوتار سنگھ تیاگی نے ا یک بار پھر فضا میں آگ اور تلخی بھر دی ہے۔ وہ برلامندر کی اینٹوں میں جنتا کے خون کو دیکھتا ہے اور چیختا ہے۔ اس کے ساتھ عوام تالیاں بجارہے ہیں۔ وہ جاپتے ہیں کہ برلا کے کارخانوں میں انسان کے محنت اور خون سے جو منافع حاصل کیا جاتا ہے اس پر یہ دان اور تیاگ پردہ ڈالنے کاطریقہ ہے۔ لیکن خون کا رنگ سات پردوں سے پکارتا ہے اور قاتل کے نام کا اعلان کرتا ہے۔ آج اسی نام کا اعلان تیاگی کے گیت میں ہو رہا ہے اور عوام کی آنکھوں سے نیند اڑگئی ہے۔ رات ڈھلتی چلی جارہی ہے اور جوش کا پارہ چڑھتا چلاجارہا ہے۔
جاں نثار اختر کی نظم میں بڑا غم ہے۔ یہ شریک حیات کے چھن جانے کا غم ہے۔ اس غم میں یادوں کا درد ہے، آرزوؤں اور تمناؤں کے آنسو ہیں،
دفن ہے دیکھ میرا عہد بہاراں تجھ میں
دفن ہے دیکھ میری روح گلستاں تجھ میں
میری گل پوش جواں سال امنگوں کا سہاگ
میری شاداب تمنا کے مہکتے ہوئے خواب
لیکن آب و ہوا کی خشکی بتارہی ہے کہ صبح قریب ہے۔ جگر مرادآبادی کی غزل چھڑتی ہے،
تو میرے حال پریشاں یہ بہت طنز نہ کر
اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے
جو جہاں پر تھا بہت پہلے وہاں آج بھی ہے
دیکھ رندانِ خوش انفاس کہاں تک پہنچے
جگر مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’یہ تلمیح کا شعر ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں۔‘‘، یہ درد بھری پختہ شاعری کی غنائی آواز اب پورے مشاعرے کا مزاج بن گئی ہے، مجمع میں نئی جان آگئی ہے، آہستہ آہستہ خنکی بڑھتی جاتی ہے۔ مجمع کی تھکن آنکھوں میں سمٹ آئی ہے۔ لیکن مشاعرے کی گرمی بڑھتی جاتی ہے۔
مجروح کے بعد سردار اپنی نظم استالن سناتا ہے۔ ایک طرف شاعری کا نشہ اتر رہا ہے۔ فضا ’دست صبا‘ کے لمس سے سرشار ہے۔ ایسے میں دنیا کے سب سے پیارے انسان کی یاد الاؤ کی طرح سلگ اٹھتی ہے۔ آج وہ انسان ہم میں نہیں ہے۔ لیکن اس کی یاد، اس کی قربانیاں، اس کی تعلیم، اس کا تجربہ، اس کی مسکراہٹ آج بھی ہم پر سایہ فگن ہے۔۔۔ سردار اسی وقت اپنی صاف گرجدار آواز میں اسی ناقابل تسخیر مسکراہٹ کی عظمت کا نغمہ الاپ رہا ہے،
استالن ایک پیڑ ہے جس کی چھایا بڑھتی جاتی ہے
اس چھایا میں دکھ کی ماری مانوتا سستائی ہے
استالن ایک ندی جو پیاسی مٹی کو سیراب کرے
ایک ایسی برکھا جو سارے دھرتی کو شاداب کرے
واقعی یہ ندی شعر بن کر بڑھتی چڑھتی جاتی ہے۔ غم کے اندھیرے میں عزم اور امید کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ سردار کی نظم ختم ہوتی ہے، رات ختم ہوتی ہے۔ مشاعرہ ختم ہوتا ہے۔
یہ مشاعرہ ادب کی تحریک میں ایک بہت بڑا تجربہ ہے۔ جن کے لیے شعر اور ادب پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی پس ماندگی اور غربت کے باوجود شاعروں کی قوت اظہار کو جلا بخشنے کے لیے ان کے بڑھے ہوئے دامنوں میں اپنی محبت کے پھل پھول ڈال رہے ہیں۔ وہ دوسرے دن روٹی کے لیے کام کریں گے لیکن رات بھر جاگ کر شعر سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ دوسرے دن انھیں اپنی بچی کے لیے دوا خریدنا ہے۔ لیکن وہ پیسے شاعروں کے دامن میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہی اس بات کی ضمانت ہے کہ تہذیب کی وہ ندی کبھی نہیں سوکھتی جس کے سوتے عوام کے دلوں سے پھوٹتے ہیں۔ یہ ندی عوام کی زندگی کو سیراب کرتی ہے اور اس کی آغوش کو شاداب کرتی ہے اس کے چہرے کو نکھارتی اور اجالتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.