سفر ہے شرط۔۔۔
قرون وسطیٰ کے مفرور شہر یاروں کے عشرت خانوں سے دور ایک قلندر نےاپنا مسکن بنایا، اتنی دور کہ اگر ایوانِ شاہی کی ہولناک عشرتوں کی بے ادب اور بے محابا صدائیں باریاب ہونے کی جسارت کریں تو چلتے چلتے ہانپنے لگیں۔ سلطانوں کی سلطانیاں ماہ و سال کے آتشیں گھوڑوں کے سموں کے نیچے کچلی گئیں۔ لیکن اس قلندر کے آستانہ کج کلاو کی ڈیوڑھی میں وقت آج بھی مودب کھڑا ہے۔ وقت اپنی ساری بے پناہی کے باوجود خاک ساری پر مجبور کردیا گیا ہے۔ یہیں خسرو سو رہا ہے۔ امیر خسروؔ جس کے دامن حیات پر سات سات بادشاہوں کے دریا سوکھ گئے اور جس کے قلم نے سات سات زبانوں کو سیراب کردیا، جس نے اپنے مخدوم کے پائے مبارک سے اتگری ہوئی ایک جوتی کی خریداری کے لیے ستر اونٹوں پر لدی ہوئی دولت لٹادی اور عمر بھر اس سودے کے سود پر ناز کرتا رہا۔ ہماری تاریخ۔۔۔ ہماری شاندار تاریخ کے پاس بھی ایسے کتنے صاحب السیف و قلم ہیں جن کے ایک ہاتھ میں فتوحات کی گردنیں ہوں اور دوسرے ہاتھ میں تصنیفات کی جلدیں؟ یہیں جہاں آرا بھی آسودۂ خواب ہے۔ چاہتی تو اپنے حکم سے بنوائی ہوئی شاندار مسجد کے کشادہ صحن میں سورہتی۔ لیکن اس نے بھی مسجد پر سلطان جی کے جوار رحمت کو ترجیح دی۔ انسان مرکر بھی انسان کا قرب چاہتا ہے۔ یہیں غالبؔ سو رہا ہے۔ کل تک جس کی قبر تھی اور آج جس کا مزار ہے۔ اور ایسے نہ جانے کتنے گردن فراز یہاں سربسجود ہیں جن کی ہیبت سے ان کے زمانے کے ولی کانپتی ہوگی، اسی قدیم بستی کو جانے والی سڑک پر جب ٹیکسی مڑنے لگی تو میں کانپ اٹھا کہ اس مقام پر توبڑے بڑے شہنشاہ اپنے خدم و حشم کے ساتھ پاپیادہ ہوگئے ہوں گے۔ تھوڑی دور چل کر مغلیٔ طرز کا وہ سالخوردہ اور شاندار پھاٹک ملا جس کے چلو پہلو میں ’’غالب اکیڈمی‘‘ کی جدید طرز کی عمارت کھڑی ہے۔ جیسے کسی بوڑھے عرب امیر کے پہلو میں نوجوان سکریٹری کھڑی ہو اور جسے دہلی کے ایک مخیر اردو پرست اور غالب نواز تاجر نے تعمیر کیا ہے میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو ایسی تعمیرات کو تاجرانہ مصلحتوں ک فیتے سے ناپ کر چھوٹا ثابت کردیتے ہیں۔ اسی گئی گزری حالت میں بھی دہلی کے مسلمان تاجروں میں ایسے کتنے ہی دولت مند ہوں گے جو ایسی ایسی کتنی عمارتیں شراب کے گلاسوں میں گھول کر پی چکے ہوں گے۔ لیکن کسی کو اس کا خیر کی توفیق نہ ہوئی۔ اب اگر کسی کو اس کی توفیق ہوئی ہے تو وہ ہماری بے لوث داد و ستائش کا مستحق ہے۔ سیڑھیوں پر کچھ لوگ کھڑے ہیں۔ ان میں قمر چمک رہے ہیں۔ قمر رئیس اردو کے ترقی پسند نقادو اور شاعر، شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں ریڈر، میانہ قد، بھاری بدن، سلونا رنگ، پیشانی کے داہنے گوشے پر سیاہ بالوں کی جھالر پڑی ہوئی ہلتی ہوئی لڑکیوں کی سی شرماتی شرماتی مسکراہٹ سے لال ہونٹ کھلتی بند ہوتی آنکھوں میں کچھ نیند کا قصور کچھ بنتِ عنب کی خطا، بھوری ڈھیلی جیکٹ اور کرشچوفکی طرح ڈھیلے ڈھالے پتلون پر سرخ ٹائی باندھے آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ ٹائی توند کی طرف مائل ہوتے ہوئے پیٹ پر چمک رہی ہے۔ پھر کسی طرف سے انور عظیم طلوع ہوئے سانولا رنگ اچھا چوڑا چکلا بدن، جھوا بھربال (جو کم بخت آج تک سیاہ ہیں) ٹوٹی پھوٹی کریز والاسرمئی پتلون، لاولا سا کوٹ کسمیلی سی قمیض اور عجیب سی چپل (جیسے پیشاوری ناگرے اور چپل کو جوڑ کر دو سے تقسیم کردیا گیا ہے) اپنے سر سے پاؤں تک انتظام بنے میرے پاس رک گئے ہیں۔ رسمیات کا تبادلہ ہوا اور وہ کسی طرف کھو گئے۔ پھر شارب آگئے۔ شارب رودولوی۔۔۔ میں تو اس شارب کو جانتا ہوں جس نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ جب میں یونیورسٹی چھوڑ رہا تھا۔ وہ شارب تو دبلا پتلا گورا چٹا ریشمی ریشمی ساایک لڑکا تھا اور آج کا شارب تو لمبا چوڑا بھاری بھرکم سرخ سفید آدمی ہے۔ جس سے اظہار شفقت کرتے ہوئے تکلیف ہوتا ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور مولف شاربؔ رودولوی اپنی بیگم کے ساتھ آرہے ہیں۔ جو خود بھی دہلی یونیورسٹی میں لکچرار ہیں۔ اور افسانے لکھتے ہیں اور کم از کم دو اچھے افسانوں کی خالق ہیں۔ لیجیے وہ اقبال مجید بھی آگئے، ’’پلور‘‘ نے پیٹ کو اور نمایاں کردیا ہے۔ ’’یاروں‘‘ سے ملاقات کی خوشی نے چہرے کی تھکن کو سرخیمیں تبدیل کردیا ہے۔ جب ہم لوگ لکھنو یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اس وقت میں شعر کہتا تھا اور اقبال افسانے لکھتے تھے۔ اور ’’حددچچا‘‘ لکھ کر ادبی حلقوں میں قبولیت حاصل کرچکے تھے۔ پھر اچانک کہیں کھو گئے اور اچانک ہی کہیں سے برآمد بھی ہوگئے۔ تھوڑے دن ہوئے ان کا ایک مجموعہ شائع ہوا ہے میں سیتاپور کی خیریت پوچھ رہا ہوں اور وہ اتنے خوش ہیں کہ بات ہونٹوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ پھر بلراج کومل اور دیویندر اسّر کے ساتھ نیرا نظر آئے بلراج نیرا اور میں ان کو دیکھ کر علی گڑھ پہنچ گیا ہوں۔ ابھی علی گڑھ میں اترا بھی نہ تھا کہ بنے بھائی آگئے سر پر چاندی کا ایک ایک تار سلیقے سے جما ہوا۔ عمر کی تاب سے کسی حد تک سنولایا ہوا رنگ سیاہ گوگلز نیچے کی طرف ہلکا سا جھکا ہوا نچلا سرمئی ہونٹ، اس کے نیچے عنابی ٹائی کی چست گرہ فارن کارڈ راے کا ہلکا سبز کوٹ، پریس کیا ہوا پتلون پالش کیا ہوا جوتا، ٹپ ٹاپ بڑھاپے کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ جو اول جلول رہنے سے مسک جاتا ہے اور بناؤ سنگار سے مسخ ہوجاتا ہے۔ ان کو دیکھ کر کتنے ہی بوڑھے حسین آدمیوں کا خیال آگیا۔ لیکن ان کا ذکر نہیں کرسکتا کہ ان میں تو سرفہرست تو احتشام صاحب ہیں، اور احتشام صاحب کے نام کے ساتھ صیغہ ماضی کا استعمال کرتے ہوئے ہاتھ کانپنے لگتا ہے۔ ہڈیاں سرد ہونے لگتی ہیں اور آنسو!
آنسو رکیں تو قلم چلے
بنے بھائی کی نرم شفیق آواز و الفاظ میں شرابور ہو رہاتھا کہ رضیہ آپا نظر آئیں۔ رضیہ سجاد ظہیر۔ بالوں کی تھکی تھکی مصنوعی سیاہی کے نیچے ہلکا ہلکا میک اپ، ڈھکے ڈھکے رنگ کی پھولی پھولی ساڑی پر سرخ سوئٹر، چھوٹے چھوٹے قدم رکھتی چلی آرہی ہیں۔ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے لال باغ لکھنو میں سرور صاحب کی کوٹھی کے درانڈے میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا جلسہ ہو رہا ہے میں باقر مہدی کے ساتھ گیا ہوں، باقر مہدی تڑپ رہے ہیں۔ مچل رہے ہیں اور میں رددی کے کونے میں خاموش بیٹھا ہوں اور سامنے دیوار سے پشت لگائے سفید چکن کی ساڑی باندھے بڑے سے جوڑے میں بیلے کی کلیاں پروئے ایک شاندار خاتون بیٹھی سگریٹ پی رہی ہیں۔ میں نے باقر مہدی سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا ’’رضیہ سجاد ظہیر‘‘ اور میں انہیں دیکھ رہا ہوں پھر آزاد ہوئی اور انہوں نے ہاتھ بڑھاکر ساری کا پلو سر پر ڈال لیا اور میرے ذہن میں کتنے ی سوال پیدا ہوگئے۔ بلکہ سوال شکاری کتوں کی طرح مجھ پر نظر آنے لگے۔ پھر رضیہ آپا سے میرا تعارف ہوا۔ اور لکھنے والے دوسرے لڑکوں کی طرح شفقت کی ایک چٹکی میرے حصے میں بھی آئی۔ یہ وہی رضیہ آپا ہیں؟ میری سوچ پہلو بدل رہی تھی کہ کسی نے کہا سہیل صاحب!
اور سہیل صاحب مجھے لپٹارہے تھے پھولوں سے نبار کی طرح نازک، سر سے پاؤں تک سفید یاد نہیں کہ وہ کرتا پہنے تھے یا شیروانی کہ ان کا کرتا بھی شیروانی سے چھوٹا نہیں ہوتا۔ بوڑھا جسم، بوڑھا چہرہ، لیکن جوان آنکھیں جو ان ہنسی اور جواں اخلاق، اور جوانوں ہی کی طرح منھ میں خوب رچایا ہوا پان وہ مجھ سے اس کانفرنس کے متعلق پوچھ رہے ہیں اور میں ان سے اختر صاحب (اور رضوی) کی خیریت پوچھ رہا ہوں، شکیلہ آپا کی ب(بیگم شکیلہ اختر) مزاج پرسی کر رہا ہوں۔ ان دونوں کے متعلق جو کچھ میں سن رہا ہوں اس طرح سن رہا ہوں جیسے لوگ افطار کے بعد کھانا کھاتے ہیں۔ ہم لوگ سیڑھیوں سے اترآئے ہیں۔ سہیل صاحب کاحکم ہے کہ کسی چائے خانے میں چائے پی جائے میں تذبذب ہوں کہ نگاہ قمر سے لڑگئی اور قمر رئیس نے مجھے گھورا ہے۔ پھر کوئی سہیل صاحب کے پاس آگیا ہے۔ وہ رکے ہیں اور ساتھ ہی انور عظیم کی آواز آتی ہے کہ آپ لوگ اندر تشریف لے چلیں میں داخل ہو رہا تھا کہ کے۔پی۔ سنگھ سے ملاقات ہوگئی۔ کے۔پی۔ سنگھ شعبہ ہندی مسلم یونیورسٹی میں استاذ ہیں اور انجمن ترقی پسند مصنفین علی گڑھ کے سکریٹری ہیں اور اردو کی ادبی تحریکات سے آشنا ہیں اور اس کانفرنس میں شرکت کے لیے علی گڑھ سے آئے ہیں۔ انہیں کے ساتھ بلدیو مرزا مل گئے۔ بلدیو مرزا ’’اسکائی لارک‘‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ اور شرکت کے لیے علی گڑھ سے آئے ہیں۔ لوگ بیٹھنے لگے ہیں کہ کسی نے آہستہ سے پیٹھ پر دھپ لگائی۔ مڑکر دیکھا تو عابد سہیل کھڑے تھے اور ان کے ہونٹ مشین کی طرح چل رہےتھے، معلوم نہیں وظیفہ پڑھ رہے تھے یا گالیاں بک رہے تھے، ویسے مجھے ان کی طرف سے پہلی بات کے سلسلے میں اندیشہ کم ہے۔ پکارنگ، کشادہ اور نمایاں خطوط، بال، جیسے ابھی دیہات کے لاری سےاترے ہوں اور منھ پونچھ کر سیدھے چلےآئے ہوں۔ نیلا سوٹ پہنے، پائپ نچا نچاکر باتیں کر رہے ہیں، میں پائپ کی طرف دیکھتا ہوں، لیکن بولتا نہیں ہوں اور میرا نہ بولنا عابد کو کھل رہا ہے، وہ جواب میں مسیح الحسن رضوی، منظر سلیم، احمد جمال پاشا اور عثمان غنی کا حال احوال بتلا رہے ہیں۔ عابد سہیل کی بیگم کو عابد کے کسی دوست کے بجائے ’’کتاب‘‘ سے شکایت رہتی ہے۔ اس لیے کہ عابد سہیل نے کتاب کو گود لے رکھا ہے۔ اور وہ اسے اپنی اکلوتی بیٹی پر فضیلت دیتے ہیں، کیا کیا جائے۔ ہماری سوسائٹی میں جہاں اور بہت سی خامیاں ہیں، ایک یہ بھی ہے کہ لڑکے کو لڑکی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ لڑکا آخر بڑھاپے کا سہارا بھی تو ہوتا ہے۔ لیکن کتاب تو عابد سہیل کی جوانی کو گھن کی طرح لگ گیا ہے، خیر یہ ان کا خانگی معاملہ ہے۔
براہ کرم تشریف رکھیے تاکہ جلسے کی کارروائی شروع ہو۔
انور عظیم نے تنبیہ کی ہے۔میں یاروں سے باتوں کی لالچ میں پیچھے بیٹھنا چاہتا ہوں۔ لیکن بنے بھائی نے اپنے پاس بٹھالیا ہے۔ پھر قمر رئیس نے جو اس کانفرنس کے کنوینر ہیں، صدارت کے لیے میرا نام پکارا ہے۔ پریسیڈیم میں بلراج منیرا کے علاوہ اقبال مجید بھی ہیں۔ ہم تینوں اونچے شان دار ڈائس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں۔ میرے داہنے بازو پر بلراج منیرا ہیں اور بائیں پر اقبال مجید، اور ان کے برابر رکھی ہوئی کرسی کے سامنے قمررئیس کھڑے ہیں۔ تقریر کر رہے ہیں۔
ترقی پسند ادیبو ں اور دانش وروں نے ادب اور
زندگی کے جس تعلق اور ادیب کے سماجی شعور اور
آگہی پر جو زور دیا ہے، آج بھی اس کی اہمیت سے
انکار ممکن نہیں۔
میرے سامنے ٹائپ کیا ہوا پروگرام رکھا ہوا ہے۔ پہلے اجلاس کی پریسڈیم میں رتن سنگھ کا نام کٹا ہوا ہے۔ اس کی جگہ اقبال مجید کا نام لکھا ہوا ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ رتن سنگھ کا نام کیوں نہیں آئے رتن سنگھ کی شخصیت کے پاس دراز قد، سفید صافے اور قدرے ترشی ہوئی سیاہ داڑھی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جس پر بہت سی سفید چونٹیاں رینگ رہی ہیں لیکن ان کے روئیں روئیں سے امڈتا ہوا ہے محاباخلوص ہر شئی کی تلافی کردیتا ہے۔ اور اپنے تاثر میں آدمی کو بہالے جاتا ہے میں سوچ رہا ہوں کہ اس سمینار میں اگر کرشن چندر، راجند سنگھ بیدی، عصمت چغتائی قرۃ العینی، سید احتشام صاحب، اخترنقوی اور ڈاکٹر محمد حسن نہیں ہیں تو نہ سہی کہ ان سب کا جمع کرلینا آسمان سے دودھ دوہنا ہے لیکن عیات احمد گدی، رام لال، جوگندرپال، اقبال متین، بلونت سنگھ، شکیلہ آپا، جیلانی بانو اور واجدہ تبسم کو تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ کیسی خوبصورت محفل ہوتی تہلکہ ڈال دینے والی محفل تالیاں گڑگڑا رہی ہیں۔ قمر رئیس تعارفی تقریر ختم کرچکے ہیں، میں نے انور عظیم کانام پکارا ہے۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ڈائس کی طرف آرہے ہیں۔ چہرے بشرے کی پریشانی سے انتظام کی بوندیں چمک رہی ہیں۔
اور میں؟
ایک بار سرور صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تھا،
’’امسال میں قاضی صاحب کی رعایت سے فکشن پر سمینار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اور فکشن پر سمینار ہونے والا تھا۔ قراۃ العین حیدر نہیں آرہی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی ’’دستک‘‘ کی نمائش میں مبتلا تھے، اختر صاحب بیمار تھے اس لیے شکیلہ آپا بھی نہیں آرہی تھیں۔ ڈاکٹر محمد حسن نے معذرت کرلی تھی اور میں غیاث احمد گدی کے جواب کے انتظار میں مبتلا تھا، کہ اچانک ان کا خط ملا۔ بالکل نہیں صاحب کے خط کی طرح نہیں مہین لکھا ہوا میں نےخط اس طرح پڑھا جس طرح ندیدے لڑکے میٹھا کا دونا چٹ کرتے ہیں۔ وہ سخت بیمار تھے لیکن میرے پاس کھڑے تھے۔
جولائی کا مہینہ اور یونیورسٹی میں سہالک کا زمانہ تھا، ایک شام کلب جانے کے لیےنکلنے والا تھا کہ کسی نے دستک دی۔ دروازے پر بڑھاپے کی طرف مڑتی ہوئی اور دبلے پتلے جسم والے ایک صاحب کرتا پاجامہ اور چپل پہنے کھڑے تھے اور ان کے منحنی سے سائے میں ایک صاحبزادے میں ڈرگیا کہ پکڑے گئے۔۔۔ وہی داخلے کا چکر!
’’قاصی عبدالستار صاحب ہیں؟‘‘
میں چونکا۔
’’آپ؟‘‘
’’غیاث احمد گدی!‘‘
ان سے بغل گیر ہوکر مدتوں بعد اپنی جسمانی صحت کی برتری کا احساس ہوا۔
’’آپ کا سامان کہاں ہے؟‘‘
وہ چکراگئےاور بہت دھیرے سے بولے۔
’’ہوٹل میں‘‘
کیا مطلب؟ آپ یہ چالتے ہیں کہ جب میں جھریا آؤں تو کسی ہوٹل میں قیام کروں۔‘
اور وہ کھڑے ہوگئے اسی وقت سامان آگیا، اور ہم لوگ جو زندگی میں پہلی بار ملے تھے اس طرح ملے جس طرح برسوں کے بچھڑے ہوئے یار ملتے ہیں۔ ہم لوگ دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے۔ بیچ بیچ میں داؤں پیچ بھی ہوتے رہے۔ وہ ادبداکر میرے ناولوں اور افسانوں کا ذکر کرتے اور میں جھکائیاں دے کر ان کی خوب صورت کہانیاں کو گھسیٹ لانا۔ رات اکسپریس ٹرین کی طرح اڑتی چلی جارہی تھی۔ لیکن ہم دونوں ایک دوسرےمیں کھوئے ہوئے تھے۔ باتوں کا یہ سلسلہ دہلی کی اس رات ختم ہوا جب غیاث حسن نعیم کے مہمان تھے اور میں شعیب قدوائی کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا اور ہم سب اس محفل ناؤنوش میں خودفراموش ہوچکے تھے۔ جیسے عمیزا، کمار پاشی اور اظہار اثر نے برپا کیا تھا۔ اور اس عالم میں اور اتنی رات گئے شعیب کے گھر جانے کی نہ ہمت پڑ رہی تھی اور نہ غیاث اور حسن نعیم چھوڑ رہے تھے اور ہم دونوں اسی کمرے میں رات بسر کرنےوالے تھے جس میں چھوٹے قد کاموٹا تازہ ایک پلنگ پڑا ہوا تھا۔ اور فرش پر قالین بچھا تھا، جب حسن نعیم چلے گئے اور صبح کاذب انگڑائیاں لینے لگی اور نیند آنکھوں سے گزر کر اعتصا پر سوار ہونے لگی۔ تو لیٹنے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ غیاث مجھ سے بڑے تھے، بیمار تھے اور میں ان کا مہمانتھا اور پلنگ ایک تھا۔ جس پر ہم دونوں کی سمائی ممکن نہ تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے کو لٹانے کے لیے اڑ رہے تھے۔ پھر فیصلہ اس طرح ہوا جس طرح پتھروں کے زمانے سے آج تک ہوتا آیا ہے۔یعنی طاقت کے زور سے اور مدتوں بعد میرے جسم نے ایک لڑائی جیت لی، میں نے غیاث کو پلنگ پر لٹادیا اور خود قالین پر لیٹ گیا وہ لی ٹے لیٹے گھات لگاکر اٹھتے اور میں جھپٹ کر ان کے بازو دبادیتا، اور وہ اس محبت سے مجھے دیکھتے جس محبت سے کم لوگوں نے دیکھا ہے۔ لیکن غیاث احمد گدی نہیں آرہے تھے۔ غیاث احمد گدی نہیں آئے تھے۔
تالیاں بج رہی ہیں جیسے دیوالی کی رات دور بہت سے پٹاخوں کے زنجیرے ایک ساتھ چھٹ رہے ہوں۔ انور عظیم جاچکے ہیں۔ میں اقبال مجید کا نام پکارتا ہوں۔ اب ہال بھر چکا ہے تمام کا تمام کچھ لوگ بالکونی پر نظر آرہے ہیں اور میں علی گڑھ میں ہوں۔
علی گڑھ۔۔۔ سرسید کا علی گڑھ۔۔۔ جس نے ہندوستان کو اسپین بننے سے بچالیا، جس نے تاریخ کے اس جبر کو انگیز کرلیاجو بڑی بڑی قوموں کو مٹا دیتا ہے۔ علی گڑھ۔۔۔ جس کے لیے ذاکر صاحب نے کہاتھا کہ مستقبل کے ہندوستان کاجو مقدر ہوگا اس میں علی گڑھ کی رہنمائی کا بڑا حصہ ہوگا۔علی گڑھ۔۔۔ علی گڑھ جس نےاردو نثر کو بلوغت عطا کی جس کے مشرق سے تنقید کا آفتاب طلوع ہوا۔ اور جس کے نقش پا اردو ادب کی تاریخ میں چراغوں کی طرح روشن ہیں۔ علی گڑھ علم و ادب کا معبد ہی نہیں تہذیب کا مرکز اور تمدن کا معیار بھی ہے۔ دنیا کے پاس ایسے کتنے ادارے ہیں جن کے چہروں کی خرشیں کروڑوں دنوں کو لہولہان کر دیتی ہیں۔ اسی علی گڑھ میں آج بہت چہل پہل بے فیکلٹی آف آرٹس کی شان دار عمارت کا ہال آہستہ آہستہ بھر رہا ہے۔ شمالی دیورا کے ساتھ تختے پر اردو اور ہندی میں سمینار کا عنوان لکھا ہے۔ دراصل یہی وہ پہلا سمینار ہے جس نے ترقی پسند ادیبوں اور دانش وروں کو جھنجھوڑنے کا کام انجام دیا تھا۔ لمبی چوڑی میز کے پیچھے تین کرسیاں رکھی ہیں ان کے درمیان سانولی رنگت اور دراز قامت کاایک نوجوان کانپ رہا ہے۔ یہ کے۔پی۔ سنگھ ہیں اس سیمینار کے کنوینر اور جن کو میں اقتدار عالم خاں کا گنیٹیو کہتا ہوں۔ اور نگیٹیو کی اہمیت فوٹو گرافر جانتا ہے۔ لانبے قد کے گورے چٹے اقتدار عالم خاں پردے کے پیچھے کے آرٹسٹ رہے ہیں۔ لیکن اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ادب کی تاریخ کا یہ عہد بھی خوب ہے۔ ہکلاتے ہوئے خیالات اور تتلاتی ہوئی زبان کا چار جامہ چڑھائے۔ لکڑی کے گھوڑوں کی ٹانگوں میں کچھ لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔کسی کے پاس مدیروں کی تعریف اور فن کاروں ی تضحیک سے بھرے کچھ خط ہیں۔ کسی کے پاس چند تبصرے ہیں کسی کے پاس دو ایک مضمونچے۔ لیکن یہ سب ادیب ہیں کہ صحافت کے سیلاب نے ادب کے میزان بہادیے۔ اقتدار عالم خاں نے تو مستقل موضوعات پر مفصل اور مدلل مضامین لکھے ہیں۔ جو نقوش اور فکر و نظر میں شائع ہوچکے ہیں لیکن اپنے آپ کو ادیب نہیں کہتے خاکساری میں، قدامت ہوئی نا؟ میز کے داہنے بازو کی دوسری رو میں شعبہ سیاسیات کے ناصر صاحب ہیں۔ اقتدار عالم خاں کے اور میرے درمیان ڈکٹر رویندر بیٹھے ہیں۔ ہندی کے مشہور شاعراور نقاد اور نصف درجن کتابوں کے مصنف جن کی میانہ روی کے پاس قلہ کی دلیل ہے میرے سامنے ڈاکٹر عقیل ہیں۔ دبلے پتلے بجھے بجھے سے۔ شاید ابھی سفر کی تکان نہیں اتری۔ ان کے قریب تفن صاحب شیعہ کے ڈین چھڑی کا سہارا لیے بیٹھے ہیں۔ جو لکھنؤ کو نہیں جانتا وہ بھی تقّن صاحب کو جانتا ہوگا۔ انہیں کے برابر سنی تھیولوجی کے ڈین مولانا سعید احمد اکبر آبادی ہیں۔ ان کے پیچھے مسعود علی غوقی، خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر اور شہریار پاس پاس بیٹھے یں۔ ہندی کے مشہور نقاد نامور سنگھ چوہان نے ڈاکٹر ہربنس لال شرما صدر شعبۂ ہندی کے کان میں کچھ کہا ہے اور وہ سرخ ہوگئے ہیں۔ اسی قطار میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری، ڈاکٹر انور انصاری، اولاد احمد صدیقی، ڈاکٹر ہریش رائے زادہ، اور ڈاکٹر منیر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دبئی سے قمر رئیس کے ساتھ شریف احمد اور صدیق الرحمن قدوائی بھی آگئے۔ آگے جگہ نہیں ہے، پیچھے جارہے ہیں۔ اب ہاگل بھر گیا ہے، ڈاکٹر خورشید الاسلام کے ساتھ ڈاکٹر محمد حسن بھی داخل ہوئے، کہیں جگر نہیں ہے۔ بالکل پیچھے جارہے ہیں، ان کی پشت پر جاوید کمال بھی ہیں۔ سچ پوچھنے جاوید کمال پورے سیمینار کی پشت پر ہیں، سارا انتظام ساری دوڑ دھوپ ان کے بھاری بھرکم وجود کی مرہون کر رہی ہے۔ سجاد ظہیر آئے اور جذبی صاحب کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ کھڑے ہوئے سوٹ گلے تک بند نستعلیق شیروانیاں، سیاہ برقعے، جدید اور قدیم اور حسین اور سنجیدہ لباس سب مسکرا رہے ہیں جیسے سبزے پر پھولوں کی کیاریاں دہک رہی ہوں۔ اور علیم صاحب۔ آگئے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ترقی پسند نقاد جو شعر بھی موزوں کرلیتے ہیں چوری دار پاجامہ اور شیروانی پہنے ہیں۔ جس کاج آخری بٹن سب سے بلند ہے۔ سرخ چہرے پر سفید فرانسیسی داڑھی، پیشانی کی طرف چڑھتے ہوئے ابرو ان کے چہرے کی خصوصیت ہیں۔ ان کے بیٹھتے ہی کے، پی سنگھ نے افتتاح کی گزارش کی، وہ مسکراتے ہوئے مائک پر آگئے، بالکل اسی طرح جس طرح درجنوں جلسوں کو خطاب کرتے دیکھ چکا ہوں۔ میں انہیں معروضی نہیں، تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں۔ لیکن پروفیسر ڈاکٹر علیم اور وائس چانسلر ڈاکٹر علیم میں کوئی تبدیلی نہیں نظر آرہی ہے، جو علی گڑھ سے واقف ہیں، وہ علی گڑھ کے وائس چانسلر کے معنی جانتے ہیں۔ کرنل بشیر حسین زیدی سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے ایک بار کہا تھا کہ حیدرآباد، بھوپال، رام پور، سب کا اختتام ہوچکا، بس ایک علی گڑھ باقی ہے۔
علیم صاحب تقریر کر رہے ہیں،
’’میں افتتاح کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن یہ افتتاح رسمی نہیں ہے۔ میں اس موقع پر اپنے خیالات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ سماجی عمل ادب کا ہے اور اسی لیے اس کا ذریعہ زبان ہے جو خود سماجی عمل کی مرہون منت ہے۔ اس لیے تجریدی مصوری تو شاید ممکن ہو لیکن تجریدی زبان اور تجریدی ادب ممکن نہیں۔۔۔ ترقی پسندی کسی فیشن یا فارمولے کا نام نہیں۔ کوئی ایک بندھا ٹکا نقطہ نظر نہیں ہے بلکہ انسانی تعلقات کی فکر و جذبے کی۔ افراد و معاشرے کی کش مکش اور ہم آہنگی کی خواہش کے حقیقت پسندانہ اظہار سے عبارت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کش مکش کی عکاسی تو ہو لیکن ادبی تقاضے پورے نہ ہوسکیں۔ اس صورت میں فنکار اپنے منصب کو پورا نہیں کرسکا۔ ترقی پسند ادیبوں کے لیے ضروی ہے کہ وہ جو کچھ لکھیں اس میں ادبی حسن اور اعلیٰ فنی قدروں کو ملحوظ رکھیں جو لوگ ادب کی سماجی ذمہ داری سے انکار کرتے ہیں وہی لوگ روٹی، روزی اور سماجی منصب کے حصول کے لیے عام انسانوں کی طرح تمام کن استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ادب میں اپنے آپ کوئی عام انسانوں سے اور سماج سے الگ تھلک اور غیر متعلق رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا سماج کو اس کا حق نہیں کہ وہ بھی اپنے آپ کو غیرمتعلق قرار دے سکے، جو ادب کسی کی سمجھ میں نہ آئے یا ترسیل سے بے پروائی برتے اس کو میں سماج دشمن سمجھتا ہوں۔ نئی بات کہنے کی خواہش مبارک ہے لیکن اس کوشش کے نشے میں ادب کے بنیادی منصب کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔۔۔‘‘
تالیاں گرج رہی ہیں۔ مقبول احمد خاں اور رضا امام اور اقبال حسن سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ کنوینر نے ڈاکٹر خورشید الاسلام کا نام صدارت کے لیے تجویز کیا ہے۔ خورشید صاحب آرہے ہیں۔ دبا ہوا قدر، ڈھکا ہوا رنگ، بالوں پر جمتی راکھ عنابی شیروانی اور چوڑی دار پائجامہ پہنے، چشمہ لگائے آہستہ آہستہ آئے۔ اور کرسی صدارت پر بیٹھ گئے، جس نے خورشید صاحب کی نثر پڑھی ہے وہ اسی کے اسلوب کا قائل ہے۔ جس نے ان کی باتیں سنی ہیں وہ ان کی طاقت لسانی سے چور ہے، خورشید صاحب کی کمزوری ان کی یہی باتیں ہیں۔ وہ خوب صورت اور نادر خیالات جو اپنے اظہار کے لیے ان کو تحریر پر مجبور کرتے باتوں کی کیچڑ میں کھوجاتے ہیں اور چالاک سننے والے چن چن کر اپنی گردن کا ہار بنالیتے ہیں اب سجاد ظہیر اپنا مقالہ پڑھنے کے لیے اٹھے ہیں، سجاد ظہیر، بنے بھائی، نقاد شاعر افسانہ نگار، ناولسٹ اور رہنما۔۔۔ جنہوں نے ترقی پسند تحریک کا خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کو گرفتار کرلیا گوگلس اتار کر جیب میں رکھے۔ نرم اور پراعتماد آواز میں پڑھنا شروع کیا۔
’’علی گڑھ یونیورسٹی کی کسی ادبی محفل میں زبان کھولنا آسان کام نہیں۔ باہر سے ہر آنے والے کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ سید احمد خاں، حالی، شبلی، اور حسرتؔ موہانی کی فکر اور ان کے تخلیق سر چشموں کا مرکز ہے، آج بھی رشید احمد صدیق، مجنوں گورکھپوری ڈاکٹر عبدالعلیم، معین احسن جذبی، آل احمد سرورؔ، اختر انصاری جیسے مستند اساتذہ یہاں موجود ہیں۔ خورشید الاسلام، منیب الرحمن، قاضی عبدالستار اور خلیل الرحمن اعظمی اور راہیؔ معصوم رضا کی ہستیاں ایسی ہیں جنہوں نے جدید اردو ادب کے ایوان میں قابل قدر مقام حاصل کیا ہے۔‘‘
اب ہندی کے نامور نقاد اور ادیب ڈاکٹر نامور سنگھ چوہان تقریر کرنے اٹھے ہیں۔ سفید کھدر کا لانبا کرتا، (جسے ان کے قد نے اور لانبا کردیا ہے) اور دھوتی پہنے ہیں شانوں پر چادر پڑی ہے اور پوری شخصیت کی ساری آگ آنکھوں میں دبک رہی ہے۔ ڈاکٹر موصوف کو احساس ہے کہ سننے والوں کا اکثریت ہندی کم سمجھتی ہے اور اسی لیے وہ انگریزی اصلاحوں کی بھرمار کر رہے ہیں۔
اب مائک پر ڈاکٹر محمدحسن آرہے ہیں، مشہور نقاد اور ڈرامہ نگار دبلے، سانولے، کشیدہ قامت، چشمہ لگائے، بالوں کی کھچڑی میں دال کم اور چاول زیادہ اور آنکھیں دیکھیے تو گیا ابھی نہاکر نکلے ہیں۔ بے جھپک اور بے باک انداز میں مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ ان کی آواز میں وہ قوت ہے جو مطالعے اور غور و فکر سے پیدا ہوتی ہے اور میں ان کی ذات سے وابستہ خوب صورت یادوں کے سنہرے دیس کھوگیا ہوں۔
اب کنور پال سنگھ نے ڈاکٹر عرفان حبیب کا نام پکارا ہے۔ چھوٹا قد، چمپئی رنگ، الجھے بال، سیدھا سادہ چشمہ، بے نیازی کے رنگ کا لباس پہنے تیز قدموں سے آئے اور مدھم آواز میں مضمون پڑھنے لگے، یہ واحد مضمون تھا جو انگریزی میں پڑھا گیا۔ بیچ بیچ میں خالص آکسفورڈ کے انداز میں مزاج لطیف میں لیٹا ہوا چھوٹا سا فقرہ چپکے سے ٹانک دیا۔ محفل تازہ دم ہوئی اور یہ آگے بڑھ گئے۔
تالیوں کی گونج میں عرفان صاحب جارہے ہیں اور خورشید صاحب کھڑے ہوگئے ہیں۔ خورشید صاحب کی تقریر میں بھی تحریر کی طرح ان کا اپنا رنگ ہے۔ لطیف طنز، شیریں چٹکیاں۔ آواز کا زیروبم سب کچھ انانیت کے دھاگے میں پرویا ہوا ہے۔ وہ گرج رہے ہیں اور برس رہے ہیں۔
’’چند ادیبوں کو جان لیوا تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ کس بناپر ہوتی ہے۔ اور آپ اس سے کس طرح عہدہ برآہوئے ہیں۔ تہائی کو FETISH بنانے والے ادیب ان فقیروں سے مشابہ ہیں جو اپنی پنڈلی پر کلیجی باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر آنے جانے والے کو یہ زخم دکھاکر بھیک مانگتے رہتے ہیں۔ تنہائی کااحساس اگر آفاقی ہے تو مبارک ہے ورنہ ریاکاری ہے۔ موت کا خوف اگر تحمل پیدا کرتا ہے تو مبارک ہے ورنہ یہ درد شکم کو دردِ زہ سمجھنے یا جتلانے کے مترادف ہے۔‘‘
اب آزاد لائبریری پر شام اتر رہی ہے۔ دور تک کا ہی مخمل کی میٹنگ بچھی ہے جس کے حاشیے پر اشوک کے جوان درخت سبز ٹیڈی سوت پہنے کھڑے ہیں اور کچھ شمشاد اور صنوبر انسانوں کا روپ دھارےٹہل رہے ہیں۔ اور تھوڑی تھوری دور پر ہفت رنگ قالین بچھے ہیں اور کنورپال سنگھ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے سیمینار میں مضمون پڑھیے۔ میں چپ ہو جاتا ہوں۔ پھر اسی رات اقتدار عالم خاں اسٹاف کلب کے ’’بلیرڈ روم‘‘ میں داخلہوئے ہیں۔ ’’کیو‘‘ لیے ہوئے ان کے پاس ہی رک گیا ہوں۔ انہوں نےمضمون پڑھنے کے لیے کہا ہے اور میں نے جواب میں قہقہہ لگایا ہے۔ اقتدار عالم خاں کا چہرہ کہہ رہا ہے کہ اس قہقہے سےان کو خوشی نہیں ہوئی۔ شاید اس کا جذبات کے بے محابہ اظار کو پسند نہیں کرتا لیکن فنکار تو جذبات کا پتلا ہوتا ہے۔ ہنستا ہے تو شادمانی ہنسنے لگتی ہیں، روتا ہے تو پتھر آب دیدہ ہوجاتے ہیں۔
اقتدار عالم خاں چلے گئے ہیں، میں کھیلتا رہا اور سوچتا رہا۔ ذہن۔۔۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنے پر اصرار کرنے والا ذہن مادی اور ذاتی فائدے اور نقصان کے درمیان پنڈولم کی طرح دھڑکنے والا ذہن، مجھے خاموش رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ لیکن دل جو ہمیشہ بائیں بازو میں رہتا ہے جو دن میں خواب دیکھتا ہے، جو عاشق کو وفا اور ادیب کو بغاوت پر اکساتا ہے۔ جو راتوں کی گردن میں بیدار یوں کے بار پہناکر خوش ہوتا ہے۔ جو جوانی میں چہرے کومسخ اور بالوں کو سفید کرڈالتا ہے۔ اپنی سی کر گزرنے پر اصرار کرتا ہے لیکن اب تو میرا مضمون ختم ہوگیا اور کنور پال سنگھ نے ڈاکٹر عقیل کو ڈانس پر آنے کی دعوت دی ہے۔ ان کی آواز کمزور اور لہجہ دھیما ہے۔ دور بیٹھے ہوئے لوگ کچھ سن نہیں پارہے ہیں۔ اس امید پر کہ تھوڑی دیر بعد شاید آواز بلند ہوجائے۔ خاموش بیٹھے ہیں۔ امید جس کے گرد خوابوں کے شامیانے لگے ہیں۔ اب لاؤنچ بھرگیا ہے۔ جگہ جگہ انسانی جسموں کے جھاڑ روشن ہیں۔
اب ہندی کے شاعر اور شعبہ ہندی دہلی یونیورسٹی کے استاد شوناتھ ترپاٹھی مضمون پڑھنے اٹھے ہیں۔ چھوٹا سا دلچسپ اور خیال انگیز مقالہ پڑھا۔ درد لی اور چلے گئے۔ پھر شریف احمد استاد شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی بحث کا آغاز کرنے اٹھے ہیں۔ نہ شخصیت میں چمک دمک ہے اور نہ آواز میں گھن گرج ہے۔ سیدھے سادے اسکالر ہیں چپکے سے آئے۔ اپنی بات کہی اور بے نیازی سے چلے گئے۔ پھر نعمان احمد صدیقی کھڑے ہوکے، نزلے نے جوانی سے جوانی چھین لی۔ پتلے سے چہرے پر شکنوں کا جال بچھا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا ردعمل ان کے چہرے کے خطوط کی معنی خیز جنبشوں سے پڑھا جاسکتا ہے۔ ایسے حساس چہرے بہت کم ہوتے ہیں۔ اگر خاموش بیٹھے رہیں تو کسی کی نظرنہ پڑے، اور اگر بولنے کھڑے ہوجائیں تو بڑے بڑے جغادری ادیب و شاعر نوٹس لینے پر مجبور ہوجائیں۔ جب ترقی پسندی اپنے عروج پر تھی تو یہ لبرل تھے۔ جب ترقی پسندی کا سیلاب اترا تو یہ ترقی پسند ہوگئے۔ وہی بائیں بازو والی بات۔ آواز جس پر اعتماد کا صیقل ہے گونج رہی ہے۔ کنور پال سنگھ کھڑے ہوئے تو میں سمجھا کہ کسی کے نام سمن جاری کرنے والے ہیں، لیکن وہ خود تقریر کرنے لگے ہیں۔
کنور پال سنگھ نے خلیل الرحمن اعظمی سے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کہا ہے لیکن وہ بیٹھے رہے۔ اور اقتدار عالم خاں ڈائس پر آگئے۔ جدیدیت کے سمینار میں انہوں نے جو تقریر کی تھی وہ اپنی آتش نفسی اور شعلہ بیانی کے لیے مدتوں یاد رہے گی۔ لیکن یہ اقتدار میزبان اقتدار ہیں۔ نہ صرف یہ کہ تلوار نیام میں ہے بلکہ سرے سے کمر خالی ہے۔
پھر لنچ کا وقفہ ہوا۔
تیسرے اجلاس کی صدارت سید سجاد ظہیر کر رہے ہیں۔ علی گڑھ کے کسی ادبی جلسے کی آخری صدارت کر رہے ہیں۔ ابھی آنکھوں پر احتشام صاحب کے موت کا قرض ب اقی تھا۔ سجاد ظہیر کی موت نے دستک دینا شروع کردی۔
صدیق الرحمن قدوائی ڈائس پر آگئے ہیں۔ گول مٹول بدن، گول چہرہ، بڑھا ہوا شیو، خوش اخلاس، سنجیدہ اور کم گو۔ اسٹینڈ پر جھکے ہوئے اٹک اٹک کر مضمون پڑھ رہے ہیں۔ شاید صاف کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سماعت لنگرارہی ہے۔ لیکن سب پرسکون ہیں طالب علموں کی ایسی مہذب خاموشی کا تماشا بھی علی گڑھ ہی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اب قمر رئیس مقالہ پڑھنے جارہے ہیں۔ مقالے کا لفظ۔۔۔ بکنیک کے طور پر استعمال کیاگیا ہے۔ ورنہ ضخامت میں ریڈیو ٹاک سے زیادہ نہیں تھا۔ کانفرنس اور سمینار میں جو لوگ دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں وہ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ قمررئیس کو یہ راز معلوم ہے۔ میں مقالہ سن رہا ہوں کہ قمر نے مجھے دیکھا اور ایک تلوار سی چمکادی۔۔۔
قاضی عبدالستار کا مقالہ ایک تخلیقی فن کار کا مقالہ ہے لیکن انہوں نے پریم چند کی کہانی ’’کفن‘‘ کا جس طرح ذکر کیا ہے اس سے مجھے اتفاق نہیں ہیں، میں ’’کفن‘‘ کو پریم چند کی نمائندہ کہانی ماننے سے انکار کرتا ہوں۔‘‘
قمر کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ علیم صاحب آگئے اور ڈائس کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ مجھے اپنی آواز سننے کا شوق نہیں ہے۔ لیکن قمر نے چھیڑ جو دیا۔ ڈاکٹر حسن احمد کے بعد ڈاکٹر بھر مراٹھے ہیں۔ ایک ہاتھ اسٹینڈ پر رکھ لیا ہے دوسرے سے سیدھے پیچھے الٹے ہوئے کھچڑی بالوں کو سہلایا ہے۔ اور عادل کے مطابق پنجوں پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد ڈاکٹر محمد حسن آگئے ہیں، اور جیسے اعلان کر رہے ہیں،
’’ترقی پسندی کوئی جامع فارمولا یا مذہبی عقیدہ نہیں ہے، دراصل ایک نقطۂ نظر ہے اور اس نقطۂ نظر کی تعبیر و توجیہہ مختلف حالات میں مختلف طریقوں پر کی جائے گی۔ آج کے ہندوستان میں ترقی پسندوں کے تقاضوں کو جاننے اور خدوخال پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ آج کے ہندوستان کی تصویر پیش نظر ہو، قاضی عبدالستار نے اپنے مقالے میں یہ اہم بات کہی ہے کہ ہندوستان کی بیاسی فی صدی آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ لیکن ہم نے سماجی حقیقت نگاری کے لیے نمائندہ آبادی مزدوروں کو سمجھ لیا ہے جو کروڑوں کسانوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور نمائندہ حقیقت نہیں ہیں۔‘‘
میں ابھی علی گڑھ میں تھا کہ بلراج مین رانے مجھے جگادیا۔ اقبال مجید جاچکے تھے کہ میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے تقریر کے لیے کہوں، میں نے انکار کردیا ہے کہ کرسی صدارت کسی سے گزارش نہیں کرتی۔ منیرا نے خود کہا، اور ڈائس پر آگئے۔ ڈاکٹر نارنگ کی تقریر ان کے اپنے نقطہ نظر کی ٹھنڈے لہجے پالی مانی زبان اور اقصدالی انداز سے کی ہوئی وکالت کر رہی ہے۔ پورے سمینار میں ایک خاص قسم کی سجدیدیت کی وکالت نارنگ جی نے کی۔ اب بنے بھائی۔۔۔۔ ڈائس پر آگئے ہیں۔ رک رک کر بول رہے ہیں۔ بڑھاپے کے باوجود آواز پر جوانی ہے، لہجے میں تیزی ہے، ڈاکٹر نارنگ کی تقریر کا جواب دے رہےہیں۔ علم دلیلوں کے ڈھیر لگا رہا ہے۔ بلیغ ظرافت چٹکیاں لے رہی ہے۔ قمر نے میرے کان میں کہا کہ میں بنے بھائی کو ٹوک دوں کہ وہ بہت سارا وقت لے چکے، میں نے انکار کردیا۔ کوئی ہم عصر ہوتا تو شاید میں یہ کرگزرتا لیکن وہ تو بنے بھائی ہیں اور موجیں مار رہے ہیں اور میں تماشہ کر رہا ہوں، پھر عابد سہیل آئے۔ علامت نگاری پر چھوٹی سی خوبصورت تقریر کی اور چلے گئے اب دو بج رہے ہیں اور کئی نام ہیں جو بحث میں حصہ لینے کے لیے ڈائس پر آنا چاہتے ہیں۔ اور جسم روحانی غذا سے سیر ہوچکا ہے تھک چکا ہے اور مادی غذا کے لیے بے قرار ہے، مادہ ہم خاکیوں کے اعمال کا محور ہے، جی چاہتا ہے کہ میں خطبہ صدارت کے نام پر ایک چھوٹی سی تقریر کروں لیکن۔۔۔ پٹنہ یونیورسٹی کا شعبۂ اردو غالب سنٹیزی منارہا تھا۔ تیسرے اجلاس کی میں صدارت کر رہا تھا۔ آج کی طرح وہاں بھی گھڑی دیکھی تھی۔ جس میں آج ہی کی طرح دو بج رہا تھا اور میں نے جلسہ برخاست ہونے کا اعلان کردیا تھا۔
لکھنؤ میں نئے ادیبوں اور شاعروں کا سیمینار تھا۔ رام لال کنوینر تھے اور میں صدر وہاں بھی میں نے کرسی صدارت کو خاموشی رہنے کی تعلیم دی تھی، پھر آج وہ روایت کیوں توڑی جائے آج بھی میں جلسے کی برخاستگی کا اعلان کرتا ہوں۔
میری طرح دوسرے مہانوں کے ساتھ کچھ میزبان بھی غالب اکیڈمی کے زمین دوز ہال میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں تھوڑی سی پلیٹوں میں تھوڑا سا کھانا رکھا ہے۔ اور بہت سے آدمی تھوڑا تھوڑا کھاکر بہت سا پانی پی لیتے ہیں۔
دوسرا اجلاس جو دن کے ڈھائی بجے شروع ہونے والا تھا۔ ساڑھے تین بجے شروع ہو رہاہے۔ ہال میں کرسیوں کی آخری قطار کے سامنے تاباں صاحب کھڑے ہیں غلام ربانی تاباں گورے چٹے لانبے چوڑے، خضاب آلود سیاہ بال کے نیچے سیاہ چشمہ لگا ہے۔ چالے تو مکتبہ جامعہ سربراہی پر ڈٹے رہتے ہیں۔۔۔عمر اور اس زمانے میں جب کہ لوگ ملازمتوں سے جونک کی طرح چمٹے رہنے پر حضرت درآبرو کی بازی لگادیتے ہیں۔ محض ایک اصول کی خاطر ایسی ملازمت چھوڑدی اور اس طرح چھوڑدی جیسے لوگ دودھ کے پیالے میں کچھ کالا کالا دیکھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ میں ان سے گفتگو کر رہا تھا کہ سانولے رنگ اور گداز جسم کی ایک بی بی اپنی سفید ساری کا آنچل درست کرتی آئیں۔ آداب کیا۔ میں پہچان گیا۔
’’آپ صغری بہاری ہیں؟‘‘
’’جی!‘‘
’’آپ کا ناول ’’پابچولا‘‘ میں نے پڑھ لیا ہے، مجھے بہت اچھا لگا۔‘‘
’’میں نے تو آپ کو بھیجا تھا۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ اقتدار عالم خاں ذکر کیا تھا۔ لیکن عجیب اتفاق ہے۔‘‘
قمر رئیس نے دوسرے اجلاس کا اعلان کردیا ہے۔ رکی سینی بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ پریسڈیم میں دیوندر اسر اور افصح ظفر بیٹھے ہیں، اور میرے ذہن میں علیم مسرورکا ناول ’’بہت دیر کردی‘‘ گھوآرہا ہے۔ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی طالبات کے جھرمٹ میں کوثر اور قیصر نظر آئی ہیں۔ میں نےان دونوں کو اپنے پاس بلاکر بٹھالیا ہے۔ سامنے نوجوان شاعر عنوان چشتی بیٹھے ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر اس بیماری کا خیل آگیا جس کا ذکر انہوں نے لکھنو کی اساتذہ اردو کی کانفرنس سے واپسی پر کیا تھا، اس سفر سے ایک حسین یاد وابستہ ہے۔ لکھنو اکسپریس کے اسی ڈبے میں ڈاکٹر محمد حسن تھے۔ قمر رئیس تھے۔ شارب رودولوی تھے۔ عنوان چشتی تھے اور میں تھا۔۔۔ گاڑی چلنے کے بعد تبرک کی خاطر کم اور پزیرائی کے خیال سے زیادہ ناشتے دان کھولا گیا۔ جو عنوان چشتی یا ڈاکٹر محمد حسن کے کسی عزیز یا دوست نے ساتھ کردیا تھا۔ تھوڑے سے اصرار کے بعد سب شریک ہوگئے ہیں۔ معذور تھا کہ میرے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا بری طرح پک گیا تھا اور نوالہ بنانے سے قاصر تھا۔ میں انکار کر رہا تھا کہ ڈاکٹر محمد حسن کے ہاتھ کا نوالہ میرے ہونٹوں تک آگیا۔ میں نے ذرا سے تکلف کے بعد منھ کھول دیااور وہ اسی طرح ایک نوالہ مجھے کھلاتے اور دوسرا خود کھاتے رہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اپنے ہوش میں اس طرح کسی کے ہاتھ سے کھانا کھایا ہو۔ کھانے تو اس سے اچھے بھی کھانے کو ملتے رہیں گے لیکن اس کھانے کی لذت!
صدیق الرحمن قدوائی مضمون پڑھ رہے ہیں، بھاری آواز چبھتے ہوئے فقرے میرے بائیں طرف کا دروازہ کھلا ہے، اور وہ درگاہ مبارک کی مشہور عمارت ’’بارہ کھمبا‘‘ سفید سنگین مغلئی محرابیں چمک گئیں اور میرے تخیل کے تلواروں میں گدگدی ہونے لگی ہے۔ لیکن میں تھوڑی دیر ذہنی طور پر بھی اس اجلاس میں موجود رہنا چاہتا ہوں۔ افصح ظفر میرے سامنے ہیں، بہار سےآئے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ مضمون پڑھ رہے ہیں اور میں ان کے گزشتہ مضامین کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ میرے پاس ہی تنویر علوی بیٹھے ہوئے ہیں جو ابھی حال ہی میں جامعہ ملیہ یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کی ریڈر شپ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ انہوں نے جھک کر عنوان چشتی کے کان میں کچھ کہا ہے، کیا کہا ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن ان کی کرسی کی چیخ میں بھی سنی ہے۔ اب تقی حیدر مقالہ پڑھ رہے ہیں، آج لنچ پر بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی ہے۔ لیکن وہ ویسے ہی نظرآئے، جیسے فرج میں رکھے ہوئے ہوں۔ صرف بالوں پر بیتی ہوئی چاندنی راتوں کے نقش پا لمبے اور گہرےہوگئے ہیں۔ صاف ستھری، جچی تلی دوٹوک باتیں ہیں جو تیز پاٹ دار آواز میں گندھی ہوئی ہیں۔ ذرا دور پر ظہیر احمد صدیقی بیٹھے ہوئے ہیں خاموش اور پرسکون لیے دیے رہنے والا انداز۔ سر سے پاؤں تک سلامت روی کا نمونہ۔ انہیں کے پاس ڈاکٹر شریف احمد ہیں۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ خاموش کیوں ہیں۔ علی گڑھ کے سمینار میں ڈاکٹر شریف نے بہت اچھا مضمون پڑھا تھا اور فکشن پر انہوں نے کئی قابل ذکر مضامین لکھے ہیں۔ تقی بدر ڈائس سے اتر رہے ہیں، قمر رئیس نے ڈاکٹر عقیل کا نام پکارا ہے۔ ڈاکٹر عقیل ڈائس پر جارہے ہیں۔ سانولا رنگ، دبلا پتلا جسم، پیشانی دور تک چلی گئی ہے، پتلے سے چہرے کے دونوں طرف ہلکے ہلکے کھچڑی بالوں کے چوڑے چوڑے بریکٹ لگے ہیں۔ آنکھوں میں چھوٹے چھوٹے مدھم مدھم انگاروں کی چمک ہے۔ جسے چشموں کے شیشوں نے اور دبادیا ہے۔ مدھم مہذب آواز اور خاکسارانہ انداز میں مقالہ پڑھ رہے ہیں، مطالعے اور محنت کی چمک سے فقرے جگر گا رہے ہیں، اور میں نیاز حیدر کو دیکھ رہا ہوں، زردی مائل سفید بڑے بڑے بال گردن پر ڈھیر ہیں ؎۔ سفید گنجان داڑھی گریبان کو سہلا رہی ہے۔ سرمئی سرمئی ہاتھ، بار بار بالوں پر لپکتے ہیں۔ بار بار پہلو بدلتے ہیں۔ چہرے کا ایک ایک نقش بول رہا ہے۔ اس بے قراری کی چغلی کھار پی رہا ہے۔ جسے باطن میں دیکھتے ہوئے الاؤ جنم دیتے ہیں اور جو اس عمر تک پہنچتے پہنچتے راکھ کا ڈھیر ہوجایا کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تو ابھی تک کسی کسی طرح روشن ہیں، میں نے نیاز حیدر کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا ہے۔ شاید کسی بوڑھے آدمی کے ایسے جوان جوش و خروش نے متاثر کیا ہو۔
ڈاکٹر اسلم پرویز مضمون پڑھنے جارہے ہیں۔ سلام مچھلی شہری اسی طرح آکر بیٹھ گئے ہیں۔ بیماری سے اٹھے ہیں سدابہار چہرہ مضمحل ہوگیا ہے۔ بدن کی قامت ڈھیلی ہوگئی ہے۔ لیکن سوچتی ہوئی آنکھوں میں بولتی ہوئی مسکراہٹ آج بھی زندہ ہے۔ ایک دہائی کم نصف صدی ہونے کو آئی ہے کہ اردو شاعری کا ایوان سلامؔ کے کلام سے گونج رہا ہے۔ وہ کون سا شعری تجربہ ہے جو ان کے قلم کی زور سے محفوظ رہ سکا ہے۔ اور سلامؔ نے تجربے کے شوق میں تجربہ نہیں کیا ہے۔ یعنی سر کے بل نہیں کھڑے ہوئے ہیں بلکہ تجربہ ان کی شعری شخصیت کی زر خیز مٹی سے پودے کی طرح پھوٹا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنے گنے چنے ہم عصروں کی طرح صاحب طرز بھی ہیں۔ اور یہی وہ کسوٹی ہے جس پر اچھی شاعری ہی نہیں، بڑی شاعری بھی کسی جاتی ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ وہ آج تک لکھ رہے ہیں۔ ان کا قلم سوکھا نہیں۔ کیسی ہی کڑی دھوپ ہو، ان کاقلم نم رہا، چلتا رہا۔ اضافے کرتا رہا سلام کی بدنصیبی یہ کہ انہوں نے اپنی شخصیت کی طرح اپنے آرٹ کو وہ سنجیدگی نہ دی جس کا وہ مستحق تھا۔ کاش سلامؔ کسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہوتے تو کتنے ہی ریسرچ اسکالر ان پر مضامین لکھ کر لیکچرر ہوچکے ہوتے اور اپنے قلم کے لٹھ سونت کران کی عظمت منوالیتے، خیر سلام صاحب کم از کم یہ تو ہوا کہ آپ پدم شری ہوگئے۔
ڈاکٹر اسلم پرویز مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ نوجوان ہیں، اس لیے غصہ ان کی جاگیر ہے، مضمون لکھا بھی غصے میں ہے اور پڑھ بھی غصے میں رہے ہیں۔ میں ان کا مضمون بھی سن رہا ہوں اور ان کے ساتھی ضمیر حسن کو تلاش بھی کر رہا ہوں۔ ضمیر حسن کو یہاں ہونا چاہیے تھا مضمون پڑھنا چاہیے تھا، بحث میں حصہ لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کئی خوب صورت افسانے لکھے ہیں، اور میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد فضل حق سے پوچھنے گیا ہوں، اور فضل حق نے مجھے یقین دلایا ہے کہ ضمیر حسن کو دعوت نامہ بھیجا گیا ہے۔
ڈائس پر ڈاکٹر نارنگ پھر آگئے ہیں۔ صدیق الرحمن قدوائی کے مقالے پر اعتراضات کر رہے ہیں۔ لہجے سے ذاقی رنجش کا بخار اٹھ رہا ہے، عقب کے قطاروں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ درمیانی قطاروں سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ان میں نیاز حیدر کی آواز اپنی پیرانہ سالی کے باوجود سب سے جوان اور تندرست ہے۔ لہجہ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے، مجھے حیرت ہے کہ چیر خاموش کیوں ہے۔ قمر خاموش کیوں ہے، یہ ڈاکٹر نارنگ کی نہیں، ہمارے پٹرسیڈیم کی توہین ہے، یہ پہلا سمینار تھا جس میں میری شرکت برائے نام تھی، مجھے بہت سی باتیں کہنا تھیں۔ لیکن وہ باتیں اپنے طور پر سجاد ظہیر، عابد سہیل اور انور عظیم کہہ چکے تھے اور میں اپنی آواز سننے کے شوق میں کبھی مبتلا نہ ہوا، جو لوگ ہر سمینار کے ہر مقالے پر بحث میں اپنی موجودگی کا ڈھول پیٹتے ڈائس پر ہاڑ بولتے ہیں، میرے نزدیک وہ ذہنی مریض ہوتےہیں۔ ان کو نہیں معلوم ہوتا کہ میلے کے ہر خوانچہ فروش کی دوکان پر پتے چاٹنے والے امیر نہیں چٹورے ہوتے ہیں۔ اپنی آواز سننے کی چاٹ بھی ایک طرح کا چٹورا پن ہے۔ میری ناگزاری کا ایک اور بھی سبب ہے، آج سے کئی سال قبل علی گڑھ میں ایک سمینار ہوا تھا۔ وہی سمینار جس میں جدیدیدت تولد ہوئی تھی۔ علی گڑھ کا وہ سمینار اس لیے اور صرف اس لیے۔۔۔ کا مقتحق ہے کہ اسی سمینار میں یہ طرح پڑھی تھی کہ جو شخص ہمارے یعنی منتظمین سمینار کے نقطہ نظر کے خلاف تقریر کرے گا اسے سننے نہیں دیا جائے گا۔ انہیں بولنے نہیں دیا جائے گا۔ مشاد سیمہ و فیسر گڑڑ، داستانیں اور دیوراج کی تقریر پر ایک گروپ باتیں کرنے لگا، ہنسنے لگا، قہقہے لگانے لگا۔ ڈاکٹر رویندر بھرمر کی تقریر پر سوال و جواب ہونے لگے۔ ڈاکٹر محمد حسن کی تقریر پر لقمے دیے جانے لگے، ایسا اس لیے ممکن ہوسکا کہ ہم کو سرور صاحب کی کنویر شپ کی سلامت روی اور میانہ روی سے اس کا اندیشہ نہ تھا نہ صرف یہ بلک ہم کو گمان تھا کہ سرور صاحب سیمینار کے مضمون میں سمینار کا انعقاد کر رہے ہیں، اور سمینار ہوتا ہی اسی لیے ہے کہ مختلف نقاد نظر کے لوگ اپنی رائے کا اظہار کریں۔ علمی غور و فکر کے بعد کسی ایک مثبت اور آسان نتیجے پر پہنچیں۔ لیکن ہوا یہ کہ سمینار کے معنوں کی نفی پراصرار کرنے لگا۔ اور جو ہم سوتےمیں پکڑے گئے تھے۔ متحیر تھے یہ عمل دوسرے مقامات پر دوہرایا گیا اور پھر روشن ہوا۔ جو ہمیشہ عمل کے مقابلے میں شدید ہوا کرتا ہے۔ میں ہال کا ہنگامہ دیکھ رہا ہوں اور کئی سال قبل اسی دہلی میں ترقی پسند مصنفین نے اجلاس کا تماشہ کر رہا ہوں، سجاد ظہیر صدر ہیں۔ احتشام صاحب تقریر کرچکے ہیں، میں ڈائس پر جاتا ہوں۔ سخت الفاظ اور کڑوے لہجے میں بنیادی اعتراضات کرتا ہوں۔ سجاد ظہیر، سردار جعفری کو پرچہ لکھ کر ڈائس پر بلاتے ہیں۔ سردار جعفری جو اس وقت تقریر کے موڈ میں نہیں تھے بولنے کھڑے ہوتے ہیں۔ سردار جتنے بڑے شاعر اور نقاد ہیں اس سے بڑے خطیب ہیں۔ میں تو کس شمار میں ہوں اردو کے بڑے بڑے نام ان کی خطابت کی مار نہیں سہہ سکتے! انہوں نے مجھے ادھیر کر پھینک دیا ہے لیکن علم اور ادب کو ایک لمحے کے لیے فراموش نہیں کیا گی اگ، یہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ایسے حالات پیدا کردییے جاتے کہ میں خاموش ہوجانے پر مجبور کردیا جاتا، اور جب فکشن پر سمینار ہوا اور اسی علی گڑھ کے اسی ہال میں وہی پھرانی تکنیک دوہرانے کی کوشش کی گئی تو ناکام بنادیا گیا۔ اس لیے کہ فکشن کے سمینار میں ہم جاگ رہے تھے اور ہوشیار تھے۔ یعنی جب جوگندر پال، شمس الرحمن فاوروقی کاجواب دینے کھڑے ہوئے تو شمش الرحمن فاروقی نے بڑے فخر سے انہیں بیٹھ جانے کو کہا اور وہ تذبذب نظر آنے لگے، اسی وقت میں کھڑا ہوا۔ میں نے سرور صاحب سے کہا کہ جوگندر پال بھی میرے مہمان ہیں اور یہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اور جو کچھ یہ کہیں گے ہمیں سننا پڑے گا اور سرور صاحب نے شمس الرحمن فاروقی کو بیٹھ جانے اور خاموش رہنے کا اشارہ کیا، اور جوگندر پال سے گزارش کی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ڈاکٹر نارنگ نے مائک چھوڑا ہی تھا کہ دیوندر اسر اٹھے اور تلخ اور گرم لہجے میں منتظمین سے اس حادثے پر شکایت کی۔ یہ تو ٹھیک تھا، لیکن میں نہیں جانتا کہ اگر دیوندر اسر علی گڑھ کے اس سمینار میں ہوتے جس نے ادبی آمریت کی وکالت کی بنیاد ڈالی تھی تو ان کا رویہ کیا ہوتا۔ تاہم میں ڈائس پر گیا، ہاؤس سے گزارش کی کہ پریسیڈیم کی حرمت کا تقاضہ ہے کہ ڈائس پر آنے والے کا احترام کیا جائے۔ مائک پر آنے والے ہر شخص کو جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے، کہنے دیا جائے اور یقین کیا جائے کہ ہم ایک ایک بات کا بہتری باتوں سے جواب دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔
جلسے کے بعد نیاز حیدر نے اپنے مخصوص بے قرار لہجے میں شکایت کی۔ میں نے زبان بندی کی پابندی لگاکر ان کی توہین کی ہے۔ میں ہنستا رہا، وہ مجھے سناتے رہے۔ ایک بار ہوش آیا تو پچہ چلا کہ ہال میں بہت سی روشنیاں پہنے رات گھری ہے۔ رات ان خوابوں کو جنم دیتی ہے جو ہمیں زندہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ساڑھے سات بج رہے تھے۔ اور عابد سہیل صدارتی تقریر کر رہے تھے۔ جلسہ ختم ہوا۔ ۹ بجے صبح سے رات کے ساڑھے سات بجے تک یکساں مصروفیت ہڈیوں کو تھکا ڈالنے والی مصروفیت کے باوجود ہم لوگ شاداب تھے۔ معلوم نہیں کیوں۔ شاید ذہنی شادمانی جسمانی تھکن کو جھاڑ دیتی ہے۔ باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ ڈیفنس کالونی میں ظفر امام کے فلیٹ پر ہم لوگوں کا کھانا ہے ان کے ڈرائنگ روم میں تھوڑی سی مزید کرسیاں ڈال دی گئیں اور مہمانوں کے ساتھ چند میزبان بیٹھ گئے۔ شہاب جعفری کی پوری شخصیت پر سبابیت طاری تھی۔ شہاب کی شخصیت پر ڈاکٹر محمد حسن عصری ادب میں مضمون لکھ چکے ہیں۔ اس لیے میں اپنے قلم کو ایک لذت سے محروم کیے لیتا ہوں۔ ویسے اگر آپ نے شہاب کا یہ شعر نہیں سنا تو سن لیجیے
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھ انہیں کہ دنیا ہے
شاب کے ہم عصروں میں شاید ہی کسی کو ایسا شعر نصیب ہوا ہو شراب نے شہاب کو بھی بڑی مقدار میں پی لیا ہے۔ شاید یہ ان کی بیگم کا نصیبہ اور سلیقہ ہے کہ شہاب کسوت مینا میں پڑا رہ گیا ہے۔ شراب نے اردو کو جن سنگھ۔۔۔ نقصان پہنچایا ہے کیسے کیسےقدرآور فن کار اس کے آبگینوں میں ڈوب کر رہ گئے۔
سہ پہر کی بس سے جب شام کو جلگاؤں پہنچا تو معلوم ہوا کہ آگرے کے لیے گاڑی ساڑھے دس بجے رات کو ملے گی۔ سامان کلوک روم میں چھوڑ کر وقت گزارنے نکلا۔ معمولی سے شہر کے بہت معمولی پکچر ہاںل میں مدتوں بعد ایک اسٹنٹ فلم دیکھی۔ پیسے ضائع نہیں ہوئے۔
بڑی زحمت کے بعد سکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں بستر رکھنے اور اسی پر بیٹھ سکنے کی سعادت ملی۔ سارےڈبے میں دائیں بائیں اوپر نیچے مسافر اسی طرح جمے ہوئے تھے جس طرح ٹرک میں سامان بھرا ہوتا ہے۔ مسرتوں کی طرح گزرتے شہروں کی روشنیاں دور سے نظر آتیں اور قریب آئے بغیر دور چلی جاتیں کہ زندگی اسی کا نام ہے۔ ساری رات اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ کسی نہ کسی اسٹیشن پر کوئی اترے گا۔ لیکن سب مسافر میری طرح آگرہ جارہے تھے۔ مدتوں بعد صبح کاذب اور صبح صادق اور پھر صبح دیکھنے کا زرین موقعہ ملا۔ ابھی میں ساغر سگار کا آخری قطرہ نچوڑ رہا تھا کہ بھوپال آگیا۔ بعض شہر ایسے ہتے ہیں جن سے یگانگت ٹپکتی ہے۔ جہاں پہنچ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنوں میں آگئے ہیں۔ احساس تحفظ بھی عجیب چیز ہوتا ہے۔ میں نے اضطراری طور قلی کو پکارا اور اتر پڑا۔ ویٹنگ روم کی طرف ایک کرسی خالی تھی اور میں سونا چاہتا تھا۔ جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو میں ضروریات سے فارغ ہوا۔ سامان کلوک روم کے حوالے کیا اور شہر دیکھنے نکل پڑا۔
دھند میں سوتے ہوئے تالاب۔۔۔ عظیم الشان تالاب کے کنارے کنارے لیٹتی ہوئی سوتی جاگتی سڑک ایسی خوب صورت معلوم ہوئی کہ میں سونا بھول گیا، اور جب ختم ہونے لگی تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی گھما لیجیے اور اسی سڑک پر چلیے۔ اس نے گاڑی کے بجائے اپنی پگڑی گھمائی اور اس طرح گھور کردیکھا جیسے میں کوئی پاگل ہوں۔
’’کیا اس سڑک پر گاڑی کا گھمایا جانا قانوناً منع ہے؟‘‘
پیسے تو آپ میٹر دیکھ کر لیں گے نا۔
’’اور ذرا آہستہ چلیے۔‘‘
ایک سڑک سے گزر رہا تھا کہ لکھنو کا نخاس یاد آگیا۔ نکڑ پر چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے ٹوٹے پھوٹے پرانے دھرانے شرنا اچکیں دو گھنٹے پہنے چائے میں مان پاؤڈلواکر کھا رہے تھے۔ اور اردو کے اخباروں کی چپٹی سرخیاں مزے لے لے کر پڑھ رہے تھے۔ اور انگلی پر جما ہوا چونا کتر رہے تھے۔ میں وہیں اتر پڑا۔ دیر تک اور دور تک چلا پھر کر اس علاقے کو دیکھتا رہا۔ جس پر اسلامی تہذیب کی چھاپ لگی تھی۔ مسجدیں کھڑی تھیں اور چائے خانے بھنک رہے تھے۔ چلنے سے افلاس اور چہرے سے وقار اور آنکھوں سے غرور ٹپک رہاتھا۔ ایک دوکان پر ایک بزرگ اخبار خرید رہے تھے۔ میں ان کے پاس سے گزرتے گزرتے ٹھٹھک گیا اور بغیر کسی تمہید کے سوال اٹھاکر دے مارا۔
’’آپ، بو محمد سحر کو جانتے ہیں؟‘‘
’’جی‘‘
ان کی شفیق آنکھوں نے مجھے دیکھا گویا کہہ رہا ہوں کہ اگر نہیں جانتے ہیں تو اب جاننا ہی پڑے گا۔ اور میں کچھ نروس سا ہوگیا۔ انہوں نے اخبار کے پیسے دیے۔ اخبار لپیٹا اور میرے قریب آئے۔
’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں‘‘
گویا یہ طے ہوچکا کہ میں مسافر ہوں۔۔۔ غریب الدیار ہوں۔
’’اورنگ آباد سے‘‘
ہرچند کہ سب کچھ اضطراری تھا لیکن اپنے اس جواب پر خود مجھے بھی حیرت ہوئی۔
’’آپ کا اسم شریف؟‘‘
جی میں آیا کہہ دوں جوگندرپال۔ لیکن بعد کے مراحل کے خوف نے باز رکھا۔
’’قاضی عبدالستار۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ بہت خوشی ہوئی۔۔۔ بہت مسرت ہوئی۔‘‘
میں ڈرا کہ یہ مجھے قاضی عبدالعقار کا بیٹا تو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ وہ تہذیب اور تمدن کا مجسمہ بنے اسی جگہ مصافحے کے لیے دونوں ہاتھ بڑھائے کھڑے تھے۔ میں گھبراکر ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیے۔
’’آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں۔‘‘
اورمیں چلنے لگا کہ رسمی تکلف کے اظار کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔
دروازہ کھلا تو کمرے میں ایک طرف بستر لگا تھا۔ لیکن اس طرح کہ جیسے ابھی ابھی کوئی اٹھ کر اندر گیا ہو، اور اس کے سامنے صوفہ پڑا تھا اور بستر سے نیند کی خوشبو اور خوابوں کی مہک کے مرغولے نہیں بادل اٹھ رہے تھے۔ اور میں اپنے آپ پر جبر کیے صوفے پر بیٹھا تھا، اور پلنگ پر بچھے ہوئے دسترخوان نعمت کو گھور رہا تھا۔ سارا سموچا پلنگ، اچھی خاصی موٹی تازی توشک صاف صفیلی چادر، گد گدا گد گدا تکیہ، خوش وضع فرد کا موٹا موٹا لحاف اور میں ساری رات کی نیند اور تھکن۔۔۔ دروازہ کھلا۔ ایک نوجوان سلیپنگ سوٹ پہنے تشریف لائے۔
’’میرا نام آفاق ہے۔۔۔ میں اجین کے شعبہ اردو میں۔۔۔‘‘
میں نے لمبی سی جماہی ہی۔ وہ فوراً واپس چلے گئے۔ کم بحت جماہی کو انہوں نے چائے کی طلب پر محمول کیا۔ پھر تکلفات شروع ہوگئے۔ چائے پھر ناشتہ پھر چائے۔ اور باتیں۔ مجھے اس علاقے کو دیکھ کر لکھنؤ کی یاد کیوں آئی۔ اب تو سب کچھ ہوگا اور آفاق صاحب نے میری بڑی خاطر کی۔ بڑی پزیرائی کی لیکن جھوٹ موٹ نہیں کہا کہ آپ اس بستر پر لیٹ جائیے۔ اگر وہ رسما کہہ دیتے تو سچ مچ لیٹ جاتا۔ جی نہیں سوجاتا۔ اور رات کو اٹھتا۔ مگر۔۔۔
حمیدیہ کالج کے شعبہ اردو میں ابو محمد سحر صاحب کلاس لے رہے تھے اور آفاق صاحب شرمندہ تھے کہ میں لان پر وقت گزار رہاتھا۔ ٹہل رہاتھا کہ بالکونی پر قہقہہ پڑا۔ زندہ، جوان، بے ساختہ اور بے محابہ قہقہہ۔ نگاہ اٹھائی تو وہی بڑے بڑے بال جن پر ترلے کی سفیدی چھائی ہوئی ہے، سرمئی پتلون پر فاختیٔ کوٹ پہنے، سرخ ٹائی لگائے ندا عباس کھڑے ہیں۔ لکھنؤ او رعلی گڑھ کے فدا عباس جو حمیدیہ کالج بھوپال میں فارسی کے استاذ ہیں۔‘‘
’’ارے۔۔۔ قاضی عبدالستار۔‘‘
اور انہوں نے بزور بازو مجھے اپنے قبضے میں کرلیا اور آفاق صاحب بے دخل کردیا۔ ملتے جلتے چائے پیتے، سگریٹ پھونکتے سحر صاحب کے کمرے میں پہنچے۔ میں نے ان کو پہلی بار دیکھا۔ اچھا اونچا قد، ڈھکا ہوا رنگ، متین چہرہ، ذہین آنکھیں، بڑے رکھ رکھاؤ سے ملے۔ فطری کم آمیزی کے باوجود شخصیت کے خلوص کی لپٹیں نکل رہی تھیں۔ ہم لوگ باتیں کر رہے تھے کہ فدا عباس نے کان میں پوچھا۔
’’نیند آرہی ہے؟‘‘
’’آرہی ہے۔۔۔ چڑھی آرہی ہے۔۔۔ کچلے ڈال رہی ہے۔‘‘
’’تو اٹھونا‘‘
گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی بیگم صاحبہ لکھنؤ میں تشریف رکھتی ہیں اور ان کے توشک لحاف فداؔ صاحب کی مسہری پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور میں لاش کی طرح بستر پر گرا۔
نیند کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی تھی کہ ڈرائنگ روم سے ایک قہقہہ آکر ٹھیک میرے کان پر لگا۔ ہر چند کہ معمولی تھا لیکن فدا عباس کا تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی دو بج رہا تھا۔ اٹھتے ہی فدا عباس آگئے۔
’’کیا حال ہے؟‘‘
’’چنگا‘‘
’’نہانا مانگتا؟‘‘
’’لاحول ولاقوۃ‘‘
’’تو پھر کپڑے پہنئے کھانا کھانے چلیے۔‘‘
’’وہ کہاں‘‘
’’اس کی نہیں ہوتی‘‘
آفاق اور وسیم الدین کے ساتھ ہم دونوں مجاہد اللہ خاں کے گھر گئے جہاں کھانا نہیں تھا دعوت تھی، اور پرتکلف کھانا کھاتے اور چائے پیتے چار بج گئے۔ سحر صاحب ہمارے منتظر تھے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ ابراہیم یوسف صاحب تشریف لے آئے، حالانکہ میں خود ان سے ملنے جارہا تھا۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ ایک اچھے ڈرامہ نگار ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ وہ میرے ایک شاگرد ہارون ایوب کے چچا ہیں۔ آپ کے ڈرامے پر ماہنامہ شاعر ہیں۔ خاصی بحث چلی تھی شیروانی پر کھلے پائنچے کا پاجامہ پہنے صقیل کیے ہوئے لہجے میں دھلی دھلائی گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ کہیں اور جانے سے پہلے آپ کے گھر چلوں گا کہ ہارون ایوب سے میرا وعدہ ہے۔
جب میں ان کے دولت خانے پر پہنچا تو شام گہری ہو رہی تھی۔ اکا دکا روشنیاں جگمگانے لگی تھیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی ہارون کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کہاں ہارون ایوب اور کہاں یہ وجیہہ اور شاندار بزرگ۔ باپ بیٹیوں میں اتنا اور ایسا تضاد مشکل سے نظر آتا ہے۔ بڑے اصرار کے بعد رخصت کی اجازت ملی۔ سیفیہ کالج کے ہال کے دروازے پر عبدالقوی رضوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو کی دلسوزی اور شخصیت کی بے قراری میں اردو کے لیے کچھ کیے جانے اور کرتے رہنے کی تڑپ تھی۔ میں نے جلسے کے آثار دیکھیے تو فدا عباس کے کان میں کہا۔
’’تم نے مجھ سے کیا وعدہ کیا تھا؟‘‘
’’یہ جلسہ نہیں ہے۔۔۔ صرف کچھ لوگ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
لیکن بہرحال وہ جلسہ تھا۔ رسمی کارروائی کے بعد اخلاق اثر نے کچھ سوالات کیے۔ ناول اور افسانہ جدید اور ترقی پسند، ادب اور ابلاغ ادیب اور قاری تمام موضوعات کو سمٹ لیا۔ میں نے بھی ایک ہی تقریر میں سارے جوابات لپیٹ دیے ہیں۔ سانس لینے کے لیے رکا تو اخلاق اثر نے لقمہ دیا۔
’’اس تھکن پر تو آپ کا یہ عالم ہے اگر تازہ دم ہوتے تو کیا ہوتا۔‘‘
’’سپاہی جب تلوار اٹھالیتا ہے تو ساری تھکن کے باوجود تھوڑی دیر تو چلتی ہی رہتی ہے۔‘‘
ہم لوگ دوسری چائے پی رہے تھے کہ ایک رجسٹر آیا۔ بہت تندرست اور توانا۔ سانتھ ہی دسنوی صاحب نے چپکے سے محیر شخصی اواز میں فرمایا،
’’اس پر اپنے تاثرات لکھ دیجیے۔‘‘
قیام بھوپال کا سب سے مشکل مرحلہ یہی تھا جو بہرحال طے ہوا۔ میں بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا اور فدا عباس شرارت سے مسکرا رہے تھے۔ خدا خدا کرکے جلسہ ختم ہوا۔ بھاگم بھاگ آفاق صاحب کے گھر پہنچے جہاں پورا دسترخوان دعوت سے رنگین تھا اور مجھے خوف تھا کہ ان تکلفات میں ساڑھے دس بجے والی گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ کسی نہ کسی طرح کھاپی اسٹیشن پہنچے۔ بڑی ندامت ہوئی۔ کتنے بزرگ، ہم عصر اور دوست پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ دوستوں نے ریزرویشن کرادیا تھا اور وہ بھی ایسے ڈبے میں کہ پچاس ساٹھ آدمیوں کی سیٹوں پر آٹھ دس آدمی منڈلا رہےتھے۔
’’تم سجاد ظہیر بننا چاہتے ہو۔‘‘
شہاب نے نشے کی ترنگ میں قمر رئیس پر وار کیا۔ قمر نے مسکراہٹ کی ڈھال پیش کردی۔ لیکن انور عظیم جو ہم لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لیے آئے تھے تلوار کی طرح کھنچ گئے۔
’’آپ بن جائیے نا۔‘‘
لیکن قمر رئیس اور اقبال مجید دونوں شہاب کی اس انانیت کو سہلا رہے ہیں، جو نشے کی جھونک میں سب کچھ روند ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔ شہاب کسی کو مخاطب کرکے مجھ پر بھی چوٹ کر رہے ہیں، لیکن میں کسی میگزین پر جھکا بیٹھا ہوں۔ گویا سن ہی نہیں رہا ہوں۔ اب انور عظیم سب کو اٹھا رہے ہیں۔ ٹیرس پر کھانے کی لمبی چوڑی میز تیسرے درجے کے مسافر ڈبے کی طرح لدی کھڑی ہے اور سب لوگ پلیٹ اور چمچے سےمسلح اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کھانا پیٹ میں پہنچا تو ہڈیوں میں جمی ہوئی تھکن نیند بن کر آنکھوں میں اتر آئی۔ جماہیاں آنے لگیں۔ پلکیں جھپکنے لگیں۔ جب رسمی جملوں کے تبادلے ہونے لگے تو میں حسنؔ نعیم کے ساتھ ساتھ آیا حسن نعیم سے میرا ذہنی تعارف اور تعلق بہت پرانا ہے، جب میں لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور میں نے ایک غزل کہی تھی جس کا ایک شعر تھا
جہاں میں منصب فرہاد کس کو ملتا ہے
تمہیں بہت ہے سلیقے سے خسروی ہی کرو
اور جسے حسن نعیم نے بہت پسند کیا تھا، اور پوری غزل کہی تھی لیکن ملاقات علی گڑھ میں ہوئی اور ہنگامہ خیز۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا جلسہ تھا۔ علیم صاحب صدارت کر رہے تھے۔ حسن نعیم نے اپنی نظمیں اور ترحیں سنائیں۔ خلیل الرحمن اعظمی، انور معظم اور شہاب جعفری نے بحث میں حصہ لیا۔ لیکن باقر مہدی نے تو ایسی دھواں دھار تقریر کی گویا حسن نعیم نے اپنا کلام سناکر کوئی جرم کرڈالا ہو۔ اسی محفل میں حسن نعیم نے بھی خوب جم کر چوٹیں سہیں اور خوب سنبھل سنبھل کر وار کیے۔ امریکہ کے طویل قیام کے بعد جب ملے تو محسوس ہوا جیسے لٹ گئے ہوں۔ امریکہ کی تیز رو زندگی نے ان کے جسم پر عمر کا بوجھ بڑھادیا۔ خوشبو کے شوق میں ابرووں کے ایک ایک دو دو بال سفید کرلیے۔ کمر کا گھیرا بڑھ گیا۔ خوش پوشی میلی ہوگئی۔ ایو ان غالب کی سربراہی نے حاسدوں کی ایک فوج کھڑی کردی جن کے بچھائے ہوئے کانٹوں پر سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں۔ لیکن احتیاط کا یہ پشتارہ ایک ہی آبگینے میں ڈوب جاتا ہے۔ ہم دونوں انتہائی روشن سڑک کے پھٹ پاتھ پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے کہ ایک گاڑی کی ہیڈلائٹس چمک اٹھیں۔ حسن نعیم نے ہاتھ دکھایا۔ گاڑی رک گئی۔معذرت گزاریوں کے بعد جب ہم لوگ بیٹھ گئے اور گاڑی حرکت کرنے لگی تو حسن نعیم سیٹ سے دفعتاً اچھل پڑے۔ وہ صاحب حسن نعیم کے دوست تھے۔
دستک دی تو شعیب قدوائی نے دروازہ کھولا۔ بہت دن ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی میں شعیب قدوائی کا تقرر ہوگیا تھا۔ لیکن معلوم نہیں کیوں انہیں علی گڑھ یونیورسٹی پر دہلی کالج کو ترجیح دی۔ شعیب جب انگریزی بولنے پر آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انگلینڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ (وہ لیڈس میں رہ بھی چکے ہیں) جب ادب پر گفتگو کرتے ہیں تو کوفت ہوتی ہے کہ یہ شخص لکھتا کیوں نہیں۔ جب اردو تنقید مغربی مصنفین اور تصنیفات اور اقوال کا استعمال اور استحصال کرتی ہے یا بقول شعیب EXPLOIT کرتی ہے اور ان کو فقرے بازی پر اکساتی ہے تو وہ اتنا ہنستے ہیں کہ رونے کا مزہ آجاتا ہے۔ طالب علموں کو انگریزی اتنی خود فراموشی سے پڑھاتے ہیں کہ جیسے قرون اولیٰ کے امام نماز پڑھا رہے ہیں۔ ہم لوگ دیر تک چائے پیتے رہے۔ بڑے بڑے سنہرے بالوں کے نیچے ذہین آنکھیں تڑپتی رہیں۔ کھڑی ناک کے پتلے پتلے نتھنے پھڑکتے رہے۔ ترشتے ہوئے نکوٹین سے سیاہ ہونٹ حرکت کرتے رہے اور میں ادب پر ان کی کھیڑی سنتا رہا تھا۔ جب الفاظ منھ سے نکلنے پر کے بجائے کٹے کبوتروں کی طرح پھڑپھڑانے لگے تو ہم لوگ بستروں پر ڈھیر ہوگئے۔
*
تیسرے اور آخری اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سید محمد عقیل کر رہے ہیں۔ ان کے داہنے ہاتھ پر کمال احمد صدیقی ہیں۔ پریسڈیم کی دوسری کرسی پر حسن نعیم ہیں۔ کمال احمد صدیقی بھورے اونی سوٹ پر خوب شوخ سرخ رنگ کی ٹائی لگائے خاموش بیٹھے ہیں، میں نے انہیں بیس سال بعد کسی ادبی جلسے میں شریک ہوتے دیکھا ہے۔ بیس سال پہلے وہ انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنؤ کے سکریٹری تھے اور میں ان کی نیابت کرتا تھا۔ پھر وہ کشمیر چلے گئے جہاں سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر ایک عمر گزار دی اور اب تبدیل ہوکر دہلی آگئے ہیں لیکن ذہنی طور کشمیر ہی میں رہتے ہیں۔ غالب پر ایک کتاب لکھی ہے اور اس کی قیمت پانچ سو روپئے رکھی ہے تاکہ حامیوں کے مطالعے اور کج یجثو کے مناقشے سے محفوظ رہے۔ اردو کے شاعروں اور ادیبوں کا وطیرہ ہے کہ جب اپنی عمر تولنے بیٹھتے ہیں تو اتنے بھونڈے پن سے ڈنڈی مارتے ہیں کہ درد سے پکڑ لیے جاتے ہیں۔ ڈنڈی تو کمال احمد صدیقی بھی مارتے ہیں لیکن برعکس۔۔۔ یعنی وہ حبشیہ اپنی بڑھا چڑھا کر بتلاتے ہیں تاکہ مخاطب اگر مہذب بنےتو ان کی بزرگی کے بوجھ کے نیچے کچلا بیٹھا رہے، اب ہال بھرنے لگا ڈاکٹر عقیل نے اجمل اجمیلی کا نام پکارا ہے۔ سمینار کے اہتمام و انصرام کی پیدا کردہ خود فراموشی کا جو حصہ انور عظیم سے بچ رہا ہے وہ ڈاکٹر اجمل اجمیلی نے سمیٹ لیا ہے۔ ذرا دبا ہوا قد، گندمی رنگ، معمولی جسم۔ معمولی چہرہ لیکن مجموعی تاثر پر ذہانت کی مہر لگی ہوئی صاف و شفاف اور مضبوط آواز، صیقل کیا ہوا لہجہ سب کچھ بھلائے ہوئے، صرف ایک بات گرہ میں باندھے ہوئے کہ سمینار کامیاب رہے، مضمون کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جس مسئلے کو چھوتے ہیں۔ دوٹوک رائے دیتے ہیں، لیکن لہجہ غیر معاندانہاور الفاظ محتاط ہیں۔ مضمون اور تالیوں کا شور ختم ہوا تو انورؔ صدیقی کا نام پکارا گیا۔ انورؔ صدیقی بھی علی گڑھ کے پرانے پاپیوں میں ہیں لیکن اب جامعہ ملیہ میں انگریزی کے استاذ ہیں۔ عمر نے چہرے کے نقوش کا تیکھا پن دھندلا دیا ہے۔ جیسے تحریر کی روشنائی پھیل گئی ہو۔ لیکن ابھی ہنسی میں تازگی اور قہقہوں میں شادابی باقی ہے۔ بال ہلکے ہوگئے ہیں، میلے ہوگئے ہیں، پیشانی چھوڑنے لگے ہیں، ناک پر چشمہ، منھ میں پان، جسم پر سوٹ۔ ہاتھوں میں کاغذ سنبھالے ہوئے مائک کے سامنے کھڑے مضمون پڑھ رہے ہیں۔ کھٹی میٹھی چٹکیاں بھی لے رہے ہیں اور کڑوے کسیلے فقرے بھی چست کر رہے ہیں۔ انور صدیقی کے جاتےہی مائک پر خمیق حنفی آگئے ہیں، چھوٹا قد، بھرا بھرا بدن۔ سانولا رنگ، چہرے پر دانوں کے عدم وجود نے چشمے اور مونچھوں کی موجودگی کو ابھار دیاہے۔ سوٹ پہنے پان کھائے ہوئے مضمون پڑھ رہے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ شخصیتوں کی تاثیر میں آواز کو کتنا دخل ہوتا ہے۔ عمیق حنفی کو سننا چاہیے۔ وہ اسی وقت تک آرٹسٹ معلوم ہوتے ہیں جب تک ڈائس پر کھڑے ہوں، قدرے ڈھیلی گونجیلی آواز، چہرے کے خطوط کی جنبش اور بدن کا محرک سب مل جل کر متاثر کرتےہیں، یہ تاثر خوشگوار بھی ہوسکتا ہے۔ اور ناخوش گوار بھی، اور زعفران زار بھی، علی گڑھ میں اقبال پر سمینار ہو رہا تھا، حنفی نے مضمون پڑھا، سوالات ہو رہے تھے یا اعتراضات جڑے جارہے تھے کہ وحید اختر نے حسب عادت حنفی پر کوئی فقرہ چست کردیا۔ جنفی نے انہیں غور سے دیکھا، مسکرائے، ڈائس پر آئے، اچک کر اسٹیڈیم کے اوپر اپنی گردن پہنچائی اور فقرے بازی کی ہے، کہ توبہ پانچ منٹ تک ہال ہنستا رہا۔ لیکن یہاں بہت سنجیدگی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کر ررہے ہیں۔ جس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ لیکن جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بحث اگر تعمیری اور تخلیقی ہو تو ادیب کے کونے جھڑتے ہیں، اور ادب کے جالے صاف ہوتے ہیں، اور اگر کج بختی کے شوق کو انگیز کرلیا گیا تو ادیب بددل اور ادب کم وقار ہوتا ہے، چائے کے لیے وقفہ ہوا ہے، میں باہر جارہا ہوں کہ ایک خاتون نے آداب کیا، اور میں شرمندہ ہوگیا، کہ میں نے دیکھا کیوں نہیں، میں نے سبقت کیوں نہیں کی، وہ صالحہ عابد حسین تھیں، ہلکے رنگ کی شال اوڑھے کرسی پر بیٹھی مسکرارہی تھیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ علی گڑھ کی ایک بکحرر خاتون کو صالحہ عابد حسین کے دھوکے میں کتنی بار سلام کرچکا ہوں، اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہتا اگر اولاد احمد صدیقی نے مجھ سے پوچھا نہ ہوتا کہ آپ نے یہ سلام کس کو کیا تھا؟ ’’صالحہ عابد حسین کو‘‘۔ میں نے گھبراکر جواب دیا تھا، اور وہ ہنس ہنس کر دوہرے ہوگئے تھے۔ پھر ان خاتون کا انہوں نے غائبانہ تعارف کرایا اور میں دیر تک اپنے آپ پر کڑھتا رہا، باہر نکلا تو سہیل صاحب کی شفیق مسکراہٹ سے ملاقات ہوئی۔ میں جسمانی طور پر ان کے پاس کھڑا ہوا باتیں کر رہا ہوں لیکن ذہنی طور پر بہار دیش کی راجدھانی پٹنہ پہنچ گیا ہوں۔
چھجو باغ کی ایک چھوٹی سی کوٹھی کاچو بیں پھاٹک چرچراکر کھلا ہے۔ سامنے ہی دہے کا جھولا کھڑا ہے اس کے پاس سیدھی سبز روشن کے کنارے دور تک گلابوں کے تندرست درخت لگے ہوئے ہیں جس میں تھوڑے سے بوڑھے پھول اب بھی روشن ہیں۔ درانڈے میں داہنی طرف کھانے کی میز لگی ہے، بائیں طرف صوفے کے سامنے کرسیاں پڑی ہیں کہ تمام کمرے بیڈروم بنے ہوئے ہیں۔ اس مکان کے مکینوں کی اکثریت مہمانوں پر مستعمل ہوتی ہے۔ مہمانوں کے نام، عمر اور جنس بدلتی رہتی ہے، لیکن مہمان مقیم رہتے ہیں۔ میں بائیں سمت کے کمرے میں داخل ہوجاتا ہوں، کمرہ خالی ہے ایک آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں، سامنے کا دروازہ بند ہے، پھر وہی دروازہ کھلتا ہے۔ دراز قد اختر صاحب غسل کرکے نکلتے ہیں، مضبو جسم بنیائن اور توال میں پلٹا ہوا ہے، کسی طرف سے ایک نوکر برآمد ہوتا ہے۔ تولیے سے بدن خشک کرتا ہے، کرتا پہناتا ہے، سر میں تیل ڈالتا ہے۔ اختر صاحب کنگھا کرتے ہ یں۔ سرخی مائل گندمی رنگ چہرہ دمک رہا ہے، پیشانی کی طرف چڑھتے ہوئے درمیان سے منقسم بال چمک رہے ہیں، الماری کھلتی ہے، شیروانی نکلتی ہے اور ان کے جسم پر آجاتی ہے، وہ اسی طرح کوئی کاغذ پڑھتے رہتے ہیں، پھر ایک خدمت گزار ہاتھ چپکے سے ان کا پیر اٹھاتا ہے، اور جو تا پہنا دیتا ہے۔ اچانک وہ چونکتے ہیں، میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں، اور باہر نکلتے ہیں۔ جہاں بوندیں پڑ رہی ہیں، ٹیکسی واپس کردی جاتی ہے، اختر صاحب مجھے اپنے پاس ہی بیٹھا لیتے ہیں، آواز دیتے ہیں،
’’شکیلہ‘‘
اور آپا آجاتی ہیں پورے قد اور بھاری جسم پر سفید سنتھٹک ساڑی باندھے ہوئے ہیں، جس کے کنارے سبزی ہیں۔ سیاہ چمکیلے گھونگھرالے بال گردن سے اترنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ اختر صاحب کو دیکھتی ہیں۔ چہرہ پوچھتا ہے کیا ہے۔ اختر صاحب اخبار پڑھ رہے ہیں۔ پانی تیز ہو رہا ہے۔ وہ بھی بیٹھ جاتی ہیں۔ ان کی قربت سے خلوص اور شفقت کی لپٹیں نکل رہی ہیں۔ وہ پہلے خوب ہنستی ہیں پھر پوچھتی ہیں،
’’ارے ستار۔۔۔ تم سے کیا پوچھا تھا شفیع جاوید نے؟‘‘
’’مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ تو تم نے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے کہا کہ میں آپا کے یہاں ٹھہرا ہوں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر انہوں نے پوچھا اختر صاحب کے یہاں؟‘‘
’’میں نے کہا نہیں تو۔۔۔ اختر صاحب بھی آپا کے یہاں رہتے ہیں۔‘‘
اختر صاحب نے اخبار رکھ دیا ہے۔ اختر صاحب ہنس رہے ہیں، ان کی گردن اثبات میں ہل رہی ہے۔ اور نچلہ ہونٹ بھینچ گیا ہے، اور آپا خوب ہنس رہی ہیں، اختر صاحب ذرا سا بھر کر شیروانی اتارتے ہیں، ایک طرف سے ایک ہاتھ دراز ہوکر شیروانی تھام لیتا ہے، اختر صاحب باتیں کرنا شروع کرتے ہیں۔ نفیس شیریں خیال انگیز باتیں جو ہیں تین دن سے سن رہا ہوں۔ لیکن کسی کے لیے برائی کا ایک لفظ بھی سننے کو نہ ملا۔ میں اور آپا باری باری بولتے ہیں۔ لان سبز ہوگیا ہے، پھولوں کے منھ دھل گئے ہیں۔ پودوں نے نئے نئے کپڑے پہن لیے ہیں سب کتنا اچھا لگ گیا ہے۔
دفعتاً آپا اٹھتی ہیں اور باورچی خانے چلی جاتی ہیں، جب سے میں آیا ہوں آپا صبح سے رات گئے تک باورچی خانے کی چکر لگایا کرتی ہیں۔ احکامات صادر کیا کرتی ہیں اور کوئی درجن بھر آدمی اور خواتین اور لڑکے گھوم پھر کر باورچی خانے کی خدمت انجام دیا کرتے ہیں، اور کھانے کی میز اس طرح سجی ہے جیسے دولہا کے لیے سجائی جاتی ہے، میں انکار کرتا ہوں تواپنے ہاتھ سے میری پلیٹ لبریز کردیتی ہیں۔ جس کو ختم کرنے کے خوف سے میں سوکھ جاتا ہوں۔ آپا آجاتی ہیں، ہم لوگوں کے باتوں میں شریک ہوجاتی ہیں، پھر کچھ لوگ پھاٹک پر نظر آتے ہیں، آپا اندر چلی جاتی ہیں، پھر علی گڑھ میں ایک افواہ پھیلتی ہے کہ اختر صاحب سخت بیمار ہیں، اور میں تصدیق کے خوف سے خط نہیں لکھتا ہوں، پھر تصدیق نامہ آجاتا ہے، پھر اطلاع آتی ہے کہ آپا ان کو لے کر علاج کے لے کینڈا چلی گئیں۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ کیسے گئی ہوں گی۔ بیمار، نازک مزاج اور آرام طلب اختر صاحب کو کس طرح سنبھالتی ہوں گی۔ کیا کچھ ان پر گزرگئی ہوگی۔ پھر واپس بھی آگئیں۔ صحت یابی کی خبر بھی آگئی اور میں گھومتا گھامتا پٹنہ پہنچتا ہوں۔ وہی چوبیں پھاٹک چرچرا کر کھلتا ہے۔ لوہے کا جھولا اسی طرح کھڑا ہے۔ پودے افسردہ، پھول پژمردہ، روشیں کجلائی ہوئی درانڈے میں دائیں طرف کھانے کی میز، بائیں طرف صوفہ، سب کچھ خاموش۔ اداس گرد آلود، میرا ماتھا ٹھنکتا ہے۔ لیکن میں اسی کمرے کا وہی پردہ ہٹاکر اسی بے تکلفی سے داخل ہوجاتا ہوں، لمبی چوڑی مسہری پر اختر صاحب پڑے ہوئے ہیں۔ بال بالکل سفید ہوگئے ہیں، رنگ دراز اور آنکھیں بند، چوڑی چکلی کلائی پتلی ہوگئی ہے۔ کھال نے گوشت کو چھوڑنا شروع کردیا ہے۔ میں سہم کر ایک کرسی پر ڈھیر ہوجاتا ہوں، آپا آتی ہیں، وہی ہنس مکھ، ملنسار، خوش اخلاق آپا کھڑی ہیں، لیکن دبلی اور زرد ہوگئی ہیں۔ وہی خاطر وہی پذیریائی، وہی مدارات، گویا سب خیریت ہے، سب کچھ ویسا ہی جیسا میں چھوڑ گیا تھا۔ کاش سب کچھ ویسا ہی ہوتا۔
’’اخاہ انصاری صاحب‘‘
سہیل صاحب کی آواز پر میں چونکا ہوں، سامنے حیات اللہ انصاری صاحب ہیں، سیاہ اونی کھدر کی شیروانی اور کھدر کے چوری دار نے دراز قد اور اونچا کردیا ہے، جس اور دبیز معلوم ہوتا ہے۔ پتلی سی بے داغ گاندھی ٹوپی کے نیچے مہین کمانی کی عینک لگائے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ میرے آداب کے جواب میں نرم ملائم ہاتھ نے گرمجوشی سے میرا سوکھا ہاتھ دبادیا ہے، سہیل صاحب سے باتیں کر رہے ہیں، جو سبھنار اور پارلی منٹ کا سفر کرتی ہوئی بے چاری اردو کے مستقبل تک پہنچ گئی ہیں، جو میری آنکھوں کے سامنے پڑ سسک رہا ہے۔ اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہم سے جو خود روٹی اور روزی کے قطروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ آب حیات کی بھیک مانگ رہا ہے، قمر رئیس کا اشارا مجھے چھیڑ رہا ہے اور میں حدادب کا مارا ہوا چپ چاپ کھڑا ہوں، پھر یہ دونوں بزرگ باتوں کی جھونک میں ہال کی طرف مڑجاتے ہیں اور کوئی میرے ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑا کر چلا جاتا ہے۔ میں چائے پی رہا ہوں اور گزرتے ہوئے چہرے پڑھ رہا ہوں۔ چہرے جو کتابوں سے زیادہ بلیغ ہوتے ہیں، پھر انور عظیم کی آواز بلند ہوئی۔ میں بھی ہال میں داخل ہوجاتا ہوں۔ گورے چٹے عنوان چشتی مائک پر ہیں اور پر اعتماد انداز میں مضمون پڑھ رہے ہیں، سامنے کوثر چاندپوری ہیں جن کی سیاہ شیروانی نے سرمئی مائل چہرے کو اور روشن کردیا ہے، عنوان چشتی کے فقروں پر اتنی سفقت سے داد دے رہیں کہ جیسے وہ مقالہ نہیں غزل سنا رہے ہوں۔ میں عابد سہیل اور اقبال مجید کے پاس بیٹھا ہوں اور چپکے چپکے لکھنؤ کے ذکر کی میٹھی اور خوشبودار کھٹیاں کٹکٹا رہا ہوں۔ لکھنؤ۔۔۔ جس کے نام سے سارے حافظے میں کتنی ہی ہولیوں کا رنگ بھر جاتا ہے، کتنی ہی دیوالیوں کے چراغ منور ہوجاتے ہیں۔ لھنؤ کا مغرب حضرت گنج ہے، اور مشرق نخاس ہے اور جس سنگم امین آباد میں ہے۔ بہت کچھ مٹ گیا ہے۔ لیکن ابھی کچھ باقی ہے جو مرنے کے انتظار میں زندہ ہے اور لکھنؤ یونیورسٹی جس کا رنگ بدل گیا ہے۔ بیویٹ ہوسٹل جس کی صورت بگڑ گئی ہے، منکی برج جو ٹوٹ ٹوٹ کر گومتی میں بہہ رہا ہے۔ مگر ان سے وابستہ یادیں کہیں جوان زندہ اور جان لیوا ہیں، نخاس سے گزریے تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی گلی سے انیسوی صدی چپکے سے نکل کر کھڑی ہوگئی ہے، اور حضرت گنج میں گھومیے تو انداز ہوتا ہے کہ ہم کتنی دور نکل آئے ہیں۔ کوئی کتاب شائع ہوئی ہو جس کی رسم اجرا کا موقعہ ہے اور احمد جمال پاشا کے گھر پر ہنگامہ ہے۔ ننگا دن۔۔۔ کمر تک ننگا دن۔ دوسری منزل کے ایک صحن میں کھڑا ہے، تخت کے سامنے بچھی ہوئی انواع و اقسام کی کرسیوں کو گھور رہا ہے، سروری منزل کے اس صحن سے کیسی خفیہ خلوتوں کی خوابناک یادیں وابستہ ہیں اور کیسی دھواں دھار محفلوں کی کہانیاں ذہنوں میں آباد ہیں۔ پستہ قد، گول مٹول سرخ و سفید جمال مہین کمانی اور موٹے شیشوں کا چشمہ لگائے چہرے کو اور بوڑھا بنائے کھڑے ہیں، چھدرے چھدرے بال سلیقے سے جمے ہوئے ہیں۔ آنکھیں لطیفے سوچ رہی ہیں، ہونٹوں سے ہنسی ٹپکی پڑ رہی ہے، قہقہے اپنے پڑ رہے ہیں۔ اپنے آپ پر ہنسنے کا ہنر بھی جمال نے سیکھ لیا ہے۔ اتنی بے نیازی سے دوستوں کا استقبال کر رہے ہیں جیسے دوست ان کے گھر نہیں وہ خود کسی دست کے گھر آئے ہوئے ہیں۔ پھر مسیح بھائی آگئے۔ مسیح الحسن رضوی جنہوں نے کئی مشہور کہانیاں تخلیق کی ہیں اور آج بھی چپکے چپکے اچھی اچھی کہانیاں لکھتے چلے جارہےہیں۔ دفتر سے اٹھ کر چلے آئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی نہاکر نکلے ہوں۔ حسب دستور سیاہ۔۔۔ کمبخت آج تک اسی طرح سیاہ بالوں کے بیچوں بیچ چوڑی چکلی مانگ نکلی ہوئی ہے اور دونوں طرف بال جیسے گوند سے چپکادیے گئے ہیں۔ دہانے کے دونوں طرف رخساروں کی ہڈیوں تک سرمئی شکنوں کے دوہرے دوہرے بریکٹ اسی طرح لگے ہوتے ہیں بیس سال کی طویل رات ان کے سر سے گزر گئی ہے اس طرح کہ پیشانی ذرا سا اوپر سرک گئی ہے اور چاند کے ذرا سے بال اڑگئے ہیں۔ باقی سب کچھ اسی طرح ہے، میں ان کے پاس جاتا ہوں اور ادب سے عرض کرتا ہوں،
’’مسیح بھائی ایک بات‘‘
وہ سنجیدہ ہوجاتے ہیں اور گرم جوشی سے مجھے جمال کے کمرے کی طرف لے جاتے ہیں اور جب تخلیہ مکمل ہوجاتا ہے تو ان کی بڑی بڑی مخلص اور شفیق آنکھیں جن میں ہلکی ہلکی سرخ سرخ دھاریاں پڑی ہوئی ہیں مجھ سے پوچھتی ہیں،
’’مسیح بھائی کیا آپ کا مکان ریفریجریٹر ہے۔‘‘
وہ بڑے زور سے ہنستے ہیں۔ وہی کراری آواز۔۔۔ وہی بیساختہ قہقہہ۔ میری پیٹھ پر ہاتھ مارتے ہیں پھر سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ کے ساتھ کھانسنے کی آواز آتی ہے جیسے مہذب لوگ اپنے گھر میں بھی داخل ہونے سے پہلے کھانس کھنکار دیتے ہیں۔ یہ منظر سلیم ہیں۔ شاعر منظر سلیم جنہوں نے اس وقت جب ان کی عمر کے لڑکے یونیورسٹی سے بی۔اے کرتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے شہرت سمیٹ لی تھی، جنہوں نے ناول بھی لکھے ہیں، اور مجازؔ پر تحقیقی کام بھی کیا ہے۔ لیکن آج تک شاعر ہی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ بلکہ اپنی اس پرانی لیکن مضبوط شہرت پر زندہ ہیں۔ قومی آواز کے دفتر سے سیدھے چلے آرہے ہیں، تھکے ہوئے چہرے پر اس کان سے اس کان تک چھائے ہوئے بالوں کے علاوہ ان کی ناک پر جو اوپر کی طرف ذرا سی اٹھی ہوئی ہے دور سے نگاہ پڑتی ہے۔ گندمی رنگ، یوں ہی سا قد، دبلا پتلا جسم لیکن آنکھیں۔۔۔ آنکھیں پوری شخصیتوں کے مجموعی تاثر کو چمکادیتی ہیں۔ لیکن فن کار کی آنکھ شخصیت کو صرف چمکاتی ہیں نہیں صیقل بھی کردیتی ہے۔ لیکن منظر سلیم جب پڑھنے کے لے چشمہ لگاتے ہیں نگاہ کا ذائقہ کڑوا ہوجاتا ہے۔ کم لوگ ہوتے ہیں جن پر چشمہ اتنا برا لگتا ہے۔ ان کے پیچھے عثمان غنی ہیں۔ ان کے دونوں ’’ایملم‘‘ ان لگے ہوئے بدن پر شیروانی اور ہاتھ میں پائپ مدتیں ہوگئیں کبھی شیروانی اور پائپ۔۔۔ کے بغیر نظر نہیں آئے اور شیروانی ان پر چمکتی بھی خوب ہے۔ اس میں دبلے پتلے میانہ قد عثمان کی خطا زیادہ ہے درزی کے ہنر کا قصور کم۔ عثمان کا شمار بھی ادب کے ان عاشقوں میں ہوتا ہے جو خود لکھنے سے جی چراتے ہیں اور اس خدمت کو اتنی مستعدی یا بے نیازی سے انجام دیتے ہیں گویا لکھنا ان کے مطالعے کی شان کے خلاف ہے۔
اور غالب اکیڈمی کا ہال جیسے اچانک جاگ اٹھا ہے۔ مائک پر نیاز حیدر کھڑے ہوئے اپنی نظم پڑھ رہے ہیں، گرج رہے ہیں، برس رہے ہیں، اور مجھے آج سے پندرہ سال قبل کا زمانہ یاد آگیا ہے، جب اپنی نظمیں سن کر کچھ کرنے اور کچھ کرگزرنے کاجنون طاری ہوجایا کرتا تھا۔ ہمارا احساس بالغ ہوگیا ہے یا مجہول ہوگیاہے، ہاں میں داد بھی دی جارہی ہے سرگوشیاں بھی ہو رہی ہیں، باتیں بھی ہو رہی ہیں ناگواری کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ لیکن نیاز حیدر سب سے بے نیاز اپنی آواز کی گھن گرج میں گم خود اپنے انداز والہانہ میں کھوئے ہوئے سناتے چلے جارہے ہیں۔ اب وہ مائک سے ہٹ گئے ہیں۔ کسی سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ بنے بھائی مسکرا رہے ہیں اور سگریٹ پی رہے ہیں، قمر رئیس چپ ہیں، اجمل اجملی بے قرار ہیں پھر کسی طرف سے انور عظیم آتے ہیں اور تندی سے اعلان کرتے ہیں،
’’نظم اپنے آپ میں کیسی بھی ہو ہمیں اس سے بحث نہیں، ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس کے سنانے کا یہ موقعہ و محل نہیں تھا۔‘‘
بحث جسے نظم نے پڑی سےاتار دیا تھا ایک بار پھر پڑی پر چڑھا دی جاتی ہے۔ حیات اللہ انصاری صدر کی اجازت لے کر ڈائس پر جاتے ہیں اور جلد ہی تقریر ادبی میزان و معیار سے گزر کر سیاست کے نازک معاملات میں داخل ہوجاتی ہے، بعض جوشیلے نوجوان اس تقریر کو نظم کا ردِعمل سمجھ کر سننے پر آمادہ نہیں نظر أتے ہیں، اور انصاری صاحب ناگواری سے ڈائس چھوڑ کر چلے آتے ہیں، مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا، ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہونا چاہیے کہ یہ اس کا پیدائشی حق ہے۔ رہا جواب تو اس محفل میں ایسا کون ابوالکلام ہے جس کا جواب بن نہ پڑے۔ محفل کا رنگ ذرا مکدر ہوگیا ہے۔ صدر ڈاکٹر عقیل بڑی احتیاط اور صلابت استقلال سے پریسڈیم کا وقار محفوظ رکھتے ہیں۔ ڈائس پر آنے والوں کی پانچ منٹ میں اپنی بات کہنے کا حکم نافذ کرتے ہیں۔ اب تقریریں تند اور تیز اور طویل ہونے لگی ہیں اور ڈاکٹر عقیل ہر تقریر کے بعد پابندی وقت کے احترام کی ہدایت کرتے ہیں۔ میں صرف ڈاکٹر عقیل کو چھیڑنے کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں اور ڈائس پر پہنچتے ہیں عرض کرتا ہوں۔
’’جناب صدر۔۔۔ کل جب میں اسی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جس پر آج آپ بیٹھے ہوئے ہیں تو میں نے نہ کسی کو ڈائس پر آنے سے باز رکھا تھا اور نہ کسی کو اپنی بات ختم کیے بغیر چلے جانے کی ہدایت کی تھی۔‘‘
اور ڈاکٹر عقیل نے تڑ سے جواب دیا ہے۔
’’قاضی صاحب میری مجبوری وقت کی کمی ہے۔‘‘
بحث پھر شروع ہوگئی ہے۔ اس سیمینار میں بعض حضرات نے علامت نگاری کا ذکر خیر اس طرح کیا ہے جیسے علامتیں نہ ہوئیں جلیبیاں ہوگئیں کہ جس حلوائی کا جی چاہے کڑھاؤ چڑھا کر اتارنے لگے۔ علامتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک اجتماعی دوسری انفرادی۔ اجتماعی علامتیں وہ ہوتی ہیں، جو صدیوں کی مدت میں زبانوں کے چاک سےاترتی ہیں، اور جنہیں ہم صبح سے شام تک استعمال کرتے ہیں جیسے صلیب، سونا اور ترازو وغیرہ۔ دوسی قسم کی علامتیں انفرادی ہوتی ہیں جنہیں فنکار اپنے مافی الضمیر کو اداکرنے کے لیے تخلیق کرتا ہے۔ جیسے شاہین، اور یہ بھی ہوتا ہے کہ اجتماعی علامتوں کے خزانے میں سے کسی ایک علامت کو چن کر کوئی فنکار اپنے رنگ و روغن کے ساتھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ اجتماعی ہونے کے باوجود انفرادی ہوجاتی ہے، لیکن اس موقعہ پر ایک نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علامت کے نام پر ایک چڑیا کی تخلیق کے لے علم کا ایک پہاڑ عبور کرنا پڑتا ہے الفاظ کا ایک جنگل کھوجنا پڑتا ہے۔ قدرتِ بیان کاایک صحرا چھاننا پڑتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ علامت کےگرد بنے ہوئےادب پارے کو دوہری سطحوں پر معانی کا ابلاغ کرنا پڑتا ہے، اور یہ جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ جب کہ اس افراتفری کے زمانہ میں یہ ہو رہا ہے کہ مغز گنجلک اور کاواک تحریروں کی کم مائیگی کو چھپانے کے لیے علامت نگاری کا زریں غلاف ڈال دیاجاتا ہے، اور یہ کرتے ہوئے علامت اور استعمارے کے فرق کو بھی ملحوظ نہیں رکھا جاتا استعارے سے علامت تک کا سفر اتنا دشوار ہے کہ بڑے بڑے قادرالکلام ٹھیک جاتے ہیں۔ چہ جائے کہ وہ لوگ جو محض بے داغ نثر کا ایک صفحہ لکھنے سے عاجز ہیں علامتوں کی جلیبیاں اتار رہےہیں، تاہم افسانوی ادب میں علامت نگاری کا ہنر دیکھا ہو تو ’’زردکتا‘‘، ’’بادل‘‘ ’’وہ‘‘ ہیڈ میں بدھا اور ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
تجریدی ادب کا بھی ذکر اذکار ہوا۔ یہ سچ ہے کہ تجریدی مصوری کی کامرینی نے تجریدی ادب کی تخلیق میں کارِ نمایاں انجام دیا۔ مغرب کی اس روایت بالغ اور شاندار روایت کے ہاتھ پر بعیت کرنے سے پہلے ہمارے قلم کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ رنگ بولتے نہیں ہیں suggest کرتے ہیں۔ اشارے کرتے ہیں اور یہ اشارے ہماری تخیل کو مصوری کی منزل تک پہنچانے کے لیے مشعل دید کا کام کرتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ رنگ بولتے نہیں ہیں اشارے کرتےہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ رنگ سے منسوب اشارے کی پشت پر صدیوں کی تاریخ اور تہذیب اور روایت کاسیہ ہوتا ہے، اور مصور کے بنائے ہوئے ’’رنگ پارے‘‘ پورے کے پورے رنگ پارے ہماری نگاہ کے دائرے میں محصور ہوتے ہیں اس لیے بھی رنگوں کے سہل اشارے تک مبہم اور واضح اشاروں کی معیت میں مہمل نہیں رہتے اور تخیل کو مصور کے معانی تک کسی نہ کسی طرح گھسیٹ لے جاتے ہیں۔ لیکن لفظ بولتا ہے، ہر لفظ بذات خود ابلاغ کی اکائی ہوتا ہے اور جس کے وجود پر معانی کی مہر لگی ہوتی ہے اور جس کے وجود کا دارومدار ہی معانی کے ابلاغ پر ہوتا ہے، یعنی لفظ ابلاغ کرتا ہے۔ ابلاغ کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اس لیے ہر ’’ادب پارے‘‘ کو الہام کی ساری نزاکتوں کے عرفان اور احساس کی لطافتوں کو لفظوں میں ترجمہ کرنے کی تمام دشواریوں کے علم کے باوجود معانی کاابلاغ کرنا پڑے گا۔ اب تجریدی لفظ پارے کی دشواری یہ ہوتی ہے کہ وہ رنگ پارے کی طرح پورے کا پورا یہاں سے وہاں تک فوراً ہماری ایک نگاہ کی گرفت میں نہیں آتا جس طرح رنگ پارہ آجاتا ہے بلکہ ہم لفظوں کے چھوٹے چھوٹے مجموعوں جملوں اور فقروں کی سیڑھیاں طے کرتے، معانی کی سمت چلتے ہیں اور اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح جب تھوڑی دور نکل آتے ہیں، تو وہ چھوٹے چھوٹے اشارے جو اگر مہمل نہیں تو ابہام اور اہمال کے خط تقسیم پر کھڑے ہوتے ہیں یادداشت کی نگاہ سےاوجھل ہوجاتے ہیں اور آخری سیڑھی تک پہنچنے کے باوجود جب ہم کو وہ پر ’مغز‘ اور خیال افروز پر نارۂ معافی نظر نہیں آتے تو پارے کے خالق کا معرکہ دشوار ہوجاتا ہے اور اس کا فرض ہوجاتا ہے کہ ادب پارے کی تخلیق کے وقت رنگ پاروں کی تکنیک کے نقش قدم پر آنکھ بند کرکے چلنے سے گریز کرے۔ اور خود کوئی ایسا راستہ دریافت کرے جو ادب پارے پہلی سیڑھی سے آخری سیڑھی تک اسٹاروں کا سلسلہ قائم کردے کہ آخری سیڑھی ختم ہوتے ہوتے منزل یا معانی کی تصویر کا ابلاغ ہوجائے۔ ایک بات اور۔۔۔ لفظ بولتا تو ہے۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ زبان سے جتنے معانی کا ابلاغ کرتا ہے، اس سے زیادہ معانی کے ابلاغ کا اشارہ بھی کرتا ہے، اس لیے بھی لفظوں کے مصور کا کام دشوار ہوجاتا ہے، ایور مزید احتیاط لازم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ منبر بھی علامت نگاری ہی کی طرح بڑے ریاض کے بعد نصیب ہوتا ہے۔
جدیدیت حسیت کا بھی اس زمانے میں بہت نام لیا گیا ہے اور اس سمینار میں بھی ذکر کیا گیا۔ اس طعنے اور تازیانے سے بھی وہی کام لیا گیا ہے جو ترقی پسند تحریک کے عہد عروج میں بعض متعصب ترقی پسند نقادوں نے سماجی شعور سے کیا تھا۔ یعنی جس ادیب سے ذاتی چشمک ہوگئی اس کے فن پارے سماجی شعور سے عاری قرار دے دیے گئے اور اس کے غیر محفوظ بدن پر سماجی شعور ایک تازیانے کی طرح سلگنے لگا اور جس ادیب کو ذاتی تعلقات کے بنا پر نوازنے اور سراہنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کی تحریریں چاہے کتنی ہی گئی گزری کیوں نہ ہوں ان پر سماجی شعور کی مہر لگادی گئی۔ سینے پر نغمے سجادیا گیا اور صف اول کی وہ کرسی جو ہوا میں معلق تھی اس کے نام محفوظ کردی گئی۔
ہوا یہ کہ پچھلے پچیس تیس برسوں میں ہندوستانی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہار نئے اردو کی کرسیوں پر تنقید چھائی رہی ہے تنقید اس سکہ بند تنقید لکھنے کا بھی ایک ہنر ہے ایک پینترہ ہے۔ عام طور پر یہ ہنر یوں برتاجاتا ہے کہ مغرب کی تنقیدی کتابوں سے نظریاتی تنقید کونکال کر اپنے الفاظ میں پیش کردیا جاتا ہے۔ ایک سی یا ملتی جلتی اصناف سخن کے فنکاروں کے متعلق جو کچھ درج ہے اسے بھی ترجمہ کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک تو خیریت رہی ہے۔ مصیبت اس وقت آتی ہے جب مغربی تنقیدی کتابوں میں نظریوں اور اصولوں اور نتیجوں کی وضاحت کے لیے اسی زبان کے فنکاروں کے کارناموں سے مثالیں دی جاتی ہیں اس لیے کہ اول تو وہ تخلیقات ہی نہیں پڑھی گئیں اور اگر پڑھ بھی لی گئیں تو وہ فنی اور ادبی خصوصیات اسی رنگ و آہنگ کے ساتھ اپنی زبان کے فنکاروں پر کس طرح تھوپ دی جائیں۔ یہی بنیادی سبب ہے کہ ہماری تنقید کا بیشتر سرمایہ نظریاتی تنقید کے حجم پر مبنی ہے۔ عملی تنقید اس سطح اور اس انداز کی عملی تنقید بھی زیادہ محنت زیاد ذہانت اور زیادہ بصیرت مانگی ہے۔ اسی لیے کمبخت نظرانداز کردی گئی اور پینترہ یہ ہے کہ مغرب کے نقادوں یا اپنی ہی زبان کے مرحوم و مغفور نقادوں ’’یا کم نام‘‘ اور ’’گم نام‘’ نقادوں کے تاثرات و فرسودات کو اپنی تحریر میں اس طرح ہضم کرلیا گیا ہے کہ جب تک بال کی کھال نہ نکالی جائے نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔
اس آفت سماوی نے اردوادب کو بہت نقصان پہنچایا۔ پہلا نقصان یہ ہوا کہ تنقید کو تخلیق پر برتری حاصل ہوئی۔ اور یہ برتری ایک ادبی فریضے کی طرح تسلیم کرالی گئی۔ دوسرے نقصان کا بیان ذرا تفصیل طلب ہے یعنی فرض کیجیے کہ ایک طالب علم نظم یا غزل یا افسانہ تخلیق کرتا ہے اور تخلیق دوسرے درجہ کی ہوتی ہے کہ عام طور پر طالب علم زیادہ سے زیادہ دوسرے ہی درجے کی تخلیق پر قادر ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرا طالب علم ہے جو چوتھے درجے کا تنقیدی مضمون لکھتا ہے۔ تو سربراہان شعبہ جنہیں تنقید لکھنے کا شوق ہے (اور اگر اس شوق کا بھی ژرف نگاہی سے تجزیہ کیا جائے تو مجبوری پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کہ شعر کہا تو قبولیت نہ ملی اور افسانہ لکھا تو شہرت نہ ہوئی اور تنقید لکھی تو کچھ نہ کچھ چل نکلے)۔اس دوسرے طالب علم کے چوتھے درجے کی تنقیدی مضمون پر اپنے سرکی سردانہ جنبشوں کی بارش فرمادیں گے۔ اور وہ ساری سہولیتں جو ان کے جنبش قلم کی مرہون منت ہیں اسی طالب علم پر صرف ہوجائیں گی اور وہ طالب علم جو دوسرے درجہ کی نظم یا غزل یا افسانے کی تخلیق کے مرتکب ہوئے تھے، اپنے جرم سے تائب ہوکر تنقید نگاری کے ’’شوق فضول‘‘ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
فرض کیجیے کہ شہر میں منٹو یا جوش وارد ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس صنف اور سطح کے فنکار ان سربراہانشعبہ کے مربیانہ سلوک کو بجاطور پر انگیز نہیں کرسکتے تو پھر یہ فنکار کسی حدتک ان تمام طالب علموں کی نظر میں جو سربراہانِ شعبہ کی رائے کے یقیناً زیر اثر ہیں ہیچ ہوجائیں گے۔ اب انہی کے مقابلے میں وہ لوگ شہرمیں نازل ہوتےہیں جو لفظوں کی تجارت کرتے ہیں، جو حصول اسناد ی جستجو میں ستو باندھ کر نکلتے ہیں اور سربراہان شعبہ کی خدمت میں ہدیہ نیازمندی پیش کرتے ہیں اور بدلے میں تحسین و ستائش کا بمقدار ضرورت حصہ پاکر نہال ہوجاتے ہیں۔ پھر وہی طالب علم ان کی جھوٹی ادبی اہمیت کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں، اور یہ گرفتاری قید عمر سے بھی منسلک ہوسکتی ہے۔
طالب علم بڑی حدتک مجبور ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا مسئلہ امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ ڈویزن حاصل کرنا ہوتا ہے۔ تیسرا مسئلہ نمود و نمائش کے چھوٹے بڑے جلسوں میں نمایاں ہونا ہوتا ہے، چوتھا مسئلہ معاشی امداد کاحصول ہوتا ہے، اور پانچواں اور آخری مسئلہ ملازمت کا پروانہ وصول کرنا ہوتا ہے، اور ان پانچوں سوالات کا واحد جواب سربراہانِ شعبہ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوتا ہے، اب طالب علم جس کے ذہن کی تختی عام طور پر سادہ ہوتی ہے اور وہ سرپھرا نہیں ہوتا تو کچھ لاشعوری طور پر اور بہت کچھ شعوری طور پر اس سادہ تختی کو سربراہان شعبہ کی لرزش ابردکی تحریروں سے سیاہ کرلیتا ہے۔
چوں کہ اسے تنقید لکھنے کا شوق ہوتا ہے، اس لیے اپنے ہی جیسے بھولے بسرے ٹوٹے پھوٹے لکھنے والوں کو جہاں تہاں سے گھیر گھار کر اپنے اردگرد جمع کرلیتا ہے اور اپنے طالب علموں کے ہجوم میں ان کی تعریفوں کے بیج بوتا ہے۔ اور جب خود اپنے ہم پیشہ لکھنے والوں کے شہروں میں نزول اجلال فرماتا ہے تو اپنی تعریف کی پوری پکی ہوئی فصل تیار پاتا ہے۔
نصاباب میں ’’تنقید‘‘ اتنے دروازوں سے چور دروازوں سے اور اتنی بڑی مقدار میں داخل کردی جاتی ہے کہ نہ صرف تخلیق کچل دی جاتی ہے بلکہ بیچاری اردو کے پاس جو کچھ بھلی بڑی واقعی تنقید ہے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ صف اول کے فنکاروں کے کارناموں سے زیادہ ان پر لکھی ہوئی دوئم اور سوئم درجے کی تنقید کو اتنی صناعی اور مہارت سے اہمیت دی جاتی ہے کہ گرفت نہیں کی جاسکتی، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غالب کے اشعار کے معنی طالب علم نہیں جانتا حالی اور بجنوری نے کیا لکھا ہے۔ اس کا اس بے چارے کو علم نہیں لیکن استاذ کے مضمونچے میں غالب کے سلسلے میں کیا درج ہے۔ اسے منھ زبانی یاد ہے اس لیے کہ ڈویزن اسی طرح بنایا جاتا ہے، نصابات میں تنقید کے حجم کی اہمیت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے اس میں یہ نکتہ پیش نظر رہتا ہے، کہ تنقیدی کتابوں اور مضامین کے کثیر اندراجات کے چور دروازوں ہی سے اپنی کتابوں اور مضامین کا داخلہ کرایا جاسکتا ہے نہ صرف یہ بلکہ انہیں مار مار کر حفظ بھی کرایا جاسکتا ہے، اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ طالب علم حالیؔ، شبلیؔ، سرسیدؔ، محمد حسن آزاد اور عبدالرحمن بجنوری کے کارناموں کے متنی مطالعے کی سعادت سے محروم ہوگیا، ان کے اندازِ تحریر طرزِ استدلال اور علم و فضل سے بے نصیب رہا لیکن اسے سربراہان شعبہ کی کج مج آرائیوں کے ازبر کرلینے کی محنت فضول کا متحمل ہونا پڑا۔
ادبی تحسین کی مبادیات کی طرف ان کا رویہ کچھ اس طرح کا رہا جیسا قرون وسطیٰ میں مہاپنڈت کا سنسکرت کے سلسلے میں رہا کرتا تھا۔ اوّل تو معالہ گول رکھا جائے اور اگر کچھ ارشاد بھی فرمایا جائے تو اس درجہ ادق اور ناقابل فہم ہوکر سننے والا اپنا سر اور دوسروں کے زانو پیٹتے رہیں اور قدم قدم پر ان کے ارشاد ہائے گرامی کے لیے گوش بر آوازر میں اور جو کچھ سماعت کی جھولی میں گرپڑے۔اسے ذہن کے بازو پر تعویز کی طرح باندھ لیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کا عام معمولی طالب علم موٹی موٹی اصطلاحات کا مفہوم سمجھنے میں اس عجز کا مرتکب ہوا جو شریعت تعلیم میں کفر کے مصداق ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ اصطلاحات کی تعریف میں ایسے مغلق انداز اور ایسے ادق الفاظ کا استعمال کیا گیا کہ اچھا خاصہ ذہین طالب علم ذراسی چوک میں چکمہ کھاگیا۔ کل سماجی شعور کی گنجلک تعریف کرکے مثالیں عام طور پر ایسے ادب پاروں سے دی گئیں جن کا ادب ہونا ہی مشتبہ ہوا کرتا تھا اور یہ سب کچھ سیاسی نہیں ذاتی مصالح کی بناپر ہوتاتھا۔ یہ سب کچھ تو ہوا اور ہمارے ہاتھوں ہوا جو خیر سے اردو کے استاد تھے یا ہیں لیکن اس طریقہ کار کو آج وہ لوگ بھی برت رہے ہیں جو صرف یہ کہ اردو کے استاد نہیں ہیں بلکہ اردو کے استادوں کی اس روشِ قدیم کے سخت مخالف بھی ہیں، آج بھی جدید حسیت کی مبہم تعریف کے بعد مثالیں سے نثرپاروں اور شعرپاروں سے دی جارہی ہیں۔ جن میں اور ادب میں دی شتہ ہے، جو ہم میں اور بابا آدم میں ہے اگر سیاسی معاشی اور سماجی اور عمرانی شعور بالغ ہوچکا ہے تو جدید حسیت ایسی کہاں کی عنقا ہے کہ کسی طرح دسترس ہی میں نہ آسکے۔ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔ ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے اس ملک کے دوحصوں میں دو براعظموں کا فاصلہ موجود ہے۔ سیاسی پرچم کی پرچھائیں کہیں لانبی ہے کہیں چھوٹی۔ سماجی فلاح کے قافلے کہیں ڈیرا ڈالے پڑ رہے اور کہیں صرف ان کا شعور پہنچ سکا بعض مخصوص اسباب کی بناپر بعض مقامات پر اقتصادی و معاشی ترقی زمین سے پھوٹی ہے اور آسمان سے برسی ہے، اور بعض مقامات پر حسب دستور پشتہا پشت سے انسان ایک وقت کی روٹی کے لیے جانور پر رشک کر رہا ہے اسی ہندوستان میں کلکتہ بمبئی دہلی اور مدراس موجود ہیں اور ان کے مقابلہ میں لکھنؤ پٹنہ بھوپال اور سری نگر آباد ہیں۔ پھر اسی ہندوستان میں وہ سینکڑوں شہر ہیں جو اضلاع کے صدر مقام ہیں اور اسی ہندوستان میں قصبات و دیہات کے علاوہ ایسے ہزاروں گاؤں موجود ہیں جو ترقی پذیر ہندوستان کے نقشے پر ایک نقطے کے بھی حقدار نہیں کہ جدیدیت حسیت کا کوئی ایک ایسا پیمانہ وضع کیا جاسکتا ہے جو بمبئی سے کرما پور تک کے تمام کرداروں کی تخلیق کی گہرائی اور گیرائی کو ناپ سکے۔ ایک صاحب نے دعوی کیا تھا کہ جو شخص بمبئی میں نہیں رہتا وہ جدید نہیں ہوسکتا۔ دوسرے کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اعلان کرے کہ جو شخص بھلائی اور درگاپور میں نہیں رہتا وہ جدید نہیں ہوسکتا۔ تیسرے کو یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جدید حسیت کا واحد نمائندہ قرار دے ڈالے کہ وہ ایسے گاؤں میں رہتا ہے جہاں آج تمام مکان پختہ ہوچکے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ تمام دعوے ہیچ ہیں۔ بے معنی ہیں ہیں سوال یہ ہوتا ہے کہ فنکار نے اپنے کرداروں کی تخلیق کے پس منظر کے لیے کس علاقے کاانتخاب کیا ہے، پھر اس علاقے کے کس کلاس یا طبقے کو منتخب کیا ہے، اس لیے کہ جب کوئی کردار ادب میں پیش کیا جاتا ہے اور وہ ’’فینٹسی‘‘ کا کردار نہیں ہے، تو اس کا کوئی نہ کوئی علاقہ بھی ہوگا اور کوئی نہ کوئی LOCAL کلاس بھی ہوگا اور کوئی نہ کوئی کلاس بھی ہوگا۔ اس چھان بین کے بعد یہ پرکھنا چاہیے کہ بمبئی یا تعضو یا سیتاپور یا کرماپور کے پس منظر میں اور اس منتخب شدہ کردار کی روشنی میں تجربے اور مشاہدے اور مطالعے کی پیش کش پر جدید حسیت کاحامل ہوگا اور اگر نہیں ہوتا تو بمبئی کا کردار بھی جدید حسیت کی دولت سے عاری ہوجائے گا۔ اگر ہم تنقید کرتے وقت اس دور بینی اور ژرف نگاہی کا ثبوت نہیں دیتے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم جدید حسیت کے نام پر لکھنے والوں کو موضوعات کے انتخاب کے سلسلے میں آمرانہ احکامات دے رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حکم دے رہے ہیں کہ یہ لکھو اور یہ نہ لکھو۔ اور یہی وہ فاش غلطی ہے جس نے ترقی پسند تحریک کی عظیم دیوار میں رخنے ڈال دیے۔
کسی مقرر کی تند و تیز آواز نے مجھے ہوشیار کردیا۔ وہ ڈائس پر کھڑے ہوئے گرج رہے ہیں اور اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت میں اپنے آپ سے گزرتے جارہے ہیں اور مجھے علی گڑھ کا وہ سمینار یاد آرہا ہے جو ابھی حال ہی میں اقبال کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا۔ اور جس میں دو مقالے اردو تنقید کی عام ڈگر سے ہٹ کر پڑھے گئے تھے۔ ایک پروفیسر اسلوب احمد انصاری کا مقالہ جس میں اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا فنی تجزیہ پیش کیا گیا تھا اور دوسرا اولاد احمد صدیقی کا مضمون جس میں اقبال کے معاشی نظریہ کی وضاحت کی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اولاد احمد صدیقی کے اس مضمون پر بحث کی گنجائش کم تھی کہ اقبال کے کلام او رمعاشیات دونوں سے یکساں واقفیت عام نہیں ہے۔ لیکن پروفیسر اسلوب احمد انصاری کے مقالے پر کچھ ٹیڑھے ترچھے سوالات ہوتے۔ اور جب آخر میں وہ جواب دینے اٹھے تو ہاؤس پہلو بدلتے لگا کہ اسلوب صاحب انگریزی ادب کے پروفیسر ہیں۔ ادب کی تدریس اور تنقید یں ایک عمر گزاری ہے۔ دیکھا جوابی تقریر میں کیا کچھ گلفشانی گفتار کا تماشہ ہوتا ہے۔ اسلوب صاحب گلے تک شیروانی کے بٹن بند کیے چھوٹے چھوٹے نپے تلے قدم رکھتے مائک پر آئے، شیریں لہجے اور مدھم آواز میں مسکرا مسکراکر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مقالے کو اتنی توجہ سے سننے ی زحمت گوارا فرمائی اور یہ بھی کہ جب مقالہ شائع کیاجائے گا تو ان اعتراضات کا خیال رکھا جائے گا۔ اس طور پر اور اس خوب صو رتی سے ہماری ذہنی تربیت کرگئے کہ ہم کچھ حیران سے ہوکر رہ گئے۔ میرا خیال ہے کہ اسلوب صاحب کا یہ انداز انگریزی زبان و ادب کی صحت مند تنقیدی روایت کے عرفان کی دین ہے۔ اس لیے کہ فکشن ہی کے سمینار میں جب پروفیسر سلامت اللہ خاں او ر ڈاکٹر یاسین صدیقی نے اپنے مقالے پڑھے اور دو بارہ جواب دینے ڈائس پر آئے تو محسوس ہوا جیسے ان حضرات کو دوسروں کے اعتراضات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صرف اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کی فکر ہے۔ اسی طرح ایک اور سمینار یاد آرہا ہے جو شعبہ ہندی کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا۔ افسانے کا اجلاس تھا شعبہ ہندی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ہربنس لال شرما نے مہمان پروفیسر ڈاکٹر ناگیندرہ صدر شعبہ ہندی دہلی یونیوسٹی سے گزارش کی کہ وہ اجلاس کی صدارت کریں۔ ڈاکٹر نگیندر ڈائس پر جانے کے بجائے مائک پر آئے۔ ڈاکٹر شرما کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہندی کے افسانوی ادب پر مجھے وہ ماہرانہ دسترس حاصل نہیں ہے جو اس اجلاس کی صدارت کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے میں کرسی صدارت پر بیٹھنے سے معذور ہوں۔ کتنے ہی سمینار میں شرکت کا موقعہ ملا لیکن کبھی اردو کے کسی پروفیسر، کسی نقاد نے اس بلند نظری کااظہار نہیں کیا۔ جس کسی کو جس کسی اجلاس کی صدارعت کے لیے یاد کیا گیا۔ وہ اس تجر سے کرسی صدارت پر متمکن ہوگیا کہگویا یہ اس کا پیدائشی حق ہے۔ اور نثر و نظم کی تمام اصناف علم و شعور اس کے خون میں گرداں ہے۔ کاش ہم کوبھی اپنی لاعلمی اپنی کم علمی کے اقرار کی سعادت نصیب ہوسکتی۔
دوبج رہے ہیں۔ اور صدر اجلاس اپنا خطبہ دے رہے ہیں۔ اور پورا ہال خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بنے بھائی اور قمر رئیس اور انور عظیم اور اجمل اجمل سب کے چہروں پر کامیابی اور طمانیت کی یکساں عبارت دور سے پڑھی جاسکتی ہے۔ اجلاس کے افتتاح کااعلان ہوچکا ہے۔ لوگ چھوٹے چھوٹے حلقوں میں تقسیم ہوگئے ہیں کچھ جارہے ہیں۔ کچھ ٹھہرے ہوئے ہیں کچھ لوگ روک لیے گئے ہیں۔ کہ کھانا کھانے کے بعد آئندہ کی کارکردگی پر گفتگو ہوگی۔ لائحہ عمل مرتب ہوگا۔ رتن سنگھ آگئے ہیں ان کی سفید پگڑی اور کھچڑی داڑھی دور سے چمک رہی ہے۔ بلراج منیرا عمیق حنفی سے باتیں کر رہے ہیں۔ اور میں سجاد ظہیر کے پاس کھڑا ہوں مگر انہیں دیکھ نہیں رہا ہوں۔ یہ کہاں معلوم تھا کہ بنے بھائی سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔ کاش میں منیرا کے ساتھ جانے کے بجائے بنے بھائی کے ساتھ چلا جاتا۔ تھوڑی دیر کے لیے ان کے پاس اور بیٹھ لیتا۔ تھوڑی دیر ان کو اور سن لیتا، تھوڑی دیر اور دیکھ لیتا کاش۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.