۱۹۳۵ء عجب سال تھا۔ میں اس زمانے میں لندن میں اپنی طالب علمی کے آخری دن گذار رہا تھا۔ طالب علمی کیا تھی، وہ زندگی جس میں کچھ ہی مہینوں بعد میں پوری طرح پڑجانے والا تھا ایک طرح سے شروع ہوگئی تھی، قانون جسے پڑھنے کے لیے لندن میں ٹھہرا تھا، میرے لیے ایک چھوٹی سی چیز ہوکر رہ گیا تھا؛ بالکل معمولی، غیرضروری اور اہمیت سے خالی۔ اصلی بات تو یہ تھی کہ میری آنکھوں کے سامنے یورپ میں خاص طور پر، اور عام طور طریقہ پر ساری دنیا میں جو دن بدن تبدیلیاں ہو رہی تھیں، یہ جو معلوم ہوتا تھا کہ ایک زمانہ مٹ رہا ہے، اور ایک دوسری زندگی کے پیدا ہونے کے آثار ہیں، اس کا نقشہ ہر گھڑی رہتاتھا۔
یہ اس لیے نہیں کہ میں کوئی غیرمعمولی سمجھ کا نوجوان تھا۔ اس لیے بھی نہیں کہ میرا دل دنیا کے دکھ کو دیکھ کر بے چین ہوگیا تھا۔ میرے ساتھ کے بہت سے پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہندوستانی اور انگریز کچھ اسی قسم کے خیالات رکھتے تھے۔ وہ وقت، وہ زمانہ ہی کچھ ایسا تھا۔ ۳۵ء سے پہلے کے دوسال کا ذرا خیال کیجیے۔ ساری دنیا پر نازل ہونے والی اکنامک کرائسس (معاشی بحران) کا پولیٹیکل اثر جرمنی میں ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی کی ڈکٹیٹرشپ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ہم کو لندن میں اور پیرس میں جرمنی سے بھاگے یا نکالے ہوئے مصیبت زدہ لوگ روز ملتے تھے۔ فاشزم کے ظلم کی دردبھری کہانیاں ہر طرف سنائی دیتیں۔ جرمنی میں آزادی پسندوں اور کمیونسٹوں کو سرمایہ داروں کے غنڈے طرح طرح کی جسمانی اذیتیں پہنچا رہے تھے۔
وہ ہولناک تصویریں جن میں عوام الناس کے ہر دلعزیز لیڈروں کی پیٹھ اور کولہے کوڑوں کے نشانوں سے کالے پڑے ہوئے دکھائی دیتے، وہ خوفناک واقعات جو وقتاً فوقتاً کسی بڑے کمیونسٹ لیڈر کے جلاد کے ہتھوڑے سے سر قلم ہونے کے بارے میں اخباروں میں چھپتے، وہ اندوہناک اندھیرا جو علم و ہنر کی اس چمکدار دنیا سے جس کا نام جرمنی تھا پھیلتا ہوا سارے یورپ پر اپنی ڈراؤنی پرچھائیں ڈال رہاتھا، ان سب نے ہمارے دل اور دماغ کے اندرونی اطمینان اور سکون کو مٹادیا تھا۔
صرف ایک طاقت اس جدید بربریت کے طوفان کا مقابلہ کرسکتی تھی، اور وہ تھی کارخانوں کے مزدوروں کی منظم طاقت، اس جماعت کی طاقت، جو اکٹھا ہوکر کام کرنے سے، اشتراک عمل سے، سرمایہ داروں کے مظالم اوراستحصال کا ہر ہردن دوبدومقابلہ کرنے سے، مسلسل طبقاتی جدوجہد کا تجربہ حاصل کرکے، ایک ایسا انقلابی جماعتی شعور پیدا کرتی جارہی تھی، جو اسے سماج کو نیچے گھسیٹنے والی سرمایہ داری کو شکست دینے اور مستقبل کی معاشرت کی تعمیر کرنے کا بدرجہ اتم اہل بناتی تھی۔
کیا یہ صرف ہماری امید تھی؟ صرف ایک خواہش؟ ایک اندھیرے میں کھوئے ہوئے مسافر کی تمنا کہ کہیں سے بھی روشنی کی ایک دھندلی کرن تاریکی کی مہلک چادر کو چاک کرے؟
جرمنی ہی میں پہلی بجلی چمکی کمیونسٹوں کو بدنام کرنے کے لیے ہٹلر اور اس کے ساتھیوں گوئیرنگ و گوئبلس وغیرہ نے سازش کرکے جرمن پارلیمنٹ کی عالیشان عمارت میں خود آگ لگوادی (مارچ ۱۹۳۳ء) اور چند کمیونسٹ لیڈروں کو یہ کہہ کر گرفتار کروالیا کہ یہ انہیں کی حرکت ہے۔ ان ملزمین میں ومتروف بھی تھا۔ یہ شخص بلگیریا کی کمیونسٹ پارٹی کا ایک لیڈر تھا جو ان دنوں برلن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ کئی مہینے حراست میں پڑے رہنے کے بعد جب مقدمہ شروع ہوا تو دفعتاً ساری دنیا کی نظریں شہر لائپزگ کے جرمن ہائی کورٹ کے ایک کمرے کی طرف منتقل ہوگئیں۔
ومتروف نے ایسے بیانات دیے جس کی وجہ سے نہ صرف اس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کی بے گناہی ثابت کی۔ بلکہ جرمن فاشزم کو الٹا مجرم ٹھہرایا، اور ساتھ ہی اپنے اس غیرقانونی عقیدہ کا بھی اظہار کیا کہ جرمنی میں فاشزم ہمیشہ نہیں رہے گا اور ایک نہ ایک دن جرمن مزدور اپنے کندھوں سے سرمایہ داری کے بوجھ کو ضرور اتار پھینکے گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ومتروف اور اس کے دوسرے ساتھیوں کی رہائی کے لیے امریکہ، انگلستان، فرانس وغیرہ میں مزدوروں کے بڑے بڑے مظاہروں کی خبریں آئیں، سرمایہ داروں کے اخبار بھی ومتروف کی بے گناہی کا اعتراف کرتے تھے، اور اس کی دلیری کی تعریف کرتے تھے کہ ہر طرح کی جسمانی اذیتوں اور سزاؤں کی دھمکیوں کے باوجود وہ کچہری میں حقیقت کا صاف صاف اظہار کرنے سے باز نہیں رہتا تھا۔
اب اہل علم میں بھی کچھ ہلچل ہونے لگی۔ جرمنی کے بڑے بڑے مصنفین (ٹامس مان، ٹولر وغیرہ) بین الاقوامی شہرت رکھنے والے سائنس داں (آئنسٹائن، ہابر وغیرہ) آرٹسٹ، ماہرین موسیقی، ڈاکٹر وغیرہ جلاوطن ہوکر بے سروسامانی کی حالت میں تھے ہی، اب ومتروف کے مقدمہ کے سلسلہ میں، اور جرمنی جلاوطنوں کی حمایت کے لیے مغربی یورپ اور امریکہ کے اہل علم، ادیب، غرض کہ اس طبقہ کے بہت سے لوگ جن کا پیشہ لکھنا، پڑھنا ہے، فاشزم کی مخالف تحریکوں میں کسی نہ کسی طرح سے کھنچتے چلے آرہے تھے۔
یہ احساس عام ہونے لگا کہ فاشزم کی وبا کا اگر تدارک نہ کیا گیا تو وہ جرمنی تک محدود نہ رہے گی، بلکہ یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ وہ حالات، فاشزم جن کا نتیجہ ہے، ان ممالک میں بھی تیزی سے پیدا ہو رہے تھے، جہاں نام نہاد جمہوریت تھی یہاں بھی سرمایہ دار طبقہ جو ابھی تک جمہوریت کا نام لے کر محنت کشوں کا استحصال کرتا آیا تھا اپنے اس بھیس کو اتار پھینک کر، شہری آزادیوں کو کچل کر، مزدوروں کی ہر طرح کی تنظیم کو توڑ کر، اور تمام نیا بتی اداروں کو خاک میں ملاکر، برہنہ آریت کو اپنا سکتا تھا۔
چنانچہ فرانس میں دن بدن یہ خطرہ بڑھنے لگا۔ جرمنی کی طرح وہاں بھی مسلح فاشسٹ جھنڈ مزدوروں کے جلسوں اور جلوسوں پر حملے کرنے لگے۔ حکومت جانتی تھی کہ ان غیرقانونی کارروائیوں کے پیچھے لوہے اور کوئلے کی کانوں کے مالکوں، فولاد اور بجلی کے کارخانے والوں، بنکوں کے کرتادھرتاؤں کی روپیوں کی تھیلیاں ہیں، لیکن وہ سرمایہ داروں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان خلافِ قانون مظاہروں کو دیکھتی اور کچھ نہ کرتی۔
یکایک ایک دن خبر آئی کہ رجعت پسندوں نے فرانسیسی پارلیمنٹ پر حملہ کردیا، پیرس میں ایک جم غفیر نے چیمبر آف ڈیپوٹیز (ایوان پارلیمنٹ کو گھیرلیا، وزارت نے خوف زدہ ہوکر استعفیٰ دے دیا، اور پہلے سے زیادہ رجعت پسند وزارت بن گئی۔ اس واقعہ نے سب کی آنکھیں کھول دیں۔ لوگ پوچھنے لگے کہ کیا ہٹلر کی طرح اس حریت، مساوات، اخوت کی جنم بھومی میں بھی سرمایہ دارانہ آمریت کا بول بالا ہوگا؟
مزدور جماعت نے اس سوال کا فوراً جواب دیا۔ فرانس میں زبردست عام ہڑتال ہوئی، کمیونسٹ لوگوں نے ’’متحدہ محاذ‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور سوشلسٹ اصلاح پسند لیڈروں کے باوجود مزدور سبھاؤں میں اتحاد و یکجہتی نظر آنے لگی۔ ہر مزدور یہ سمجھنے لگا کہ اگر ان میں ایکا ہو تو ان کی طاقت ایک مشین پر دارومدار رکھنے والی معاشرت میں فیصلہ کن ہوسکتی ہے۔ فرانس کے مزدوروں کی عام ہڑتال نے تمام آزادی پسندوں کے دلوں کو مضبوط کیا اور فرانس میں اس واقعہ کے بعد جیسے نئی زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔ اب رجعت پسند جماعتیں پسپا ہونے لگیں، اور مزدور جماعت کے اتحاد، ڈسپلن اور عملی قوت نے درمیانی طبقوں کو بھی اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا۔
ادھر یہ ہو رہا تھا ادھر آسٹریا میں ایسے واقعات ہوئے جو المناک ہوتے ہوئے بھی انقلابی تابناکی رکھتے تھے۔ صلح نامہ ورسائی نے آسٹریا کو کانٹ چھانٹ کر ایک چھوٹی سی ریاست بنادیا تھا۔ ایک ایسی ریاست جو اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے یورپ کی کسی نہ کسی بڑی سلطنت کے زیر اثر ہوئے بغیر قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ ہٹلر اور مسولینی کے عروج کے بعد فرانسیسی سامراج کا اقتدار وسطی یورپ اور بلقان میں گھٹتا جارہا تھا۔
آسٹریا پر اب اٹلی اور جرمنی دونوں للچائی نظریں ڈالنے لگے۔ عام اقتصادی بحران وہاں بھی اپنے اثرات پیدا کر رہا تھا۔ وہ جمہوری نظام جو صلح نامہ و رسائی کے بعد آسٹریا میں ناقد کیا گیا تھا (یعنی وہ نظام جو سرمایہ پرستی پر جمہوریت کی نقاب ڈالتا ہے) لڑکھڑا رہا تھا۔ حتی کہ ایک دن اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ آسٹریا کا دستور اساسی منسوخ ہوگیا۔ پارلیمنٹ ہمیشہ کے لیے برخاست کردی گئی۔ میونسپلٹیوں کے ہاتھ سے سب طاقت چھین لی گئی، ایک پستہ قد انسان ڈالفس، نے اپنے اکیلے ہاتھوں میں سلطنت کی باگ ڈور لے لی! یعنی یورپ کے ایک اور ملک میں فاشیت قابض ہوگئی۔ اسی کے ساتھ ہی یا کچھ ہی دن بعد دوسری خبر: ویئنا، لنز، گراتز، آسٹریا کے بڑے صنعتی شہروں کے مزدوروں نے غاصب حاکم کے جابرانہ احکام ماننے سے کردیا۔
ڈالفس نے مزدوروں کی جماعتوں سے تمام ہتھیار چھین لینے کا حکم دیا، اس پر مزدوروں اور سرکاری فوجوں میں لڑائی شروع ہوگئی مزدور بڑی بہادری سے لڑ رہے ہیں، شہر کے بہت سے حصوں پر وہ قابض ہوگئے۔ پھر دوسری خبریں: حکومت کے پاس بہتر اسلحہ جات ہونے کی وجہ سے مزدور پسپا ہو رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب ان کے جینے کی امید باقی نہیں وہ بڑی بہادری سے لڑتے جارہے ہیں۔ آخر میں شکست، لیکن فاتح کی خونی کامیابی اور اس کے مظالم کی شدت سے مزدور جماعت کی طاقت کا ا ندازہ ہوتا تھا۔
ہمیں محسوس ہونے لگا کہ فاشیت کی گو آج جیت ہوئی ہے، لیکن دوسری طرف محنت کشوں کا انقلابی شعور بڑھ رہا ہے! انہیں ناکامیوں کا تجربہ کامیاب انقلاب کو ممکن بنائے گا!
ومتروف کا مقدمہ، فرانس کے مزدوروں کی بیداری، آسٹریا کا ناکامیاب مزدور انقلاب، آج ان واقعات کی اہمیت اکثر لوگوں کے لیے کچھ نہیں، لیکن ہمارے لیے بہت تھی۔ یہ تو بالکل ظاہر معلوم ہوتا تھا کہ انسانیت کے لیے بہت دنوں تک امن، سکون، چین کا خاتمہ ہوگیا۔ بڑی سخت کشاکش، جدوجہد، بین الاقوامی جنگ، انقلاب کے دور کا آغاز، ہم اپنے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ کیا آدمیت کبھی بھی اس سیلاب آتش و آہن سے نجات حاصل کر سکے گی؟ اور کیا یہ ممکن تھا کہ ہم نوجوان، جن کی رگوں میں زندگی کا گرم خون گردش کر رہا تھا، اپنے کو اس طوفان سے بچاسکیں گے؟
ہماری محبت کی دنیا سڈول، اچھے جسم کی کشش، آنکھیں جنہیں ہم دیکھتے ہی رہ جاتے تھے، باتیں جو ہم چاہتے تھے کہ سنا ہی کریں، دولپٹے ہوئے سینوں کی باہمی دھڑکن، اس کا کیا ہوگا؟ اور ہمارے خیالوں کی دنیا وہ رنگین دنیا، قدامت پرستی کو ٹھوکر لگانے والی، ہر بڑی چیز سے باغی، حسن پرست، آسمان سے اسکی نیلاہٹ، پھولوں سے خوشبو، پانی سے روانی، غرض ہر مادہ سے اس کا جوہر کھینچ لینے کے لیے بے چین، وہ اس آگ لگے سنسار میں کے دن تک بچے گی؟ کیا یہ ممکن تھا کہ ہم نجی زندگی کو سماج کے مضطرب، بیاکل جیون سے الگ کرلیں؟
ہم رفتہ رفتہ سوشلزم کی طرف مائل ہوتے جارہے تھے۔ ہمارا دماغ ایک ایسا فلسفہ کی جستجو میں تھا، جو ہمیں سماج کی دن بدن بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ان کے سلجھانے میں مدد دے سکے۔ ہمیں اس بات سے اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ انسانیت پر ہمیشہ سے مصیبتیں اور آفتیں رہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ مارکس اور دوسرے اشتراکی مصنفین کی کتابیں ہم نے بڑے شوق سے پڑھنا شروع کیں۔ جیسے جیسے ہم اپنے مطالعہ کو بڑھاتے آپس میں بحثیں کرکے تاریخی، سماجی، فلسفیانہ مسئلوں کو حل کرکے، اسی نسبت سے ہمارے دماغ روشن ہوتے۔ اور ہمارے قلب کو سکون ہوتا جاتا تھا۔ یونیورسٹی کی تعلیم ختم کرنے کے بعد یہ ایک نئے لامتناہی تحصیل علم کی ابتدا تھی!
ہمارے چھوٹے سے گروہ میں اکثر مصنف بنناچاہتے تھے اور کرتے بھی کیا؟ مزدوری کرنے کی ہم میں اہلیت نہ تھی۔ کسی قسم کا ہنر ہم نے سیکھا نہ تھا، سامراجی سرکار کی نوکری کے خیال سے گھن آتی تھی تو پھر باقی کیا رہا؟ کافر نہ توانی شد، ناچار مسلمان شد۔ ملک راج آنند کاناول ’’اچھوت‘‘ چھپ چکا تھا اور ’’قلی‘‘ چھپنے ہی والا تھا۔ ریجنٹ اسکوائر کی چوتھی منزل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دو شخص بیٹھا لکھا ہی کرتا، یا پھر اسی کے کمرے میں ہم سب جمع ہوکر باتیں کرتے اور چائے پیتے، یا پھر وہ اپنی کسی معشوقہ سے لڑجھگڑ کر اپنی کرن کہانی سناتا کبھی اس کی آواز دھیمی پڑجاتی اور کبھی وہ زور زور سے ہنستا بولتا۔۔۔ ایک شعلہ روشن، گرم، لرزتا ہوا۔
آکسفرڈ سے کبھی کبھی ڈاکٹر جیوتی گھوش آجاتے تھے۔ ان کے علم و فصل کاہم پر بڑا رعب تھا۔ انہوں نے انگریزی ادب میں آکسفرڈ یونیورسٹی کی جتنی ڈگریاں ممکن تھیں حاصل کرلی تھیں۔ ایک پرانے زمانے کے انگریز شاعر پر ان کی دو ضخیم کتابیں حال ہی میں چھپی تھیں اور انہوں نے انگلستان میں زبان انگریزی کے ماہروں میں اپنے لیے جگہ بنالی تھی۔ ایک ہندوستانی کے لیے کافی بڑی بات تھی، باوجود ان تمام باتوں کے ان میں دقیانوسیت نہیں تھی۔ وہ آکسفرڈ میں بنگالی کے لیکچرر تھے اور انہیں بنگالی ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ عام طور پر وہ ادب میں فنی کمزوری کو برداشت نہیں کرسکتے تھے وہ ہندوستانی ادب کو پرانے تصوفانہ (ویدانتک) بندھنوں سے پاک دیکھنا چاہیے تھے۔ پرانی ہندوستانی شاعری (ہندی اور بنگالی) کی مخصوص بچار دھارا یعنی مذہبی عقیدت مندوں میں غلو کے وہ شدید مخالف تھے۔
سنگھ سے مجھے آنند نے ملایا۔ یہ اس زمانے میں لارنس اور جوائس کے طرزوں کو ملاکر ایک ناول انگریزی میں لکھ رہے تھے۔ بڑی عسرت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ خدا معلوم کس طرح زندہ رہتے تھے۔ انگریزی خوب اچھی جانتے تھے۔ سوشلسٹ تو شاید تھے لیکن مارکسٹ سے بہت اختلاف رکھتے تھے ہم تو ان کو عینی (آئیڈیلسٹ) سمجھتے تھے، لیکن وہ خود کہتے تھے کہ وہ اپنے کو کسی سسٹم سے باندھنا نہیں چاہتے۔ بہرحال ان سے بھی خوب بحثیں رہیں۔ ہم سب امید لگائے تھے کہ ان کی کتاب جلد چھپے تاکہ وہ بھی باقاعدہ مصنفین کی صف میں جگہ پائیں۔ کچھ دن بعد ان کا ناول چھپا اور اس کے بعد انہوں نے گوتم بدھ پر ایک موٹی کتاب انگریزی میں شائع کی۔
انگریزوں میں یوں توہم بہتوں سے ملتے جلتے رہتے۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ناقل ذکر ہے رالف فاکس، گو ہم سے سن میں آٹھ دس سال بڑا رہا ہوگا لیکن وہ ہم سے اس طرح سے گھل مل جاتا کہ نسل، عمر، زبان کا امتیاز مٹ جاتا اور یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک مشہور اور مستند انگریزی مصنف ہے اور ہم صرف مصنف بننے کے آرزومند۔ ایک دن میں نے اسے شام کے کھانے پر اپنے کمرے پر مدعو کیا تھا۔ خاص طور پر ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے بارے میں باتیں کرنے کے لیے۔ میرے ایک بنگالی دوست نے کھچڑی اور پلاؤ کے قسم کی ایک درمیانی چیز پکائی تھی۔ فاکس نے بڑے شوق سے کھایا، پھر دیر تک اس نے اپنے ہندوستان آنے کے منصوبوں کا ذکر کیا۔
ادبی بات چیت کے سلسلہ میں اس نے بار بار یہی کہا کہ ہمیں ترقی پسندی کے جوش میں تنگ نظری اور تعصب سے بچنا ضروری ہے۔ ہمارے ایک بنگالی ساتھی نے رابندرناتھ ٹیگور پر اعتراض کرتے ہوئے ٹیگور کو ہندوستان کے سرمایہ دار طبقہ کا نمائندہ کہہ کر رجعت پسند قرار دیا تھا۔ فاکس اس پر بہت برہم ہوا۔ اس نے کہا کہ اس قسم کی باتیں کرنا اصل میں مارکسیت کا خاکہ اڑانا ہے۔ کسی شاعر یا مصنف کو اتنی آسانی کے ساتھ ایک خاص تخئیلی خانہ میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فاکس اپنی کتاب ’’چنگیز خاں‘‘ لکھ رہا تھا۔ فاکس کے بھورے بال نیلی آنکھیں، خاص طور پر اس کی شگفتہ بے تکلف ہنسی کی یاد، دوسری طرف اسپین میں دوبرس بعد اس کی موت، ایک آزادی کے سپاہی کی حیثیت سے میدان جنگ میں سرمایہ دارانہ رجعت پسندی سے لڑتے ہوئے، یہ مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔ کبھی نہیں۔
ایک دن کئی آدمیوں کے مشورے سے میرے کمرے میں باقاعدہ میٹنگ ہوئی جس میں چھ سات آدمی سے زیادہ نہ تھے اور ہم نے ’’انڈین پروگریسو رائٹرس ایسوسی ایشن‘‘ کو آرگنائز کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنالی۔ پہلے تو کام بہت ڈھیلا رہا لیکن جلد ہی سب کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ اور یہ طے ہوا کہ اپنے مقاصد کا مختصر اظہار ایک مینی فیسٹو (اعلان) کے ذریعے کرنا چاہیے۔ چار یا پانچ آدمیوں کے سپرد یہ کام کیا گیا۔ آنند نے پہلا مسودہ تیار کیا، وہ لمبا بہت تھا۔ پھر یہ کام ڈاکٹر گھوش کے سپرد ہوا۔ انہوں نے اپنا مسودہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا، پھر میرے ذمہ یہ کام کیا گیا کہ آنند اور گھوش کے مسودوں میں ترمیمیں کرکے (جن کے بارے میں کئی کئی بار گھنٹوں بحثیں کی گئیں تھیں) آخری مسودہ کمیٹی کے سامنے پیش کردوں۔ بڑے جھگڑے بکھیڑے اور ایک ایک جملے اور لفظ پر لمبی بحثوں کے بعد آخر کمیٹی نے مسودہ منظور کیا۔
ہم نے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی پہلی باقاعدہ میٹنگ منعقد کی۔ اس درمیان میں لندن، آکسفرڈ اور کیمبرج کے ادبی ذوق رکھنے والے۔ ہندوستانیوں میں ہم نے کافی پروپیگنڈہ کرلیا تھا۔ لندن کا ایک چینی ریستوراں والا ہم پر خاص طور پر مہربان تھا وہ اپنے غریب پرور ریستوراں کاایک پیچھے کا کمرہ ہمیں اپنی میٹنگوں کے لیے مفت دے دیا کرتا تھا۔ اس چھوٹے سے بے ہوا کے تہہ خانے کے کمرے میں چالیس پچاس آدمی ٹھس سکتے تھے وہیں ہماری پہلی باضابطہ میٹنگ ہوئی۔ ملک راج آنند پریسیڈینٹ چنے گئے اور پھر ہم نے کمیٹی کی طرف سے مینی فیسٹو کا مسودہ پیش کیا۔ جو چند مرید ترمیموں کے بعد ایسوسی ایشن نے منظور کیا۔ ہم تین چار جو ایسوسی ایشن کے اگزیکٹو میں چنے گئے، اس میٹنگ سے بہت مطمئن تھے۔ لندن میں تیس پینتیس ہندوستانیوں کو اکٹھا کرلینا ہی بڑی بات تھی، دوسرے یہ کہ مینفیسٹو کا مرتب ہوجانا ہمارے اپنے خیالات کو، جو ابھی تک منتشر سے تھے، منضبط کرنا تھا۔
ترقی پسندی کیا ہے، ترقی پسند مصنفین کا مقصد کیا ہے، انہیں کس طرح کام کرنا چاہیے۔ ان سوالوں کا جواب ابتدائی شکل میں میں ہمارے اعلان میں موجود تھا اور یہ بڑی بات تھی۔ جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ابھی تک (۱۹۴۰ء) یہ بحثیں ہمارے رسالوں میں جاری ہیں، جیسا کہ ہونا بھی چاہیے، تو اس اعلان کی جامعیت کی قدر اور زیادہ ہوجاتی ہے۔
اب پی۔ ڈبلو۔ اے (جس نام سے ہم اپنی انجمن کو لندن میں پکارتے تھے) کے جلسے مہینے میں ایک یا دو مرتبہ لندن میں ہونے لگے۔ ایک مرتبہ کلکتہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سونیتی کمار چٹرجی نے رومن لیپی کی حمایت میں ہماری انجمن میں تقریر کی۔ ہم لوگ خود بھی رومن لیپی کو اپنانے کے قائل تھے۔ ان کی سائنٹفک تقریر کے بعد تو بالکل ہی اصلاح کے موافق ہوگئے۔ تمام ہندوستان میں ایک رسم الخط کا خیال بہت دلکش تھا۔ اور لندن میں تعصب اور جذبات کی وہ آگ جو ہندوستان میں اس مسئلے کے چھیڑنے سے دہک اٹھتی ہے، بالکل نہ تھی۔ ہندی اردو والے مدراسی، بنگالی اور گجراتی غرض کہ ہندوستان کے ہر حصہ کے نوجوان وہاں موجود تھے۔ اور سب نے ایک رائے ہوکر یہ طے کرلیا کہ ترقی پسند مصنفین کو رومن لیپی کا پروپیگنڈہ کرنا چاہیے۔
ایک جلسے میں ایک بنگالی ممبر نے قاضی نذرالاسلام کی شاعری پر ایک مضمون پڑھا اور اس کی انقلابی اہمیت بتائی۔ یہ مضمون انگریزی میں تھا ہمارا دستور یہ تھا کہ ہر جلسہ میں مضمون یا افسانہ پڑھے جانے کے بعد اس پر بحث اور تنقید کرتے تھے۔ بعد کے جلسوں میں ایک بار آنند نے اپنا ایک افسانہ ’’دی ٹرورسٹ‘‘ سنایا جو بعد کو امریکہ کے رسالہ ’’ایشیا‘‘ میں شایع ہوا۔ پھر میں نے اپنا اردو کا ایک ایکٹ کا ڈرامہ ’’بیمار‘‘ پڑھا ’’انگارے‘‘ کی کہانیوں کے بعد یہ میری پہلی تصنیف تھی۔ ہماری انجمن میں اردو داں کم تھے، اس لیے ڈاکٹر تاثیر (جو اس زمانہ میں کیمبرج میں پڑھتے تھے) اور سنگھ اور آنند کی تنقید نے مجھے کافی خوش کیا۔ لیکن میرے دل میں چور تھا۔ بھلا چند افسانے اور ایک چھوٹے سے ڈرامہ کو لکھ کر مصنف بن بیٹھنا، یہ کوئی بات تھی! ’’انگارے‘‘ کی شہرت لندن کے ہندوستانیوں تک پہنچ چکی تھی۔
مجھے اس کی تو خوشی تھی کہ ادبی میدان میں میری ابتدائی کوشش نے قلاعوذیوں کی داڑھیاں جھلسادی تھیں، اس سے بھی اطمینان تھا کہ عبدالحق کے ’’اردو‘‘میں ان افسانوں کو اچھا کہا گیا تھا، لیکن اپنی ادبی قابلیت کے بارے میں مجھے کسی قسم کا مغالطہ نہیں تھا! اس ادبی ہلچل میں، اپنے ضمیر کی سالمیت کو بچانے کے لیے، میں نے ’’لندن کی ایک رات‘‘ لکھنا شروع کردیا۔
یہ تو ہم شروع ہی سے سمجھتے تھے کہ لندن میں رہ کر ہندوستانی ادب پر اثر ڈالا جاسکتا ہے اور نہ کوئی اعلیٰ قسم کا تخلیقی کام ہی ہوسکتا ہے۔ لندن کی انجمن کے قائم ہونے سے جہاں بہت فائدے ہوئے، وہاں یہ احساس بھی پکا ہوگیا۔ دس پانچ جلاوطن ہندوستانی سوا اس کے کہ آپس میں مل جل کر طرح طرح کے منصوبے باندھیں، اور یورپی کلچر سے اثر قبول کرکے یتیم قسم کا ایک ادب پیدا کریں، زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔ سب سے بڑی بات جو ہم نے اس زمانے میں یورپ میں سیکھی وہ یہی تھی کہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک اسی وقت بار آور ہوسکتی ہے جب ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اس کی ترویج ہو، اور جب ہندوستان کے ادیب اس تحریک کی ضرورت کو سجھ کر اس کے مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔ لندن کی انجمن کا بہترین کام یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مغرب کی ترقی پسند ادبی تحریکوں سے ہمارا رشتہ جوڑے، ہندوستانی ادب کی مغرب میں نمائندگی کرے، اور مغربی ادیبوں کی تخئیل اور ان جدید معاشرتی مسائل کی ہندوستان میں ترجمانی کرے جو مغرب میں ادب پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔
ٹھیک اسی وقت فرانس میں چند ایسے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے ہمیں اپنے ارادوں میں بڑی مدد ملی۔ میں نے شروع میں ذکر کیا کہ فرانس میں فاشزم کے خلاف متحدہ محاذ کی تحریک ۱۹۳۳ء سے شروع ہوچکی تھی اور درمیانی طبقے پر بھی مزدوروں کے متحدہ محاذ کے اردگرد کھنچے چلے آرہے تھے۔
مشہور فرانسیسی ادیب ہنری باربس کی لگاتار کوششوں کے نتیجہ یہ ہوا کہ پیرس میں جولائی ۱۹۳۵ء میں ایک ’’ورلڈ کانگریس آف رائٹرس فاردی ڈفنس آف کلچر‘‘ یا ’’بین الاقوامی مصنفین کی کانگریس برائے تحفظ کلچر‘‘ ہونا قرار پائی۔ اس کانفرنس کو مدعو کرنے والوں میں میکسم گورکی، رومین رولان، آندرے مالرو، ٹامس مان، والڈوفرینک جیسی شہرۂ آفاق ہستیاں تھیں۔ یہ اجتماع جو پیرس کے ایک مشہور ہال ’بال بوائے‘ میں ہوا، دنیائے ادب میں بہت بڑی تاریخی اہمیت رکھتا ہے یہ پہلا موقع تھا جب قریب قریب دنیا کی ہر مہذب قوم کے ادیب باہم صلاح و مشورہ کے لیے ایک مقام پر جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلی بار یہ محسوس کیا کہ تہذیب و تمدن کو رجعت پسندی اور تنزل کی اٹھتی ہوئی لہر سے بچانے کے لیے ان کو انفرادیت کو خیرباد کہہ کر خود اپنی جماعت کو منظم کرنا ضروری ہے۔ صرف یہی ایک موثر طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے وہ ترقی و فلاح کی قوتوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کو افزائش و نشوونما کا پورا پورا موقع دے سکتے ہیں اور اس طرح جماعتی حیثیت سے اپنی ہستی کو ایک انقلاب انگیز عہد میں فنا ہوجانے سے بچاسکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اتنی بڑی کانفرنس میں مختلف خیال اور عقیدے کے ادیب جمع تھے لیکن ایک چیز کے بارے میں وہ سب متفق تھے وہ یہ تھی کہ ادیبوں کو اپنے پوری طاقت کے ساتھ آزادیٔ خیال و رائے کے حق کے تحفظ کی کوشش کرنا چاہیے۔ فاشزم یا سامراجی قوتیں جہاں بھی ادیبوں پر جابرانہ پابندیاں عائد کریں، یا ان کے خیالات کی بنا پر ان پر مظالم کریں، اس کے خلاف پرزور احتجاج کرنا چاہیے۔ دوسری چیز جو اس کانفرنس میں سب محسوس کرتے تھے یہ تھی کہ ادیب اپنے حقوق کا بہترین تحفظ اسی حالت میں کرسکتے ہیں جب وہ عوام کی آزادی کے ’’متحدہ محاذ‘‘ کا جزو بن کر، محنت کش طبقوں کی پشت پناہی حاصل کریں۔ فرانس اور چین کے مصنفین کا تجربہ اسی خیال کے ٹھیک ہونے کا ثبوت تھا۔
چین کے بہترین لکھنے والے، شاعر، ناولسٹ، ڈرامہ نگار، ماہر تعلیم و فلسفی وغیرہ ایسے وقت جب کہ چین جاپانی سامراج کے خلاف، بڑی سخت لڑائی لڑ رہا ہے، اپنی ساری لیاقت کو اپنے ملک کی جنگِ آزادی کو کامیاب بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔ ’’چینی مصنفین کی انجمن‘‘ سامراج دشمن متحدہ محاذ کا ایک اہم حصہ ہے، جو چینی عوام کی تمام لطیف ادبی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے، چینی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت، جاپان کے خلاف جنگ، کے اصلی روپ رنگ کو عوام کے سامنے رکھ کر ان کو نفسیاتی طور سے جنگِ آزادی کے لیے تیار کرتی ہے۔ فرانس کے بڑے بڑے ماہرین سائنس، فلسفی، شاعر، ناول نگار اور دوسرے ادیبوں نے بھی ہنری باربس کی رہنمائی میں اپنا ایک ادارہ فاسشیت کے خلاف جدوجہد کے لیے قائم کرلیا تھا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان صاحبانِ علم و فضل کی ان تھک کوششوں اور ان کے عام اثر کا ہی بڑی حد تک نتیجہ تھا کہ فرانس میں درمیانی طبقے بھی مزدوروں کی متحدہ محاذ کی تحریک میں شامل ہوتے جارہے تھے اور وہ پاپولر فرنٹ یا ’عوامی محاذ‘ قائم ہوتا جارہا تھا جس کی بالآخر وسط ۱۹۳۶ء میں وزارت بن گئی۔
اس کے علاوہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ادیبوں کی ایک علیحدہ انجمن تھی جس کا اپنا ایک ماہنامہ بھی تھا۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کے اجلاس اور اس کی کمیٹیاں پیرس میں کئی دن تک منعقد ہوتی رہیں۔ کھلے اجلاسوں میں ہزارہا آدمیوں کا مجمع ہوتا تھا اور ہال میں جس میں داخلہ ٹکٹ سے تھا۔ تل رکھنے کی جگہ نہ ہوئی سب سے بڑی خاص بات یہ تھی کہ مزدور جماعت کے لوگ یہاں بکثرت تھے وہ گویا اپنی موجودگی سے ادیبوں اور عوام الناس کے اس نئے سرے سے قائم کیے ہوئے رشتے کا بین ثبوت دے رہے تھے۔ جس کے لیے خاص طور پر یہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ ادیبوں کی جماعت، موجودہ سرمایہ دارنہ دور میں عوام سے الگ ہوگئی ہے۔ وہ ان سے کچھ خائف بھی ہے، اور اس کے دل میں ان کے لیے کچھ حقارت بھی پوشیدہ ہے۔ بہرحال وہ ان سے غیرمانوس ہے۔
جدید ادب کے ایک بڑے حصے کی روحانی طور سے مفلوج ہونے کی وجہ ادیبوں کی زندگی کے سرچشمے، یعنی محنت کس طبقوں کی حیات سے دوری ہے۔ روس کے مصنفین کے وفد کا اس کانفرنس میں بڑا شاندار خیرمقدم ہوا، جس کی وجہ یہی تھی کہ اس جدید اشتراکی معاشرت مصنف اور اس کی پبلک کے درمیان کا فاصلہ اب باقی نہیں رہ گیا۔ اشتراکی مصنف عوام کا ہے اور عوام اس کے ہیں۔ ان مصنفوں میں اتحاد اشتراکیہ سوویٹ کی مختلف قوموں کے نمائندے تھے جن میں تاتار، ازبیک اور تاجک مصنف تھے (تاجکستان کی سوشلسٹ ریاست کشمیر کے شمال میں ہے اور وہاں کے لوگ فارسی بولتے ہیں۔)
افسوس ہے کہ جہاں اکثر مشرقی اقوام کے نمائندے موجود تھے، چینی، جاپانی، ایرانی، ترک، عرب، تاتار وغیرہ۔ وہاں اس تاریخی موقع پر ہندوستان کے مصنفین کی نمائندگی کے لیے صرف جناب صوفیہ وادیا صاحبہ، بمبئی کی ایک پارسی خاتون تھیں، گویا یوں کہنا چاہیے کہ ہندوستان وہاں موجود نہ تھا کیوں کہ ان خاتون کا نہ ہونا ان کے ہونے سے بہتر ہوتا! اور رہ گئے ہم لوگ، تو ہم مٹھی بھر نوجوان ہرگز اس مغالطہ میں نہیں تھے کہ ہندوستان کے عظیم الشان ادب کی ہم اس اجتماع میں نمائندگی کرسکتے تھے۔ علاوہ بریں ہم کو ہندوستان کی کسی ادبی جماعت کی طرف سے اس طرح کی نمائندگی کا حق بھی نہیں دیا گیا تھا۔
اس کانفرنس کے ہوجانے کے بعد ساری دنیا کی ترقی پسند ادبی تحریک کا ایک بین الاقوامی مرکز پیرس میں قائم ہوگیا۔ جس کے کارکن اس کانفرنس کے نمائندوں نے ہی چنے۔ دنیا کی مختلف قوموں میں ترقی پسند ادیبوں کی تحریک اب صرف تخیلی طور سے نہیں بلکہ تنظیمی طور سے بھی ایک رشتہ میں منسلک ہونے لگی۔ بین الاقوامی کلچر کی تخلیق میں یہ ایک بڑا قدم لیا گیا تھا۔ ہماری ترقی پسند انجمن نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ باقاعدہ اس بین الاقوامی ادبی مرکز سے ملحق ہوجائے اور بعد کو جب ہندوستان میں ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم ہوجائے، تو پھر اس مرکزی ہندوستانی انجمن کی ایک بیرونی شاخ کی حیثیت سے وہ اس اعلان کو قائم رکھے اور مرکزی انجمن کی ہدایات کے مطابق بیرونجات میں ہندوستانی ادب کی نمائندگی کرے۔
اس درمیان میں، میں قانونی تعلیم کا سلسلہ ختم کرکے لندن و انگلستان کو آخری خیرباد کہہ کر کچھ دنوں کے لیے پیرس میں مقیم تھا۔ یہاں میں اپنے دوست شوکت اللہ انصاری کے ساتھ رہتا تھا جو اس زمانے میں پیرس میں ڈاکٹری پڑھتے تھے۔ میرا زیادہ تر وقت لندن کی ایک رات لکھنے میں صرف ہوتا۔ میں چاہتا تھا کہ اس ناول کو ختم کرلوں پھر وطن واپس آؤں، کیوں کہ یہ سمجھتا تھا کہ ہندوستان پہنچ کر شاید فرصت نہ ملے۔
موسم سرما کے آخری دن تھے جب میں پیرس آیا۔ کشادہ سڑکوں کی پٹریوں پر لگے ہوئے چار رویہ اور شش رویہ پیڑوں کی پتیاں ہری بھری تھیں۔ دریائے سیلن اپنی پوری بہار پر تھا اس کے کنارے پرانی کتب فروشوں اور دوسری سیکنڈ ہینڈ چیزوں کی دوکانوں پر لوگ کھڑے کتابوں کو الٹتے پلٹتے رہتے۔ آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آتے۔ دریا کے داہنے کنارے پر ’’نوتردام‘‘ کے مشہور گرجا کے دو بڑے چوکور مینارے اوپر اٹھے ہوئے دکھائی دیتے اور اس بلندی سے اس پر نصب کیے ہوئے عجیب و غریب بھیانک شکل کے شیاطین کے بت، نیچے چلتی پھرتی ہوئی انسانوں کی دنیا کا مذاق اڑاتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ وہاں سے کوئی دو میل کے فاصلے پر، اسی کنارے لوور کے محل کا منظر ہے اور پھر اسی سے ملا ہوا توئی لری کا باغ ہے۔ پیرس کے اس حصہ کا چپہ چپہ تاریخی ہے اور دنیا کے بہترین آرٹ کے خزانوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ گرمیوں کی لمبی شام کو لوور کی سیاہ دیواریں، ان کے اردگرد کے سرسبز درخت اورمول کے دونوں بازوؤں کے بیچ فصلی پھولوں کے بڑے بڑے خوشنما تختے، جابجا فرانس کے مشاہیر کے مجسمے یا پھر یونانی دیوتاؤں اور دیویوں کے قدآدم بت، درمیانی سڑک پر موٹروں کا ایک بہتا ہوا دریا، توئی لری باغ کے بڑے بڑے خوبصورت پیڑ، بینچوں پر نوجوان عاشق اور ان سے لگی بیٹھی ان کی محبوبہ، ایک وسیع حوض اور اس کے بیچ میں والہانہ اچھلتا ہوا فوارہ، اس کے کنارے بچے کھلونے کی ناؤ چلاتے ہوئے، شام کا اندھیرا بڑھتا جاتا ہے، ہم باغ کی ایک بلند سطح سے پچھم کی طرف دیکتے ہیں۔
ایک بڑا چوکور میدان جس کے اردگرد کالی کالی کول تار لگی چمکتی ہوئی سڑکیں، بیچ بیچ میں ایک پتھر کی گاؤ دم لاٹ مصری، جس پر قدیم مصری حروف کندہ ہیں۔ یہ بالکل اس مقام پر کندہ کی گئی ہے جہاں انقلاب کے وقت وہ گلوٹین(سولی) تھی جس پر کوئی سیزدہم، اس کی ملکہ ماری انتونی ایت اور دوسرے سینکڑوں انقلاب دشمن امراء کے سرقلم ہوئے تھے۔ اس کے ہر چہار طرف حوض اور فوارے اور تیز روشنیوں کا ہجوم، درمیان سے نکلی ہوئی دنیا کی وہ مشہور سڑک سانزا ایلینزے جس کے معنی ہیں خطۂ ہائے بہشت، بہت چوڑی، اپنے دونوں طرف درختوں کی قطاروں کا ایک جنگل لیے ہوئے اور پھر اس کے آخر میں توئی لری سے صاف نظر آتا ہوا، کوئی دو میل کے فاصلے پر سڑک کی دوسری حد پر آرک دتر یوسف یا درفتح، بلند و ارفع، کافی رعب دار لیکن خوبصورت بھی، نپولین کا تعمیر کیا ہوا، ٹھیک اسی جگہ، حدِ نظر پڑ ڈوبتے ہوئے سورج کی سرخی سے فضا رنگین ہے۔
اتنی بہت سی تیز تیز چلتی ہوئی موٹروں کے باوجود بھی یہاں اس وقت کچھ سکون سا ہوجاتا ہے۔ انسانیت اور قدرت کی ہم آہنگی ایک خاموش، درد انگیز مسرت۔ یہاں ہم زیادہ دیر رک نہیں سکتے، کیونکہ شام کا اندھیرا بڑھنے پر توئی لری باغ بند ہوجاتا ہے اس کے ایک کنارے سے باغ کا محافظ پوں پوں بھونپو بجاتا ہوا چلا آرہا ہے اور باغ میں بیٹھے ہوئے عشاق کے جوڑے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بادلِ ناخواستہ باہر نکل رہے ہیں۔
یہ وہ شہر تھا جسے پیرس والے ملکۂ جہاں کہتے تھے۔ جیسے شاید میں آخری بار دیکھ رہا تھا، محسوس کر رہا تھا، یہی وہ بھی دن تھے جب ہماری نوخیز امیدوں کے چراغ کو فرانسیسی مزدوروں اور عوام الناس کے متحدہ محاذ کی تحریک نے روشن کردیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ شعلہ اب دن بدن تیز ہوتا جائے گا۔ یوروپ کے دوسرے ملکوں میں بھی اس کی تمازت پہنچے گی۔ رفتہ رفتہ انقلاب کی آگ بھڑک اٹھے گی اور آخر میں ہماری نئی دنیا، نئے آسمان، نئی زمین بلکہ نئے انسان کی تعمیر ہوگی۔ ہم اپنے راستہ کو یہ تو ضرور سمجھتے تھے کہ بہت مشکل ہوگا، اتنا پیچیدہ ہوگا جیسا کہ اب دوسری عالمگیر جنگ کے چھڑ جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے۔ یہ اس بہار کی حرارت انگیز فضا میں وہم و گمان تک نہ تھا!
جدید ادبی تحریک کے مرکز میں قیام کو میں نے اپنی تہذیب دماغ کے لیے مناسب سمجھا۔ افسوس کہ بین الاقوامی کانفرنس کے چند ہی دنوں بعد باربس کا انتقال ہوگیا۔ اس لیے اس عظیم الشان ہستی سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ کئی سال پہلے میں اس کی تقریر سن چکا تھا، لیکن بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ باربس کے جنازے کے ساتھ کئی لاکھ آدمیوں کا ہجوم تھا اور پیرس کے اطراف میں رہنے والے تمام مزدور اس ادیب رہنما کے آخری درشن کے لیے شہر میں امنڈ آئے تے۔ شاید اس وقت تک دنیا میں کسی ادیب کا جنازہ اتنی شان سے نہ نکلا ہو۔
اتنی عقیدت مندی، خلوص و محبت، غم کا اظہار عوام الناس نے شاید ہی کسی دوسرے مصنف کے ساتھ کیا ہو ان کے لیے یہ دبلا پتلا لمبا سا زرد رو شخص، جس کے کندھے کچھ جھکے ہوئے تھے، جس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران میں لڑائی کی ٹھنڈی اورنم خندقوں سے تپ دق کا تحفہ پایا تھا اور جس نے اس سرمایہ دارانہ بہیمیت کے خلاف اپنی پرجوش آواز اپنے ناول ’’آگ‘‘ میں بلند کی تھی صرف ایک پرزور مصنف نہ تھا، وہ نشان تھا انقلابی انسانیت کی جدوجہد کا مستقبل کی درخشاں امیدوں کا۔
اس زمانہ میں پیرس کی ادبی دنیا میں آندرے جید کے قلب ماہیت نے ایک کہرام مچادیا تھا۔ آندرے جید کا رتبہ جدید فرانسیسی ادب میں بہت بڑا ہے حالاں کہ بیرو نجات میں جدید فرانسیسی ناول نگاروں میں رومین رولاں، اناطول فرانس، مارسل پروست چوٹی کے لوگ گنے جاتے ہیں، لیکن فرانسیسی ادبی نقادوں کے نزدیک جید کا درجہ ان سے کچھ نیچا نہیں، بلکہ اوپر لکھے ہوئے تینوں ادیب (جن میں سے صرف رولاں اب زندہ ہیں) جدید ترین نہیں سمجھے جاتے تھے، اور آنحالیکہ آندرے جید کی مقبولیت ۱۹۳۵ء میں دن بہ دن ترقی پر تھی۔
جید کی بین الاقوامی ادیبوں کی کانفرنس میں شرکت سے ہی فرانس کے قدامت پسند نقادوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے ان کے لیے یہ بڑی تکلیف دہ بات تھی کہ وہ شخص جس کے فلسفۂ زندگی کی بے عنوانیوں اور شرارتوں سے وہ محظوظ ہوتے تھے اور جس کے طرز تحریر کی نفاست سے ان کے مضطرب ادبی ضمیر کو تسکین ملتی تھی، یکایک میلے کچیلے مزدوروں کے مجمع میں جاکر تقریر کرے اور اپنی ادبی خدمات کو عوام الناس کے لیے وقت کردینے کا وعدہ کرے۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ جس طرح آندرے جید کافلسفۂ گناہ، کوئی سنجیدہ فلسفۂ زندگی نہیں، اسی طرح اب جید کانفرنس کی عوامی تحریک کے ساتھ ملحق ہونا بھی ایک غیر سنجیدہ فعل ہے۔ لیکن جب جید کی کتاب ’’پے نوِدل تور‘‘ یا ’’غذائے نو‘‘ کانفرنس کے کچھ ہی دنوں بعد چھپی تو پھر تو جید کے پرانے دوستوں کے غصہ کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ اس کتاب میں جید نے، جو کہ ہمیشہ سے مروجہ اخلاق کے خلاف انفرادی بغاوت کا سبق دیتا آیا تھا، اور جو ارتکاب گناہ کو انسان کی روحانی تکمیل اور نجات کے لیے ضروری بتاتا تھا، اشتراکیت کے نصب العین کو قبول کرکے کہا کہ انفرادیت کا بلند ترین درجہ اشتراکیت ہے۔
جید کی کتاب شائع ہونے کے کچھ دنوں بعد مجھے ایک بار اس کا موقع ملا کہ میں جید کے جدید ادبی رجحان پر ایک مشہور فرانسیسی ادیب پروفیسر آلبیر سارو کی تقریر سنوں۔ جلسہ فرانسیسی ترقی پسند ادیبوں کی انجمن کے دفتر کے چھوٹے سے ہال میں ہوا تھا۔ اسی جگہ بین الاقوامی ادبی مرکز کا بھی آفس تھا۔ ہال میں مشکل سے دو سو آدمی سما سکتے تھے لیکن اس دن ڈھائی تین سو آدمی گھس پل کر اسی جگہ جمع ہوگئے تھے۔ کرسیاں سب بھر گئیں تھیں اور بہت سے لوگ ادھر ادھر کھڑے ہوئے تھے۔ پروفیسر سارو نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جید کا اشتراکیت کی طرف جھکنا ایک قدرتی امر تھا۔ اس لیے کہ جس شخص کی ساری ادبی کاوش انسان کو خودپرستی اور گناہ کے وسیلے سے مکتی کی راہ دکھانے پر منحصر ہو، وہ اگر ایماندار ہے، تو موجودہ سرمایہ دارانہ سماج میں بھی انفرادیت کے کچلے جانے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے گا۔ اور اس طرح سے لازماً اشتراکیت کے فلسفہ کو صحیح تسلیم کرے گا۔
ایک مشہور قدامت پسند نقاد بھی اس جلسے میں موجود تھے۔ سارو کی تقریر کے بعد جب عام بحث شروع ہوئی تو انھوں نے سارو سے اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ ان کے نزدیک جید کا جدید رجحان اس کے آرٹ کی انحطاط کی نشانی تھا، کیوں کہ جید اب ایک آرٹسٹ کی حیثیت کو چھوڑ کر اپنے فن میں سیاسی جانبداری گھسا رہے تھے، اور بقول اُن کے ایسا کرنا آرٹ کا گلا گھونٹنا ہے۔ بلند پایہ فرانسیسی شاعر اور ناول نگار آراگون بھی اس جلسہ میں شریک تھا۔ اس نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ اس نے جید کے لیے رجحان کو فرانسیسی ادب اور فرانسیسی پاپولر فرنٹ (عوام الناس کا متحدہ محاذ) دونوں کے لیے مبارک شگون سمجھا لیکن ساتھ ہی اس نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جید اگر آج اشتراکیت کے حامی ہیں تو اس کی وجہ زیادہ تر جذباتی ہے۔ وہ مارکسی اشترایت سے دور ہیں جو علمی ہے اور جس کی بنیاد ٹھوس ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ایک آرٹسٹ کے لیے سوشلزم کی طرف اس طریقہ سے آنا ایک قدرتی امر ہے، لیکن اگر وہ جلد ہی اشتراکیت کی عقلی اور علمی بنیادیں مضبوط نہ کرلے، تو کسی بھی پیچیدہ اور نازک تاریخی موقع پر وہ رجعت پسندی کی دلدل میں دوبارہ پھنس سکتا ہے۔ افسوس کہ آراگون کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور آندرے جید ایک سال بعد ترقی پسندوں کی صف سے علیحدہ ہوکر خود پرستی کی کال کوٹھری میں پھر بند ہوگئے۔
اسی سلسلہ میں آراگون کا بھی تذکرہ کردوں۔ گزشتہ جنگِ عظیم کے دوران میں زندگی کا توازن درہم برہم ہوگیا تھا، اس کا اثر ادب اور آرٹ پر بھی پڑا۔ ایک گروہ ادیبوں اور آرٹسٹوں کا یورپ میں ایسا پیدا ہوا جس نے پرانے طرز، طریقوں، جذبات، عقلیت غرض ہر چیز کو ٹھوکر مارکر اپنے آرٹ اور ادب کو مہملیت کی حد تک پہنچادیا۔ ان کی شاعری نہ کسی کی سمجھ میں آتی تھی اور نہ ان کی بنائی ہوئی تصویروں اور جسموں سے ہی کوئی معنی نکلتے تھے یہ تحریک دادا کے نام سے مشہور تھی اور پیرس اس کا مرکزتھا۔ آراگون دادا گروہ کا ایک نوجوان شاعر تھا لیکن جلد ہی اس بغاوت محض و مطلق سے اس نے اپنا دامن چھڑالیا اور فرانس کی جدید شاعری کی پہلی صف میں اپنے لیے جگہ پیدا کرلی۔ سرزمین سوویٹ کا بھی اس نے سفر کیا اور وہاں اپنی آنکھوں سے اشتراکی سماج کی تعمیر کو دیکھا۔ نئے بنے ہوئے بڑے بڑے پانی کے بند، جن سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، نئے نئے کارخانے، مشین سے کھیتی، حکمراں مزدور اور کسان، علم و فن کی روز افزوں ترقی، ان چیزوں کے مظاہرے میں آراگون کو بلند ترین رومانیت نظر آتی، اور اس نے محسوس کیا کہ یہی وہ ذرائع ہیں جو روح انسانیت کو مردہ مادے کی غلامی سے سبکدوش کرکے، آزادی کی فضا میں بالیدگی کا پورا موقع دیں گے۔ سوویٹ کے بارے میں اس نظمیں جو فرانس بھر میں مشہور ہوئیں حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی ان نظموں کی تعریف کی جو اشتراکی نہ تھے۔ ان کے خلوص، جدتِ ادا، جوش کا اعتراف نہ کرنا بہت مشکل تھا۔ میں نے اپنے پیرس کے قیام کے موقع پر آراگون کو فرانسیسی مصنفین و اہل علم کی ترقی پسند تحریک میں پیش پیش دیکھا۔ یہ میانہ قد، چھریرے بدن کا خوبصورت شاعر اور ناول نگار، نہایت عمدہ مقرر بھی تھا اور اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس میں انتظامی قابلیت بھی بہت تھی۔ فرانسیسی ادیبوں کی انجمن کا وہ سیکریٹری تھا اور بین الاقوامی ادیبوں کی انجمن کے نئے قائم شدہ دفتر میں بھی وہ کام کرتا تھا۔ فرانسیسی مزدور جماعت میں وہ بہت ہردلعزیز تھا، اور پیرس کے سب سے زیادہ نفاست پسند نازک مزاج اور مخصوص ترین ادبی حلقوں میں بھی اس کے لیے جگہ محفوظ تھی۔
ایک باہمی فرانسیسی دوست نے میرا تعارف آراگون سے کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے۔ آراگون مجھ سے دیر تک ہندوستانی ادب کے بارے میں پوچھتا رہا۔ میں نے اس سے ترقی پسند مصنفین کی انجمن کا تذکرہ کیا۔ اور کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہندوستان میں بھی اس تحریک کو شروع کیا جائے۔ پھر میں نے آراگون سے پوچھاکہ فرانسیسی اور بین الاقوامی ادیبوں کی انجمن کے بارے میں اس کے تنظیمی تجربات کیا ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس نے خاص فرانسیسی طرز سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ہنس کر جواب دیا۔ یہ نہ پوچھیے! ادیبوں کی تنظیم سے بڑھ کر مشکل دنیا میں اور کسی جماعت کی تنظیم نہیں۔ ہر ادیب اپنا راستہ الگ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم ہمیں یہ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ زمانہ کے حالات خود ادیبوں کو اپنے آرٹ کی حفاظت اور ترقی کے لیے تنظیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘
جب میں آراگون سے مل کر اپنی قیام گاہ پر جانے کے لیے باہر نکلا تو شام کا اندھیرا چھا گیا تھا۔ سڑکوں پر روشنیاں تیزی سے چمک رہی تھیں۔ میرا مکان کافی دور تھا میں ایک بس میں بیٹھ گیا۔ بس کا راستہ پیرس کے سب سے شاندار بازار کی کشادہ سڑکوں سے ہوکر گزرتا تھا جو ’’گراں بُوبوار‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ لفظ رونق کا مفہوم سمجھنے کے لیے یہاں سے بہتر شاید ہی دنیا میں کوئی اور جگہ ہو۔ فرانسیسیوں نے اپنی دوکانوں، قہوہ خانوں، رستوراں، سینما اور تھیٹر کے دروازوں پر روشنی کی فراوانی سے ہر رات شب برات بنادی تھی۔ اور پھر یہاں پر چہل پہل بھی خوب تھی۔
سڑک کی پٹریوں سے ملے ہوئے قہوہ خانوں میں لوگ بھرے تھے، ساتھ ہی مجھے آراگون کے آخری ناول ’’لے کلوش د بال‘‘ یعنی ’’شہر بازل کے گھنٹے‘‘ کی ہیروئن کا خیال آیا۔ میں نے حال ہی میں اس ناول کو پڑھ کو ختم کیاتھا۔ وہ لڑکی بھی فرانس کی تھی، جس کی زندگی محبت کی برکت حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ اس کے جذبات کی انانیت اور سرمایہ دارانہ معاشرت کی انائیت نے ایک لطیف انسانی روح کو کچل ڈالا۔ اور شاید اس چمک دمک اور طمطراق کے مقابلہ میں فرانس کی مقید لیکن زندہ دلگداز انسانیت کی زیادہ صحیح ترجمانی اسی شخصیت سے ہوتی تھی۔
جب میں پیرس سے وطن لوٹنے کے لیے روانہ ہوا تو پت جھڑ شروع ہوگیا تھا، درختوں کی سبزی غائب ہوچکی تھی، پتیاں، پیلی، سرخی مائل، سرخ تھیں، ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ دھوپ جب نکلتی تھی تو معلوم ہوتا تھا اس میں سے کسی نے گرمی کھینچ لی ہے اور خالی روشنی چھوڑ دی ہے۔ یورپ چھوڑنے کے لیے ایسا ہی موسم مناسب ہے۔ مجھے ایک اطالوی جہاز سے آنا تھا اس لیے جینوا جانا پڑا۔ یہاں کی فضا میں جنگ کے بادل گھرے ہوئے تھے، اٹلی اور حبش کی لڑائی چھڑ چکی تھی، چاروں طرف فوجیں ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں۔ جہاز حالانکہ ہندوستان جارہا تھا لیکن اس پر انگریز اور ہندوستانی قریب قریب ندارد تھے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ شاید انگلستان اور اٹلی میں بھی لڑائی چھڑ جائے اور اس حالت میں ہم برطانوی رعایا ہونے کے ناطہ، اٹلی کے قیدی ہوجائیں گے۔ برطانوی غلام اور اٹلی کے قیدی میں کچھ زیادہ فرق نہ سمجھ کر میں نے اس خطرہ کی زیادہ پرواہ نہ کی اور چوں کہ میں پہلے ہی سے اطالوی جہاز کا ٹکٹ خرید چکا تھا، اسی پر سفر کرنا مناسب سمجھا۔
جہاز سنسان تھا بہت سے اطالوی مزدور حبش جانے کے لیے مساوا تک جارہے تھے، لیکن وہ ہم سے علیحدہ تھے میں اکیلا اِدھر ادھر خالی ڈکوں پر ٹہلتا اور زیادہ تر وقت اپنے ناول کی تحریر میں صرف کرتا۔ بحیرہ روم نیلا اور پرسکون نہ تھا، بلکہ سیاہی مائل سفید ہو رہا تھا اور کافی خشمگیں بھی تھا۔ ایک دن خبر ملی کہ اطالوی مزدوروں میں سے ایک نے سمندر میں کود کر خودکشی کرلی۔ جہاز کچھ دیر کے لیے سمندر میں رکا، لیکن اس بدنصیب کی لاش تک کا پتہ نہ چلا۔ آخر اس بے چارے نے حبش جاکر اطالوی سامراج کے لیے سڑک بنانے کے مقابلہ میں موت کو کیوں ترجیح دی یہ سوال بار بار میرے دماغ میں اٹھتا تھا لیکن وہاں اس کا جواب کون دیتا؟
میرے کیبن (کمرہ) کے ساتھی فرانس میں افغانی سفارت خانہ کے ایک معزز عہدہ دار آغا صاحب تھے۔ جہاز میں وہ صرف مجھ سے ہی بات چیت کرسکتے تھے کیوں کہ وہ صرف فارسی اور فرانسیسی بول سکتے تھے۔ اور جہاز پر اطالوی اور انگریزی ہی سمجھی جاتی تھی۔ انہیں پیرس چھوڑنے کے غم نے دیوانہ بنارکھا تھا۔ جناب کی ایک ہسپانوی معشوقہ اُس مرکز حسن و مستی میں چھوٹ گئی تھی، اور کابل میں ان کی محترمہ خانم اور ماشاء اللہ دو بچے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کشاکش میں کس کا دماغ سالم رہ سکتا تھا؟ وہ اپنا دکھڑا بار بار مجھے سنا کر اپنے سینہ کا بوجھ ہلکا کرتے۔ میں اپنا غم کسے سناتا؟
زندگی کا ایک دور ختم ہوچکا تھا۔ اور خاتمہ ہمیشہ اپنے ساتھ اُداسی لاتا ہے۔ دوسرا اور زیادہ اہم دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ امیدیں اور آرزوئیں ارادے اور منصوبے دل و دماغ میں گردش کر رہے تھے۔
بحر عرب میں موسم معتدل تھا اور سمندر پرسکون۔ رات کو چاروں طرف گھرے ہوئے اندھیرے کے بیچ سمندر میں چاند کے عکس سے دور تک ایک جھلملاتی ہوئی سیمیں لہر سی بن جاتی۔ اس وقت صرف جہاز کے پانی کاٹنے کی سرسراہٹ سنائی دیتی، یا پھر کبھی کبھی میرے افغانی دوست کے گراموفون سے ایک دردانگیز فارسی نالہ بلند ہوتا،
عاشق ریشوی کہ عاشق بدبخت است
گاہے بینی، گہے نہ بینی سخت است
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.