aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ارتعاش"
شرر کاکوروی
1864/65 - 1921
مصنف
پیارے ہتاش
ارتکاز افضل
ارتقا مطبوعات، کراچی
ناشر
ارتقا پبلشنگ ہاؤس، دہلی
ارتقاء پبلیکیشنز، کراچی
ارتقاء سہسرامی
مکتبۂ ارتقا، کلکتہ
اتہاس شودھ سنستھان، دہلی
ارتقا بک کلب، کراچی
ابتہاج خرم
مدیر
ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نےدامان یار سے کوئی نسبت نہیں رہی
برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اس اسپرنگ دار پلنگ پر، جو اب کھڑکی کے پاس سے تھوڑا ادھر سرکا دیا گیا تھا، ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے نہائے ہوئے پتے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھمکوں کی طرح تھرتھرا رہے تھے۔۔۔ اور شام کے وقت جب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی ساری خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد، جب وہ بالکنی میں ذرا تفریح کی خاطر آکھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو، جو ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے پیڑ کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھانس کر اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ہاتھ کے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا۔
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہےکہ جب ہیں سارے ہی تار ٹوٹے تو ساز میں ارتعاش کیوں ہے
منشی کریم بخش اکہرے جسم کا آدمی تھا۔ بڑھاپے نے اس کے بدن کو ڈھیلا کردیا تھا۔ مگر یہ ڈھیلا پن بدصورت معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہاتھوں کی پھولی ہوئی رگیں، سر کا خفیف سا ارتعاش اور چہرے کی گہری لکیریں اس کی متانت و سنجیدگی میں اضافہ کرتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑھاپے نے اس کو نکھار دیا ہے۔ کپڑے بھی وہ صاف ستھرے پہنتا تھا جس سے یہ نکھا...
’’اوئی، اوئی، اوئی۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔‘‘دفعتاً یہ آواز باہر سے اس چوبی کمرے میں کھڑکیوں کے راستے اندر داخل ہوئی۔ ولن صاحب جھٹ سے اٹھ بیٹھے اور اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ مونچھوں والے ایکٹر کے لمبے لمبے کان ایک ارتعاش کے ساتھ اس نسوانی آواز کو پہچاننے کے لیے تیار ہوئے۔ منشی صاحب نے میک اپ ٹیبل پر سے اپنی ٹانگیں اُٹھالیں اور ولن صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔
ریختہ نے قارئین کی سہولت کے لئے صحافت کے ذخیرہ سے چند اچھی کتابوں کا انتخاب کیا ہے جو صحافت کے آغاز و ارتقاء اور اس کی تفصیلی معلومات کے لئے معاون ہیں۔
روشنی کے برعکس حالت کو ہم اندھیرے سے تعبیرکرتے ہیں لیکن شاعری میں یہ اندھیرا پھیل کرزندگی کی ساری منفیت کوگھیر لیتا ہے ۔ یہ صرف ایک پہلوہے ۔ اندھیرے کو اور بھی کئی استعاراتی شکلوں میں استعال کیا گیا ہے ۔ بعض جگہوں پریہی اندھیراجدید زندگی کی خیرہ کن روشنی کے مقابلے میں ایک طاقت بن کرسامنے آتا ہے اورزندگی کی مثبت اقدارکا اظہاریہ ہوتا ہے ۔ یہ صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ تصورات کے دور تک پھیلے ہوئے علاقے کی ایک خارجی علامت ہے ۔
انسانی ذہن سوچتا ہے اس لئے وہ سوال بھی بناتا ہے۔ سوال کا تناظرخود انسان کی ذات بھی ہے، دنیا اوراس کے معاملات بھی۔ کبھی سوال کا جواب مل جاتا ہے اور کبھی خود جواب ایک سوال بن جاتا ہے۔ یہی عمل اپنے وسیع مفہوم میں انسانی ارتقا ہے۔ سوال سے وابستہ اورکئی تناظر ہیں جن کا دلچسپ اظہار ہمارا یہ انتخاب ہے۔
इर्तिआ'शارتعاش
shivering
اردو غزل کا تاریخی ارتقا
غلام آسی رشیدی
شاعری تنقید
اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ
منظر اعظمی
ادبی تحریکیں
اردو ڈراما کا ارتقاء
عشرت رحمانی
ڈرامہ کی تاریخ و تنقید
اردو نثر کا فنی ارتقا
فرمان فتح پوری
تنقید
اردو ناول آغاز و ارتقا
عظیم الشان صدیقی
فکشن تنقید
اردو میں فن سوانح نگاری کا ارتقاء
ممتاز فاخرہ
اردو تنقید کا ارتقاء
عبادت بریلوی
اردو صحافت کا ارتقا
معصوم مرادآبادی
اردو مثنوی کا ارتقاء
عبدالقادر سروری
مثنوی تنقید
اردو افسانے کا ارتقاء
محمد حامد
اردو شاعری کا فنی ارتقاء
اصناف ادب کا ارتقا
سید صفی مرتضٰی
انتخاب
اردو تنقید کا ارتقا
اردو نثر کا ارتقا
عابدہ بیگم
نثر
اردو مرثیے کا ارتقاء
مسیح الزماں
مرثیہ تنقید
’’یہ سب کچھ صحیح زیبا! خیال کرو جب ہماری شادی ہوگی۔۔۔ جب ہمارے ننھے ننھے بچے ہوں گے۔ اس وقت آنکھوں کی ضرورت کس قدر محسوس ہوگی؟‘‘ شیدی کی آواز میں ایک ارتعاش تھا۔ میں شرما کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ پھر شرمیلے انداز میں بولی، ’’شیدی کیا باتیں کرتے ہو۔‘‘ شیدی مجھے اپنے بازوؤں میں لے کر بولے، ’’میں غلط نہیں کہتا۔ کچھ عرصے بعد تمہیں اپنی آنکھوں کی ضرو...
کنپٹیوں کے بال تو بالکل سفید ہو چکے تھے اور دانتوں پر مسوڑوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ تلاوت کرتے وقت کئی بار دانتوں کی ریخوں میں سیٹیاں بج اٹھتی تھیں مگر آواز کا ٹھاٹھ وہی تھا۔ صحیح مخرج سے نکلے ہوئے حروف یوں بجتے تھے جیسے پیتل کی تھالی پر بلور کی گولیاں گر رہی ہوں۔ البتہ اس آواز میں ایک لرزش ضرور آ گئی تھی، جو پرانے نمازیوں کو بہت اجنبی معلوم ...
موگری کمرے میں اکیلی سو رہی تھی۔ اس نے آہٹ کئے بغیر کنڈی اندر سے چڑھا دی۔ رائفل کندھے سے اتار کر ایک کونے میں رکھ دی۔ اور آہستہ آہستہ دبک کر وہ موگری کے بستر کے قریب چلا گیا۔ قریب جا کر اس نے اپنا خنجر نکال لیا۔ وہ خنجر ہاتھ میں لئے دیر تک کھڑا رہا اور موگری کی سانسوں کی پر سکون آواز سنتا رہا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ وہ موگری کے چہرے کو نہیں دیک...
’’مگر۔۔۔‘‘’’مگر وگر کچھ نہیں۔‘‘ وہ دفعتاً جوش میں چلاّنے لگا، ’’انسانیت کے بازار میں صرف تم لوگ باقی رہ گئے ہو جو کھوکھلے قہقہوں اور پھیکے تبسّموں کے خریدار ہو۔ ایک زمانے سے تمہارے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی فلک شگاف چیخیں تمہارے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں مگر تمہاری خوابیدہ سماعت میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ آؤ، اپنی روحوں کو میری آہوں کی آنچ دو۔ یہ انہیں حساس بنا دے گی۔‘‘
گھنگھرو رات کی خاموشی میں مرتے ہوتے آدمی کے حلق میں اٹکے ہوئے سانس کی طرح بجنا شروع ہوگئے، لاجو کی ماں اطمینان سے بیٹھ گئی۔ گھوڑے کی تھکی ہوئی ہنہناہٹ نے رات کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کردیا اور ایک تانگہ لالٹین کے کھمبے کی بغل میں آکھڑا ہوا۔ تانگہ والا نیچے اترا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دے کر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ جس کی چِق اٹھی ہوئی تھی اور تخت...
ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی، ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگریس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔ جونہی مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔۔۔ زمین پر ایک گدیلا تھا جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔
مجھے نیند آ گئی۔ کلاک کی طرف دیکھاتو چھوٹی سوئی دو کے ہندسے کے پاس پہنچ چکی تھی، اور اس کا اعلان کرنے کے لیے الارم میں ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔۔۔ٹن نن نن۔۔۔ ٹن نن نن۔۔۔ ن! دو بج گئے۔۔۔ میں اٹھا اور سونے کے ارادے سے سیڑھیاں طے کرکے اپنی خواب گاہ میں پہنچا۔ بہار کے دن تھے اور موسم خنک۔ میری خواب گاہ کی ایک کھڑکی باہر کی گلی میں کھلتی ہے۔ جس کے پیازی ر...
گویا کوئی ان دیکھی آنکھ ان کو ہمیشہ دیکھتی رہتی تھی۔اس طرح کی علامتوں کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ غیرشعوری یا خودکار عوامل کے ذریعہ ہی وجود میں آ سکتی ہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ نظم یا ناول یا پورے کلیات میں پائے جانے والے نظام سے مربوط کیے بغیر ان کا لطف بہت کم ہو جاتا ہے، بودلیئر کی حبشی، دیونی، سڑتی ہوئی لاش، ان جانے سمندروں میں سفر اور بچپن کی بھولی بسری یادوں کی تفتیش، ان کو اگر پورے نظام احساس سے الگ کر لیا جائے تو وکٹر ہیوگو کے اس جملے کی صداقت مشتبہ ہوجاتی ہے جو اس نے بودلیئر کو ایک خط میں لکھا تھا، ’’آپ نے آسمان فن پر ایک ناقابل بیان اور پراسرار بھیانک روشنی بکھیر دی ہے۔ آپ نے ایک نیا سنسنی انگیز ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔‘‘ یہ ارتعاش محض سڑتی ہوئی لاشوں کے تذکرے سے کہاں پیدا ہو سکتا تھا؟
فیاض اپنی دھن میں مست چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے کان میں کسی ساز کے بجنے کی دھیمی دھیمی آواز پڑنی شروع ہوئی۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، آواز زیادہ واضح ہوتی گئی۔ آخر جب وہ قریب پہنچا تو اس نے بجلی کے ہنڈے کی روشنی میں دیکھا کہ سڑک کے قریب ہی باغ کے گوشے میں ایک درخت کے نیچے کوئی شخص فقیروں جیسی گدڑی اوڑھے سرکاری بنچ پر اکڑوں بیٹھا ایک بڑا سا ساز ...
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوںمری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books