aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "تناسخ"
بعض علماء کا خیال ہے کہ آسام کے بعض قبائل اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور قدیم کھاسی قبیلے ان کے مورث اعلیٰ تھے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھاسی منگولی نسل کے ہوں اور انہوں نے ہندوستان کے اس علاقے میں پہنچ کر آسٹرک زبان اختیار کر لی ہو۔ موجودہ ہندوستان میں نسلی اختلاط کے باوجود آسٹرک نسل اور زبان کی نمائندگی کول یا منڈانسل کے لوگوں سے ہوتی ہے جن م...
جس وقت وہ سیٹھ کی کوٹھی کے قریب پہنچا، دھوپ میں وہ پہلے جیسی حدت تو نہیں رہی تھی، البتہ سڑکوں پر چھڑکاؤ کی وجہ سے ابخرات اٹھ رہے تھے، جس سے سخت حبس ہو گیا تھا۔ دور ہی سے اسے سیٹھ کے کمرے سے ہنسی ٹھٹھے کی آوازیں آتی ہوئی سنائی دیں، اور وہ دروازے کے باہر چق کے پاس پہنچ کر ٹھہر گیا۔ وہ ان آوازوں کو خوب پہچانتا تھا۔ ان میں ایک تو سیٹھ بانکے بہاری تھے، ...
جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں، باجی ایم۔ اے کے لیے فلسفے کا مطالعہ کر رہی تھیں اور بہت زیادہ قابل تھیں۔ فقیرا کی بات انہوں نے بڑی دل چسپی سے سنی اور رات کو کھانے کی میز پر بہت دیر تک مسئلہ تناسخ اور عوام کے توہّمات کے متعلق والد سے تبادلۂ خیالات کرتی رہیں۔ رات کو سونے سے پہلے فقیرا نے اپنی کوٹھری کی کنڈی اندر سے چڑھائی اور راکھ کا کونڈا چار پائی کے...
اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا۔ اب موسم کے ’ڈل‘ ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہوجاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیا...
تناسخ ہے مسلسل ابتدائے آفرینش میںحیات جاوداں میں کون دخل انداز ہوتا ہے
तनासुख़تناسخ
transmigration
-प्राण का एक शरीर से निकलकर दूसरे शरीर में जाना, आवागवन, आवागमन ।
ابطال تناسخ
مولوی عبدالصمد
تناسخ چکر اور سوامی دیانند
غازی محمود دھرم پال
آواگون یا مسئلہ تناسخ
برج نرائن
1936ہندو ازم
مسلئہ تناسخ یا آواگمن کا تحقیقی جائزہ
ابو محمد امام الدین رام نگری
1964
بحث تناسخ
مولانا ثناء اللہ
1897
مثنوی اسرار تناسخ
نامعلوم مصنف
1920
ابوالوفا ثناء اللہ
1909
تناسب
مناظر عاشق ہرگانوی
1990
1993
صاحبان! کیا ان کا حسنِ زاہد فریب ہمارے نونہالانِ قوم کو جادہ مستقیم سے بھٹکا کر، ان کے دل میں گناہ کی پر اسرار لذتوں کی تشنگی پیدا کر کے ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک ہیجان برپا نہ کر دیتا ہو گا۔۔۔‘‘ اس موقع پر ایک رکن بلدیہ جو کسی زمانے میں مدرس رہ چکے تھے اور اعداد و شمار سے خاص شغف رکھتے تھے بول اٹھے، ’’صاحبان! واضح رہے کہ امتحانوں میں ناکام رہنے والے طلبہ کا تناسب پچھلے پانچ سال کی نسبت ڈیوڑھا ہو گیا ہے۔‘‘
قیاس قید تناسب شبیہ سجع نظیرکلی کو چوما تو جیسے کلی کلی سے ملی
حالی، واہ کیا خوشگوار ہوا ہے۔ آسمان کو دیکھیے کیا نکھرا ہوا ہے۔ غالب، جو کام خود رائی سے کیا جاتاہے، اکثر بے ڈھنگا ہوتاہے۔ ستاروں کو دیکھیے کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں نہ تناسب ہے نہ انتظام۔ نہ بیل ہے نہ بوٹا۔ مگر بادشاہ خود مختار ہے کوئی دم نہیں مارسکتا۔ (ہلکا قہقہہ)
جناب شوق کے قول کے مطابق، ’’اکثر خواص نے ترک کر دیا ہے۔‘‘ اور یہ امر واقعہ ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ جناب عشرت کی متروکی فہرست میں یہ لفظ شامل نہیں۔بقول نور اللغات، ’’خاص خاص شعرا نے ترک کر دیا ہے۔‘‘ معلوم یہ ہوتا ہے کہ 1887ء کے بعد یہ لفظ پھر تناسخ پذیر ہو گیا اور صرف خاص خاص شعرا ہی اسے مردہ سمجھتے رہے۔ لیکن موجودہ شاعروں کا کلام دیکھنے سے پایا جاتا ہے کہ غالباً اس خوف سے کہ مبادا تنقید کے توپ خانہ کا منہ ان کی طرف موڑ دیا جائے، اول صف کے اکثر شاعر اس کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں۔ جو عہد متروکات کے باب میں تعین کر چکا ہوں، اس میں اس کے استعمال کی مجھے صرف تین نظیریں ملیں۔
افتاد آدم! زوال آدمی! میری روح نے ایک دفعہ جونک کے اندر سے خون چوستے ہوئے سوچا کیا میں پھر نار دمنی کے اندر سے جھانک کر شانتی کی برکھا برستی ہوئی دیکھ سکتی ہوں، کیا ایک جونک نار دمنی بن سکتی ہے؟ کیا آواگون کا رخ پلٹ سکتا ہے؟ کیا یہ سلسلۂ تناسخ سارے جانداروں کو، چمگادڑوں، جونکوں اور تھوہڑ کی جھاڑیوں میں تبدیل کر کے رکھ دےگا؟ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ روح نے ویدانت کا شیشہ لگا کر دیکھا۔ ساری دنیا مایا نظر آئی۔ کچھ نہ تھا۔ صرف پر ماتما تھا۔ آتما نہ تھی۔ یہ سب پر ماتما کے ٹکڑے تھے۔ ہمہ اوست جو چیز تھی وہ پر میشور کا حصہ تھی اور جو پرمیشور نہ تھی، وہ کچھ نہ تھی۔ فلاطون کے قالب کے اندر بیٹھ کر روح نے سوچا کہ حقیقت ماورائی ہے اور یہ سنسار چھایا ہے، مایا ہے۔ صوفی کے اندر سے روح بولی انا الحق! منصور اور سر مد کے قالب میں میرے اجزاء یہی جذب و مستی لئے پھڑکتے رہے۔ میں کبھی یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میں خدا کا جزو ہوں اور ہر شئے میں خدا کے اجزاء پاتا ہوں۔ انا الحق! ہمہ اوست! میں حافظ، جامی، صائب، ورڈ سورتھ اور شاکے قالبوں میں بھی رہا ہوں۔ میرے تجربوں کی انتہا نہیں۔
یعنی وہ انتہائی دیدہ دلیری سے آفاقی موضوعیت کی اصطلاح تراش کر کے اسے معروضیت کا ہم پلہ قرار دیتا ہے۔ لیکن حسن کا موضوعی تجربہ اگر اتنا ہی معروضی ہوتا تو پھر یہ روز روز کے جھگڑے کیوں ہوتے کہ فلاں شاعر اچھا ہے یا برا ہے؟ نئی شاعری پر اتنا لعن طعن کیوں ہوتا؟ کسی شاعر کو ایک عہد میں مطعون اور دوسرے میں محترم کیوں ٹھہرایا جاتا؟ کانٹ ذاتی پسند ناپسند کی...
ندائے غیبی، وہ کیونکر؟کاتبین، ایک دفعہ رات کو پلنگ پر لیٹے ہوئے تاروں کی ظاہری بے نظمی اور انتشار دیکھ کر بولے جو کام خود رائی اور لاپرواہی سے کیا جاتا ہے اکثر بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ ستاروں کو دیکھو کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں نہ تناسب نہ انتظام ہے نہ بیل نہ بوٹا مگربادشاہ خود مختار ہے کوئی دم نہیں مارسکتا۔
محاکات کی تکمیل کن کن چیزوں سے ہوتی ہے؟۱۔ محاکات جب موزوں کلام کے ذریعہ کی جائے تو سب سے پہلے وزن کا تناسب شرط ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ درد، غم، رنج، جوش، غیظ، غضب، ہر ایک کے اظہار کا لہجہ اور آواز مختلف ہے، اس لئے جس جذبہ کی محاکات مقصود ہو، شعرکا وزن بھی اس کے مناسب ہونا چاہئے تاکہ اس جذبہ کی پوری حالت ادا ہوسکے، مثلاً فارسی میں بحر تقارب جس میں شاہ نامہ ہے، رزمیہ خیالات کے لئے موزوں ہے۔ چنانچہ فارسی میں جس قدر رزمیہ مثنویاں لکھی گئیں، اسی بحر میں لکھی گئیں، اسی طرح غزل اور عشق و عاشقی کے خیالات کے لئے خاص بحریں ہیں، ان خیالات کو قصیدہ کی بحروں میں ادا کیا جائے تو تاثیر گھٹ جاتی ہے۔
مسٹر ایمری نے جو برطانوی وزیر ہندو ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ در حالیکہ زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہندوستانی بہت کھاتے ہیں۔یہ تو حضور میں نے بھی آزمایا ہے کہ ہندوستانی لوگ دن میں دوبار بلکہ اکثر حالتوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس قدر کھاتے ہیں کہ ہم مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اس قدر نہیں کھاسکتے۔ موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں شرح اموات کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا پیٹو پن ہے۔ یہ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں تو پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ہندوستانی کبھی منھ پھٹ نہیں ہوتا لیکن پیٹ پھٹ ضرور ہوتا ہے بلکہ اکثر حالتوں میں تلی پھٹ بھی پایا۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانیوں اور چوہوں کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اکثر حالتوں میں ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جتنی جلدی پیدا ہوتے ہیں اتنی جلدی مر جاتے ہیں۔ اگر چوہوں کو پلیگ ہوتی ہے تو ہندوستانیوں کو ’’سوکھیا‘‘ بلکہ عموماً پلیگ اور سوکھیا دونوں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بہر حال جب تک چوہے اپنے بل میں رہیں اور دنیا کو پریشان نہ کریں۔ ہمیں ان کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
کانگرس ہاؤس اور جناح ہال سےتھوڑے ہی فاصلے پر ایک پیشاب گاہ ہے جسےبمبئی میں’’موتری‘‘ کہتے ہیں۔ آس پاس کےمحلوں کی ساری غلاظت اس تعفن بھری کوٹھری کے باہر ڈھیریوں کی صورت میں پڑی رہتی ہے۔ اس قدر بدبو ہوتی ہے کہ آدمیوں کو ناک پر رومال رکھ کر بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔اس موتری میں اس دفعہ اسے مجبوراً جانا پڑا۔۔۔ پیشاب کرنے کے لیے ناک پررومال رکھ کر، سانس بند کرکے، وہ بدبوؤں کے اس مسکن میں داخل ہوا۔فرش پر غلاظت بلبلے بن کر پھٹ رہی تھی۔۔۔ دیواروں پر اعضائے تناسل کی مہیب تصویریں بنی تھیں۔۔۔ سامنے کوئلے کے ساتھ کسی نے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے،’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا۔‘‘ان الفاظ نے بدبو کی شدت اور بھی زیادہ کردی۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books