غالب جنت میں
غالب کی موت
پس منظر، ایک سہ درہ دالان ہے جس کے سامنے ایک بڑا صحن ہے۔ دالان کے دروں میں اندرونی جانب پردے آدھی محراب تک بندھے ہوئے ہیں۔ دالان کے وسط میں ایک پلنگ ہے جس کا سراہنا شمال کی سمت ہے، پلنگ پر گدا بچھاہوا ہے۔ اور سفید چادر چاروں طرف کلابتوں کی ڈوریوں سے پایوں میں بندھی ہوئی ہے۔ پلنگ سے ملاہوا تختوں کا چوکا ہے جس پر دری بچھی ہوئی ہے اور اس پر صاف فرش ہے جوچاروں کونوں پر میر فروشوں سے دبا ہے۔ صدر میں بڑا گاؤ تکیہ قرینے سے رکھا ہے۔ سامنے صاف اگالدان رکھا ہے، اگالدان سے کچھ اوپر پلنگ سے نزدیک خاصدان رکھا ہے جس کے اوپر بہت نفیس تار کا کام کیا ہوا ہے۔ ایک کاغذ گیر میں خط لکھنے کا کاغذ دبا ہوا پاس ہی رکھا ہے۔
پلنگ کے داہنے جانب کچھ پرانے قسم کے مونڈھے رکھے ہوئے ہیں جن پرحالی، شیفتہ، حکیم احسن اللہ خاں ثاقب اور نواب ضیاء الدین احمد خاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ غالب پلنگ پر عمدہ چھینٹ کی رضائی اوڑھے لیٹے ہیں۔ دونوں گھٹنے کھڑے ہیں۔ پورا جسم ڈھکا ہے صرف چہرہ کھلا ہے آنکھیں نیم وا ہیں۔ بے ہوشی کی سی کیفیت ہے۔ حلق سے خرخر کی آواز برابر آرہی ہے۔ سرہانے ایک نوکر چارخانے کابڑا رومال لیے مکھیاں جھل رہا ہے۔
یکایک زورکی خرخر کے ساتھ غالب چونکتے ہیں اور آنکھیں کھول دیتے ہیں۔ حالی نے آگے بڑھ کر ایک پرچہ پیش کیا۔ نواب علاء الدین خاں لوہارو کاخط استفسار حال وطلب خیریت کا تھا۔ کاغذ کچھ دیر سامنے کیے رہے، بے نور آنکھوں نے صفحہ کو دیکھا، ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، زور سے کھنکارا، ذرا گردن اٹھائی، احسن اللہ خاں کی طرف دیکھا۔ وہ اٹھ کر تخت پر آئے، کاغذ گیر سے کاغذ نکالا، قلم دان سے کلک کا قلم نکالا، انگوٹھے پر اس کا قط جانچا اور گھٹنے پر کاغذ رکھ کر لکھنے کو تیار ہوگئے۔ غالب نحیف آواز میں بولے، لکھو،
’’مرزا علائی۔۔۔ گمان زیست بود برمنت زبیدردی
بداست مرگ دلے بدتر از گمان تونیست
میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو، ایک آدھ روز میں ہمسایوں سے پوچھنا۔۔۔ نہ کر دہ ہجر مدارا بہ من سر تو سلامت۔ ازکار رفتۂ و درماندہ ہوں (رک کر) یہ مصرعہ چپکے چپکے پڑھتا ہوں، اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے؟ مرگ کا طالب غالب (رک کر) مہر کرکے بھیج دو۔‘‘
پھر غفلت طاری ہوجاتی ہے، سب لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ احسن اللہ خاں قلم دان سے مہر نکال کر ثبت کرتے ہیں لیکن کچھ سنائی نہیں دیتا۔ (ایک فرشتہ بائیں جانب آکھڑا ہوتا ہے جسے صرف غالب دیکھ رہے ہیں)
فرشتۂ اجل، کیا واقعی آپ کو میرا انتظار ہے؟
غالب، ہاں! کیا تم مجھے لینے آئے ہو؟
فرشتہ، (سنی کو ان سنی کرتے ہوئے) مگر آپ جینے سے اس قدر بیزارکیوں ہیں؟
غالب، میری تمام عمر حسرت و ناکامی میں گزری۔ ہمیشہ اپنے ہم چشموں کی سیر چشمی پر گزارا ہوتا رہا۔ میرے تمام حوصلے دل کے دل ہی میں رہ گئے۔ نہ کمال کی قدر ہوئی، نہ ہنر کی پذیرائی، پھر بھی تم کہتے ہو کہ جینے سے کیوں بیزار ہوں۔
فرشتہ، تو آپ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر کیاآپ کو اپنی نئی زندگی میں کچھ بہتری کی امید ہے۔
غالب، (آہ کرکے)
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مرگئے پر دیکھے دکھلائیں کیا
میری بے چینی کا یہی تو باعث ہے، میں چلنے کے لیے بالکل تیار ہوں۔
فرشتہ، بہت اچھا۔ چلیے۔
(فرشتہ آہستہ سے غالب کے قلب پر انگشت شہادت رکھتاہے۔ غالب ایک آہ کے ساتھ آنکھیں کھول دیتے ہیں، حالی آگے بڑھ کر اشاروں میں مزاج پرسی کرتے ہیں۔)
غالب، (نحیف آواز میں)
دمِ واپسیں برسر راہ ہے
عزیز و بس اللہ ہی اللہ ہے (ہچکی)
(پیشانی پر پسینے کی بوندیں نظر آنے لگتی ہیں۔ چہرے پر مردنی چھا جاتی ہے۔ شیفتہ جلدی سے اٹھ کر شربت انار کا چمچہ حلق میں ٹپکاتے ہیں۔ روح پرواز کرجاتی ہے۔ سب لوگوں پر سکوت طاری ہوجاتا ہے۔ نوکر آنکھیں اور منہ بند کرکے چادر اڑھا دیتا ہے۔)
غالب قبر میں
پس منظر، ایک فراخ بغلی قبر میں غالب کفن میں لپٹے پڑے ہیں، ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ یکایک ایک سوراخ سے باریک تیز روشنی کی شعاع داخل ہوتی ہے جس سے پوری قبر میں اجالا ہوجاتا ہے۔ روشنی میں دو فرشتے غالب کے سرہانے ایک دائیں ایک بائیں جانب دوزانو بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اور غالب کے چہرے سے کفن ہٹاکر انہیں بغور دیکھتے ہیں، دونوں فرشتے آہستہ آہستہ بات چیت کرتے ہیں۔
منکر، اب انہیں جگانا چاہیے۔
نکیر، ہاں ہاں اس منزل میں انہیں آگے بڑھانا چاہیے۔
منکر، مگر یہ ہیں کون؟
نکیر، ایں! انہیں نہیں جانتے۔ یہ دہلی کے مشہور و معروف فارسی اور ریختہ کے شاعرو انشا پر داز مرزا اسد اللہ خاں غالب ہیں۔
منکر، کون غالب؟ وہی تو نہیں جو (ہنس کر) اپنے خیال میں ہم لوگوں کو دور رکھنے کے لیے عمر بھر شغل میخواری فرماتے رہے۔
نکیر، میں سمجھا نہیں۔
منکر، تم کو یاد نہیں، انہوں نے ایک شعر کہا تھا جس کے کراماً کاتبین اکثر چرچے کیا کرتے تھے،
ظاہر ہے کہ گھبراکے نہ بھاگیں گے نکیریں
ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
نکیر، اخاہ! یہی وہ غالب ہیں (متفکر لہجے میں) دیکھیے بارگاہ قدس سے ان کے لیے کیا حکم ہوتا ہے۔
منکر، یہ تو کوئی ایسی سنگین تقصیر نہیں ہے۔ شاعرانہ شوخی سے زیادہ اس کی کیا اہمیت ہے۔
نکیر، بات یہ ہے کہ گمراہی قریب قریب تمام شعراء کاطرۂ امتیاز ہے۔ وہ تو خیر ہمارے ساتھ ٹھٹول تھی۔ دیکھنا یہ ابھی اور کیا کیا اوٹ پٹانگ جواب دیتے ہیں۔
منکر، جو کچھ ہو اب انہیں جگانا چاہیے۔
نکیر، اچھا جگاتا ہوں۔
(غالب کے کان کے پاس منہ لے جاتا ہے اور گرجتی ہوئی آواز میں ’’قم باذن اللہ‘‘ کہتا ہے، غالب کے پلکوں میں ہلکی ہلکی حرکت پیدا ہوتی ہے پھر جھر جھری سی آتی ہے۔ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔)
غالب، (فرشتوں کو دیکھ کر) میں کہاں ہوں؟
منکر، قبر میں۔
غالب، تم کون لوگ ہو؟
منکر نکیر، ہم منکر نکیر ہیں۔
غالب، (چیں بہ جبیں ہوکر) یہاں بھی آرام سے سونا نہیں ملے گا۔
منکر نکیر، ہم بحکم خدا آئے ہیں، آپ سے چند سوال کرکے چلے جائیں گے۔
غالب، بسم اللہ فرمائیے۔
(کہتے ہوئے سنبھل کر بیٹھ جاتے ہیں مگر چہرے سے برابر ناگواری کے اثرات نمایاں ہیں)
منکر، (عربی میں) من ربک
غالب، میں عربی سے ذرا کم واقف ہوں، تورانی الاصل ہوں اور پارسی زبان کا شاعر اور کبھی کبھی احباب کی خاطر ریختہ میں بھی فکر کرلیا کرتا تھا۔
نکیر، دادار توکیست؟
منکر، کدام رسول راپیروبودی؟
نکیر، ایمان چیست، نور راز ظلمت چوں شناختی؟
(سوالات کی بوچھاڑ سے گھبرا اٹھے اور بولے)
غالب، ٹھہرو ٹھہرو، میں یہ سب کچھ نہیں جانتا۔ میں نے زندگی میں ایک شعر کہا تھا جس پر میرا عقیدہ ہے جو چاہو سمجھ لو،
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
(منکر نکیر دونوں انگشت بدنداں رہ گئے اور سوچنے لگے۔ کئی منٹ گزر گئے، یکایک فضا میں ہلکا ہلکا لحن دوڑنے لگا۔ غالب بھونچکے ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگے لیکن منکر نکیر مؤدب اور نماز کی سی نیت باندھ کر سر جھکاکر کھڑے ہوگئے، لحن لحظہ بہ لحظہ بڑھتا گیا۔ یکایک ساز خاموش ہوگیا اور ایک بارعب لیکن باریک آواز سنائی دی۔)
منکر نکیر، تمہارا کام ختم ہوگیا۔ اس بندہ کاجواب تمہارے کانوں کے لیے بالکل نیا ہے لیکن بات اس نے بڑے پتے کی کہی ہے، اس پر عذاب قبر کی ضرورت نہیں۔ کراماً کاتبین سے کہو اس کی فرد اعمال اسے سنادیں تاکہ یہ اپنے گناہوں کی جواب دہی کے لیے تیار ہوجائے۔
(منکر نکیر حیرت سے غالب کو دیکھتے ہوئے فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں)
غالب ملاء اعلیٰ کی عدالت میں
پس منظر، ایک بہت ہی وسیع کمرہ، چاروں طرف بڑے بڑے تارے نظر آرہے ہیں، شمال و جنوب میں دو رویہ سفید سائے نظر آرہے ہیں ان سایوں کے اختتام پر مشرقی کنارے پر ایک ۷۵-۸۰ برس کا بوڑھا پشت خم، بدن میں رعشہ لیکن اس عمر میں بھی سرخ سفید چادر میں لپٹا ہوا سرجھکائے کھڑا ہے۔ اس کے یمین ویسار ایک ایک پر دار فرشتہ کاغذ کے پلندے ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔ ان کے چہروں سے بے باکی، خوداعتمادی اور طمانیت ظاہر ہو رہی ہے۔ دونوں خاموش جیسے کسی انتظار میں کھڑے ہوں۔ دفعتاً ہلکی ہلکی لحن کی آواز پیدا ہوتی ہے تمام سائے سرجھکادیتے ہیں فرشتے زیادہ کرخت انداز میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کے پروں کی سرسراہٹ سے غالب چونک کر سراٹھاتے ہیں اور فرشتوں کو دائیں بائیں دیکھ کر کچھ متحیر سے ہوئے اور بولے ابھی ابھی تو دونوں سے نجات حاصل کی۔ آپ فرمائیے آپ کون ہیں؟
کراماً، ہم کراماً کاتبین ہیں۔ یہ ملاء اعلیٰ ہے ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں تمہارے ان جرموں کی تفصیل سنادیں جو تم نے دنیا میں کیے ہیں۔
غالب، بہت خوب آپ بھی اپنے حوصلے نکال لیجیے۔
کاتبین، (عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے) یہ ملزم ایشیا کے مشہور و معروف خطہ ہند کا نامور شاعر و ادیب مرزا اسد اللہ خاں المتخلص بہ غالب معروف بہ نوشہ ہے۔ آج ہی اس نے دارالعمل کو چھوڑا ہے ہم اس کی فرد اعمال لے کر حاضر ہوئے ہیں کہ بارگاہ جلالت میں پیش کریں۔
ندائے غیبی، تم کو جو کچھ کہنا ہو کہو اور مجرم کو جواب دہی کا موقعہ دو۔
کراماً، احکم الحاکمین اس کی فرد اعمال عصیاں سے بالکل سیاہ ہے۔
ندائے غیبی، اس کے خلاف خاص خاص الزامات کیا ہیں؟
(کراماً کاتبین نے اپنے اپنے پلندے کھولے اور یوں گویا ہوئے)
کراماً، رب الارباب! یہ مجرم عالم ارواح ۱۲۱۲ھ کو روبکاری کے لیے عالم آب و گل میں بھیجا گیا ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۱۷رجب ۱۲۲۵ھ کو اس کے لیے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ پاؤں میں بیڑی ڈال دی گئی اور دلی شہر کو زنداں مقرر کیا گیا۔ نظم و نثر مشقت ٹھیرائی گئی مگر یہ گریز پاقیدی جیل خانے سے بھاگ کر تین سال تک بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا، پایان کار کلکتہ سے پکڑ لایا گیا اور دو ہتھکڑیاں اور بڑھادی گئیں۔ باوجود پاؤں بیڑی سے فگار اور ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار اور مشقت مقرر ہونے کے اس نے آج ۱۲۸۵ء تک قلیل مدت میں اپنے جرائم میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چنانچہ اس کا سب سے سنگین جرم یہ ہے کہ اس نے بارہ گاہ قدس میں عمر بھر سرنیاز نہیں جھکایا او رنہ کبھی روزہ رکھا۔
ندائے غیبی، اس الزام کا کوئی ثبوت؟
کاتبین، اے دادار جہاں! اس نے خود اپنے منہ سے غدر کے بعد جب اس کی پنشن بند ہوئی تھی اور دربار میں شرکت سے روک دیا گیا تھا، پنجاب کی لفٹنٹی کے میر منشی سے یہ کہا تھا کہ تمام عمر میں ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار، پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے مجھے باغی مسلمانوں میں کیوں شمار کیا ہے۔
کراماً، تعالیٰ شانک! یہی نہیں۔ عمر بھر قماربازی کرتا رہا۔ دنیا میں اس کے لیے بھی سزا بھگتی مگر اس فعل سے باز نہیں آیا۔ روزہ اس نے کبھی نہ رکھا۔ ماہ صیام میں کوٹھری میں دن بھر بند رہتا اور شطرنج کھیلا کرتا۔ کبھی روٹی کا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا، کبھی دوگھونٹ پانی پی لیا اور اسے روزہ بہلانے سے تعبیر کیا کرتا تھا۔
کاتبین، جل جلالک! ایک مرتبہ جب بہادر شاہ ظفر نے اس مسئلہ میں اس سے بازپرس کی تو اس نے استہزاء کے ساتھ یہ جواب دے کر اسے خاموش کردیا۔
سامان خور و خواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
روزہ مرا ایمان ہے غالب لیکن
خس خانہ و برف آب کہاں سے لاؤں
(کاتبین یہ کہہ کر رکے ہی تھے کہ غالب نے کراہ کر آہ کی اور گڑگڑا کر بولے)
غالب، بارالٰہا! ان فرشتوں کی فرد جرم طویل اور میں سال بھر سے بستر پر پڑے پڑے نحیف و نزار ہوگیا ہوں۔ تمام جسم زخمہائے بستر سے فگار ہے۔ اتنی طاقت نہیں کہ کھڑے کھڑے ان کی داستانیں سنوں۔ شاہا، مجھے اجازت مرحمت ہو کہ کہیں پیٹھ ٹیک کر ان کا استغاثہ سنوں۔
ندائے غیبی، اچھا تیرے ساتھ یہ رعایت کی جاتی ہے کہ فرش پر بیٹھ جا۔
(ساتھ ہی سایوں میں حرکت ہوئی اور ایک نرم قالین غالب کے نیچے بچھادیا گیا اور ایک گاؤ تکیہ رکھ دیا گیا۔ غالب ایک آہ کے ساتھ تکیہ کا سہارا لیتے اس پر نیم دراز ہوگئے۔) کراماً کاتبین اس کے فرد جرم میں کچھ اور بیان کرنا باقی ہے یا الزامات ختم ہوگئے۔
کراماً، آقائے دوجہاں! یہ تو سمندر سے ایک قطرہ تھا اس کے سیاہ کارناموں کا سلسلہ تو لامتناہی ہے۔
ندائے غیبی، اچھا آگے بڑھو!
کراماً، اس نے بارگاہِ جلالت میں بارہاگستاخی کی ہے اور نہایت بے باکی سے پیش آیا ہے۔
ندائے غیبی، اس الزام کا کوئی ثبوت؟
کاتبین، اس شعر سے بڑھ کر اس کی دریدہ دہنی کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے،
زندگی اپنی جو اس طور سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
کراماً، اس نے قضاء و قدر کے انتظامات پر بھی اکثر تمسخر کیا ہے۔
ندائے غیبی، وہ کیونکر؟
کاتبین، ایک دفعہ رات کو پلنگ پر لیٹے ہوئے تاروں کی ظاہری بے نظمی اور انتشار دیکھ کر بولے جو کام خود رائی اور لاپرواہی سے کیا جاتا ہے اکثر بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ ستاروں کو دیکھو کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں نہ تناسب نہ انتظام ہے نہ بیل نہ بوٹا مگربادشاہ خود مختار ہے کوئی دم نہیں مارسکتا۔
کراماً، اور یا باری تعالیٰ! اس نے قیامت سے بھی انکار کیا ہے۔
(اتنا سنتے ہی غالب ذرا چونکے اور سنبھل کر بیٹھ گئے)
اس نے ایک شعر کہا تھا جس سے قیامت کا انکار لازم آتا ہے۔
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقادنہیں
شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں
(غالب جو ذرا چوکنے ہوگئے تھے شعر سنتے ہی پھر اطمینان سے گاؤ تکیے سے لگ کر بیٹھ گئے اور چپکے سے ’’سخن فہمی عالم بالا معلوم شد‘‘ کہہ کے خاموش ہوگئے۔)
کاتبین، اس کے فرد جرم میں دوسرا سنگین جرم اس کی شراب سے والہانہ محبت ہے۔ اس نے تمام عمرمیخواری کی۔ کسی روز ناغہ نہیں کیا۔ اکثر رات کو سرخوشی کے عالم میں اس کی طلب شراب بڑھ جاتی تھی۔
کراما، شراب کی اہمیت میں ا سے اتنا غلو تھا کہ اس کے ایک دوست نے اس سے تنبیہاً کہا کہ شراب خور کی دعا قبول نہیں ہوتی تو اس نے نہایت دریدہ دہنی سے جواب دیا کہ بھائی جسے شراب میسر ہو اس کو اور کیا چاہیے جس کے لیے دعا کرے۔
کاتبین، خداوند! یہی نہیں بلکہ اس نے بڑی بڑی بزرگ ہستیوں کو اپنی شراب نوشی کاٹھیکہ دارقرار دیا تھا مثلاً ایک مرتبہ اس نے ساقی کو دھونسنے کی نئی ترکیب نکالی جب اسنے مزید شراب دینے سے انکار کردیا تو اس نے کہا،
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوء ظن ہے ساقیٔ کوثر کے باب میں
اور تو اور اسے متبرک اشیا رہن رکھ کر اور بیچ کر شراب خریدنے میں بھی کوئی باک نہ تھا ایک مرتبہ یہ کہہ کر،
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن مے
مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے
اس نے بزرگوں کی یہ میراث بھی بنیے کی نذر کردی۔
کراما، اس نے غضب یہ کیا کہ حضرت ساقی کوثر کواُم الخبائث کا ساقی قرار دے کر ان کے اعتماد پر دھڑلے سے پیار کرتا تھا۔ اس نے اس یقین کا کس بلند آہنگی سے اعلان کیا ہے،
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
غلام ساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے
اس نے دنیا کی شرم و حیا بھی بالائے طاق رکھ دی تھی، مدہوشی میں اس کا بھی خیال نہیں رہتا تھا کہ کس جگہ پی رہا ہے اور ظاہری رکھ رکھاؤ کو توڑنے پر فخر کرتا تھا،
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
کاتبین، یا الہ العالمین، اس کی مے نوشی کی لت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب مے نوشی کے باعث اس کے اعضا و جوارح نے بالکل جواب دے دیا اور اس کے رعشہ دار ہاتھوں نے جام اٹھانے سے انکار کردیا تو اس نے صرف بوئے مے پر اکتفا کی اور اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ،
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا مرے آگے
کراماً، اس نے جام نوشی کی وہ ہوا باندھ رکھی تھی کہ جب کبھی کسی فرض کی ادائی کے سلسلے میں سرزمین دہلی سے گزراتو مجھے ایسا محسوس ہونے لگتا تھا کہ جیسے شراب سے متکیف ہوا جارہا ہوں۔ اس ظالم شاعر نے یہ کہہ کر،
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی
خیال کو حقیقت بنا دیا تھا۔
(غالب اس تمام روئداد جرائم کے دوران بالکل خاموش تکیہ کے سہارے آنکھیں بند کیے لیٹے رہے اور سوائے ایک بار کراہنے کے انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ کراماً کی فہرست الزامات ختم ہوئی تو ندا آئی۔)
ندائے غیبی، اس کی فرد جرم ختم ہوئی یا ابھی کچھ باقی ہے۔
کراماً کاتبین، خداوند جہاں اس کی فرد جرم بہت طویل ہے، جس کا صرف ایک حصہ بارگاہ عالی و متعالی میں ہم نے پیش کیا۔ ہم نے اپنی عمر میں ایسا فرد نہیں پایا جسے عصیاں کوشی میں لطف آتا ہو اور جس کاحوصلہ گناہ ہمیشہ بڑھا ہوا ہو۔ اس نے اپنے معاصی کو کبھی اہمیت نہیں دی اور انہیں معمولی درجہ کا سمجھتا رہا۔ اس کی جرأت بیباکانہ ملاحظہ فرمائیں، کہتا ہے،
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
غالب کا جواب
پس منظر، منظر میں ذرا سا تغیر ہوجاتا ہے، سمت مغرب میں ایک نہایت ٹھنڈی ہلکی ماورائے نیلگوں روشنی افق پر نمایاں ہوجاتی ہے۔ لحن ذرا تیز ہوجاتا ہے۔ تمام سائے مع کراماً کاتبین کے باادب سرجھکاکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک شیریں مگر پر اثر لہجے میں آواز آتی ہے۔
ندائے غیبی، غالب سنتا ہے۔ تیرے خلاف تیرے ہر دم کے ساتھیوں نے کیا کیا زہر اگلا ہے۔ تیرے پاس ان الزامات کا کیا جواب ہے؟
(غالب اس براہ راست تخاطب سے کچھ گھبراسے گئے اور کھانستے کراہتے اٹھ کر دوزانو بیٹھ گئے۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولے)
غالب، تو دانا ہے، تو بینا ہے، تجھ سے کچھ پنہاں نہیں ہے۔ ان الزامات کی صحت و عدم صحت کے متعلق میں کچھ عرض نہیں کرسکتا۔ لیکن ان کے بعض اعتراضات کے متعلق اگر اجازت مرحمت ہو تو کچھ عرض کروں۔
ندائے غیبی، ہمارے حضور میں تجھے ہر طرح کی آزادی ہے تجھے اپنی بریت کے متعلق جو کچھ کہنا ہو کہہ۔
غالب، عاصی نواز! تیرے رحم و الطاف بے پایاں کے صدقے! مجھے سب سے پہلے تو اس الزام شراب نوشی کے بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ انہیں میرے شعروں سے سخت مغالطہ ہوا۔ میں نے جو کچھ کہا، زرہِ امتثال امر کہا۔ میری نیت ہمیشہ بخیر رہی۔ میں نے دنیائے آب و گل میں ہمیشہ صاف گوئی سے کام لیا اور اس وقت تیرے حضور میں جہاں صدق و کذب آشکارا ہیں، میں کہتا ہوں کہ،
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
میں نے ہمیشہ مے کو افکار سے نجات کا ذریعہ سمجھا اور اگر اس دارالجزا میں بھی میری قسمت میں افکار سے رہائی ناممکن ہے تو مجھے اس’’مئے اندازہ ربا‘‘ کے دو جرعے پینے سے گریز نہیں۔
(کراماً کاتبین اس جرأت رندانہ پر اپنی جگہ متحیر رہ گئے۔)
ندائے غیبی، ہمیں تیری صاف گوئی بہت پسند آئی، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تو بقیہ الزامات سے بری الزمہ ہوگیا۔ لیکن اتنی رعایت تیری منظور ہے کہ تو خود بتا کہ تونے کون کون سے گناہ کیے ہیں۔
غالب، کریما واے پردہ پوش عاصیاں! مجھ ذرۂ بے مقدار کی کیا مجال کہ حکم عدولی کاخیال تک بھی دل میں لاؤں، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ تیری رحمت تیرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے اور میں اسی رحمت کے دامن میں پناہ لے کر بارگاہ اقدس میں بصد التجا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ،
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
(یہ بے باک طرز جواب سن کر کراماً کاتبین کے چہرے زرد پڑگئے اور وہ سر سے پیر تک کانپنے لگے۔ کچھ سایوں میں بھی ہلکی جنبش ہوئی لیکن ملاء اعلیٰ کی اس خنک روشنی میں تبدیلی نہیں ہوئی۔)
ندائے غیبی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ تمہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے جنہیں تم بیان نہیں کرنا چاہتے اس لیے اپنے گناہوں کی پاداش کے لیے تیار ہوجاؤ۔ (غالب یہ سن کر سن سے ہوگئے۔ ساری طاقت غائب ہوگئی لیکن اس نے پھر جرأت کرکے رحمت تمام کو اپیل کی۔)
غالب، یا ارحم الرحمین تیرا فرمانا برحق، اس ذرۂ بے مقدار کو تاب چوں و چرا کہاں، اگر بارگاہ جلالت سے میرے حق میں فیصلہ ہوگیا ہے تو مجھے جائے گفتگو کجا لیکن (ذرا زور سے)
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
(کراماً کاتبین تو یہ بے ادبی دیکھ کر ’’سبوحٌ قدوسٌ ربنا و رب الملائکۃ والروح‘‘ پڑھتے ہوئے خوف کے مارے سجدے میں گرپڑے۔ سایوں میں بھی یہاں سے وہاں تک ایک لرزش پیدا ہوگئی۔ کچھ نگاہیں غالب کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں، کچھ نظریں عرش کی طرف تھیں کہ کب اس گستاخ خاکی پر صاعقہ گرتی ہے لیکن نور پرسکون میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ کچھ دیر بعد پھر آواز آئی۔)
ندائے غیبی، غالب خاکی نژاد ہرچند تیری گستاخیاں ناقابل عفو ہیں اور ان کا تقاضا یہ ہے کہ تجھے چشم زدن میں تیرے کیفر کردار کوپہنچادیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو لیکن ہماری بارگاہ میں تیری ادائے ترکانہ پسند آگئی ہے۔ اس لیے تو اب تک یہاں نظر آرہا ہے، بجز یادہ گوئی کے تونے اپنے گناہوں سے بریت کے سلسلے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کراماً کاتبین کی مرتبہ فرد جرم بالکل صحیح و درست ہے۔
(غالب پھر سٹپٹائے۔ کچھ دیر سوچتے رہے۔ آخر اپنی ترکش کاآخری تیر چلانے کے لیے تیار ہوگئے۔)
غالب، یا عافی العافئین! مشت خاک غالب کی جرأت کہاں کہ احکام خداوندی کے خلاف کچھ کہہ سکے لیکن اتنا ضرور عرض کرنے کی رخصت چاہتا ہے کہ اس عدالت ربانی اور سلاطین ارض کی عدالت میں کچھ فرق ہونا چاہیے۔
ندائے غیبی، کیا مطلب ہے تیرا؟
غالب، (گڑگڑا کر) اے بے آسراؤں کے پناہ دینے والے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ،
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
(کراماً کاتبین یہ سنتے ہی غصے سے لال پیلے ہوگئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عنقریب غالب پر ٹوٹ پڑیں گے۔ لیکن عدالت کارعب داب انہیں روکے ہوئے ہے۔)
ندائے غیبی، غالب! تیری جرأت و بیباکی کی حد ہوگئی ہے۔ ہوش میں آتو کس سے مخاطب ہے۔
غالب، (خجالت کے انداز میں) کرم گسترا!
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
ندائے غیبی، گنہ گار بندے، تیری ادائے شرمساری بھی ہمیں بھاگئی۔ تیری کوتاہیاں معاف کی گئیں، جا اور ہماری رحمت بے پایاں کے ثمرات سے لطف اندوز ہو، فیقائیل اور عنکائیل اسے رضوان کے سپرد کردو۔ (روشنی غائب ہوجاتی ہے۔ دو سائے غالب کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں کوئی تارہ جھلملاتا نظر آتا ہے اور تمام سائے اور کراماً کاتبین فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں)
غالب اور رضوان
پس منظر، ایک بہت بڑا سفید پھاٹک ہے جو نقش و نگار سے بالکل معرا ہے، صرف اس کے اوپر جگمگاتے ہوئے تاروں میں ’’دارالسلام‘‘ لکھا ہوا ہے۔ پھاٹک کے قریب ایک نورانی صورت بزرگ تسبیح لیے مصلے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک جریب زیتونی بائیں طرف رکھی ہوئی ہے۔ یہ بزرگ آنکھیں بند کیے تہلیل و تسبیح میں مصروف ہیں۔ دانے کھٹ کھٹ ہاتھ کی حرکت سے نیچے گر رہے ہیں۔
غالب جن میں سرے سے کایا پلٹ ہوگئی ہے، نہ جھریاں ہیں نہ رعشہ، نہ بدن پر زخم ہیں۔ ایک تنومند اور سرخ وسپید جوان رعنا کی شکل میں فیقائیل اور عنکائیل کی معیت میں دروازے کی طرف آرہے ہیں۔ دونوں فرشتے مصلے سے ذرا دور رک جاتے ہیں اور السلام علیکم یا رضوان کہہ کر ان پاسبان در کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ غالب نے رضوان کا نام سن کر ذرا تنقیدی نگاہ سے انہیں سر سے پیر تک دیکھا اور زیر لب مسکرائے۔ رضوان نے آواز سن کر آنکھیں کھولیں اور پررعب آواز میں وعلیکم السلام یا اخی کہہ کر جواب دیا اور کنکھیوں سے غالب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، یہ ناوقت کیسے آنا ہوا اور یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟
عنکائیل، یہ غالب ہیں۔
رضوان، غالب کون؟
(اس سے پہلے کہ فرشتے کچھ جواب دیں غالب نے سر کو جھٹکا دیتے ہوئے نہایت سوکھے منہ سے کہا)
غالب،
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
(رضوان نے شعر سن کر تیکھے چتونوں سے غالب کو دیکھا لیکن ہاتھ کے اشارے سے پھر فرشتوں سے پوچھا کہ کون ہیں؟)
فیقائیل، یہ دہلی کے مشہور و مستند شاعر ریختہ و فارسی مرزا اسد اللہ خاں غالب ہیں۔ آج ہی دارالعمل سے دارالجزا میں آئے ہیں اور ابھی ابھی انہیں بارگاہ الٰہی سے آمرزش کا پروانہ عنایت ہوا ہے۔ بحکم رب العالمین ہم انہیں آپ کے سپرد کرنے آئے ہیں۔
رضوان، (اچھل کر) کون! اسداللہ خاں! مرزا نوشہ! منکر جنت! اور اس کی آمرزش۔۔۔! جنت کا پروانہ! (عرش کی طرف سراٹھاکر) خداوند! تیرے اسرار سے ہم سب ناواقف ہیں (کچھ دھیمے پڑکر اور غالب کی طرف مڑتے ہوئے) مگر تم کو یہ طاق نسیاں کا گلدستہ کیسے یاد آیا۔
غالب، (تیوریاں بدل کر) کیا مطلب؟
رضوان، کیا تم نے دنیا میں یہ شعر نہیں کہا تھا،
ستائش گر ہے زاہداس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
غالب، یاد کس مسخرے کو آئی اور طلب کس منہ سے کرتا۔ میرا مقولہ تو یہ ہے کہ،
بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
رضوان، تو پھر ارادہ کیا ہے؟
غالب، خوب! یہ آپ کا تجاہل عارفانہ ہے۔ آپ کے پاس بھیجا کس لیے گیا ہوں کہ آپ مجھے جنت کی سیر کرائیں۔
رضوان، مگر تم تو دنیا میں جنت کو دوزخ میں جھونک دینے پر آمادہ تھے۔
غالب، ہائے ہائے جو رونا مجھے دنیا میں تھا وہی یہاں بھی ہے۔ واہ ری قسمت!
رضوان، (پیچ و تاب کھا کر) اس جملے کے کیا معنی؟
غالب، جت تک دنیا میں رہا اس غم میں خون جگر کھایا کیا کہ میرا کلام نہ لوگوں کی سمجھ میں آیا اور نہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس خیال سے کچھ کچھ تسلی ہوجایا کرتی تھی کہ خیر یہاں نہ سہی عالم ارواح میں قدسیوں سے داد کلام پاؤں گا، مگر دیکھتا ہوں تو یہاں بھی ایں خانہ تمام آفتاب است کا مضمون نظر آتا ہے۔
رضوان، (اس جواب سے کچھ جزبز ہوئے اور ذرا رک کر بولے) خیر تمہیں جنت میں تو لیے چلتا ہوں مگر جس فکر میں آپ جارہے ہیں وہ کہیں نام کو بھی نہیں ملے گی اس سے جمع خاطر رکھیے۔
غالب، آپ کی یہ چیستانی تقریر تو میری سمجھ میں آئی نہیں۔ اس معمہ کو آپ ہی حل فرمائیں۔
رضوان، (بھناکر) یہ شعر تمہارا نہیں ہے؟
غالب، کون ساشعر؟
رضوان، یہی کہ
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
غالب، جی شعر تو میرا ہے لیکن میں نے آپ سے بادۂ گلفام کی درخواست کی ہوتی تب آپ کہتے۔ اس قبل از مرگ واویلا کے کیا معنی؟
رضوان، (لاجواب ہوکر) اچھا خیر چلو مگر ایک بات کا وعدہ کرو کہ سیر باغ کے بعد کوئی آئیں بائیں شائیں رائے نہیں دو گے۔
غالب، آپ کو یہ شبہ کیسے پیدا ہوا؟
رضوان، بات یہ ہے کہ تمہارے اس شعر سے مترشح ہوتا ہے،
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ
خلد بھی باغ ہے خیر آب و ہوا اور سہی
کہ تم اسے بھی ارضی باغوں کا سا سمجھتے ہو۔
غالب، (جھلاکر) میں سیر جنت سے درگزرا، آپ تو نکاح کی سی شرطیں قبولوا رہے ہیں۔ (ایک طلائی کارڈ بڑھاتے ہوئے) لیجیے پروانہ جنت میں ان پابندیوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے درگزرا۔
(یہ کہہ کر چلنے کے لیے مڑتے ہیں)
رضوان، ٹھہرو! ٹھہرو! بات صرف اتنی ہے کہ تم آدمی ذرا مخدوش ہو۔ اس لیے مجھے اتنی حفاظتی تدابیر اختیار کرنا پڑیں۔ ورنہ میں تو بلا ایک لفظ کہے لوگوں کو جنت میں داخل کردیا کرتا ہوں۔ میرا بس چلے تو میں تم کو ہرگز بہشت کے اندر قدم نہ رکھنے دوں مگر حکم حاکم مرگ مفاجات اور حکم بھی رب العالمین کا، سرتابی کی مجال نہیں۔۔۔ اچھا چلو۔ (غالب اور رضوان ساتھ ساتھ دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ غالب نے محاکمانہ نظر سے ہر چیز کو دیکھنا شروع کیا اور رضوان کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے رہے۔ بشرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت زیادہ پسند نہیں آئی۔ ان کی نظر ٹہلتے ٹہلتے دور پر چمکتے تندو تیز شعلوں پرپڑتی ہے)
غالب، یہ تیز روشنی کیسی ہے؟
رضوان، نار دوزخ کا التہاب ہے۔
غالب، (بغیر سوچے سمجھے عرش کی طرف سراٹھاکر) بار الٰہا! تونے اپنے کرم بے پایاں اور رحمت لامتناہی کے صدقے مجھ گنہ گار کو وہ کچھ عطا کیا جس کا میں کسی طرح اہل نہیں تھا، ایک آخری آرزو میری اور پوری ہوجائے۔
ندائے غیبی، اب کیا چاہتا ہے۔
غالب،
کیوں نہ فردوں میں دوزخ کو ملالوں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
ندائے غیبی، نادان تیری جوبات ہے نرالی ہے۔ تیری یہ آرزو پوری ہونے سے کیوں رہ جائے۔ جااور اپنی احمقانہ خواہش کا تماشا دیکھ۔
(دوزخ کے شعلے آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں۔ پہلے تو غالب نہایت ذوق و شوق سے ان کے رقص و تموج کا تماشا دیکھتے رہے مگر جب شعلے قریب ہوتے گئے تو غالب تپش اور التہاب سے پریشان ہونے لگے۔ شعلے اور قریب آئے، غالب حدت سے گھبرا کر سجدے میں گرپڑے اور گڑگڑاکر چیخنے لگے)
غالب، بار الٰہا! بس مجھ میں ان شعلوں سے کھیلنے کی تاب نہیں۔ میں اپنی احمقانہ خواہش سے بھر پایا۔ جان آفرینا مجھے اس عطیے سے معاف رکھ۔ (گرمی سے غالب بے ہوش ہو جاتے ہیں اور شعلے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.