aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "جڑ"
حسرتؔ جے پوری
1922 - 1999
شاعر
اے جی جوش
1928 - 2007
جے کرشن چودھری حبیب
شمیم جے پوری
1933 - 1999
بہرام جی
1828 - 1895
مجاز جے پوری
جے پی سعید
امن جی مشرا
اننت شہرگ
مناکشی جی جی ویشا
جے شنکر پرساد
1889 - 1937
بلبل کاشمیری
صائم جی
جی آر وشیشٹھ
جی اے نجم
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میںدور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
جس کے کارن فساد ہوتے ہیںاس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
موتی ہو کہ شیشہ جام کہ درجو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
بڑی ممانی کا کفن بھی میلا نہیں ہواتھا کہ سارے خاندان کو شجاعت ماموں کی دوسری شادی کی فکر ڈسنے لگی۔ اٹھتے بیٹھتے دلہن تلاش کی جانے لگی۔ جب کبھی کھانے پینے سے نمٹ کر بیویاں بیٹیوں کی بری یا بیٹیوں کا جہیز ٹانکنے بیٹھتیں تو ماموں کے لیے دلہن تجویز کی جانے لگتی۔’’ارے اپنی کنیز فاطمہ کیسی رہیں گی؟‘‘
(۱)ہلکو نے آ کر اپنی بیوی سے کہا، ’’شہنا آیا ہے لاؤ جو روپے رکھے ہیں اسے دیدو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘
تخلیقی زبان ترسیل اور بیان کی سیدھی منطق کے برعکس ہوتی ہے ۔ اس میں کچھ علامتیں ہیں کچھ استعارے ہیں جن کے پیچھے واقعات ، تصورات اور معانی کا ایک پورا سلسلہ ہوتا ہے ۔ صیاد ، نشیمن ، قفس جیسی لفظیات اسی قبیل کی ہیں ۔ شاعری میں صیاد چمن میں گھات لگا کر بیٹھنے والا ایک شخص ہی نہیں رہ جاتا بلکہ اس کی کرداری صفت اس کے جیسے تمام لوگوں کو اس میں شریک کرلیتی ہے ۔ اس طور پر ایسی لفظیات کا رشتہ زندگی کی وسعت سے جڑ جاتا ہے ۔ یہاں صیاد پر ایک چھوٹا سا انتخاب پڑھئے ۔
سمندر کو موضوع بنانے والی شاعری سمندر کی طرح ہی پھیلی ہوئی ہے اور الگ الگ ڈائمینشن رکھتی ہے ۔ سمندر ، اس کی تیزوتند موجیں خوف کی علامت بھی ہیں اور اس کی صاف وشفاف فضا ، ساحل کا سکون اوربیکرانی، خوشی کا استعارہ بھی ۔ آپ اس شاعری میں دیکھیں گے کہ کس طرح عام سا نظر آنے والا سمندر معنی کے کس بڑے سلسلے سے جڑ گیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور لطف لیجئے ۔
ریختہ نے اپنے قارئین کے تجربے سے ایسے قدیم و جدید شاعروں کی کتابوں کا انتخاب کیا ہے جن کو سب سے زیادہ پڑھا گیا جاتا ہے، آپ بھی اس تجربے میں شریک ہوسکتے ہیں۔
जुड़جڑ
addition/ include/ join
जड़جڑ
root
بے جڑ کے پودے
سہیل عظیم آبادی
معاشرتی
اردو کا ابتدائی زمانہ
شمس الرحمن فاروقی
تنقید
سیاست نامہ
نظام الملک طوسی
عالمی تاریخ
مصباح الحکمت
محمد فیروز الدین
طب
جدید نظم: حالی سے میرا جی تک
کوثر مظہری
شاعری تنقید
مکتوبات حضرت علی
حضرت علی
خط
اپنا گریباں چاک
جاوید اقبال
خود نوشت
کلیات نفیسی
ابو علی سینا
جو ملے تھے راستے میں
احمد بشیر
میرا جی ایک مطالعہ
جمیل جالبی
دلی جو ایک شہر تھا
شاہد احمد دہلوی
مقالات/مضامین
جو میں نے دیکھا
راؤ عبدالرشید
انٹرویو
مخزن ادب
مولوی محمد عبدالشہید
نصابی کتاب
پاک و ہند کی جڑی بوٹیاں
صوفی لچھمن پرشاد
آیوروید
وہ جو شاعری کا سبب ہوا
کلیم عاجز
مجموعہ
اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیںکیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھیپاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئےیہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دوآئنہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
کسی گاؤں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔ چھکّاپنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھو ت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جا نے کی فکر نہ تھی۔ ودّ یانہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا نہ ملا تو چربن پر قنا عت کی۔ چر بن بھی نہ ملا تو پانی لیا اور رام کا نام لے کر سو رہا۔ مگر جب کوئی...
اے پہاڑوں کی دل فریب فضااے لب جو کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اس جنگ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ غالباً آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ جب زندگی میں ہنگامے بڑے سلیقے سے آتے تھے ؛ آج کی کل طرح نہیں۔ بے ہنگم طریقے پر پے در پے حادثے برپا ہورہے ہیں، کسی ٹھوس وجہ کے بغیر۔ اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیاسنتے ہی اس کے میرا کلیجہ الٹ گیا
مہا لکشمی کے اسٹیشن کے اس پار لکشمی جی کا ایک مندر ہے۔ اسے لوگ ریس کورس بھی کہتے ہیں۔ اس مندر میں پوجا کرنے والے ہارتے زیادہ ہیں، جیتتے بہت کم ہیں۔ مہا لکشمی سٹیشن کے اس پار ایک بہت بڑی بدرو ہے جو انسانی جسموں کی غلاظت کو اپنے متعفن پانیوں میں گھولتی ہوئی شہر سے باہر چلی جاتی ہے۔ مندر میں انسان کے دل کی غلاظت دھلتی ہے اور اس بدرو میں انسان کے جسم ک...
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books