aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ستواں"
ستاں دال
مصنف
تیرا ستواں جسم ہے تیرابول کہ جاں اب تک تیری ہے
نفیس ناک نزاکت صراط عدل بہارجمیل ستواں معطر لطیف خوشبو رچی
جیسا کہ شاہدہ نے اس کو بتایا تھا کہ اس کا شوہر بہت پیار کرنے والا ہے،بہت نیک خصلت ہے۔۔۔ لیکن اس سے یہ ثابت تو نہیں ہوتا کہ وہ شاہدہ کے لیے لازمی تھا۔ سلمیٰ حسین تھی،ابھرا ابھرا جوبن،بھرے بھرے ہاتھ پاؤں،کشادہ پیشانی، گھٹنوں تک لمبے کالے بال، ستواں ناک اور اس کی پھننگ پر ایک تل۔ جب وہ اپنی سہیلی سے اجازت مانگ کرغسل خانے میں گئی تو اس نے آئینے میں خود کو بڑے غور سے دیکھا اور اسے بڑی الجھن محسوس ہوئی، جب اس نے سوچا کہ آخر یہ جسم، یہ حسن، یہ ابھار کس لیے ہوتے ہیں۔۔۔ قدرت کی ساری کاریگری اکارت جا رہی ہے۔ ’’گندم پیدا ہوتا ہے تو آدمی اس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔۔۔اس کی جوانی بھی تو کسی کھیت میں اُگی تھی۔۔۔ اگر اسے کوئی کھائے گا نہیں تو گل سڑ نہیں جائے گی؟‘‘
لام سے آئے نہال سنگھ کو دو برس ہو چکےتھے۔ بہادر کی عمر اب اٹھارہ کے لگ بھگ تھی۔۔۔ اٹھارہ برس کا مطلب یہ ہے کہ بھرپور جوانی۔۔۔ نہال سنگھ جب یہ سوچتا تو جھنجھلا جاتا۔ چنانچہ ایسے وقتوں میں کئی دفعہ اس نے اپنا سر جھٹک کر بہادر کو ڈانٹا، ’’نام تیرا میں نے بہادر رکھا ہے۔۔۔ کبھی بہادری تو دکھا۔‘‘ اور بہادر ہونٹ چوس کر مسکرا دیتا۔نہال سنگھ نے ایک دفعہ سوچا کہ بہادر کی شادی کردے۔ چنانچہ اس نے اِدھر اُدھر کئی لڑکیاں دیکھیں۔ اپنے دوستوں سے بات چیت بھی کی۔ مگر جب اسے جوانی یاد آئی تو اس نے فیصلہ کرلیا کہ نہیں، بہادر میری طرح اپنی شادی آپ کرے گا۔ کب کرے گا؟ یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ اس لیے کہ بہادر میں ابھی تک اس نے وہ چمک نہیں دیکھی تھی جس سے وہ اندازہ لگاتا کہ اس کی جوانی کس مرحلے میں ہے۔۔۔ لیکن بہادر خوبصورت تھا۔ سندر جاٹ نہیں تھا،لیکن سندر ضرور تھا۔ بڑی بڑی کالی آنکھیں، پتلے پتلے لال ہونٹ، ستواں ناک، پتلی کمر، کالے بھونرا ایسے کیس مگر بال بہت ہی مہین۔۔۔ گاؤں کی جوان لڑکیاں دور سے اسے گھور گھور کے دیکھتیں۔ آپس میں کانا پھوسی کرتیں مگر وہ ان کی طرف دھیان نہ دیتا۔
کسی تہذیب میں آبنوس کی طرح جھلکتا سیاہ رنگ، چپٹی ناک اور موٹے موٹے لٹکتے ہونٹ حسن کی نشانی ہیں اور کسی تہذیب میں گورا رنگ، ستواں ناک، پتلے ہونٹ اور نرگسی آنکھیں۔ چنانچہ حبشہ کا جب کوئی عیسائی مصور حضرت مسیحؑ اور مریمؑ کی رنگین تصویر بناتا ہے تو ممدوحین کے چہرے کے نقوش اور کھال کا رنگ ان کے اپنے معیارِحسن کے مطابق ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم کسی حبشی یا جا...
सुत्वाँستواں
straight, erect
سرخ و سیاہ
ناول
عظیم شاعر مرزا غالب
سوانح حیات
ساتواں در
امجد اسلام امجد
مجموعہ
ساتواں پھیرا
واجدہ تبسم
معاشرتی
غالب کا روزنامچہ
خواجہ حسن نظامی
ہندوستانی تاریخ
ساتواں شاستر
فکر تونسوی
ساتواں سرسید احمد خان میموریل لیکچر
رفیق زکریا
خطبات
ساتواں چراغ
مرزا ادیب
افسانہ
ساتواں آنگن
صالحہ عابد حسین
خواتین کی تحریریں
شہریار
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا ساتواں سالانہ جلسہ
نامعلوم مصنف
مرزا غالب دو سوواں جشن ولادت1797-1997
وفات غالب کا سواں سال
اشرف قدسی
انتخاب
وہ جوان تھی۔ اس کی ناک اس پنسل کی طرح سیدھی اور ستواں تھی جس سے میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، اس کی آنکھیں۔۔۔ میں نے اس جیسی آنکھیں بہت کم دیکھی ہیں اس پہاڑی علاقے کی ساری گہرائیاں ان میں سمٹ کر رہ گئی تھیں۔ پلکیں گھنی اور لمبی تھیں۔ جب وہ میرے پاس سے گزری تھی تو دھوپ کی ایک لرزاں شعاع اس کی پلکوں میں الجھ گئی تھی۔ اس کا سینہ مضبوط اور کشادہ تھا۔ اس می...
دہلی میں وہ کون ہے جس نے حضرت ظل اللہ کو نہیں دیکھا۔ میانہ قد، بہت نحیف جسم، کسی قدر لمبا چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، آنکھوں کے نیچے کی ہڈیاں بہت ابھری ہوئی، لمبی گردن، چوکا ذرا اونچا، پتلی ستواں ناک، بڑا دہانہ، گہری سانولی رنگت، سرمنڈا ہوا، چھدری ڈاڑھی، کلوں پر بہت کم، ٹھوڑی پر ذرا زیادہ، لبیں کتری ہوئی، ستر برس سے اونچی عمر تھی۔ بال سفید بھک ہو ...
’’دیکھا نہیں تھا اس دن؟ کیسے راما لنگم کی بیٹی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔‘‘کچھ بھی ہو، ماں کے اس مرد کو گالیاں دینے سے ایک حد تک میرا دل ٹھنڈا ہو گیا تھا مگر بڈھے کی باتیں رہ رہ کر میرے کانوں میں گونج رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہیں مل جائے تو میں۔۔۔ اور اس کے بعد میں اپنے بے بسی پر ہنسنے لگی۔ ذرا دیر بعد میں اٹھ کر اندر آ گئی۔ سامنے قدم آدم آئینہ تھا۔ میں رک گئی اور اپنے سراپے کو دیکھنے لگی۔ کولھوں سے نیچے نظر گئی تو پھر مجھے اس کی چار چار پانچ پانچ بچوں والی بات یاد آ گئی اور میرے گالوں کی لویں تک گرم ہونے لگیں۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر میں کس سے شرما رہی تھی؟ ہو سکتا ہے بدن کا یہی حصہ جسے لڑکیاں پسند نہیں کرتیں مردوں کو اچھا لگتا ہو۔ جیسے لڑکے سیدھے اور ستواں بدن کا مذاق اڑاتے ہیں اور نہیں جانتے وہی ہم عورتوں کو اچھا لگتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو سوکھا سڑا ہونا چاہئے۔ نہیں ان کا بدن ہو تو اوپر سے پھیلا ہوا۔ مطلب چوڑے کاندھے، چکلی چھاتی اور مضبوط بازو۔ البتہ نیچے سے سیدھا اور ستواں ہی ہونا چاہئے۔
اور میں چق اٹھا کر تیزی سے اس کے پاس پہنچ گیا۔ عظمی کے ساتھ ایک اور لڑکی بیٹھی تھی جسے میں نے بالکل نہ دیکھا اور جس نے مجھے دیکھ کر منہ جلدی سے دوسری طرف پھیر لیا۔ میں ذرا ٹھٹک گیا۔ اتنے میں بھانجی بھی آ گئی اور اس لڑکی کو مجھ سے پردا کرتے دیکھ کر بول اٹھی، ’’حد ہوگئی۔ بھلا ماموں سے کیا پردا؟‘‘’’ہاں بھئی، بھلا یہ بھی کوئی پردے کا موقع ہے۔‘‘ عظمی نے اس لڑکی کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ اس دوران میں وہ لڑکی شرم سے سکڑی جا رہی تھی اور اس کے کانوں کی لویں سرخ ہو رہی تھیں۔ میں عظمی اور بھانجی سے باتیں کر رہا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے دو تین بار نظریں بچا کر اس لڑکی کو دیکھا۔ باریک ہونٹ، ستواں ناک، جھالریں اور پلکیں اور ہلکا گلابی رنگ۔ چپ چاپ بے زبان جیسے موم بتی۔۔۔ یہ تھی راجدہ۔
غزالی آنکھیں ستواں ناک، خوبصورت ہونٹ، کتابی چہرہ لمبی گردن جس پر تل کی موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ شاید خدا نے نظر بد کے ڈر سے ٹیکا لگا ڈالا۔ نازک اندام اور سرو قد یہ کسی شاعر کا خواب نہیں بلکہ جیتی جاگتی سومیہ تھی۔ انتہائی زہین اور زندگی سے بھرپور۔ خود پر غرور حسن کا نہیں بلکہ عورت ہونے کا۔ اس کو آئینے کی پرواہ ہی نا تھی کہ کیا بولتا ہے اس کے ل...
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے اپنی دائیں ہتھیلی کا پسینہ پونچھ کر ہاتھ مصافحہ کے لیے تیار کیا۔ سامنے کرسی پر ایک نہایت بارعب انگریز نظر آیا۔ سر بیضوی اور ویسا ہی صاف اور چکنا۔ جس پر پنکھے کا عکس اتنا صاف تھا کہ اس کے بلیڈ گنے جا سکتے تھے۔ آج کل کے پنکھوں کی طرح اس پنکھے کا وسطی حصہ نیچے سے چپٹا نہ تھا، بلکہ اس میں ایک گاؤ دم چونچ نکلی ہوئی تھی، ...
چار پانچ دن میں سروس رولز بن گئے۔عورت انہیں لے کر خوشی خوشی سیکرٹری ایجوکیشن کے پاس پہنچی۔ سیکرٹری ایجوکیشن ایک نازک ڈیل ڈول کے انسان تھے۔ ان کے نقوش بھی نازک اور دلچسپ تھے۔ گھنے ابرو اور پلکیں، چمکتی آنکھیں، خوب فراخ دہانہ، لمبی سی ستواں ناک جو اوپر کی طرف مڑی ہوئی تھی۔ گویا ان کا ایک "ولندیزی" قسم کا چہرہ تھا۔ عورت کو یہ بات دلچسپ لگتی تھی۔ اس نے پنجاب میں چند ایسے دوسرے چہرے بھی دیکھے تھے۔ پنجاب میں نسلیں کسی درجہ مخلوط ہیں۔ اس نے سوچا اور سروس رولز ان کی طرف بڑھائے۔ سیکرٹری ایک خوش مزاج بھلے مانس تھے۔ وہ عورت سے شفقت اور مہربانی سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے ہمدردی سے کاغذات پر نظر ڈالی اور کہا،
فرمایا، ’’نہیں، اماں، ابھی نہیں، جھولوں پر لوگ بیٹھ لیں اس وقت پکوان شروع ہو۔‘‘ یہ کہہ نواب زینت محل اور نواب تاج محل کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں کھڑی ہو گئیں۔تاج محل تو ایسی خوبصورت نہ تھی۔ ہاں، زینت محل کی کچھ نہ پوچھو، عجب قبول صورت پائی تھی۔ شہر بھر میں ایک تھیں، ان کی جامہ زیبی اور حسن کی تعریف ہی سن کر بادشاہ نے ان سے شادی کی تھی، رنگت ایسی سرخ و سفید تھی جیسے گلاب کی پتی، یا شہاب اور میدہ، کتابی چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبی ستواں ناک، ہاں بھویں بالکل نہ تھیں۔ اس کی کمی کو سرمے کی بھویں بنا کر پورا کیا جاتا، ہاتھوں میں دھانی چوڑیاں، سر پر تاروں بھرا گلنار دوپٹا، جسم پر سرخ انگیا کرتی، باون کلی کا سبز زر بفت کا پائجامہ، موتیوں جڑی گھیتلی جوتی۔ آنکھوں میں گہرا گہرا سرمہ، دانتوں میں مسی، ہونٹوں پر لاکھا۔ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ پرستان کی پری امریوں میں اتر آئی ہے۔
’’اچھا تو پھر کل مل کر کمرہ ٹھیک کرلیں گے۔‘‘ بیگم طے کرتیں۔ لیکن کنیز اس ’’کل‘‘ کو عموماً اپنے روزانہ کام میں بھول جاتی، یہی کیا، کنیز تو ہفتوں کنگھی کرنا بھی بھول جاتی، عرصے سے وہ بیگم کی صندوقچی میں رکھے ہوئے ننھے سے آئینے میں اپنی صورت دیکھنا تک بھی بھول چکی تھی۔ اسے اب عشرت کی یاد بھی نہ آتی، نہ ممتاز، نہ نمی اور نہ دادی۔۔۔ اور چمی تو جیسے اس ک...
وہ چھپتا سا سورج وہ مہہ کا ظہورکہ دفعتاً دور سے اس دریا میں ایک روشنی پیدا ہوئی۔ جب وہ روشنی قریب آئی تو دیکھا کہ ساٹھ ستر کشتی، بجرا، مور پنکھی، لچکا، ہوڑی، ٹین منوّر ہیں۔ ان میں ناز نینانِ پری تمثال اور مہو شان حورخصاں۔ زلفیں تا کمر چھوٹی ہوئی۔ دوپٹے سروں سے ڈھلکے ہوئے۔ نشوں میں سرشار زرق برق جوڑے پہنے، گہنے پاتوں سے لدی عالمِ بے خودی میں آپے سے بےخبر۔ نشۂ حسن و شباب میں بے خوف و خطر باہم چہلیں کر رہی ہیں اور قہقہے مار رہی ہیں، بیچ میں ایک طاؤسی از دم تا منقار جواہر اب دار سے تیار۔ جوان جوان عورتیں سبزہ رنگ، ساڑیاں بنارسی بھاری بھاری باندھے، گاتیاں مارے۔ موٹے موٹے کڑے۔ مگر وہاں جڑاو ہاتھوں میں پڑے۔ فتح پیچ کے سرگندھے۔ کوڑیالے موباف، مانگیں نکلیں، کانوں میں میناکاری بجلیاں۔ گلوں میں دہرے گجروں کے توڑے، گنگا جمنی چپو ہاتھوں میں لیے ڈانڈیں لگاتی چلی آتی ہیں۔ اندر اس کے سورج مکھیاں روشن، مسند زر تارلگی، بیس بائیس انیسان خاص خوش رو ژ ولیدہ مو، موسمی رنگ کے جوڑے، ہلکے ہلکے زیور چپ راست کھڑی بالائے مسند ایک ماہِ طلعت کمال ناز وادا سے جلوہ فرما۔ گورا گورا بدن چاند سا مکھڑا، بھولی بھالی صورت، لمبے لمبے بال، بڑی بڑی آنکھیں، جٹّی بھویں، پھول سے گال، ستواں ناک غنچہ دہن، پتلے پتلے ہونٹ، دانت موتیوں کی لڑی، صراحی دار گردن، پیاری پیاری وضع:
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books