Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر باقر علی

اشرف صبوحی

میر باقر علی

اشرف صبوحی

MORE BYاشرف صبوحی

    غدر کے بعد سے دلی پر کچھ ایسی ساڑھ ستی آئی کہ اول تو پرانے گھروں کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔ نہ مکان رہے نہ مکیں۔ سارا شہر ہی بارہ باٹ ہو گیا اور جن کی نال نہیں اکھڑی وہ پیٹ کی خاطر تتر بتر ہوئے۔ روٹی کی تلاش میں جس کو دیکھو خانہ بدوش۔ بارہ برس ہوئے ملازمت کے سلسلے میں دیس نکالا جو ملا تو دلّی کی صورت دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ وہ تو خدا بھلا کرے بادشاہ سلامت کا، نہ وہ دلی میں دربار کرتے نہ میرا یہاں آنا ہوتا۔ تقدیر میں ایک مرتبہ پھر دلی دیکھنی تھی آ گیا ورنہ یوں ہی روزی کی اَلسیٹ میں ترستا ہوا مر جاتا۔

    رات کے وقت ریل سے اترا۔ بیوی بچے ساتھ تھے۔ مگر آیا تو عجیب نقشہ۔ اسباب کو ٹھریوں میں بند، اجڑا ہوا سماں۔ سفر کی تھکن تھی۔ یوں ہی زمین پر بچھونے کر سو گئے۔ صبح سے درستی شروع کی، دو روز اسی ٹیٹک منجا میں لگ گئے۔ گھر سے باہر تک نہ نکل سکا۔ وطن مکان کی چاردیواری کا تو نام نہیں۔ تیسرے دن باہر نکل کر سوچ رہا تھا کہ پہلے کہاں چلنا چاہیے۔ راہ گیر آ جا رہے تھے۔ سب شکلیں اجنبی۔ بیسیوں بوڑھے جوان گزر گئے۔ نہ میں نے کسی کو پہچانا نہ مجھے کسی نے جانا۔ اتنے میں ایک صاحب مُنخی سے جیسے سفید امچور کی پھانک، نیچی نظریں کیے سامنے سے چلے۔ ان کی صورت کچھ جانی پہچانی سی دکھائی دی۔ ان کی نظر جو مجھ پر پڑی، ٹھٹکے اور بولے ’’آپ کا اسم مبارک؟ میں نے کچھ جواب نہیں دیا۔ دربار کے سبب، سی آئی ڈی کا بڑا زور تھا۔ گمان ہوا کہ کوئی خفیہ پولیس والا ہے، کون جواب دے کر الجھن میں پڑے۔ ایک منٹ انتظار کرکے انھوں نے پھر مجھے مخاطب کیا، ’’جناب میں آپ سے عرض کر رہا ہوں۔‘‘

    میں: (ذرا تیوری چڑھا کر) جناب کو میرے نام سے مطلب؟

    وہ: بس جناب جو میں معلوم کرنا چاہتا تھا معلوم ہو گیا۔

    میں: کیا؟

    وہ: آپ کو دہلی شریف سے کوئی نسبت نہیں۔

    میں: پھر آپ نے کہاں کا رہنے والا سمجھا؟

    وہ: کم از کم جمنا پار کا۔

    میں: (کسی قدر بھنا کر) چلیے اپنا کام کیجیے۔

    وہ: حضت یہ زمانہ بے کاری کا ہے کام کہاں؟

    میں یاد کر رہا تھا کہ یہ آواز اور یہ بول چال تو سنی ہے، کہاں سنی ہے۔ کب سنی ہے؟ سمجھ میں نہیں آیا۔ صورت حافظے میں آتی اور نکل جاتی۔ انھوں نے مجھے خاموش دیکھ کر فرمایا، ’’آپ نے یہ مکان کرایہ پر لیا ہے؟‘‘

    میں: بندۂ خدا تم تو سریش بن گئے۔ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔

    وہ: بھئی دلی کی بولی تو خاصی بولتے ہو۔ بیوی کا صدقہ ہے شاید۔

    مجھے اس فقرے پر کچھ ہنسی سی آئی اور میں نے کہا، ’’جناب آخر آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘

    ان کی داہنی بغل میں ایک خاصی۔ بڑی پوٹلی سی تھی جسے ایک ایک دو دو منٹ کے بعد سہارتے سنبھالتے جاتے تھے اور بائیں ہاتھ میں ایک بستہ سا اس طرح چھاتی سے لگا ہوا جیسے بڑی جماعتوں کے طالب علموں کا قاعدہ ہے۔ دروازے کی چوکی پر اپنا پوٹلا رکھے ہوئے بولے، ’’جناب اجازت ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’شاید آپ کے ہاں کاربرآری کے بعد اجازت طلبی کا دستور ہے؟‘‘ خدا جانے انھوں میرا یہ فقرہ سنایا نہیں وہ اپنا بستہ کھولنے میں مصروف تھے۔ بستے میں چھوٹی چھوٹی کتابیں تھیں۔ کتابیں کیا دو دو تین تین جزو کے رسالے (ایک کتاب میرے آگے کرکے) ’’ حضت دلّی کا نا باتی بھی سنی ہے’’ ملاحظہ ہو۔ پرانی کہانیاں ہیں۔ یہ دیکھیے پاجی پڑوس، خلیل خاں اور فاختہ، پڑھیے اور ہنسیے، بادشاہ کا مولا بخش ہاتھی، قلعے کی آبادی کے زمانے کا ایک قصہ ہے۔ سیاسی رنگ مزاج پر غالب ہو تو گاڑھے خاں کا دکھڑا اور ململ جان کی انوٹیں لیجیے۔ قیمت کچھ زیادہ نہیں سوا روپے میں پورا سٹ۔

    کتابوں کے عجیب نام سن کر میں نے کتابیں ہاتھ میں لیں۔ ایک کتاب کے ٹائیٹل پر نظر پڑی تو مصنفہ میر باقر علی داستان گو۔ فوراً میر صاحب کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ اب جو حلیہ ملاتا ہوں تو خود بدولت ہیں۔ وہی وضع دہی قطع، وہی لٹھے کی گول خانہ ساز ٹوپی، کانوں سے رومال لپٹا ہوا۔ وہی چوڑی آستینوں کا کرتا، وہی چھینٹ کی ادھ سیری نیمہ آستین، وہی سوا انچی چگّی داڑھی، وہی پوستیوں کی سی آنکھیں، وہی مل گجا مل گجا چہرے کا رنگ۔ میر آنکھوں کا قصور رہا ورنہ ان کی شباہت میں فرق نہ تھا۔ ہاں کسی قدر جھریا گئے تھے۔

    میر صاحب کو پہچاننے کے بعد مجھے کہاں تاب تھی، لپٹ گیا۔ ’’ہائیں میر صاحب آپ ہیں؟ واللہ غضب کیا۔ آخر یہ کون سی عیاری تھی۔ کیا سچ مچ آپ نے بھی مجھے نہیں پہچانا تھا۔

    میرصاحب: نہ پہچاننے کے کیا معنی؟ میں جب ادھر سے گزرتا تھا۔ آنکھیں آپ کو ڈھونڈتی تھیں۔ میاں کب آئے؟

    میں: افوہ! کتنے عرصے بعد ملنا ہوا ہے! گزشتہ اتوار کی رات کو آیا ہوں۔ آپ نے کس سے سن لیا۔ میں تو ابھی کہیں گیا بھی نہیں۔

    میر صاحب: میرے دل کو خبر ہو گئی تھی۔

    میں: اور آپ نے مجھے پہچان لیا؟ مجھ میں تو زمین آسمان کا فرق ہو گیا ہے۔

    میر صاحب: میاں ہم لوگ نئی روشنی کے نہیں کہ ظاہر میں اجالا اور دل میں اندھیرا۔ جو آنکھوں میں بس گیا۔ بس گیا:

    بہرے رنگ کہ خواہی جامہ می پوش

    من انداز قدت رامی شناسم

    میں: کیا کہوں آپ کو دیکھ کر کس قدر خوشی ہوئی ہے۔

    میر صاحب: تمہاری سعادت مندی ہے، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ اچھا آداب عرض کرتا ہوں۔ انشا اللہ پھر کسی وقت ملاقات ہوگی۔

    میں: مگر یہ تو فرمائیے کہ یہ کتابیں آپ نے کب لکھیں اور کب چھپوائیں؟

    میر صاحب: پڑھوگے تو معلوم ہو جائےگا۔

    میں: اور اس پوٹلی میں کیا ہے؟

    میر صاحب: چھا لیا! کتابیں بھی بیچتا ہوں اور چھا لیا بھی۔

    میں: آپ چھالیا بھی بیچتے ہیں؟ داستان گوئی کا سلسلہ ختم؟

    میر صاحب: تم دلی کو اب کیا سمجھتے ہو۔ کایا پلٹ گئی۔ بجلی کی روشنی میں پرانے دیوٹ کو کون پوچھتا ہے۔ میاں’’ اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے’’ خدا حمالی کرائے دلالی نہ کرائے۔ آبرو کے ساتھ بسر کرنے کی آخر کوئی شکل تو ہونی چاہیے۔

    میں: لیکن کہاں وہ سبق آموز اور شریف فن، کہاں یہ چھالیا فروشی۔ کیا آپ اس میں خوش ہیں؟

    میر صاحب: ارے صاحب خوشی دلی والوں کی خوش اقبال کے ساتھ رخصت ہوئی۔ آج جو خوش ہوتا ہے دراصل خوشی کو منہ چڑاتا ہے اور میں تو بھئی داستان گوئی سے چھا لیا بیچنے میں زیادہ خوش ہوں۔

    میں: بھلا کیوں؟

    میر صاحب: قبرستانوں میں جاکر سناؤں؟ زندوں میں تو کہیں چرچا رہا نہیں، کیونکر رہے؟ جو ہے زبان سے ناآشنا، اگلے وقتوں کی معاشرت پر منہ آنے والا۔ اگلے انسانوں کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔ زندگی کا فلسفہ ہی بدل گیا ہے۔ بچے کھچے کچھ لوگ رہ گئے تھے جن کے ہاں کبھی کبھی جاکر بزرگوں کی فاتحہ پڑھ آتا تھا۔ ان کی صحبتیں بھی درہم برہم ہو گئیں۔

    میں: لیکن چھالیا بیچنا تو بہرحال آپ کی شان کے خلاف ہے۔

    میر صاحب: شان، ہاتھی کا نشان، میاں شان کا مفہوم دنیا نے غلط سمجھ رکھا ہے۔ دوسرے داستان کی طرح میں نے اس میں بھی کمال پیدا کیا ہے۔ میری چھالیا کھاکر دیکھو داستان کا مزہ نہ آئے تو کہنا۔ بات یہ ہے کہ پان کھانا دلی والے بھولتے جاتے تھے (ہنس کر) میں نے انھیں پھر سکھانا شروع کیا ہے اور پنجابی تک کہنے لگے ہیں کہ آہو میر صاحب ہن پان داسواد آیا۔

    میں: (تعجب سے) آپ کا مطلب میں سمجھا نہیں۔ دلی والے پان کھانا کس طرح بھول گئے؟

    میر صاحب: اپنی معاشرت بدل کر۔ اپنے بڑوں کی ہنسی اڑاتے اڑاتے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اگر کچھ دن اور پان کھانے والوں میں بے شعوری بڑھتی رہی تو ہمارے تمدن کی یہ چیز بھی گئی۔ سوچتے سوچتے یہ سمجھ میں آیا کہ چھالیا بیچو۔ چنانچہ اس کی تجارت شروع کر دی۔ اب جہاں چھا لیا لے کر جاتا ہوں میرا فرض ہے کہ پان کھانے کا سلیقہ بھی بتاؤں۔

    میں: پان کھانے میں بھی سلیقے کی ضرورت ہے؟

    میر صاحب: سبحان اللہ۔ پھر آدمی گھاس کے پتے نہ چبالے۔ میاں تمھارے بڑوں نے جانوروں کی طرح پیٹ بھرنے کے لیے پان نہیں کھائے۔ نہ یہ کوئی تعیش کی چیز تھی۔

    میں: پھر کیوں کھاتے تھے؟

    میر صاحب: گلے، دانتوں اور معدے وغیرہ کی دوا سمجھ کر اور اس لیے وہ پان اور اس کے جملہ لوازم سے واقف ہوتے، چھالیا کیسی ہونی چاہیے۔ پان کس موسم میں کس حالت میں کون سا کھایا جائے۔ کتھا کیوں کر پکائیں۔ چونا کس طرح بجھائیں۔ آج کل پہلے کی نسبت پان زیادہ کھائے جاتے ہیں۔ جسے دیکھو پنواڑی کی دکان پر کھڑا ہے۔ یا ڈبیا جیب میں ہے۔ بکر بکر چبائے جاتا ہے۔ مگر پوچھو کہ کیا کھایا، پان یا پیپل کا پتّا۔ چھالیا یا پنساری کی دکان کا کوڑا تو دانت نکوس دیتے ہیں۔ ایسوں ہی نے تو ہمیں بدنام کیا ہے۔ ہماری معاشرت میں کیڑے ڈلوائے ہیں۔

    میں: تو کیا داستان کہنی بالکل چھوڑ دی۔

    میر صاحب: بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی

    بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی

    جب سے دل زندہ تو نے ہم کو چھوڑا

    ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

    یوں دو چار لگے بندھے ٹھکانے ہیں۔ کبھی بلایا جا بیٹھا۔ داستان کیا، وقت کے مطابق کوئی چٹکلا سنایا۔ دل بہلایا۔ اپنا نہیں بلانے والوں کا اور چلا آیا۔ ہاں غریب خانے پر ہفتے کے ہفتے پرانے کھنڈروں کے کچھ روڑے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سچ پوچھو تو سر پھوڑنے کا مزہ آ جاتا ہے۔ اچھا تو رخصت ہوتا ہوں۔ یار زندہ صحبت باقی۔

    یہ کہہ کر دو قدم چلے تھے کہ پھر پلٹے اور فرمانے لگے، ’’بھئی خوب یاد آیا۔ اب کے ہفتے کو (انگلیوں پر گن کر) تیسرے دن جی چاہے تو غریب خانے پر تشریف لے آئیے۔ لکھنؤ کے چند اہلِ ذوق آنے والے ہیں۔ ان کی فرمائش ہے کہ دلی کے رنگ کی داستان سناؤں۔ نوبجے شروع کروں گا گیارہ بجے محفل برخاست ہو جائےگی۔‘‘

    میں: میر صاحب! میں اور نہ آؤں۔ آخر دلی آیا کس لیے ہوں؟ مگر آپ وقت پر کسی کو بھیج کر بلوا لیں تو بڑا کام کریں۔ دوسری مصروفیتوں میں شاید میں بھول جاؤں۔

    دلی جب ہندوستان کا دل تھی۔ قلعہ آباد تھا۔ اس میں زندگی کے آثار تھے۔ تو ہرفن کا صاحبِ کمال پیدا ہوتا تھا۔ فارغ البالیاں تھیں۔ قدر دانیاں تھیں۔ لوگ اپنے اپنے ہنر دکھاتے تھے۔ دیکھنے والے کبھی بطور پرورش کبھی’’ اے وقتِ تو خوش کہ وقتِ ماخوشی کر دی’’ کے مصداق اور کبھی شانِ امارت دکھانے کے لیے دل بڑھاتے رہتے تھے۔ جب تک سپاہیانہ جوش اور فتوحات کے ولولے رہے اندر اور باہر کا وہی نقشہ تھا۔ تیراندازی، شمشیرزنی، کشتی، گھوڑے کی سواری کھیلوں میں داخل تھی۔ وہ وقت نہ رہا۔ حکومت دوسرے رنگ پر آ گئی تو رزم نے بزم کی صورت اختیار کر لی۔ خون آشامی کے جذبات مرغ بازی، بٹیربازی وغیرہ میں اور سواری شکاری کے خیالات، ناچ رنگ اور دوسرے تفریحی مشاغل میں بدل گئے۔ حیات متحرک پر جمودی کیفیت طاری ہوئی۔ تمام دن مسند تکیہ لگائے بیٹھنے میں اعضا شل ہو جاتے تھے، راتوں کی نیند بدمزہ ہونے لگی۔ لوریوں کی ضرورت پڑی۔ قصے کہانیاں شروع ہو گئیں۔ یہ گویا داستان گوئی کی ابتدا ہے۔ خواہ اس کا موجد ایران ہو یا ہندستان، لیکن ہے یہ قوم کی غنودگی اور حکومت کی افسردگی کے دور کی پیدایش۔

    میر باقر علی کے باپ دادا داستان گو نہ تھے۔ ان کے نانا میر امیر علی قلعے میں قصہ خواں تھے۔ میرا میرعلی ۵۷ء کی بساط کے ساتھ لپٹ گئے۔ میر صاحب کے ماموں میر کاظم علی نے قصہ خوانی سے بڑھ کر داستان گوئی شروع کی اور اس فن کو ایسی ترقی دی کہ لکھنؤ اور فیض آباد کے واجد علی شاہی قصہ خوانوں کی چیں بلوادی۔ دلی والوں کا سکہ بٹھا دیا۔ ان کی ہزار داستانی کا غلغلہ حیدرآباد پہنچا۔ سر آسماں جاہ بہادر کا دور دورہ تھا۔ شہرت کے ہاتھوں وہاں بلائے گئے۔ اور قدردانی نے ایسا پکڑا کہ وہیں کے ہو رہے۔ میر باقر علی ان ہی کے شاگرد تھے۔ ماموں بھانجے کارشتہ، استاد لاولد۔ شاگرد ہونہار اور بقائے فن کا شوق۔ خوب سکھایا اور خوب سیکھا۔ ماموں کو تو ہم نے سنا نہیں۔ بھانجے کو سنا ہے اور پیٹ بھر کر سنا ہے۔ کیا کہنا اس فن کے خاتم تھے۔ وہ کیا مرے کہ فن ہی مرگیا۔ میر کاظم علی تو میر باقر علی جیسا شاگرد چھوڑ گئے۔ لیکن میر باقر علی نے نام کے سوا کچھ نہ چھوڑا۔ لڑکا کوئی ان کا بھی نہ تھا۔ ایک لڑکی تھی جسے انھوں نے قابلہ کی تعلیم دلائی۔ کاش داستان گوئی سکھاتے کہ اس مرحوم فن کا سلسلہ تو نہ منقطع ہوتا۔ مردوں کی نسبت عورتوں میں داستان گوئی زیادہ کارآمد ثابت ہوتی۔

    امیر حمزہ اور عمر عیار کے تقریباً سارے قصے میں نے پڑھے ہیں۔ میر باقر علی مرحوم کی داستانیں ان ہی کا ضمیمہ ہوتی تھیں۔ وہی کفر و اسلام کی جنگ آزمائیاں، وہی طلسم کشائیاں۔ وہی عیاریاں۔ مگر ان کی طرزِ ادا، ایسی دلچسپ ہوتی تھی کہ کیا کہیے۔ اصوات و حرکات کے پورے ادا کار تھے۔ میدان جنگ کا نقشہ کھینچتے تو یہ معلوم ہوتا کہ رستم و اسفندیار کی کشتی دیکھ کر ابھی آئے ہیں۔ بزم عیش کا سماں باندھتے توفضا میں مستانہ رنگ نظر آنے لگتا۔ ہرجذبے کی تصویر کھینچنا کیا معنی خود تصویر بن جاتے تھے۔ حافظہ اس بلا کا تھا کہ دفتر کے دفتر نوک زباں تھے۔ کھانوں کا ذکر آیا تو الوان نعمت کی فہرست کھول دی۔ کشتی کا بیان کیا تو گوندی شاہ والوں اور شیخو والوں کے سارے دانوپیچ گنوا دیے۔ بیان کی روانی اس قدر تھی کہ کبھی کبھی حقے کا کش یا اتفاقیہ افیون کی چسکی لگا لینے کی سہی نہیں، ورنہ عموماً داستان شروع کرکے خاتمے ہی پر دم لیتے تھے۔ کیا مجال ہے کہ نظم یا نثر میں کہیں ہچکی لیں یا کسی میدان میں جھول آئے۔ موسیقی سے واقفیت کا سامان تو خدا ساز تھا۔ ترکمان دروازے ڈوموں کی گلی کے اصلی رہنے والے تھے، جہاں کی دنیا ہی سروں میں گٹھی ہوئی تھی۔ یہ تو تحقیق ہو نہیں سکا کہ موسیقی کاعلم کس حد تک تھا۔ گلے سے بھی کام لیتے تھے یا نہیں۔ البتہ کن رسیے پورے تھے۔ بڑے بڑے جلسوں میں اچھے اچھے گویوں کو ٹوک دیا ہے۔ آواز کی باریکیوں اور سنگیت پر اتنی اچھی نظر تھی کہ اکثر پنڈتوں سے مباحثے کے لیے تیار ہو گئے۔

    آخری عمر میں طب پڑھنے کا شوق ہوا تھا۔ باقاعدہ طبیہ کالج دہلی میں جاکر لیکچر سنتے تھے۔ طبیب بننے کے لیے نہیں بلکہ اس خیال سے کہ داستان میں علمی رنگ پیدا ہو جائے۔ کیونکہ طب اسلامی کے نصاب میں فلسفہ، ریاضی، ادب، نفسیات، منطق، فلکیات وغیرہ تقریباً سارے علوم کم و بیش داخل ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی داستان میں اس بدعت سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔ لیکن افسوس یہ ان کی اجتہادی غلطی ثابت ہوئی۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔ میر صاحب خیر اپنی چال تو نہیں بھولے، البتہ چھالیا ضرور بیچنے لگے۔ بات یہ تھی کہ میر باقر علی داستان گو تھے، علم کے کسی شعبے کے لکچرار نہیں۔ لوگ ان سے صرف اپنا دل بہلانا اور اپنے جذبۂ حیرت کی تسکین چاہتے تھے، یا دلی کے کرخنداروں کی بولیاں ٹھولیاں سننا مقصد ہوتا تھا۔ حقیت میں داستان بھی اگر سائنس، فلسفہ اور حکمت کی خشکی سے متاثر ہوجائے تو قہقہے کے لیے کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔

    خیر آمدم برسر مطلب۔ ہفتہ آیا اور اتفاق سے میں میر صاحب کے ہاں جانا بھولا بھی نہیں، لیکن اس دن یکایک کچھ اتنے کام آ پڑے، اگر میر صاحب اپنے برادرِ نسبتی کو نہ بھیجتے تو غالباً میں نہ جا سکتا اور اس نہ جانے کا عمر بھر افسوس رہتا۔ ٹھیٹ داستان گوئی کے رنگ میں بیان کی آخری داستان تھی۔ لکھنؤ والوں میں ایک صاحب طلسم ہوش ربا کے مترجم بیٹھے تھے اور انھیں دعوا تھا کہ میرے والد سے بہتر داستان گوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ اس لیے میر صاحب کو بھی اپنا کمال دکھانا پڑا۔

    جاڑے کا موسم تھا۔ میں میر صاحب کے ہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چھوٹے سے دالان میں دس بارہ آدمی بیٹھے ہیں۔ چائے کا دور چل رہا ہے۔ طول میں پکھوائی کے قریب ایک چوکی بچھی ہوئی ہے۔ افیون کی ڈبیا، لوٹا پانی کا، دو تین پیالیاں آس پاس رکھی ہیں۔ چوکی کے آگے دیوار کی طرف ایک منحنی سا آدمی لپٹا لپٹایا بیٹھا ہے۔ آگے ڈوری میں ٹنگی ہوئی لال ٹین ٹمٹما رہی ہے۔ مدھم روشنی، میری آنکھوں پر عینک چڑھی ہوئی، کیا پہچانتا۔ سلام علیک کرکے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ آواز آئی۔

    ’’میاں بڑی راہ دکھائی۔ میں تو ہار کر داساٹن شروع کرنے والا ہی تھا۔‘‘

    میں: آپ ہیں کہاں؟ آواز آ رہی ہے نظر نہیں آتے۔

    میر صاحب: بھائی سردی ہے سردی۔ ناک کی سیدھ میں چلے آؤ میرے پاس پہنچ جاؤگے۔

    میں آگے بڑھا اور آواز پر جاپہنچا۔ ان کی اس وقت کی برزخ بھی دیکھنے کے قابل تھی۔ سرپر روئی کا کنٹوپ جس کے دونوں سرے اوپر کو الٹ کر ٹوپی سی بنالی گئی تھی۔ سیاہ زمیں اور لال لال بوٹیوں دار چھینٹ کی کمری۔ اوپر سے خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی ڈیڑھ سیر روئی کی رضائی۔ ٹانگوں میں خاکی زین کا پائجامہ۔ پاؤں میں سرخ دھاری دار لدھیانے کے موٹے موٹے موزے یائجامے کی موریوں کے اوپر چڑھے ہوئے۔ میں نے جو انھیں غور سے دیکھا تو تاڑ گئے، کہنے لگے، ’’کیا دیکھتے ہو بنو لال بنا ہوا ہوں۔ سبحان اللہ اپنا لباس بھی کیسا آرام دہ ہوتا ہے۔ میاں سردی روئی سے بھاگتی ہے یا دوئی سے۔ بھائی میں تو اپنی راحت اور تن درستی کو مقدم سمجھتا ہوں۔ اب دیکھو سینے کی حفاظت کمری سے ہو گئی۔ کان اور گردن وغیرہ کا بچاؤ کنٹوپ سے ہو گیا۔ رہی رضائی، اوڑھنا کا اوڑھنا ہے اور بچھونے کا بچھونا۔ سردی لگے اوڑھ لو ورنہ گدیلا بناکر بچھا لو۔ بندہ بشر ہے، کہیں رات زیادہ آ جائے، وہیں سونا پڑے تو دوسروں کے جھوٹے لحاف کی ضرورت، نہ بستر کا ٹنٹا۔ جہاں نیند آئے گنڈلی منڈلی مارو اور پڑ جاؤ۔‘‘

    اس مختصر سی مجلس میں میرصاحب کے کئی ہم مشرب یعنی چنیا بیگم کے عاشق بھی تھے۔ میر صاحب کو گھولوے کی لت کب سے تھی اور کس طرح لگی اس کا تو علم نہیں، مگر تھی اور اس حدتک تھی کہ بغیر نہگ گٹھے داستان نہیں کہہ سکتے تھے۔ البتہ اور باتیں افیمیوں کی سی نہ تھیں۔ مزاج صفائی پسند تھا۔ طبیعت میں کبھی کثافت نہ تھی۔ جب پیالی چڑھاکر داستان کہنے بیٹھتے تو انجانوں کو افیمی ہونے کا شبہ بھی نہ ہوتا۔ میر صاب فرمایا کرتے تھے کہ’’ سطحی نظر والے جانتے ہی نہیں کہ افیم کیا ہے؟ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ دیکھنے میں کالی اور مزے میں کڑوی ایک شے ہے، جسے اہل ظاہر نے مکروہ کہہ دیا ہے۔ انھیں کیا خبر کہ اس کے چوگے میں ایک زبردست فلسفہ، ایک اعلا مذہب بند ہے۔ مردانِ خدا سے پوچھو اس کا باطن کیسا لالوں کا لال ہے۔ موتو قبل ان تموتو کی مجسم تفسیر بن جاتے ہیں، جہاں اسے گھولنا شروع کیا اور درستی اخلاق و تزکیہ نفس کی بنیاد پڑی۔ سرکش سے سرکش اور ظالم سے ظالم آدمی اسے پیتے ہی رحم کا پتلا اور خدا ترس بن جاتا ہے۔ اس کے اثر سے بڑے بڑے مغرور اور خود پسند سرنگوں ہو گئے ہیں۔ ہزاروں سورما اس کی بدولت میدانوں سے زندہ آ گئے۔ سیکڑوں پیراک پانی میں ڈوبنے سے بچ گئے۔ اس کے صدقے میں بیسویں صفتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آواز میں وہ شیرینی کہ مکھیاں ہونٹ چاٹیں۔ خیال آفرینیاں اس بلا کی کہ بوستانِ خیال کو مات کردیں۔ زبانی بہادری کے یہ ٹھاٹ کہ رسم و اسفندیار تھراجائیں اور منکسر مزاجی یہاں تک کہ اگر ایک لونڈا جھانپڑ مارے تو سر مقدس زمین کے بوسے لے کر بھی اونچا نہ ہو۔ زبان سے سوائے منمناہٹ کے کیا مقدور ہے کہ کوئی لفظ تو اخلاق سے گرا ہوا نکل جائے۔ تواضع کا یہ حال کہ ایک گنڈیری کے جب تک چار ٹکرے کرکے بھائیوں کو نہ کھلالیں چین نہ آئے۔

    نو بج چکے تھے۔ میر صاحب کے ایک ہم مشرب دوست میاں فجّو خاں نے پہلے تو ’’کسنبے‘‘ کی کٹوری پیش کی۔ یہ پی چکے تو چائے کی پیالی سامنے رکھ دی، اور بولے، ’’ہاں جناب میر صاحب شروع کر دیجیے۔‘‘ میر صاحب، ’’بہت مناسب‘‘ کہہ کر دوزانو بیٹھ گئے، اور اپنی نسبت چند انکسار کے الفاظ کہنے کے بعد داستان کے میدان میں اترے۔ مجھے پوری داستان تو کیونکر یاد رہ سکتی تھی، نہ ایسا حافظہ نہ کل کی بات، ہاں کچھ ٹکڑے حافظے میں محفوظ ہیں۔ پیش کرتا ہوں سنیے،

    مغنی خبردہ ازاں دوستاں

    کہ بودند چوں گل دریں بوستاں

    چمن راترو تازہ آراستند

    جو شبنم تشستند و برخاستند

    کم ترین یہ داستانِ فرحت عنوان یہاں سے گزارش کرتا ہے کہ دفتر کو چک باخترو بالا باختر ختم ہو چکا ہے اور لِقاے بے بقا راندۂ درگاہ زمرد شاہ باخری مقابلہ جناب آفتاب عالم تاب دولت قاہرہ و ماہتاب جہاں افروز سلطنتِ باہرہ۔ شکنندہ گردنِ گردانِ گردن کشانِ عالم سلطان المعظم امیر المکرم صاحب قرانِ عرب و عجم سے بھاگ چکا ہے اور بڑے بڑے مغرور در دولت پر سرپر غرور خم کر چکے ہیں۔ ان ہی ایام سرور انجام میں ایک روز کا ذکر ہے کہ میانِ بارگاہِ سلیمانی دربارِ جہاں بانی منعقد ہے اور قریب قریب سو سوا سو طائفہ ارباب و نشاط کا حاضر، تھاپ طبلوں پر پڑ رہی ہے۔ سارنگی کا لہر اور بائیں کی گمک آسمان کو جارہی ہے۔ طرح طرح کے باجے، الغوزے، بربط، بین، بانسری، بنگ دائرہ، پرنہ، جل ترنگ، چنگ دف، ڈھولک، دمنانی، رباب، سرنائی، نفیری، سرسنگھار، طاؤس، ستار، طرب جوش، قانون، کمانچہ، مردنگ، ہنجیرہ، نے نسترن بج رہے ہیں۔ ساقیان گل فام جام و صراحی لیے ہوش اڑا رہے ہیں۔۔۔ اسی ہنگام عیش و نشاط میں دفعتاً ایک جوڑی عیاران طرار اور جاسوسانِ ہوشیار کی گرد میں آلودہ اور پسینے میں غرق بہ حضورِ شاہنشاہ والا جاہ گیتی پناہ ظل اللہ سلطان سعد بن قباد غازی حاضر ہوئے۔ حد ادب سے زمینِ خدمت کو بوسہ دے کر دست بستہ عرض کیا،

    شاہا بقاے عمر تو بادا ہزار سال

    لیکن بایں حساب بصد حشمت و جلال

    سالے ہزار ماہ و مہے صد ہزار روز

    روزے ہزار ساعت و ساعت ہزار سال

    سرور عالم کی عمر دراز ہو۔ خانہ زاد حسب حکم عقب لقا باختری میں سرگرم رفتار تھے کہ ایک درۂ کوہ مثل در فردوس نظر سے گزرا۔ جب اس سے سربدر کیا تو وہ عالم دیکھا کہ،

    شجر شجر سے ہویدا ہے رنگ بو قلموں

    چمن چمن ہے بنارشکِ طبلۂ عطار

    روش روش میں درختان باغ استادہ

    قدم قدم پہ صنو برجدا قطار قطار

    بچھا ہے سبزۂ صحرا میں فرش مخمل سبز

    کھنچا ہے روئے زمیں سا یبانِ ابر بہار

    ہر ایک غنچے سے پیدا ہے یار کی شوخی

    ہر ایک گل سے ہویدا ہے رنگ و بوئے لنگار

    نسیم مست نکلتی ہے جوش مستی میں

    لپٹ لپٹ کے جوانانِ باغ سے ہربار

    برنگِ بادہ کشاں مست ہیں وحوش وطیور

    مثالِ صوفی سرمست وجد میں ا شجار

    نمک خوار اس کیفیتِ بہار میں مصروف تھے کہ سامنے سے ایک گردِ تیرہ رنگ بلند ہوئی۔ جب قریب اس گرد کے پہنچے تو دیکھا کہ کئی ہزار فیلانِ کوہ شکوہ مست و ملند جن کی جل ہائے مکلل تا پاشنہ لٹکتی اور کاٹھیاں پولادی جوہردار پشتوں پر کسی۔ ان پر دو دو جوانانِ زبردست سوار ہاتھوں میں نشانِ سر بلند اور اعلام فلک پیوند سنبھالے پھریرے ہوا سے اڑاتے، گردوپیش سانٹے مار، بھالے بردار، بان انداز، چرکٹے اگد اگد بری بری غل مچاتے۔ ان کے بعد سانڈنی سوار، قطار درقطار سانڈنیوں کی گردنیں گودیوں میں لیے چوراسیاں لٹکتیں۔ گھنگرو بجتے۔ درویاں شتری بانات کی پہنے۔ بتیاں سُرمئی سروں پر باندھے۔ پیچھے ان کے نیزہ باز مرکبوں پر سوار۔ نیزوں سے نسبتان پھولا نظر آتا تھا۔ ان کے بعد دو بادشاہ زبردست القاب و انصاب، نام تاج زرین برسر قبائیں شہنشاہی دربر۔ بیچ میں ان کے لقارے بے بقا ایک فیلِ کوہ پیکر پر سوار۔ عقب میں اس کے یعقوب شاہ بن لقا اور بختیارک بن بختک بن الفش بن مادرش بن سگ سفید۔۔۔ اور القا لقائے عرض کرتا جاتا تھا کہ خُداوند! میرے نام تقدیر تباہی لشکرِ خدا پرستان فرمائیے۔ لقانے کہا کہ خداوند! درۂ آذر کوہ اور غلطیاں باد میں تمھارے ہی ہاتھ پر بربادی ان نادیدہ خدا پرستوں کی کئی ہزار برس پہلے تقدیر فرما چکا ہے۔ یہ کہہ کر دونوں عیار آداب بجالا پچھلے قدموں ہٹ رخصت ہوئے اور یہاں بادشاہِ اسلام نے واسطے روانگی امیر کشور گیر کو ارشاد فرمایا۔ صاحبِ قراں نے پہلوان عادی کو کہ ہراول لشکر تھا حکم سنایا۔ پہلوان عادی سلام کر اپنے خیمے پر آئے اور۔۔۔ دوسرے روز لشکر ظفر اثر اور فوج دریا موج جناب صاحب قرانِ دوراں مع پانچ ہزار پانچ سو پچپن سرداران نامی۔ بہادرانِ گرامی۔ دلیرانِ صف شکن اور جوانانِ تیغ زن، تین سو زنگی، چار سو فرنگی، پانچ سو مداینی، چھے سو ہندی، سات سو خجندی، آٹھ سو ترکی، ایک ہزار عجمی، بارہ سو باختری، باقی شیران پیشۂ عراق اور شاہ زادگان آفاق جو خاص خاندانِ قریش سے تھے مع امیر نام دارد بادشاہ اسلام و مہر سپہر عیاری قطب فلک خنجر گزاری شاہنشاہ عیاران روزگار یعنی خواجہ عمر بن امیہ ضمیری نام دار اور شاگردان خاص چار مہتر چودہ سرہنگ ایک لاکھ اسی ہزار عیّار و قائم مقام مہتر قران و اولاد عمر روانہ ہوا۔۔۔ بدیع الزماں کہ صاحب قرانِ کشتی گیری میں ان کا عالم ہے کہ ابھی گرد گل رُخسار کے سبزۂ نو نے نمایش نہیں کی ہے۔ شعلۂ حسن بے دود نظر آتا ہے۔ شجر قامت باغِ نوجوانی میں مائل نوخیزی ہے اور غزال چشم شباب میں آمادۂ شوخی ہے۔ ان کے دل میں شکار کی امنگ اٹھی۔ حکم کی دیر تھی کہ میر شکار نے جانورانِ صید گیر، باز، جرہ، باشین، کوہی، کوہیلا، ترمتی، شکراموسانیولے، بحری، چپک، لگڑ بگڑ۔ سیاہ گوش، چیتے وغیرہ کو درست کردرِ دولت شاہ زادہ پر حاضر ہوئے اور ادھر ایک مرکب صبا رفتار کہ سم جس کے فراخی میں سپر۔ آنکھیں ابلی ہوئی، جلد باریک لغل ہلال عید، غنچہ سی تھوتنی، کنوتیاں چھوٹی چھوٹی، کلائیاں شیری کی سی، گردن مور کی، پٹھے ہاتھی کے سے۔ کمر چیتے کی اور رفتار کا وہ حال کہ

    اگر کھڑا ہو مشرق میں اور سامنے ہو اس کے غرب

    ٹک اسے راکب کہے اتنا کہ چل تو یاں سے واں

    پہنچنے پائے صدائے ہاں نہ منہ سے تابہ لب

    پہنچے ہے یہ باد پیمایاں سے واں اور واں سے یاں

    القصہ جب وہ گردوں مقام بہ کمال تجمل و احتشام لشکر سے چار یا پانچ فرسخ پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک دریائے ذخار اور بحر موّاج کہ ہر موج جس کی مثل زلف جاناں پیچ در بیچ اور ہر گرداب صورتِ حلقہ کا کل، معشوقانِ فتنہ انگیز نظر آتا ہے۔ بڑے زور شور سے مستانہ وار بہہ رہا ہے اور کنارے پر اس کے ایک مرغ زار سرسبز و شاداب کوسوں تک چلا گیا ہے۔ سبزۂ زمردکوں لہلہا رہا ہے، سبزی اور طراو ت آنکھوں میں کھُبی جاتی ہے،

    طرفہ سر سبزی نے کی ہے ہر طرف سے سرکشی

    ہے زمیں فیروزہ گوں اور لاجوردی آسماں

    سجدۂ خالق میں ہے ہر شاخ نخل پرثمر

    حمد میں خلاق عالم کے ہے سوسن تر زباں

    کہیں دھانوں کے کھیت پانی سے سیراب، کسان جہاں تہاں ڈھینکلیاں اور پروہے چلاتے۔ رکھوالے درختانِ ثمر دار کے کھٹکے ہلاتے توتے اڑاتے۔ وہ ہرے ہرے درختوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھانو، ڈابر اور تالاب پانی سے لبریز۔ جھیلیں کٹورا سی چھلکتیں، ندیاں رواں۔ کنارے پر مرغانِ آبی کا ہجوم۔ تالابوں میں کنول اور سنگھاڑوں کی بیلیں پڑیں، کہیں کو کنار پھولا ہوا۔ اللہ رے فضا اس سبزہ زار کی۔ وہ شام کا قرب ہوا کی خنکی، جھلکتا سورج، شفق کی سرخی۔ سرسوں کی زردی اور گھنے گھنے درختوں میں کوئل کا کوکنا۔ موروں کی جھنکار۔ موسم کا اعتدال۔ باد بہاری کا چلنا۔ طوطیانِ شیریں مقال کا امریوں پر جھوم جھوم کر گرنا۔ رکھوالوں کے شور۔ گوپھن کے تڑاقے۔ کھٹکوں کی آواز۔ جھٹ پٹے کا وقت

    کہوں کیا سماں اختری روز کا

    مسیحائی کرتی تھی واں کی ہوا

    ہر اک سمت سرسوں کے کھیتوں کا روپ

    ملائم ملائم وہ دھانوں پہ دھوپ

    بھلی لگتی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

    غرض زندگی کا وہاں تھا مزا

    وہ دریا کا پر پیچ آبِ رواں

    ہر ایک موج تھی صورتِ کہکشاں

    درختوں پہ ہر سو وہ شورِ طیور

    وہ چھپتا سا سورج وہ مہہ کا ظہور

    کہ دفعتاً دور سے اس دریا میں ایک روشنی پیدا ہوئی۔ جب وہ روشنی قریب آئی تو دیکھا کہ ساٹھ ستر کشتی، بجرا، مور پنکھی، لچکا، ہوڑی، ٹین منوّر ہیں۔ ان میں ناز نینانِ پری تمثال اور مہو شان حورخصاں۔ زلفیں تا کمر چھوٹی ہوئی۔ دوپٹے سروں سے ڈھلکے ہوئے۔ نشوں میں سرشار زرق برق جوڑے پہنے، گہنے پاتوں سے لدی عالمِ بے خودی میں آپے سے بےخبر۔ نشۂ حسن و شباب میں بے خوف و خطر باہم چہلیں کر رہی ہیں اور قہقہے مار رہی ہیں، بیچ میں ایک طاؤسی از دم تا منقار جواہر اب دار سے تیار۔ جوان جوان عورتیں سبزہ رنگ، ساڑیاں بنارسی بھاری بھاری باندھے، گاتیاں مارے۔ موٹے موٹے کڑے۔ مگر وہاں جڑاو ہاتھوں میں پڑے۔ فتح پیچ کے سرگندھے۔ کوڑیالے موباف، مانگیں نکلیں، کانوں میں میناکاری بجلیاں۔ گلوں میں دہرے گجروں کے توڑے، گنگا جمنی چپو ہاتھوں میں لیے ڈانڈیں لگاتی چلی آتی ہیں۔ اندر اس کے سورج مکھیاں روشن، مسند زر تارلگی، بیس بائیس انیسان خاص خوش رو ژ ولیدہ مو، موسمی رنگ کے جوڑے، ہلکے ہلکے زیور چپ راست کھڑی بالائے مسند ایک ماہِ طلعت کمال ناز وادا سے جلوہ فرما۔ گورا گورا بدن چاند سا مکھڑا، بھولی بھالی صورت، لمبے لمبے بال، بڑی بڑی آنکھیں، جٹّی بھویں، پھول سے گال، ستواں ناک غنچہ دہن، پتلے پتلے ہونٹ، دانت موتیوں کی لڑی، صراحی دار گردن، پیاری پیاری وضع:

    سمن سینہ و نازک اندام و نرم

    عیاں شرم میں شوخی شوخی میں شرم

    گول گول شانے، کلائیاں بلور کی بلکہ نور کی۔ پنجۂ حنا میں یاقوت کی صفائی،

    یہ ساعدوں کا ہے اس کے عالم کہ جس نے دیکھا ہوا وہ بے دم

    نیامِ تیغ قضاے مبرم، لقب ہے قاتل کی آستیں کا

    ابھرا ابھرا سینہ، اٹھتی جوانی، آئینہ سا پیٹ، چیتے کی سی کمر،

    برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن

    جوانی کی راتیں مرادوں کے دن

    کانسی جوڑا پہنیے، جامِ شراب گل فام ہاتھ میں لیے مخمور بادۂ نشاط، پیچھے دو خواصیں پشتہ راں ہاتھوں میں، سامنے کچھ گائیں، ستار، تنبورہ، ڈھولک کے ساتھ دھیمے دھیمے سروں میں چھوٹے چھوٹے دلیں اور بہاگ کے خیال گا رہی ہیں۔ جوں ہی نگاہ شاہ زادے کی اس جادو ادا پر پڑی مرغِ دل نیر نگاہ ناز کا شکار ہوا،

    تھی نظر یا کہ جی کی آفت تھی

    وہ نظر ہی وداعِ طاقت تھی

    ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ

    صبر رخصت ہوا اِک آہ کے ساتھ

    دل پہ کرنے لگا طپیدن ناز

    رنگ چہرے سے کر گیا پرواز

    شاہ زادہ شکار کی جستجو میں خود شکار ہوکر واپس آ رہا تھا کہ،

    شامنے سے ناگہاں اک طرفہ باغ آیا نظر

    وصفِ شادابی میں ہے جس کی مری قاصر زباں،

    لغزِش مستانہ دکھلانے لگا پاے خیال

    بس کہ اس کی چار دیواری تھی صاف آئینہ ساں

    پشتہ دیوار پر ا س کے وہ سبزہ دوب کا

    جس کی سر سبزی سے تھا سر سبز روے گل رخاں

    اور قریب باغ ایک میدانِ وسیع میں اکثر خیمے ڈیرے، قناتیں، چھول داریاں بنگلے استادہ ہیں۔ شاہ زادہ بدیع الزماں قریب ان خیموں کے آئے تھے کہ ایک عیّار نے آگے بڑھ کر آواز دی۔ ’’خبردار ہوشیار۔ یہ لشکر رخشانِ تیغ زن کا ہے۔‘‘ شاہ زادے نے مرکب کو روک کر امیہ بن عمر سے کہا کہ تم جاکر رخشاں تیغ زن سے کہو ہمارے سردار آپ سے ملاقات چاہتے ہیں۔۔۔ بدیع الزماں مرکب بڑھا داخل لشکر ہوئے اور خیمۂ رخشاں پرآ، گھوڑے سے اترے خیمے میں پہنچے تو دیکھا کہ حقیقت میں دنگل میں ایک جوان زبردست جس کا چھاتا گردن تیار مچھلیاں بازو کی ابھری ہوئی، کمر پتلی، رانیں موٹی، پنڈلیاں گول، آنکھیں سرخ۔ سپرپس پشت، قربان میں کمان ہزار تیر کا ترکش شکلِ دُم طاؤس پیچھے پڑا۔ جوڑی خنجرِ آب دار کی کمر میں لگی، موزے سیاہ والایتی زانوؤں تک، ظفر تکیہ زیرِ بغل دبائے بڑی شان و شوکت سے بیٹھا ہے اور دائیں بائیں دنگلوں میں جن شاگردانِ خاص کو آپس میں ہم سری کا دعوا ہے مودب موجود ہیں۔۔۔

    باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک شاگرد نے عرض کی کہ کسرت کا وقت آ گیا ہے۔ یہ سن کر رخشاں نے شاہ زادے سے کہا کہ آپ بھی تشریف لے چلیں۔ شاہ زادہ کھڑا ہوگیا۔ قریب ہی زیر شامیانہ اکھاڑا ہرا کیا ہوا تھا۔ جس میں پٹڑیاں ہر چہار سمت۔ ان پر لیزم بل ڈنٹر۔ بل کھم۔ سنتولہ، یکہ، کریلے، نالی، گودبیل، نالیاں، نال مگدروں کی جوڑیاں کہنیاں وغیرہ قاعدے سے رکھی تھیں۔ شاگرد لنگر لنگوٹے باندھے کچھ ڈنڈ بیٹھکیاں لگا رہے ہیں اور کچھ دوسری کسرتوں بنوٹ، پھکڑی، بیلیا، ناگ موڑ، بن توڑ، دھارانی، بکھیتی، کربتی، بانک، پٹا، ہنونتی، لج دنتی، رستم خوانی، کرناڑک، علی مد، شیزور، شیر پیکر، لٹھیتی میں مصروف ہیں۔ ایک طرف دس بارہ ضعیف ضعیف استاد ہر فن کے بیٹھے گھائیاں اڑانے اور ورزش کی رکانیں تعلیم کرتے جا رہے ہیں۔ رخشاں نے بدیع الزماں کو ایک دنگل پر بٹھایا چند جامِ شراب پی لباس اتار۔ سامانِ کشتی درست کر اکھاڑے میں اترا اور نہایت نخوت سے خم پر خم مار آواز دی کہ آؤ کون آتا ہے؟ آٹھ دس شاگرد سامنے آکھڑے ہوئے۔ رخشاں نے بیٹھ کر کہا کہ لو چت کرو۔ وہ سب لپٹ گئے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس نے سب کو اٹھا اٹھا کر پھینک دیا اور کھڑے ہوکر بنکارا کہ ہاں کہاں ہیں رستم و سہراب، اسفندریار و گودرز۔ حمزہ و بدیع الزماں آئیں میرے مقابلے میں اور حلقہ میری بندگی کا اپنے کان میں ڈالیں۔ بدیع الزماں کو اس لاف و گزاف کی کب تاب تھی۔ بولے اے جوان ایسی شیخی بہادروں کو سزاوار نہیں۔ رستم وغیرہ تو خیر اپنی جگہ ہیں اگر آپ کہیں تو میں موجود ہوں۔ ہاتھ مل جائیں۔ رخشاں نے ہنس کر کہا، آئیے۔ شہزادہ اسی وقت دنگل سے اتر سامان کشتی سے آراستہ ہو سامنے آیا۔ جس وقت شہزادے نے پینترا بدلا تو بوڑھے بوڑھوں کی گردنیں ہل گئیں۔ سرے سے سر ملا سامنے کے زور ہونے لگے۔ طاقت آزمائی کے بعد دانو پیچ شروع ہوئے اور اک دستی، دو دستی، آنٹی سونت، روم، مونڈھا۔ قینچی، بقچی، ہتکوڑہ گال، گرہ، جھوم، ہفتہ، ٹنگڑی، کولا، سکھی، حمائل گولا لاٹھی، جھولی کیلی، ناک پیچ، گومکھ، بغلی، گلبند، پری بند، دیوبند، قلعہ جنگ، بارہ بیلن، غوطہ، تھپکی، سلھڑ، ہوکا، جھڑکی، مُغلا، ساندھی، اک دہی، قلندرہ، سواری جھولا، جھپکی، کھسوٹا، اڑنگا، دھڑمار، ہارسنگھار، لنگر، تیفاقفلی، ہوتے ہوتے شہزادے نے رخشاں کی کمر بند زنجیر میں ہاتھ ڈال ایک ہی قوت میں سر سے بلند کیا اور نعرہ مارا کہ منم سر کردۂ کشتی گیرانِ جہاں بدیع الزماں بن صاحب قراں حمزہ ذی شان۔

    اب جو شہزادہ لشگر گاہ اسلام میں پہنچا، خلوت ہوئی تو عشق نے زور باندھا، معشوقۂ طناز کی یاد آئی، ہرچند ضبط کیا مگر کہیں عشق و مشک چھپتا ہے۔ ایک ہاے کا نعرہ مار کر بےہوش ہو گیا۔۔۔ امیر کشور گیر کو اطلاع ہوئی کہ شہزادہ دامنِ آذر کوہ میں لب دریا چاندنی کی سیر ملاحظہ فرما رہے تھے کہ یکایک چند کشتیاں دریا میں پیدا ہوئیں۔ جوان جوان عورتیں سوار تھیں۔ معلوم نہیں کہ ان میں سے کس فسوں ساز نے جادو کر دیا۔۔۔ امیر نام دار نے سنا، اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ یہ خبر عیاروں نے کوتوالی چوترہ پر خواجہ عمر بن امیہ ضمری کو پہنائی۔ خواجہ سنتے ہی خیمہ بدیع الزماں پر آخدمتِ امیر باتوقیر میں آداب بجا لائے۔ ساری کیفیت سن کر کہا حضور اطمینان فرمائیں۔ یہ کہیں عاشق ہو گئے ہیں یاان پر کسی نے سحر کر دیا ہے۔ بہرحال میں اس کا انتظام کر لوں گا۔ اتنے میں شہزادے کو ہوش آیا۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو صاحبِ قرانِ ذی شان خواجہ عمر اور کئی سردار اپنے تابع دار پلنگ کو گھیرے بیٹھے ہیں۔ بدیع الزماں گھبراکر پلنگ سے اترے۔ آداب بجا کچھ شرمندہ سامنے مودب بیٹھ گئے۔ صاحب قراں نے فرمایا بیٹا کہاں گئے تھے اور یہ کیا حال ہے؟ شہزادے نے شرماکر نیچی گردن کر لی۔ امیر نام دار نے بھی زیادہ گفتگو کرنی مناسب نہ سمجھی۔ رخصت ہوئے اور چلتے چلتے شہنشاہ عیاران جہاں سے فرمایا تم جاکر شہزادے کو سمجھاؤ کہ صاحب زادے ہم نے عالم شباب میں ایسے بہت کھیل کھیلے ہیں مگر انجام ان کا سوائے ذلّت و خواری اور آہ و بےقراری کے کچھ نہ دیکھا کیونکہ معشوقانِ چمنِ روزگار ہفتہ دوستی میں مشّاق ہیں،

    دم دلا سے میں لگا لینا دل ان کا کھیل ہے

    روز کرنا اک شکار ان کی ہیں ادنا شوخیاں

    سن کے نالہ عاشقوں کا کہتے ہیں کیا راگ ہے

    ذبح کرکے دیکھتے ہیں سیر رقص بسملاں

    جو سرمست بادۂ غم ان کی نرگس چشم کا بیمار ہوا بہ خیالِ افشاے راز گھل گھل کر گھٹ گھٹ کر بپاس خاطر دل دار کچھ کہہ تو سکتا نہیں آخر کار فرہاد دار جان شیریں تلف کرتا ہے،

    غرض انجام الفت کا برا ہے

    کہ جو محبوب ہے سو دل ربا ہے

    دل آزاری ہے ہر دم کام ان کا

    جفا جوئی وفا ہے نام ان کا

    ستم گر ہیں یہ سفاک جہاں سب

    کہ ہے عاشق کشی سے ان کو مطلب

    دل آزار و جفا جو فتنہ گر ہیں

    خدا شاہد ہے بت بانیِ شر ہیں

    بیٹا! اپنے کو سنبھالو یہ مقام ساحرانِ غدّار اور جادوگران نابکار ہے۔ خدا نے ہمیں اپنی راہ میں جہاد کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ حسن و عشق کے جھگڑوں میں مبتلا ہوکر آہ و فریاد کے لیے۔

    یہ فرما امیر تو ادھر روانہ ہوئے اور عمر عیار منہ بنائے ہوئے شہزادے کے پاس آئے اور کہنے لگے برخوردار ہم سے اب ملازمت نہیں ہوتی۔ جس کا بیٹا کی طرف سے ایسا پتھر کا دل ہو اس سے کیا امید۔ اپنا وقت بھول گیا۔ ملکہ مہر نگار کی چاہت میں کہاں کہاں جھک مارتا پھرا۔ ملکۂ روشن تن کے لیے کوہ قاف تک کی خاک چھان ڈالی اور اب بھی اگر کوئی صورت نظر آ جاتی ہے تو کیا بتاؤں کیا حال کرتا ہے مگر بیٹے کی طرف سے ذرا فکر نہیں۔ کہتا ہے کہ سمجھا بجھاکر عشق کی آگ کو ٹھنڈا کر دو۔ تو قرۃ العین سمجھ جاؤ۔ محبت کے شعلوں پر خاک ڈال دو۔ لیکن میں نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ عزیز من’’ نہ صبر در دلِ عاشق نہ آب درغربال۔ تمہاری جان دوبھر ہو تو صبر و جبر کی تلقین کروں۔ یہ کہہ کر جھوٹ موٹ رونے لگے۔ شہزادے نے جو عمر کو ہمدرد پایا تو بولا چچا آپ کو اگر میرا خیال ہے تو اس آفت روزگار کا پتا لگائیے۔ اور اس کے شربت وصل سے سیراب کیجیے۔ خواجہ نے بسورتے ہوئے منہ سے جواب دیا جان عم مجھ کو تلاش کرنے میں کیا عذر تھا مگر کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ میرے پاس ایک خرمہرہ نہیں کہ کسی کو لے دے کر دریافت کروں اور جب تک کچھ فائدہ نہ ہو کسی کو کیا پڑی کہ اس کا پتا بتائے۔ غیر ملک، غیر مذہب، برا زمانہ، برا وقت یہاں کے لوگوں سے دشمنی۔ اور یہ بھی دستور ہے،

    خواہی کہ دل دلبر ما نرم شود

    دزپردہ بروں آید دبےشرم شود

    زاری مکن وزور مکن زر بفریش

    زر برسر فولاد نہی نرم شود

    مہر سپہر عیّاری کا یہ عرض کرنا تھا کہ شہزادہ سمجھا یہ حضرت بغیر مٹھی گرم کیے کب ٹلتے ہیں، فوراب دس ہزار روپیا منگوا آگے رکھا اور کہا اس وقت اتنا تو حاضر ہے جب خبر آ جائےگی انشاء اللہ دو چند اور پیش کروں گا۔ خواجہ وہ روپے داخل زنبیل مبارک کر خدمت امری نام دار میں حاضر ہوئے اور گزارش کیا۔ پیر و مرشد کمترین نے ہرچند سمجھایا حسن کی بےوفائی، حسینوں کی کج ادائی۔ عشق کی خانہ خرابی، دل لگانے کا انجام بخوبی تمام بتایا مگر وہ کب سنتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جب تک یہ اچھی طرح خاکِ صحراے محبت نہ چھائیں گے آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ اگر حکم عالی ہو تو بندہ پتا لگاکر کوئی بندوبست کرے۔ امیر نام دار نے فرمایا۔ بھائی اگر تم سے ہوسکے کیا بہتر ہے اور ایک ہزار اشرفی خواجہ کو دی کہ یہ زاد راہ ہے جلد آنے کا قصد کرنا۔ خواجہ رخصت ہو اپنی اصلی صورت میں کوتوالی چوترہ پر آئے یعنی وہی ناریل سا سر۔ ٹکیہ سا چہرہ، چلغوزہ سی ناک، زیرہ سی آنکھیں، بتاسا سی تھوڑی، تکا سے چند بال ڈاڑھی کے مگر سیدھے، پونگی سے شانے، ٹوکری سا سینہ، ستلی سے ہاتھ پانو، مٹکا سا پیٹ، ناف جیسے آب خورہ مٹکے پرادندھا ہوا۔ اور بان ہائے عیاری سے آراستہ ہوئے۔ سامان سفر زنبیل سے نکالا، تاجِ عیّاری سر پر رکھا۔ چیغۂ شہنشاہی درست کیا۔ کسوتیں رنگیں تنگ و چست بر میں۔ دام جناب مہتر الیاس کا دوش پر۔ مشکیزۂ خضر زینب کتف۔ گلیم عیاری کاندھے پر۔ دیوجامہ حضرت صفی اللہ کا پہنا ایک تو برہ جس میں سنگ تراشیدہ و خراشیدہ بھرے تھے برابر ان کے لٹکایا۔ نیمچۂ برق دم۔ ایک جوڑی خنجر آب دار کی کمر میں۔ گردہ سپر عیاری پشت پر۔ قربان میں کمان۔ ہزار تیر کا ترکش پیچھے۔ دست بغچۂ عیاری بغل میں۔ چرب میلہ عیاری سے ہاتھ چرپ۔ دو نلیاں جن میں حبوب بے ہوشی بھرے جبڑوں میں دبی۔ بیلہ ہاے بےہوشی جیب ہاے عیاری میں۔ کمند عیاری ریشم سیاہ کی باریک دبل دار بازؤں پر۔ نفت آتش بازی گھائیوں میں۔ موزے والایتی ساہ تابہ زانو۔ ایک ایک جوڑی کزلک کی اندر موزوں کے، غرض یہ کہ ہر طرح سے لیس ہو تلاشِ معشوقۂ بدیع الزماں میں روانہ ہوئے اور راستہ طے وپے کرتے چلے جاتے ہیں اور اب دیدہ خواہد شد کہ کیا ہوتا ہے۔ آداب عرض کرتا ہوں۔

    ’’واہ میر صاحب واہ۔ سبحان اللہ کیا کہنا ہے۔‘‘

    ’’جی پیر و مرشد مجھے کیا آتا ہے۔‘‘

    ’’میر صاحب۔ آپ کے دم سے بھی دلی میں شہر آبادی کا لطف آ جاتا ہے۔ اتنے سے مکان میں ماشاء اللہ شیخ، سید، مغل، پٹھان سب ہی تو موجود ہیں۔ یہ صورتیں یہاں کے سوا اور کہاں دیکھنے میں آتی ہیں۔‘‘

    ’’خدا رکھے آپ لوگوں کو یہ سب چہل پہل آپ ہی کے قدموں کی ہے۔‘‘

    لکھنوی: قسم ہے حضرت عباس کی۔ داستان بھی ایسی ہوئی کہ جوانی یاد آ گئی اور نشے بھی خوب ہی گھٹے۔

    مرزا جی: اور چائے کو نہیں کہتے۔ قسم اللہ کی وہ پیارا رنگ آیا ہے کہ جی چاہتا ہے دیکھا ہی کرو۔ اپنے حسابوں گلاب کے تختے کی سیر کر رہے ہیں۔

    میر صاحب: مرزا صاحب۔ مسلمانی اور یہ آناکانی۔ ایک پیالی ادھر بھی عنایت ہو۔

    مرزاجی: میر صاحب چائے آپ کے کتوں کو یہ آپ نے کیا کہا۔ ذرا پہلے ایک چسکی لگا لو۔

    میر صاحب: اچھا ہمارے چھوٹے میاں کو دیجیے۔

    رات زیادہ آگئی تھی۔ میں چائے سے انکار کر اور اس ساری منڈلی کو اصرار کرتا ہوا چھوڑ گھر روانہ ہوا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے