aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "مطالعہ"
سازمان مطالعہ، تہران
ناشر
ادارہ فروغ مطالعہ، لاہور
المعارف دارالعلوم مطالعہ، مؤ
مرکزتحقیق و مطالعۂ اسلامی، جمشیدپور
ادارہ برائے مطالعہ و تحقیق تاریخ دکن، شولا پور
مطبوعۂ دارالطبع سرکار عالی
مطبوعہ رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور
مطبوعہ شاہین پریس، پشاور
مطبوعہ ثنائی برقی پریس، امرتسر
مطبوعہ علیمی پریس، دہلی
گنگا پستک مالا کاریالئے، لکھنؤ
ادارہ مطالعات غالب، سرینگر
مطبوعہ سادھو پریس، دہلی
مطبوعہ مطبع، اکبرآباد
مطبوعہ دارالطباعت، حیدرآباد
ادھر سے دھڑا دھڑ فائر ہوئے۔ ادھر سے بھی جواباً گولیاں چلنے لگیں۔۔۔صوبیدار رب نواز نے دوربین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ غالباً بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی۔ زیادہ دیر تک وہ جمے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی ادھر ادھر ہٹتا، اس کا صوبیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔تھوڑی دیر فائر ہوتے ر...
یہ سپاہیانا زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی، سیر کو بھی چلے جاتے تھے، ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی، ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئیے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم نے اپنے ماحول پہ غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے میں سے کس کمرے ت...
شام کے قریب دوسری طرف پاکستانی مورچے میں صوبیدار ہمت خان اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو جن سے بے شمار کہانیاں وابستہ تھیں، مروڑے دے کر ٹیٹوال کے نقشے کا بغور مطالعہ کررہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وائرلیس آپریٹر بیٹھا تھا اور صوبیدار ہمت خاں کے لیے پلاٹون کمانڈر سے ہدایات وصول کررہا تھا۔ کچھ دور ایک پتھر سے ٹیک لگائے اور اپنی بندوق لیے بشیر ہولے ہولے گنگنا رہا ت...
نویں جماعت کے شروع میں مجھے ایک بری عادت پڑ گئی اور اس بری عادت نے عجیب گل کھلائے۔ حکیم علی احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ایک ہی حکیم تھے۔ علاج معالجہ سے ان کو کچھ ایسی دلچسپی نہ تھی لیکن باتیں بڑی مزیدار سناتے تھے۔ اولیاؤں کے تذکرے، جنوں بھوتوں کی کہانیاں اور حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کی گھریلو زندگی کی داستانیں ان کے تیر بہدف ٹوٹکے تھے۔ ان کے تنگ و تا...
ٹھاکر صاحب کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام شری کنٹھ سنگھ تھا۔ اس نے ایک مدت دراز کی جانکاہی کے بعد بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور اب ایک دفتر میں نوکر تھا۔ چھوٹا لڑکا لال بہاری سنگھ دوہرے بدن کا سجیلا جوان تھا۔ بھرا ہوا چہرہ چوڑا سینہ بھینس کا دوسیر تازہ دودھ کا ناشتہ کر جاتا تھا۔ شری کنٹھ اس سے بالکل متضاد تھے۔ ان ظاہری خوبیوں کو انھوں نے دو انگریزی ح...
علامہ اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر ان کی ادبی تخلیقات کا مطالعہ کریں
مقالات
شاعری لفظ کو چھوڑکراس کے ارد گرد پھیلے ہوئے امکانات کواستعمال میں لاتی ہے۔ پرندہ اوراس طرح کے دوسرے لفظوں کے حوالے سے کی گئی شاعری کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ پرندہ شاعری میں صرف پرندہ ہی نہیں رہتا بلکہ آزادی، بلندی اورپروازکی ایک علامت بن جاتا ہے ۔ پرندےاور کئی سطحوں پرزندگی میں حوصلے کی علامت بن کرسامنےآئے ہیں ۔ پرندوں کا رخصت ہوجانا زندگی کی معصومیت کے خاتمے اور شہری زندگی کے عذاب کا اشارہ بھی ہے ۔ نئی غزل میں یہ موضوع کثرت سے برتا گیا ہے ۔
मुतालेए'مطالعہ
study
मुतालाمطالعہ
اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ
سنبل نگار
تنقید
اردو داستان
سہیل بخاری
فکشن تنقید
کئی چاند تھے سر آسماں
رشید اشرف خان
ناول تنقید
مارکسزم ایک مطالعہ
ظفر امام
عورت
سیمون دی بووا
سماجی مسائل
غزل اور مطالعہ غزل
عبادت بریلوی
شاعری تنقید
اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ
خالد محمود
سفر نامہ
اردو ناول کا سماجی اور سیاسی مطالعہ
نگینہ جبیں
اقبال کی طویل نظمیں
رفیع الدین ہاشمی
شاعری
عورت ایک نفسیاتی مطالعہ
ترجمہ
ن۔ م۔ راشد: ایک مطالعہ
جمیل جالبی
نظم تنقید
ادب کا مطالعہ
اطہر پرویز
اردو ڈراما: تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ
وقار عظیم
اردو مختصر افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ
نگہت ریحانہ خان
افسانہ تنقید
میں نے گزشتہ واقعات، بیگو کی نقل و حرکت، اس کی جنبش اور اپنے گردوپیش کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر عمیق مطالعہ کیا تو تمام چیزیں روشن ہوگئیں، اس کا ہرشام کو ایک مریض کے ہاں دودھ لے کر جانا اور وہاں ایک عرصہ تک بیٹھی رہنا، باؤلی پر ہرکس و ناکس سے بیباکانہ گفتگو، دوپٹے کے بغیر ایک پتھر سے دوسرے پر اچھل کود، اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کہیں زیادہ شوخ اور آزاد...
حسبِ معمول ایک رات شبیر نے اس مکان کے پاس پہنچ کر شعر گایا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ بیٹری کی روشنی حسب معمول چمکی اور ہم باتیں کرتے ہوئے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے، ہُو کا عالم تھا، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی، آسمان ہم پر مرتبان کے ڈھکنے کی طرح جھکا ہوا تھا اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ ہم کسی بند بوتل میں چل پھر ...
سامنے کالج کے برآمدے میں دو تین لڑکے کھڑے ہیں جو آنے جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو گھور رہے ہیں جب کرشنا کماری (چرنجی کی بیٹی) برآمدے کی طرف آتی ہے تو ایک لڑکا جس کا نام جگدیش ہے اپنے ساتھی کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھونکا دیتاہے اور کہتا ہے۔ ’’لو بھئی ایک فرسٹ کلاس چیز آئی ہے۔ طبیعت صاف ہو جائے گی تمہاری۔ یہ کہہ کر جب وہ کرشنا کماری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اُس کے دوست سب اُدھر متوجہ ہوتے ہیں مگر انھیں بجائے ایک دیہاتی لڑکا نظر آتا ہے جو بڑا انہماک سے اپنے فارم کا مطالعہ کرتا ہوا ان کی طرف چلا آرہا ہے سب لڑکے اس دیہاتی کو دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھئی کیا چیز ہے طبیعت واقعی صاف ہوگئی۔ کرشنا کماری اس دوران میں ایک طرف ہوگئی تھی۔ یہ دیہاتی لڑکا جس کا نام کرشن کمار ہے کا لج کے اِن پرانے شریر طالبعلموں کی طرف بڑھتا ہے جگدیش سے وہ بڑے سادہ لہجے میں پوچھتا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے جگدیش ذرا پیچھے ہٹ کر اسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے چڑیا گھر۔‘‘ کرشن کمار اسی طرح سادہ لوحی سے جواب دیتا ہے جی نہیں چڑیا گھر میں کل جاؤں گا میں یہاں داخل ہونے آیا ہوں۔ سب لڑکے بے چارے کرشن کمار کا مذاق اُڑاتے ہیں اُسے چھیڑتے ہیں اتنے میں ایک لڑکی کرشنا کماری کو ساتھ لیے ان لڑکوں کے پاس آتی ہے اور ان میں سے ایک لڑکے کو جس کا نام ستیش ہے مخاطب کر کے کہتی ہے ستیش میرا پیریڈ خالی نہیں تم انھیں بتا دو کہ کہاں داخلہ ہو رہا ہے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دے کر وہ تیز قدمی سے چلی جاتی ہے ستیش فارم دیکھتا ہے اور کہتا ہے آپ کا نام کرشنا کماری ہے۔ کرشن کمار بول اُٹھتا ہے جی نہیں میرا نام کرشن کمار ہے سب ہنستے ہیں ستیش کرشن کمار کا فارم بھی لے لیتا ہے اور دونوں سے کہتا ہے آئیے کمار اور کماری صاحبہ میں آپ کو راستہ بتا دوں سب چلتے ہیں۔
ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہوجائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالوں میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹرکار گزرجاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹرکار کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جاسکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے گزر جائے کہ گردوغبار میرے پھیپھڑوں، میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آکر علم کیمیا کی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آجائے۔
میں نے چڑ کر کہا، ’’مجھے کیا معلوم آپ خود ہی پوچھ لیجیئے۔‘‘ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ کہتی تھی میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی جیسے مطالعہ کے بہانے میلہ لگا ہو۔ مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ می...
نہایت آہستہ آہستہ بڑے سکون سے، بڑی مشاقی سے وہ بھٹّے کو ہر طرف سے دیکھ دیکھ کر اسے بھونتا تھا، جیسے وہ برسوں سے اس بھٹّے کو جانتا تھا، ایک دوست کی طرح وہ بھٹّے سے باتیں کرتا، اتنی نرمی اور مہربانی اور شفقت سے اس سے پیش آتا گویا وہ بھٹا اس کا اپنا رشتے دار یا سگا بھائی تھا۔ اور لوگ بھی بھٹا بھونتے تھے مگر وہ بات کہاں۔ اس قدر کچے بد ذائقہ اور معمولی ...
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11 مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہم زاد ہوں، میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔ لیجیے، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
بولے، ’’ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔میں ڈسٹرب ہوتا ہوں۔ ’’بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی، فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ ’’اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں‘‘ صاحب، خدا کے حضور میں گڑگڑا کر دعا مانگی کہ، ’’خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔‘‘
ان مفروضوں کے بعد دو مسائل اور ہیں جو شروع میں اٹھائے ہوئے سوالوں سے متعلق ہیں۔ اول تو یہ کہ ہم صرف انھیں خواص یا نشانیوں کو شعر کی نشانیاں ٹھہرا سکتے ہیں جو نثر اور شعر میں مشترک نہیں ہیں۔ انتہائی اسفل سطح پر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعر میں الفاظ خوب صورت طریقے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس پہچان میں پہلی قباحت تو یہ ہے کہ خوب صورت کی تعریف کیا ...
میاں صاحب: ہاں! مجھے آپ کی سوشل ایکٹی وٹیزکا علم ہوتا رہتاہے۔ فرصت ملے تو کبھی اپنی وہ تقریریں بھجوا دیجئے گا جو پچھلے دنوں آپ نے مختلف موقعوں پر کی ہیں۔۔۔ میں فرصت کے اوقات میں ان کا مطالعہ کرنا چاہتاہوں۔بیگم صاحبہ: بہت بہتر۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books